گریس مبشر، نیو ایج اسلام
16 فروری 2024
اگر چہ کچھ لوگ لاؤڈ اسپیکر
کے استعمال کے حق میں دوسرے مذاہب کے معمولات کا حوالہ پیش کر سکتے ہیں ، لیکن ہمیں
یہ ماننا ضروری ہے کہ مذہب پر عمل کرنے کا بنیادی مقصد لوگوں کو اطمینان و سکون فراہم
کرنا ہونا چاہیے۔ لہذا، اسلام کے پیروکاروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی
چاہیے کہ ان کے مذہبی عبادات و معمولات دوسروں کے پرامن بقائے باہمی میں خلل پیدا کرنے
کا سبب نہ بنیں، لہذا، ضروری ہے کہ مسلمان اپنے پڑوسیوں کا احترام کریں اور ان کا خیال
رکھیں۔
اہم نکتہ:
1. اسلام انسانی معاشرے کی پرامن اور صحت مند بقا کو زبردست اہمیت دیتا
ہے۔ لہذا، قرآن کا حکم ہے کہ زیادہ شور نہ کیا جائے۔
2. ایک ہی علاقے کی مختلف مساجد سے بیک اذان کی تعداد کو عوامی سہولت
کے مفاد میں کم کر دینا چاہیے۔
3. بالآخر، اذان کی کثرت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک محتاط رویہ
اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں مذہبی آزادی، لوگوں کی ضروریات اور تمام رہائشیوں کی بھلائی
کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ باحترام مکالمے، افہام و تفہیم اور باہمی تعاون پر مبنی کوششوں
کے ذریعے ایسا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ مذہب پر عمل اور پرامن بقائے باہمی
دونوں کو برقرار رکھا جا سکے۔
-------
مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں صبح
مرغ کے بانگ دینے کی آواز سے بیدار ہوا کرتا تھا۔ اب الارم اور سائرن ہمیں جگا دیا
کرتے ہیں۔ آج ملک کے مضافاتی علاقوں میں بھی چوبیس گھنٹے کان پھاڑ دینے والی موسیقی
اور ہنگامہ آرائی کا عالم ہے۔ شور شرابے کے لحاظ سے شہروں کا تو ذکر ہی نہ کیا جائے۔
ان علاقوں کے لوگوں کی صحت کو درپیش ہزارہا مسائل کی بات ہی چھوڑیں جہاں وقتی طور پر
لڑاکا طیارے اور بمبار گرج رہے ہیں۔ تاہم، لاتعداد میوزیکل اور الیکٹرانک آلات سے خارج
ہونے والی موسیقی کی لہروں کا زیادہ سننا ،جو کہ جدید ٹیکنالوجی کی پیداوار ہیں، آنے
والی نسل کے کانوں کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
اونچی آواز والی موسیقی کبھی کبھی
120 ڈیسیبل تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر آپ ایسے میں آدھے گھنٹے سے زیادہ مسلسل موسیقی سنتے
ہیں تو اس سے کان کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ راستوں پر چلتے پھرتے چند گانوں پر
مشتمل کیسٹوں اور ایسے آلات کا استعمال بھی صحت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، جن سے ایک
ہی نشست میں گھنٹوں تک موسیقی سنی جا سکتی ہے۔ فٹ بال کھیلوں کے دوران اسٹیڈیم میں
تماشائیوں کا شور 120 ڈیسیبل تک پہنچ جاتا ہے۔ نہ صرف طیاروں، گاڑیوں اور مشینوں سے
آنے والی آوازیں بلکہ انسانوں کا شور بھی اگر حد سے زیادہ ہو جائے تو خطرناک ہے۔ انہیں
وجوہات کے پیش نظر شور کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں اسلامی ہدایات کی اہمیت اجاگر ہو
جاتی ہے۔
اسلام انسانی معاشرے کی پرامن
اور صحت مند بقا کو زبردست اہمیت دیتا ہے۔ لہذا، قرآن کا حکم ہے کہ زیادہ شور نہ کیا
جائے۔: ’’ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز پست کر یقیناً آوازوں
میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے ‘‘ (لقمان 19)۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی
ہے کہ آپ کی آواز سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ قرآن حکم دیتا ہے کہ ہماری آواز، نہ صرف
لوگوں کی روزمرہ کی زندگی اور عام بول چال میں بلکہ ہماری عبادتوں میں بھی زیادہ اونچی
نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل
پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے ۔'' (اسراء 110)۔
آج ہمارے ملک کی بعض مساجد
میں جمعہ کی راتوں، پیر کی راتوں اور ماہ میلاد اور جیلانی ہفتہ جیسے مواقع پر، لاؤڈ
سپیکر سے بلند آواز میں ذکر اور دعائیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ نہ صرف مقامی باشندوں کے
لیے پریشان کن ہے، بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
اللہ کی نعمتوں کی تسبیح کرنا اور اس کے رسولوں پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا، اسلام میں انتہائی
نیک اعمال شمار کیے جاتے ہیں۔ لیکن قرآن کے اس قول کے پیش نظر کہ '' نہ تو تو اپنی
نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے
''، اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ ہماری آواز زیادہ بلند نہ ہو۔
اگر ہم احادیث کا جائزہ لیں
تو ہمیں معلوم ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ ذکر الٰہی سے بھی
منع فرمایا ہے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ پھر لوگ بلند آواز سے تکبیریں پڑھنے لگے۔
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگوں اعتدال اختیار کرو۔ کیونکہ
تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ۔ وہ جو سنتا ہے اور قریب ہے۔ وہ تمہارے ساتھ
ہے۔‘‘ (مسلم) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بدکاروں کے سامنے ذکر و اذکار نہیں
کرناچاہیے۔
چندمذہبی تقریبات ایسی ہیں
جن میں آواز بلند کرنا ضرور ی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، حج کے دوران، نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اونچی آواز میں تلبیہ وغیرہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ اس
لیے اللہ کے مہمان اونچی آواز میں لبیک اللہم لبیک کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات خاص
طور پر قابل ذکر ہے کہ حج کے موقعوں پر بھی، کہ جہاں زیادہ سے زیادہ آواز بلند کرنے
کی اجازت ہوتی ہے، نماز وغیرہ کے لیے لاؤڈ سپیکر جیسے آلات کا استعمال نہیں کیا جاتا،
حالانکہ اللہ کے گھر میں اکٹھے ہونا اور اسے یاد کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے، لیکن صحیفوں
میں اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ اس موقع پر تکبیر اور تلبیہ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے سنی جائے۔
یہ بعض اوقات تماشا اور ریاکاری کا باعث بن سکتا ہے، جس سے عبادات کا اثر زائل ہو جاتا
ہے ۔
ایک ہی علاقے کی مختلف مساجد
سے بیک اذان کی تعداد کو عوامی سہولت کے مفاد میں کم کر دینا چاہیے۔ اسلام صرف مسلمانوں
کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔
صوتی آلودگی: گنجان آبادی
والے علاقوں میں، اذان کے لیے استعمال ہونے والے لاؤڈ اسپیکر، صوتی آلودگی کا باعث
بن سکتے ہیں، جس سے ممکن ہے کہ عوامی سطح پر خلل واقع ہو اور لوگوں کی نیند متاثر ہو،
خاص طور پر دیررات یا صبح سویرے کے وقت میں۔ یہ تمام مذاہب اور ہر طرح کے لوگوں کے
لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔
دوسرے مذاہب کا احترام: کچھ
لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی مذہبی عمل میں ضرورت سے زیادہ شور کو کم کر دیا جائے،
بشمول نماز کے لیے بلند آواز میں اذان کے، اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے احترام
کا مظاہرہ کیا جائے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت میں وہ بھی اپنے مذہبی معمولات کی
ادائیگی میں مشغول ہوں یا محض امن وسکون چاہتے ہوں۔
ضابطے اور رہنما خطوط: ہندوستان
میں صوتی آلودگی پراصول و ضوابط موجود ہیں، اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہبی اداروں
بشمول مساجد کو ان اصول و ضوابط پر عمل کرنا چاہیے، تاکہ اپنے اپنے مذہب پر عمل اور
لوگوں کی بھلائی کے درمیان ایک توازن قائم کیا جا سکے۔
اگرچہ روایتی طور پر، اذان
مساجد سے بلند آواز سے کہی جاتی ہے تاکہ نمازیوں کو نماز کے اوقات سے آگاہ کیا جا سکے،
لیکن اسلام میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال ضروری نہیں ہے۔ کچھ مسلمان کہتے ہیں کہ اذان
اونچی آواز میں دی جائے لیکن ضروری نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے ہی دی جائے، اور وہ
ان قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں نماز کے اندر عاجزی اور رازداری پر زور دیاگیا
ہے ۔ تاہم، چونکہ اذان کا مقصد مسلمانوں کو اجتماعی نمازوں کے لیے اکٹھا کرنا ہے، اس
لیے اذان بالعموم لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے بلند آواز میں دی جاتی ہے، تاکہ اس کا مقصد
مؤثر طریقے سے پورا ہو سکے۔
اذان کی اہمیت کے باوجود،
ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں یہ دوسروں کے لیے تکلیف یا پریشانی کا باعث بن سکتی ہے،
خاص طور پر جب قریب قریب واقع متعدد مساجد سے ایک ساتھ اذانیں دی جائیں۔ مزید برآں،
خدشات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب خراب تلفظ یا اونچی آواز والے افراد اذان دیتے ہیں،
جس سے اذان کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے،
کچھ مسلم علاقوں میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندیاں نافذ کر دی گئی ہیں، اور ان
کے استعمال کو علاقے کی کسی ایک بڑی مسجد تک محدود کر دیا گیا ہے، یا صرف مسجد کے احاطے
تک ہی ان کے استعمال کو محدود کر دیا گیا ۔ تاہم، اس طرح کی پابندیوں کا نفاذ بھی الگ
الگ ہے، اور ہر جگہ کے لوگ اسے نافذ کرنے میں ابھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
کچھ علاقوں میں، حکام نے مسجد
میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کی ہے، جس کا مقصد صوتی آلودگی
کو کم کرنا اور زیادہ ہم آہنگ ماحول کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، اس سلسلے میں بامعنی اصلاح
بالآخر مسلمانوں کے عزم و حوصلے پر ہی منحصر ہے، کہ وہ داخلی طور پر ان مسائل کو حل
کریں اور معاشرے کے تمام افراد کے امن و سکون اور بھلائی کو ترجیح دیں ۔
اگر چہ کچھ لوگ لاؤڈ اسپیکر
کے استعمال کے حق میں دوسرے مذاہب کے معمولات کا حوالہ پیش کر سکتے ہیں ، لیکن ہمیں
یہ ماننا ضروری ہے کہ مذہب پر عمل کرنے کا بنیادی مقصد لوگوں کو اطمینان و سکون فراہم
کرنا ہونا چاہیے۔ لہذا، اسلام کے ماننے والوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی
چاہیے کہ ان کے مذہبی عبادات و معمولات دوسروں کے پرامن بقائے باہمی میں خلل پیدا کرنے
کا سبب نہ بنیں، لہذا، ضروری ہے کہ مسلمان اپنے پڑوسیوں کا احترام کریں اور ان کا خیال
رکھیں۔بالآخر، حقیقی اصلاح معاشرے کے اندر سے ہی ہونی چاہیے، جس کی بنیاد ہمدردی، افہام
و تفہیم اور باہمی احترام کے اصولوں پر ہو۔
بالآخر، اذان کی کثرت کے مسئلے
کو حل کرنے کے لیے ایک محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں مذہبی آزادی، لوگوں کی
ضروریات اور تمام رہائشیوں کی بھلائی کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ باحترام مکالمے، افہام
و تفہیم اور باہمی تعاون پر مبنی کوششوں کے ذریعے ایسا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، جس
کے ذریعہ مذہب پر عمل اور پرامن بقائے باہمی دونوں کو برقرار رکھا جا سکے۔
مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ
اپنی تقریر اور نماز میں آواز کی شدت کو کنٹرول کر کے صوتی آلودگی کو روکنے کی ہر ممکن
کوشش کریں۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو اپنے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر بھی نظر رکھنا
ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ انسان کے منہ سے نکلنے والے ہر ہر لفظ کو فرشتے دیکھ
رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ (انسان) منھ سے کوئی لفظ نکال
نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے ‘‘ (ق 18)۔
English
Article: The Loudspeaker Menace: Islamic Guidelines On Noise
Pollution; Respect For Others Is Integral To Islam
URL: https://newageislam.com/urdu-section/loudspeaker-menace-islamic-noise-pollution/d/131961
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism