ایم جے اکبر
25 اپریل، 2016
خبروں کی گہما گہمی میں اصل کہانیاں اکثر معدوم ہوجاتی ہیں اور رات کو نکلنے والے مارچ کے دوران بیداری کی پریڈ میں بلند کیے گئے پرچم کی مانند صبح کو ناشتہ کے بعد سنی جانے والی خبریں بھی بذات خود قابل توجہ نہیں رہ جاتی ہیں ۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ ان کی اہمیت کی جانب توجہ دے سکے۔
16 اپریل کو کچھ زیادہ ہی اہم واقعہ رو نما ہوا تھا ۔ اگر اسے مکمل طور پر اہم قرار نہیں دیا جاسکتا تو پھر بھی یہ مختلف ضرور تھا ۔ یہ موقع پاپا ئے روم کیتھولک پوپ فرانسس او رمسلم ممالک جیسے شام کو کسی وقت فراموش کردیا گیا تھا اور اب یونان کے معروف کے Lesbos جزیرہ تباہ حال اور افسر دہ پناہ گزینوں سے ملاقات کرنے کا تھا ۔
آزادی کی دو صدیوں کے بعد حاشیہ پر جانے والا یونان اب دوبارہ یوروپ کے لیے دروازہ بن گیا ہے جب کہ یوروپین یونان کو دروازہ بنانے کے مقابلے میں عثمانی ترک افواج بنانا چاہتے تھے ۔ کسی زمانے میں عثمانی ترک افواج یونان کو اپنی چھاؤنی بنانا چاہتی تھیں ۔ تاکہ بلقان میں وہ اپنی تحریک کو آگے بڑھا سکیں اور وہاں سے طاقتور یوروپی مملکتوں پر اپنا تسلط قائم کرسکیں ۔
آج جنگ سے تباہ حال مسلم ممالک کے پناہ گزیں Lesbos کی جانب رخ کررہے ہیں جو کہ ترکی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ بندرگاہ کے راستہ پر جس جگہ وہ اتر رہے ہیں وہاں سے جرمنی، اسکینڈ ینیویا اور برطانیہ کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔
16 ویں اور 17 ویں صدی کے دوران وسطی کرۂ ارض کے افریقہ اور یوریشیا میں عثمانی اقتدار کے تعلق سے یوروپی حکومتیں واجب طور پر بہت زیادہ فکر مند تھیں ۔ اپنے وقت کے مغربی ثمثیل نگاروں او رماس میڈیا کے ماہرین نے ترکوں کو ایک اسی ہیبت ناک قوت میں تبدیل کردیا تھا جو یوروپ کی تہذیب و تمدن : دولت و ثروت اور خوبصورتی کو ختم کرنے کے انتظار میں تھی ۔ شیکسپئیر جیسا ڈرامہ نگار اور شاعر اس روش سے مستثنیٰ واحد ایک ایسا دانشور تھا جس نے معمولی فرق کے ساتھ اپنے ڈرامہ Othello کے ہیرو کی طرح Moor کو بتایا تھا جس نے حالانکہ اپنی بہادری سے Desdemona کا دل جیت لیا تھا لیکن اپنے جارحانہ حسد کی وجہ سے اس نے اپنی محبت اور زندگی کو کھو دیا تھا لیکن اس مرتبہ ترکی تلوار کا کوئی خوف نہیں تھا جو کہ یوروپ کے خلاف استعمال کیا جاسکے بلکہ یہ تو وہ حملہ تھاجو کہ پناہ گزینوں کے طور پر وہاں وارد ہورہا ہے ۔ اب نقل مکانی کرنے والے وہاں پہنچ گئے ہیں لیکن وہ اس مرتبہ گھوڑوں پر سوار ہوکر نہیں بلکہ بڑی بڑی کشتیوں میں سوار ہو کر وہاں آرہے ہیں ۔ پھر بھی اس جمہوری دور میں عام لوگ بھی اتنے ہی پر خطر ہوتے ہیں جتنے کے فوجی ہوتے ہیں کیونکہ ایک عام آدمی بھی شہری بن سکتا ہے ۔
ابتدائی طور پر یوروپ کی حکومتیں بیرونی پناہ گزینوں کے کثیر تعداد میں ان کے یہاں آنے اور وسیع پیمانے پر پھیل جانے کی وجہ سے پریشان ہوگئی تھیں ، ایک جانب جہاں وہ انسانی ہمدردی کے جذبہ سےمغلوب تھیں تو دوسری جانب وہ روز افزوں عوامی غصہ کا سامنا کررہی تھیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب نظارہ دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی تھیں ۔ ترکی کے ساتھ کچھ غیر شائستہ ڈپلومیسی ، موثر سرحدی پالیسی اور قوت برداشت نہ ہونے کے باوجود Man’s Land No میں پناہ گزینوں کی زبردست آبادی قیام پذیر ہوگئی ہے جس کی وجہ سے یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ اپنے اس آبائی وطن میں واپس نہیں جائیں گےجہاں سے وہ آئے تھے ۔
ایسی نازک صورتحال میں پوپ فرانسس جو کہ بذات خود تارکین وطن کے ایک بیٹے ہیں نے Lebos میں واقع پناہ گزیں کیمپ کا دورہ کیا تھا ۔انہوں نے اس صورتحال کو دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک سب سے بڑا انسانی المیہ قرار دیا ہے ۔ پوپ نہایت احتیاط کے ساتھ الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں اور عمیق غور و خوض کے بعد اقدامات کرتےہیں ۔ لندن کے معروف اخبار Sunday Times کی جرنلسٹ Christina Lamb کی رپورٹ کے مطابق پوپ نے نہ صرف ان کو تعاون دینے ، راحت پہنچانے او ران کے لیے دعاکرنے کی بات کہی تھی بلکہ وہ ایک درجن مسلم پناہ گزینوں (جن کا تعلق دمشق اور آئی ایس آئی ایس کے قبضہ والے Ezzor Deir قصبہ ہے او رلاٹری کے توسط سے جن کا انتخاب کیا تھا) کو اپنے ساتھ وٹیکن (Vatican) لے گئے تھے ۔ علامت کے طور پر سمجھ کر آپ اس اقدام کو مسترد کرسکتے ہیں لیکن یہ محبت اور اخوت کا زبردست اشارہ تھا جس کی عام لوگوں کے دلوں میں یقینی طور پر بازگشت سنائی دے گی ۔ Lamb کی اسٹوری کے ساتھ ایک خوبصورت فوٹو گراف بھی شائع کیا گیا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک نوجوان لڑکا جب مسکراتے ہوئے مذہبی پیشوا کے ہاتھ پر بوسہ دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو اس کی ماں اپنے آنسوؤں کو مشکل سے ہی روک پاتی ہے ۔ یقیناً یہ المناک کہانیاں ہیں جن کو سنائے جانے کی ضرورت ہے لیکن امید بھی ایک طرح سے بذات خود ایک بیانیہ ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ پوپ نے مسلمانوں تک رسائی حاصل کی تھی ۔ وہ ایسا پہلے بھی کرچکے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے ۔ ان کا عقیدہ شمولیت یا بقائے باہم میں مضمر ہے۔ پریشانی میں مبتلا انسانوں کے لیے ان کی ہمدردی عقائد کی سرحدوں کی عبور کرلیتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اہل یوروپ کو بھی ایک پیغام دیا تھا کہ نہ تو وہ اس صورتحال سے بے پرواہ رہ سکتے ہیں او رنہ ہی وہ اس دوسالہ بیٹے کے ساتھ نور عیسیٰ اور اس کے شوہر حسن کو جو کہ دونوں ہی انجینئر ہیں کہ مانند کنبوں کے تئیں عداوت کا جذبہ رکھ سکتے ہیں جو کہ اب دمشق کے بجائے ویٹکین میں اپنی زندگی بسر کریں گے ۔ پانچ یا تین برسوں قبل انہوں نے کبھی ایسا تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ انہیں اس طرح کے مشکل حالات کاسامنا کرنا پڑے گا ۔ وہ کبھی بھی اپنے ملک شام کو چھوڑ نا نہیں چاہتے تھے پشیمانی سے عاری جنگ کے دوران تخریب کاروں نے انہیں اجاڑ دیا تھا او رانہیں ملک سے باہر بھگا دیا تھا لیکن ایک طرح سے وہ خوش قسمت بھی ہیں کیونکہ اس سے مختلف پرسکون زندگی گزارنے کے لیے پناہ گاہ تلاش کرنے میں ہزاروں لوگوں نے اپنی زندگیاں گنوادی ہیں ۔ یہ خیال کرنا کہ یوروپ نے اس بات کو نہیں سمجھا ہے ایک غیر مناسب او رغلط تصور ہے ۔ بہت سی حکومتوں نے اس تعلق سےبہتر کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس ضمن میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکیل کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ چاہے آئندہ انتخابات کے دوران انہیں اس کی قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے ۔ چنانچہ دنیا ان لوگوں کو فراموش نہیں کرسکتی ہے جو کہ اس وست پریشانیوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
دنیا کے معروف ترین مذہبی پیشوا کے طور پر پوپ نے ہمیں کچھ ایسا درس دیا ہے جس کو درحقیقت ہم سننا نہیں چاہتے ہیں اور وہ درس یہ ہے کہ لوگ انسانیت کے معنی نہیں سمجھتے ہیں تو وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں ۔
ہمارے عصری لیڈروں کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنا ایک فیشن ہوگیا ہے اور اکثر کچھ ثبوت بھی فراہم کیے جاتے ہیں ۔ شکوک و شبہات کے خلاف مذہب کوئی ضمانت بھی نہیں ہے، چنانچہ جب کبھی بھی ہم روحانی شخصیت کو دیکھتے ہیں تو خدائی میں یقین کرنے لگتے ہیں لہٰذا ہمیں ان (پوپ) کے حوصلہ کی ستائش اور نظریے کی تعریف کرنی چاہئے ۔
25 اپریل، 2016 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL: