New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 09:58 PM

Urdu Section ( 14 Jul 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Critiquing Islam: Mahmoud Taha And The Second Message Of Islam; Makkan Verses Of Peace Versus Madinan Verses Of War اسلام پر ایک تنقیدی جائزہ: محمود طہ اور اسلام کا حتمی پیغام؛ پر امن مکی آیتیں بمقابلہ جنگ والی مدنی آیتیں

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

28 جون 2021

پر امن ترغیب وتحریک اور انسانی مساوات کی تعلیم دینے والی مکی آیتیں اسلام کے اصل مقصد اور پیغام کی ترجمانی کرتی ہیں

اہم نکات:

· روایتی مفسرین قرآن مجید کی مکی آیتوں کو جنگ کے وقت میں نازل ہونے والی مدنی آیتوں کے حق میں منسوخ مانتے ہیں

· اس غلط اصول پر مبنی شریعت کا تصور ہمیشہ خواتین اور غیر مسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظہر ہو گا۔ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے

· مسلمانوں کو لازم ہے کہ باطل تصور کو رد کریں اور مکی آیتوں کو اسلام کے رہنما اصول مانیں۔

--------

Hamed Abdel Samad a German-Egyptian political scientist and author.

------

اکثر مذہبی کتابوں کی طرح قرآن میں بھی ایسی آیتیں موجود ہیں جو امن، رواداری اور تکثیریت کو فروغ دیتی ہیں لیکن اس کے دیگر مقامات پر اہل ایمان سے کافروں کو قتل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ مسلمان صدیوں سے اس تضاد کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ابتدائی ادوار کے مفسرین نے یہ نظریہ پیش کرتے ہوئے اس تضاد کو دفع کیا کہ بعد میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی آیتوں نے ان ابتدائی آیتوں کو منسوخ کردیا ہے۔ چونکہ یہ آیتیں جو عام طور پر امن اور عدم تشدد کی بات کرتی ہیں ان کا نزول پہلے مکہ میں ہوا تھا اس لئے بعد میں مدینہ میں نازل ہونے والی جنگ کی تعلیمات پر مشتمل آیتوں نے انہیں منسوخ کر دیا ہے۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے نسخ کے اس نظریہ نے ایک ایسا اسلام پیش کر دیا جو بالادستی کا نقیب بن گیا۔ اس نے مسلمانوں کو صرف اپنے ہی مذہب کے لوگوں کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی۔ یہ نظریہ خاص طور پر اس وقت پریشانی کا باعث بنتا ہے جب ایک کثیر مذہبی معاشرے میں قرآن پڑھا جارہا ہو۔ قرآن کا روایتی مطالعہ کسی بھی کثیر ثقافتی معاشرے میں مختلف برادریوں کے باہمی تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔

سوڈان کے اسی کثیر المذاہب تناظر میں محمود محمد طحہٰ (1985-1909) نے قرآن کی بنیادی طور پر ایک نئی تاویل و تشریح پیش کرنے کی کوشش کی۔ نزول وحی کی تاریخی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے انہوں نے یہ موقف اختیار کیا پر امن ترغیب وتحریک اور انسانی مساوات کی تعلیم دینے والی مکی آیتیں اسلام کے اصل مقصد اور پیغام کی ترجمانی کرتی ہیں۔ بعد کی مدنی آیتیں ایک خاص صورتحال میں نازل ہوئی ہیں لہٰذا ان کا پیغام وقتی اور عارضی تھا۔ مدینہ میں مسلمان خود کو ایک مذہبی برادری کے طور پر قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ محمود طہ کا یہ ماننا ہے کہ اب وہ حالات باقی نہ رہے لہٰذا مسلمانوں کو مکی آیتوں کی طرف لوٹ جانا چاہئے اور انہیں ہی اسلام کا آخری اور حتمی پیغام سمجھنا چاہئے۔ لہذا اسلام کے (مکہ میں نازل ہونے والے) ابتدائی پیغامات ہی اسلام کا قطعی اور حتمی پیغام ہیں۔

جیسا کہ ہم آگے مطالعہ کریں گے کہ مکی آیتوں کو ہی اسلام کا حتمی اور آخری پیغام ماننے کی تاکید نہ صرف یہ کہ تاریخی حقائق کو صحیح تصویر عطا کرتی ہے بلکہ اس سے شریعت کی تفہیم اور اس پر عمل درآمد اور اسلامی ریاست کی تشکیل کے تصور پر گہرے مضمرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ شریعت اسلامیہ اسلام کے دوسرے مرحلے میں نازل ہونی والی آیتوں پر مبنی ہے جن کا نزول مدینہ میں ہوا تھا۔ طہ کا کہنا ہے کہ اس مرحلے میں خدا نبی کے ذریعہ اس معاشرے کی اصل ضرورتوں کا جواب فراہم کر رہا تھا جو اپنے تاریخی نشوونما کے ایک خاص مرحلے سے گزر رہا تھا۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے ماقبل کی وحی کے کچھ پہلوؤں کو قانونی نقطہ نظر سے منسوخ کردیا گیا تھا حالانکہ اس کی اخلاقی صداقت برقرار رہی۔ طہ کا استدلال ہے (اور یہیں سے وہ روایتی مفسرین سے بنیادی طور پر اختلاف رکھتے ہیں) کہ نسخ حتمی نہیں بلکہ در حقیقت ایک عارضی التوا تھا۔ اس نقطہ نظر کو اختیار کرتے ہوئے طہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا پیغام جنس یا مذہب سے قطع نظر انسانوں کی مکمل آزادی اور برابری کا پیغام تھا اور ہمیشہ رہے گا۔

لہٰذا، تاریخی شریعت مکمل اسلام نہیں بلکہ محض اسلامی قانون کا ایک باب ہے جو انسانی ترقی کے ایک خاص مرحلے کے مطابق تھا۔ چونکہ (ریاست مدینہ) کے وہ حالات اب باقی نہیں رہے لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ شرعی قوانین جیسا کہ مسلمانوں کا بھی ماننا ہے قطعی طور پر بے محل و موضوع ہو چکے ہیں۔ انسانی معاشرہ اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ اب مکہ میں نازل ہونے والے اسلام کے اصل پیغام کو ہی معیار بنا لیا جائے جس کے ذریعے مسلمان خود کو باقی دنیا سے جوڑیں۔ طہ کے مطابق یہ عالمگیر اخوت کا پیغام ہے جہاں خواتین اور غیر مسلموں کو بطور شہری مکمل حقوق حاصل ہوں گے۔

مزید یہ کہ ‘مکی اور مدنی آیتوں میں فرق، نزول کے وقت اور مقام کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر ان آیتوں کے مخاطبین کے لحاظ سے ہے‘۔ مدنی آیتوں میں لفظ ’’اے مومنین‘‘ کے ذریعہ ایک خاص برادری سے خطاب ہے جبکہ مکی آیتوں میں ’’اے بنی آدم‘‘ سے تمام لوگ مراد ہیں۔ آیت ''بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان'' (9:128)۔ اس آیت کے برعکس ہے 'بیشک اللہ آدمیوں پر بہت مہربان، رحم والا ہے (2:143) ‘۔اس کی وجہ محمود طہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ان پیغامات کے مخاطبین مختلف تھے۔ پہلی آیت میں خدا کا خطاب تاریخ کے ایک خاص دور میں ایک خاص جماعت سے ہے جبکہ بعد والی آیت میں وہ پوری انسانیت سے خطاب کر رہا ہے۔ اسی طرح طہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ قرآن میں منافقین کا ذکر پہلی بار مدینہ میں وحی کے دس سالوں میں ہوا لیکن مکہ میں وحی کے تیرہ سالوں کے دوران کبھی بھی ان کا ذکر نہیں ہوا کیونکہ وہاں منافق نہیں تھے۔

لہذا، قرآن میں کچھ آیتیں ماورائے زمان و مکان ہیں جبکہ کچھ آیتیں ایک مخصوص سیاق و سباق کے لئے ہیں اور اب مسلمانوں کو اسلام کے اولین پیغام کو ہی قرآن کا آخری اور حتمی پیغام قرار دینے کی ضرورت ہے۔ خلاصہ یہ کہ محمود طہ ‘المسلمین اور المومنین’ کے مابین بھی فرق کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید ہم سے المومنین بننے کا مطالبہ کرتا ہے۔ طہ کا بنیادی طور پر یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو کسی سیاسی شناخت نہیں بلکہ صرف ایک ایسی عالمی شناخت کے ساتھ رہنا چاہئے جس کی تکمیل خدا کی مکمل طور پر تابعداری سے ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت کی پیروی کرنے کے بجائے جو کوئی بھی خدا کی اطاعت تسلیم کر لیتا ہے وہ مسلمان کہلانے کا اہل ہے، اور اس طرح وہ مختلف مذہبی شناختوں کے مابین فرق کو مٹا دیتا ہے۔ تنگ نظر ہونے کے بجائے وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کہ اسلام کے اس آفاقی پیغام کی بازیافت کی جائے جو مکی دور میں مشاہدہ کیا گیا تھا۔

آج مسلمان اور خاص طور پر وہ لوگ جو وقت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ایک زبردست الجھن کا شکار ہیں۔ ان کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو وہ فطری طور پر امتیازی سلوک والی شریعت کو نافذ کریں یا اسے مکمل طور پر رد کر دیں اور سیکولر ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کریں۔ دونوں ہی راستے ایسے مسلمانوں کے لئے بہت نازک ہیں جو اپنے مذہب کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی مروجہ تشریح سے خوش بھی نہیں ہیں۔ محمود طہ اس کا حل یہ پیش کرتے ہیں کہ ’’اسلامی قانون اس انداز میں تیار کیا جائے کہ خواتین اور غیر مسلموں کے ساتھ بھید بھاؤ والے اس کے پہلو خود بخود ختم ہوجائیں‘‘۔

بدقسمتی سے مسلمان اس پیغام کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھے اور طہ کو ارتداد کے لئے سزائے موت دے دی گئی۔ جج نے اپنے حکم میں الازہر اور سعودی عرب کی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم ورلڈ لیگ کے فیصلوں کے حوالے کو منظوری دی۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین سوڈان میں موجودہ بحران 1983 میں شریعت کے نفاذ سے شروع ہوا تھا، جس کے بارے میں طہ گفتگو کر رہے تھے۔ مسلم دنیا ایک اور ایسے مفکر کے افکار و خیالات سے محروم ہو گئی جس کے خیالات میں دنیا بدلنے کی صلاحیت موجود تھی۔

-----------

English Article: Critiquing Islam: Mahmoud Taha And The Second Message Of Islam; Makkan Verses Of Peace Versus Madinan Verses Of War

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/mahmoud-taha-makkan-peace-madinan-war-verses-/d/125082

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..