مولانا عبد الحمید نعمانی
20 دسمبر، 2012
کچھ دنوں پہلے آئر لینڈ میں
مقیم دانتوں کی ڈاکٹر سویتا ہیلپن دار کی افسوس
ناک موت سے عالمی سطح پر بڑی اذیت محسوس کی گئی تھی ۔ اس احساس کو سماجی طور سے انسانیت
کے تئیں بیداری کی شکل میں دیکھا جانا چاہئے ۔ ابھی حال میں ( 18 دسمبر 2012) آئر
لینڈ حکومت نے ا س اسقاط حمل کے سلسلے میں قانون میں تبدیلی کی بات کہی ہے ۔ ڈاکٹر
سویتا کے تعلق سے جس حساسیت کا مظاہرہ کیا گیا یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس سلسلے میں
مسلسل مذہب کو بلا استثناء ایک خاص انداز میں نشانہ بنانے کامعاملہ نا قابل فہم ہے
۔ ڈاکٹر سویتا کا معاملہ انسانی جان کو بچانے اور اس کی اہمیت کے تعلق سے رکھتا ہے
، مذہب سےاس کا براہِ راست تعلق نہیں ہے، لیکن جن حالات میں سویتا کی تکلیف دہ موت
ہوئی، ان میں مذہب کا حوالہ لازماً آئے گا۔ انسانی جان سب سے زیادہ قیمتی ہے اور مذہب کے نام پر انسان ا س حد تک بے قیمت
یا کم قیمت ہوجائے تو یقینی طور سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو وہ سماج سے اپناکردار
ختم کرچکا ہے یا ا س کا غلط استعمال ہورہا ہے ۔ ڈاکٹر سویتا کی موت نے لوگوں کو اس
طرح متوجہ کیا ہے کہ بہتر سماج کی تشکیل میں عوامی سطح پرمثبت سوال پیدا ہونا اہم رول
ادا کرتا ہے اور اسے نظر انداز کرنا صحت مندر جحان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ، البتہ
حقیقت پسندی اور صحیح اور غلط کا امتیاز استثناء کیے بغیر عمومی اسلوب میں تمام مذاہب
کے، انسانی زندگی میں کردار کی نفی راست رویہ اور منصفانہ بات نہیں ہوگی ۔ یقیناً ڈاکٹر
سویتا کی موت بھی ایک خاص مذہبی حالات میں وضع کردہ قانون کہیں نہ کہیں یہ ظاہر بنیادی
سبب کی شکل میں سامنے آجاتا ہے، لیکن اسلامی شریعت ، مذہب او رعلماء کا حوالہ خواتین
کی عزت اور جان کے تحفظ کے ذیل میں قطعی طور سے غلط ہے، سو یتا کی موت کے تناظر میں
اسلام کا ذکر اس کی صحیح پوزیشن بتائے بغیر غلط ذہنیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ نہ صرف خبروں
میں ، بلکہ اداریے میں سویتا کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تحریر کرنا کہ ان کا معاملہ مذہب کی بلاوجہ دخل اندازی کی مثال
ہے۔
غور طلب ہے کہ خواتین کے نجی
اور ذاتی حقوق و اختیارات میں بے جامداخلت کو لے کر اب تک زیادہ تر اسلام مذہب ہی تنقید و مذمت کے نشانے پر رہا ہے ، لیکن
سو یتا کی موت نے اس حقیقت کواجاگر کیا ہے کہ انسانیت کے تئیں رحم دلی او رجذبہ ترحم
کا دعویٰ کرنے والی عیسائت آج بھی عہد وسطیٰ کی تاریکی سے پوری طرح نہیں نکل پائی
ہے ۔ یہ اداریہ ‘‘ مذہبیت نے لی جان ’’ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اگر دارایہ نگار
نے بالکل غیر متعلق طور سے سویتا کی موت کے
پس منظر میں اسلام کا نام لیا تھا تو اسے یہ
بھی بتا نا تھا کہ مخصوص اضطراری حالت میں اسلامی شریعت انسانی جان کے سلسلے میں کیا
ہدایت دیتی ہے اور زندگی بچانے کےلئے کیا کچھ اقدامات کرتی ہے ۔ نیز یہ کہ فقہ اسلامی
میں کس قدر آسانیاں اور موت کے بجائے زندگی کا
وافر سامان ہے ۔ اگر اداریہ نگار کو فقہ اسلامی کے سلسلے میں بذات خود واقفیت
نہیں ہے تو وہ اس کے جان کاروں سے پوچھ سکتا تھا، جب اس نے اپنے سماج کا روشن پہلو
دکھانے کے لیے سوامی وویکا نند کے اس قول کو
اداریہ کی پیشانی پر نقل کیا کہ آدمی اور اس کی زندگی ہی طاقت کا سرچشمہ ہے، اس کے
سوا او رکچھ بھی نہیں ہے، حالانکہ ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ فقہ اسلامی کی طرح
دیگر نظریات میں باقاعدہ اصول و ضو ابط کے تحت واضح الفاظ میں حاملہ خواتین کو بچانے
کے لیے رونما ئی نہیں ملتی ہے، مزید یہ کہ امت کے فقہا و مجتہدین او راہل علم و افتا
ہمیشہ سے اضطراری حالات میں زچہ کو بچانے کے مسئلے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے تر جیحی
طور سے اس کی زندگی کے تحفظ کے لیے واضح طور سے فتویٰ دیتے آرہے ہیں ۔
اس سلسلے میں مسلم سماج کے تمام
مسالک او رمکاتب فکر کے فقہی ذخیرہ میں اس کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی مباحث پائے جاتےہیں
۔ اس کے مد نظر ہمارے لیے اس کا اظہار ضروری ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر سویتا جیسی خواتین کی موت کے تناظر میں مذہب کےحوالے اور عیسائیت
کے ساتھ اسلام کی اصل پوزیشن بتائے بغیر اس کے ذکر پر اپنا اختلاف درج کرائیں ۔بغیر
کسی استثناء کے تمام مذہب کے متعلق یہ تاثر دینا بھی صحیح نہیں ہے کہ جب تک ا س کا
غلبہ ا س طرح سماج پر رہے گا ‘سویتا ئیں ’ مرتی رہیں گی ۔ سویتا کی موت پر اسقاط کے
سلسلے میں مختلف مذاہب کے نقطۂ نظر پر بحث و گفتگو کے لیے ایک ٹی وی چینل نے راقم
سطور کو بھی مدعو کیا تھا ۔ ا س سے وابستہ افراد کے سامنے ابھی تک یہ واضح نہیں تھا
کہ فقہ اسلامی میں اس مسئلے کو بہت پہلے ہی حل کردیا گیا ہے ۔ مقاصد شریعت پر ہمارے
صاحبان بصیرت علما و فقہا نے جن پانچ چیزوں کو مقاصد شریعت میں شامل کیا ہے ، ان میں
ایک اہم ترین جان کی حفاظت کا معاملہ ہے ۔ اس سلسلے میں علامہ ابو اسحاق شاطبی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنی کتاب الموافقات فی اصول الشریعۃ میں پوری تفصیل سے مسئلے کے تمام
پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے، ان کے بعد سے اب تک اس موضوع پر بہت کام ہوا ہے ۔ دین، جان
، عقل ، نسل او رمال سےمتعلق ایک ایک نکتے پر جس طرح بحث و گفتگو کی گئی ہے، اس سے
یہ پوری طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ خاص طور سے
مذکورہ مسائل و امور کولے کر مسلم سماج کے اہل علم و افتا کس قدر ہمیشہ سے بیدار رہے
ہیں ۔ اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جان کا تحفظ مقاصد شریعت کے بنیادی امور میں
شامل ہے ۔ عورت کی جان کو درپیش خطرے کے مد نظر مانع حمل ادویہ کا استعمال یا اسقاط
حمل کی اجازت ، تحفظ جان کے ذیل میں آتی ہے ۔ فقہ اسلامی میں یقیناً عام حالات میں
مانع حمل ادویہ کے استعمال یا اسقاط حمل ناجائز ہے، خاص طور سے جب جان پڑجائے ، اسقاط
حمل کو شرعاً جرم اور تاوان کاموجب ہوتا ہے ۔ لیکن خصوصی حالت میں جیسا کہ سویتا کامعاملہ
ہے، اسقاط حمل جائز ہے او ر عورت اور زچہ کو بچانے کو ترجیح دی جائے گی ۔ یہ تو عقل
کا تقاضا ہے کہ پھل اور فصل سے زیادہ اصل زمین اور درخت کو بچانے کی ضرورت ہوتی ہے
۔ فصل اور پھل تو بعد میں بھی حاصل ہوسکتا ہے، گرچہ ہر ممکن طور سے پھل (بچہ) کو بچانے
کی کوشش کی جائے گی تاہم درخت (ماں ، عورت) کو بچانا اولین ترجیح ہوگا۔
شکم میں بچے کی زندگی غیر یقینی
اور وہ بذات خود غیر مشاہد ہے، اس لیے اس کی خاطر ایک اور یقینی (ماں) کی زندگی کو
ختم کیا جائے گا ۔ مذہب ایسی حالت میں مشاہد او رماں کی یقینی زندگی کو ختم کرنے کی
اجازت نہیں دے سکتا ہے، خاص طور اسلام جیسا فطری او ر معقول مذہب انسانوں کو زندگی
اور اس کو بچانے کے لئے آیا ہے نہ کہ ختم کرنے کے لئے ۔ غیر یقینی اور یقینی زندگی
میں فرق کرنا بھی عقل کا تقاضا ہے ۔ دونوں زندگی میں فرق اور ترجیح کا لحاظ ضروری ہے۔
اگر کسی مذہب میں اس کا لحاظ نہیں ہے ، تو سمجھنا چاہئے کہ وہ از کار رفتہ ہوکر اپنا
سماجی اور انسانی رول کھو چکا ہے ۔ ڈاکٹر سویتا کی موت سے جس طرح ہندوستان اور 42 لاکھ
آبادی والے ایک آئر لینڈ میں ہلچل پیدا ہوئی ہے، اس سے آنے والے دنوں میں توقع کی
جارہی ہے کہ بہتر نتائج بر آمد ہو ں گے او رمذہب کے سلسلے میں اس کے بہتر اور مثبت
رول کی تلاش بھی ہوگی، اس کے بھی اچھے نیتجے نکلیں گے ، خاص طور سے مذاہب کے تناظر
میں ان کی طرف رجوع سے مذہب اور انسان کے مابین تعلقات کے سوالات کے ساتھ ان کے جوابات
پانے کی کوشش ہر طبقہ تعلقات کے سوالات کے ساتھ ان کے جوابات پانے کی کوشش ہر طبقہ
کی ایک بڑی ضرورت بنتی جارہی ہے ، جیسا کہ عالمی سطح پر مذہبی اقدار کی طرف رجوع سے
ظاہر ہورہا ہے، آئر لینڈ سرکار اسقاط حمل سے متعلق کس طرح کا قانون وضع کرے گی ، یہ
تو آنے والا وقت بتائے گا ، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر سویتا کی موت نے مذہب سے
متعلق صرف سوال نہیں کھڑے کیے ہیں، بلکہ اس کے متعلق جواب پانے کا راستہ بھی کھول دیا
ہے ۔
20 دسمبر ، 2012 بشکریہ : انقلاب
،نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/religion-death-sweta/d/9777