ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی
14جولائی،2024
غزل ہماری تہذیبی اور
جذباتی زندگی کی شریک بھی رہی ہے اور ترجمان بھی،اس صنف سخن میں ہمارے غزل گوشعرا
ئے گل وبلبل، ساغر ومینا اور دار ورسن کے رمزیہ اشاروں سے زندگی کے اتار چڑھاؤ کو
اس طرح پیش کیا ہے کہ غزل زندگی کی تمامتر کیفیتوں سے مملوہوگئی ہے، غزل نے ہمارے
سیاسی وسماجی ماحول کی تصویریں پیش کی ہیں، سامراجیت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا
ہے، آزادی کے نغمے گائے ہیں اور تاریکی میں ہمیشہ روشنی کی بشارت دی ہے، غزل کی
اسی وسعت او رہمہ گیری میں اس کی مقبولیت کا راز پنہا ہے، ہمارے اساتذہ غزل نے
ہزاروں ایسے اشعار ہمیں دیے ہیں جنہیں برمحل پڑھ کر کسی بھی مجلس میں کسی بھی جلسے
میں جان ڈالی جاسکتی ہے، یہ بات ہندوستان کی دوسری زبان کی صنف سخن میں نہیں پائی
جاتی۔ اختر انصاری کا بیان حقیقت کی عکاسی کرتاہے:”یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے
کہ وہی اردو غزل جو تین سو سال تک جاگیردارانہ تصورات کی عکاسی بنی رہی آج بڑی
کامیابی کے ساتھ آج کے تمدنی بحران اور تہذیبی خلفشار کو اپنی مخصوص رمزیت
وایمائیت کے دامن میں سمیٹے ہوئے نظر آتی ہے اور ہمیشہ کی طرح لکھنے والوں او
رپڑھنے والوں کو یکساں طور پر مسخر ومسحور کئے ہوئے ہے“۔
غزل نے صرف اردو شاعری ہی
کو مالا مال نہیں کیا اس کے اثرات ہندوستان کی دوسری مختلف زبانوں پر بھی گہرے پڑے
ہیں ہندی، بنگالی، پنجابی، گجراتی، سندھی، مراٹھی کشمیری او رملک کی کچھ اور
زبانوں میں بھی غزلوں کا رواج پڑگیاہے او رآئے دن علمی محفلوں او رادبی جلسوں کے
علاوہ اخباروں، رسالو ں او ران زبانوں کی غزلیں دیکھنے کو ملتی ہیں دوسرے ملکوں
مثلاً جاپان میں ہائیکو بھی غزل ہی کا ایک روپ ہے۔ غزل اب صرف ہندوستان کی چیز
نہیں رہی ایشیا کی محبوب ترین صنف شاعری ہوگئی ہے اور دور حاضرمیں امریکہ، کناڈا،
یورپی ممالک، روس خلیجی ملکوں کی سرزمین اور دنیا کے دیگر ملک جہاں اردوبولی او
رسمجھی جاتی ہے ان سب کا اگر جائزہ لیاجائے تو غزل کی حکومت کادائرہ ان تک پھیل
چکاہے، بقول پروفیسر خواجہ احمد فاروقی اس سے محبت کی ابتدا کافی پہلے ہوچکی
تھی:”جب مستشرقین نے اردو اور فارسی غزل کے یورپی زبانو ں میں ترجمے پیش کئے تو گو
ئٹے او رٹینی سن بہت مسرور ہوئے اور وہ حیرت و استعجاب کی ایک نئی دنیا میں پہنچ
گئے“۔
غزل کہنا جس طرح ایک
معیاری فن ہے، غزل گانا بھی اسی معیار کا فن ہے چونکہ غزل عموماً کسی ایک خیال کی
ترجمانی نہیں کرتی بلکہ تصورات کا گلدستہ ہوتی ہے، لہٰذا گانے والے فنکار کو یہ
خیال رکھنا پڑتاہے کہ شاعری او رموسیقی کی ہم آہنگی قائم رہے۔غزل گائیکی کے فن میں
جو شگفتگی او رمچلتی ہوئی جگمگاہٹ ہے وہ کسی اور فن میں نہیں۔ ہندوستان میں غزل
گانے کی روایت امیر خسرو نے قائم کی، صنف غزل او ر ہندوستان کے فن سرو دوونوں پہ
امیر خسرو کا سب سے گہرا اثر پڑا، خسرو سے ہی اس ارتقائی نیرنگ کاسلسلہ شروع ہوا
جو ہندو سطی کی موسیقی میں رونما ہوا، خسرو نے اکثر وبیشتر غزلیں گانے کے لئے کہی
تھیں، چونکہ انہیں گایا گیا اس لئے عجمی اور ہندوستانی تہذیبی امتزاج سے غزل کا
سابقہ ہندی لوک گیتوں سے پڑا ہوا غزل گائیکی کے مزاج میں رچ بس گئے۔
موجودہ دور کی غزل گائیکی
جس کے پیش رو بیگم اختر، مہدی حسن، غلام علی وغیرہ ہیں نیم کلاسیکی موسیقی ہی ہے،
ان فنکاروں کی گائی ہوئی غزلوں میں راگ کاپورا مز ہ ملتاہے اور اکثر غزلوں میں اس
راگ کی حلاوت بھی قائم رہتی ہے جس پہ وہ مبنی ہیں، غزل گائیکی میں ایسے مقبول راگوں
کا استعمال کیا جاتاہے کہ جن میں گاتے وقت ہر طرح کے جذبات کااظہار کرنے میں گائیک
کو سہولت رہے، ان راگوں میں بھردیں، کافی، کھماج، پہاڑی اور پیلو شامل ہیں،
اکثرغزلیں چھ،سات یا آٹھ ماترے کے تال میں بٹھائی جاتی ہیں جنہیں بالترتیب دادر،
روپک اور کہروا کہاجاتا ہے، آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی غزلیں گانے میں سات
ماترے کے تال (روپک) کااستعمال اس قدر عام ہے کہ روپک تال کی ایک شکل ”مغلئی“ وجود
میں آئی جو اسی طرز کی غزلیں گانے میں استعمال ہوتی ہے۔ کلاسیکل موسیقی میں بندھی
ہوئی دھن کو بندش کہتے ہیں جو کسی مخصوص راگ اور تال میں ترتیب دی جاتی ہے، بندش
کا پہلا حصہ استھائی اور دسرا انترہ کہلاتاہے، غزل گائیکی میں مطلع استھائی کے طور
پر استعمال ہوتاہے اور باقی اشعار انترے کے طور پہ گائے جاتے ہیں،اس ترتیب سے گانے
والے کو آسانی اور سہولت رہتی ہے۔
تاریخ میں جن غزل گانے
والوں کا سراغ ملتاہے ان میں مہر افروز او رنصرت خاتون سب سے پہلی ہیں، یہ دونوں
خواتین خلجی دربار میں امیر خسرو کی غزلیں گایا کرتی تھیں، خلجی بادشاہت کے دوسرے
خلیفہ سلطان علاوالدین خلجی کے بیس سالہ دور میں ان دونوں خاتون گائیکوں کاشہرہ
تھا، غزل کو ہندستانی سنگیت کی ایک صنف کادرجہ دینے کاآغاز انیسویں صدی میں ہوا،
غزل گائیکی کی مقبولیت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب”پارسی تھیئٹر“ کا قیام
ہے۔پارسی برادری نے برصغیر میں بیس سے زیادہ ڈرامہ کمپنیاں بنائیں، پارسی تھیئٹر
کی مقبولیت نے غزل گائیکی کی مقبولیت میں براہ راست اثر ڈالا،اورآہستہ آہستہ غزل
نے ہندوستانی تھیئٹر اورسنیما میں اپنی جگہ بنالی۔
غزل گائیکی کو فروغ دینے
میں ایک اہم رول ہندوستانی فلموں کا رہاہے ہندوستان کی پہلی خاموش فلم ”راجہ ہریش
چندر“ تھی جس کے ہدایت کار دادا صاحب پھالکے تھے، جو 1919ء میں بنی، اس کے بعد
1922 ء میں ”لیلی مجنوں“،1923 ء میں ”نور جہاں“، 1924ء میں ”رضیہ بیگم“،1928ء میں
”انار کلی“ اور 1929 ء میں ہمانشو رائے کی بین الاقوامی اہمیت کی حامل فلم ”شیراز“
ریلیز ہوئی، 14مارچ 1931 ء کو سب سے پہلی متکلم فلم”عالم آرا“ آرد شیرا یرانی نے
پیش کی جو مسلم کلچرل کی ترجمان تھیں، ان اور ان جیسی سینکڑوں فلموں سے غزل گائیکی
اور نغمہ سرائی کو خوب فروغ ملا اور اکثر نغمے اورغزلیں اردو زبان کی ہی ہیں، یہی
وجہ ہے کہ آغاز سے اب تک ارد وزبان ہماری فلموں سے اپنا دامن نہیں چھڑا پائی ہے۔
جن فلمی غزل گائیکوں او رنغمہ نگاروں کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا جاچکاہے ان
میں کیفی اعظمی، اختر الایمان، راجندر سنگھ بیدی، شہر یار، جذبی، ندا فاضلی اور
سریندر پرکاش وغیرہ شامل ہیں، بعض فلم کے نغمہ نگاروں کو پدم شری او رپدم بھوشن کے
اعزاز بھی عطا کیے گئے ہیں، ان میں جوش، ساحر، علی سردار جعفری، جاوید اختر وغیرہ
قابل ذکر ہیں۔
نواب واجد علی شاہ صوبہ
أودھ کے دسویں اور آخری نواب تھے، نو ان فنون لطیفہ کے سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ
خود ایک شاعر، ڈرامہ نگار، میر رقص او رماہر رقاص تھے،انہوں نے اختر پیا کے قلمی
نام سے دو شعری مجموعے: ”حسن اختر“ اور ”دیوان اختر“ لکھے ادوھ اور ہندستان کے بعض
دیگر علاقوں میں ان کی غزلیں بہت مقبول تھیں، واجد علی شاہ کتھک رقص میں بھی گہری
دلچسپی رکھتے تھے،شاہ نے کتھک میں غزل کو شامل کر کے اس صنف رقص کو ترقی دی، اس کے
درباری رقاص اسی کی لکھی ہوئی غزلوں میں کتھک پیش کرتے تھے، اس طرح لکھنو کی
سرزمین غزل گائیکی کی آبیاری کرنے لگی جہاں یہ رقص کی سنگیت میں گائی جاتی تھی۔
غزل گائیکی کو بازار سے
ڈرائنگ روم تک پہنچانے میں مرحوم کندن لال سہگل کا نمایاں حصہ رہا ہے، سہگل صاحب
محفل میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے لیکن ان کی آواز نے مائکروفون سے گراموفون ریکارڈ
تک پہنچنے میں کمال حاصل کرلیا تھا، انہوں نے غزل کو ایک نیا انداز دیا، سہگل کے
بعد جو بڑا نام غزل گائیکی میں آیا وہ بیگم اختر کا ہے۔ طلعت محمود نے غزل گائیکی
میں شہرت عام حاصل کی، ابتداء سے ہی طلعت محمود غزل گائیکی کی طرف مائل تھے، ایک
زمانہ میں غزل کا ذکرآتے ہی طلعت محمود کا نام ذہن میں آجاتاتھا، وہ اپنے دور کے
روایت ساز فنکار رہے ہیں، انہوں نے اپناالگ انداز عوام کے سامنے پیش کیا اور عوام
نے اسے پسند کیا، ان کی آواز کی ہلکی لرزش ان کی پہچان بن گئی۔
غزل گائیکی کی دنیا کا
ایک بڑا نام محمد رفیع کاہے جوآج بھی کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں اور جب تک زندہ ہے
محمد رفیع زندہ رہیں گے اور دھڑکنوں میں دھڑکتے رہیں گے، محمد رفیع کی گائی ہوئی
غزلیں اب بھی امر اور دنیا بھر میں گونجتی سنائی دیتی ہیں،محمد رفیع نے اپنے طویل
کیریئر میں تقریباً 700 فلموں کیلئے 26ہزار سے زائد گانے اورغزلیں گائی ہیں۔ 1965
ء میں رفیع صاحب کو گائیکی کے میدان میں قابل تحسین خدمات کیلئے حکومت ہند کی جانب
سے پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سرحد پار تین اہم غزلیں سرا ابھرے ہیں، مہدی حسن،
غلام علی اور فرید ہ خانم، مہدی حسن کو اگر غزل گائیکی کا مسیحا کہا جائے تو شاید
مبالغہ نہ ہوگا، غزل کو اس کی موجودہ سطح تک لانے اور خواص وعوام میں اسے مقبول
کرنے کا سہرا مہدی حسن کے سر ہے، مہدی حسن ایک عالمی شہرت یافتہ فنکار ہیں، انہیں
شہنشاہ غزل کے بھی نام سے جانا جاتا ہے۔
غزل گائیکوں کی جو دوسری
جوڑی مقبول ہوئی وہ ہے راجندر مہتا اور نینا مہتا کی جوڑی، ان کی گائیکی
کالطیف،سلجھا ہوا،نغمگی میں ڈوبا ہوا انداز سب سے جداہے۔ یونس ملک ایک نہایت ہی
باصلاحیت فنکار ہیں وہ خود بھی غزل گاتے ہیں اور دوسرے گلوکاروں کیلئے بھی غزلوں
کی نہایت دل کش طرزیں بناتے ہیں۔ ان موسیقار وں کے علاوہ فیاض شرکت، مرلی منوہر
سروپ، تاج احمد اور اقبال وغیرہ نے بھی غزلوں کی بہت اچھی دھنیں بنائی ہیں، غزل
گائیکی میں ابھرتے ہوئے ناموں میں سب سے اہم نام راجکمار رضوی کاہے، وہ مہدی حسن
کے عزیز بھی ہیں اور غائبانہ شاگرد بھی۔ ان فنکاروں کے علاوہ بھی کئی ایسے فنکار
ہیں، ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے، یہاں ہزاروں فنکار ہیں، اور ہر فنکار کااپنا
ایک رنگ ہے،کچھ فنکار ایسے ہیں جو صرف اسٹیج پر وگراموں کے ذریعہ ہی اپنے فن کا
مظاہرہ کرتے ہیں اور ریڈیو یا گراموفون ریکارڈ کے ذریعہ ان کی آواز ابھی ملک کے
دیگرحصوں میں نہیں پہنچی ہے، ان سب کی صلاحیتوں کا تذکرہ اس مختصر سی تحریر میں
کرنا ممکن نہیں ہے، ان میں سے چند اہم نام یہ ہیں:ہری ہرن، اشوک کھوسلہ، سریش واڈ
کر، صلاح الدین، سعادت بن اشرف، خالد، انور، سرلا کپور، بلونت بنسل، اسلم خان،
جگدیش ٹھاکر، وجئے چودھری، رینو چودھری، انورادھا، سمترالہری، مہندر چوپڑا، دلراج
کور، مبارک بیگم، مہیش چندر، کنول سدھو، چندر، کنول سدھو، چندن، چاندرائے، نصرت
فتح علی خان، راحت فتح علی خان، طلعت عزیز، جاوید اختر چتراسنگھ، ثریا رحمان
وغیرہ۔
غزل گائیکی کو صیحح معنی
میں پڑوسی ملک میں عروج حاصل ہوا ہے، وہاں معیار ی غزل سرا اتنی زیادہ تعداد میں
ہے کہ حیرت ہوتی ہے، ریڈیو سے بے شمار نئی آواز یں سننے کاموقع ملتا ہے او ریہی
محسوس ہوتا کہ نوجوان فنکاروں کی ایک پوری نسل وہاں پرورش پارہی ہے،نئی نسل کے
پاکستانی غزل سراؤں میں پرویز مہدی، اسد امانت،غلام عباس، ناہید اختر، فیروز اختر،
آصف جاوید، نیر انور، جمال اکبر وغیرہ بیشمار فنکار شامل ہیں۔ اچھے فنکاروں کی
کبھی کمی نہیں رہی ہے، ہر دور میں باصلاحیت
فنکار شہاب ثاقب کی طرح غزل گائیکی کے آسمان پہ روشنی کی منور لکیر چھوڑتے
ہوئے گزرگئے،سائنس او رٹیکنالوجی کی موجودہ صدی میں بھی غزل گائیکی کے میدان میں
نئے نئے تجربے کئے جارہے ہیں، اس کونئی جہتوں او رسمتوں سے روشناس کرایا جارہا ہے۔
14 جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism