خواجہ عبدالمنتقم
10 جنوری،2024
ہر جج سے ہمیشہ یہ توقع
کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا فیصلہ دے یا حکم صادر کرے گاجو معقول، منطقی،مدلل، قابل
تسلیم اور مبنی برانصاف ہو اور وہ اس کی قوت استدلال کا مظہر ہو۔ عدالت کو چاہئے
کہ وہ ذاتی فکر کو اپنے فرائض منصبی پر کبھی نہ غالب آنے دے۔ ہمارے آئین کے تحت ہر
ہائی کورٹ ایک نظیری عدالت ہے اور نظیری عدالت کے ہر فیصلہ کو تب تک نظیر مطلق (absolute
precedent)
کے طور پر ماننا پڑتا ہے،خواہ وہ کسی نظر میں غلط یا بلاجواز ہی کیوں نہ ہو، جب تک
کہ اس فیصلہ کو حتمی اپیلی عدالت منسوخ نہ کردے۔عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے
فرائض منصبی نہایت ایمانداری کے ساتھ ا نجام دے۔ قوانین کی غیر جانبدارانہ تعبیر
کرے او راس کے فیصلے میں اس کے ذاتی رحجانات کی کوئی جھلک نظر نہ آئے،چونکہ ذاتی
رجحانات فیصلوں کی بنیاد بننے لگے تو انصاف،انصاف نہیں رہے گا اور عدلیہ،عدلیہ
نہیں۔ عدلیہ کی آزادی کامطلب بھی یہی ہے کہ وہ بغیر کسی دباؤیا دخل اندازی کے
قانون کی صحیح تعبیر کرے اور غیر جانبدارانہ فیصلہ دے،مگر اس کے ساتھ ساتھ کسی جج
پرنااہلی کاالزام لگانے سے پہلے اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ کیا جج نے
مقررہ طریق عمل سے روگردانی دیدہ ودانستہ او رجان بوجھ کر کی ہے جس سے اس کی اس
غلط کارانہ کوتاہی سے انصاف رسانی کے عمل پر منفی اثر پڑا ہے یا یہ کہ ایسا سہواً
ہوا ہے۔
حال ہی میں ایک اجلاس
واحدہ میں بامبے ہائی کورٹ کے ایک جج نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ مسلم خاتون کو اپنی
دوسری شادی کے بعد اپنے پہلے شوہر سے نان ونفقہ طلب کرنے کا حق حاصل ہے۔عائلی
قوانین کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ موصوف کا یہ فیصلہ مسلم خواتین (طلاق ہونے پر
حقوق کا تحفظ) ایکٹ،1986 ء کی غلط تعبیر کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی عدالت کے فیصلہ پر
ماہرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کا قانونی نقطہ نظر سے جائزہ لیں لیکن اس کے
ساتھ ساتھ ہم پر عدلیہ کا احترام بھی لازم ہے۔
اس فیصلہ کے جواز کے بارے
میں عائلی قوانین کے ماہر پروفیسر طاہر محمود کایہ سوالیہ جملہ’بالفرض اگر خاتون
تیسرا نکاح کرتی ہے توکیا دونوں سابقہ شوہر نان نفقہ دیں گے‘ کافی ہے۔ اگر مسلم
خواتین (طلاق ہونے پر حقوق کا تحفظ)ایکٹ،1986 میں ایسی کوئی توضیع نہیں ہے تواس کا
مطلب یہ نہیں کہ جج صاحب اپنے اختیار بالذات (Inherent
Power)
کامن مانے ڈھنگ سے استعمال کریں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اگر کسی امر کی بابت قانون
خاموش ہے اور جج صاحب یہ خیال کریں کہ عدالتی ضابطہ ان کی رہنمائی نہیں کرتاتو وہ
اپنے اختیار سے کام لے کر انصاف رسائی کے اہم مقاصد کو پورا کرسکتے ہیں۔مسلم
خواتین (طلاق ہونے پر حقوق کا تحفظ) ایکٹ،1986کی دفعہ 5/ میں مسلم خاتون کو یہ حق
انتخاب بھی دیا گیا ہے کہ وہ مجموعہ ضابطہ فوجداری،1973 کی دفعہ 125/ کے تحت بھی
کفالت کا دعویٰ کرسکتی ہے لیکن دفعہ 125/ کے تحت نان نفقہ کا دعویٰ کرنے کے لئے
مطلقہ خاتون اور اس کے پہلے شوہر کو پہلی تاریخ سماعت پر متعلقہ مجسٹریٹ کے روبرو
اس امر کا الگ الگ یا مشترکہ حلف نامہ دینا ہوگا یا ایسی کوئی تحریر دینی ہوگی کہ
وہ اس معاملے کا فیصلہ مجموعہ ضابطہ فوجداری، 1973 کی دفعہ 125تا128،جو بالترتیب
نان نفقہ کے حکم، کاروائی کے مقام، الاؤنس میں کمی بیشی اور نان نفقہ کے حکم پر
عمل درآمد گی سے متعلق ہیں، کے تحت چاہتے ہیں۔ البتہ اس قانون میں ایسی کوئی دفعہ
شامل نہیں ہے کہ جس کی رو سے دوسرے تیسرے یا ما بعد کسی شوہر سے نام نفقہ طلب کیا
جاسکے۔
اب رہی بات کسی قانون کی
تعبیر کی تو اس کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ ہرجج کا اپنااپنا نقطہ
نظر ہے،جو صحیح بھی ہوسکتاہے اور غلط بھی اور کبھی کبھی سہواً بھی ایسی غلطی
ہوسکتی ہے۔ اس پر نظر رکھنے کی ذمہ داری ہماری اپیلی عدالتوں کو سونپی گئی ہے۔ اس
میں عدلیہ میں مرکزی سطح پر سپریم کورٹ او ریاستی سطح پر ہائی کورٹ شامل ہیں۔آئین
کی دفعہ 129/ کے تحت سپریم کورٹ ایک نظیری عدالت ہے۔ اور اس کے ذریعے دئیے گئے
فیصلے ملک کی تمام عدالتوں کے لئے قابل پابندی ہیں۔ بلقیس بانو والے معاملے میں
8جنوری،2024 ء کو سپریم کورٹ کے ذریعہ دیا گیا تاریخی فیصلہ اس بات کا معتبر ترین
ثبوت ہے کہ عدالت عظمیٰ نہ صرف کسی عدالت کے غلط فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے
بلکہ انصاف کے مفاد میں اپنے سابقہ فیصلے کو بھی الٹ سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی ہائی کورٹ
بھی کورٹ آف ریکارڈ کے زمرے میں آتی ہیں او ران کے فیصلے متعلقہ ریاستوں میں ذیلی
عدالتوں کے لیے قابل پابندی ہوتے ہیں اور دیگر ریاستوں کی ہائی کورٹ میں بھی ان کا
حوالہ ترغیبی نظیر کے طو رپر دیا جاسکتا ہے او راگر اس ریاست کی ہائی کورٹ کاکوئی
فیصلہ اس کے برعکس نہیں ہے تو اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ بھی دیاجاسکتاہے او رایسا
ہوتا رہا ہے،جس کے ہم خود گواہ ہیں۔ حال ہی میں بامبے ہائی کورٹ نے نان ونفقہ سے
متعلق جو فیصلہ دیا ہے اس نے زیادہ ہی طول پکڑ لیا او ر کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا
جیسے کہ اس کا اطلاق پورے ہندوستان پر ہوگا جب کہ اس کا اطلاق،جب تک اسے اپیلی
عدالت منسوخ نہیں کردیتی، صرف بامبے ہائی کورٹ کی علاقائی حدود میں قائم ان ذیلی
عدالتوں پر ہوگا جو اس کے اختیار سماعت کی حدود میں آتی ہیں۔
جہاں تک قوانین کی تعبیر
کی بات ہے لفظی معانی کے اصول کے مطابق کسی بھی قانون کی تعبیر جہاں تک ممکن
ہوسیدھے سادے طریقے سے یعنی الفاظ کے جو عام معافی نکلتے ہیں اس کے مطابق کی جانی
چاہئے۔ اگر قانون میں کوئی بات بالکل واضح طور پر کہی گئی ہے اور اس میں کسی طرح
کا ابہام نہیں ہے تو اس کی تعبیر بھی اسی طرح کی جانی چاہئے۔سپریم کورٹ او ر مختلف
ہائی کورٹ بہت سے معاملوں میں اپنی اس رائے کا اظہار کرچکی ہیں کہ کسی قانون کی
تعبیر کرتے وقت یہ دیکھنا ہوتاہے کہ پارلیمنٹ نے قانون میں جن الفاظ کا استعمال
کیا تھا ان سے کیا مقصود تھا۔ البتہ اگر کوئی ابہام ہے تو الفاظ کی تعبیر کے لیے
سیاق عبادت کو دیکھنا چاہئے اور تعبیر متعلقہ قانون کے اغراض ومقاصد کے مطابق کی
جانی چاہئے۔ اس کے لئے اس قانون کی تمہید اور قانون سے متعلق بل کے ساتھ منسلک غرض
وغایت کے بیان (Statement Of Objects and Reasons) کی جانب رجوع کیا
جاسکتا ہے تاکہ یہ پتہ لگایاجاسکے کہ مقننہ کی ایسا قانون لانے کی منشا کیا
تھی۔مندرجہ بالا تعبیری لغزش اتنی اہمیت کی حامل نہیں تھی کہ اسے موضوع بحث بنایا
جاتا کیونکہ اپیلی عدالت میں اس فیصلے کے منسوخ کیے جانے کا مکمل امکان ہے لیکن
مسلم سماج میں اضطرابی کیفیت پیدا ہونے کے سبب ایسا کرنا پڑا۔
10 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism