New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 02:59 PM

Urdu Section ( 23 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A long season of torture in Pakistan پاکستان میں اذیت پرستی کا طویل موسم

مجاہد حسین ، نیو ایج اسلام 

23ستمبر،2024

تقریباً تین ماہ پہلے پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے  نے ایک مختصر سی رپورٹ تیار کی تھی جس کو دفتری استعمال کی زبان میں ’’کانفیڈنشل‘‘ رپورٹ کا نام دیا گیا۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پنجاب کے بڑے شہروں میں ایک گروہ اپنے تیار کردہ  پھندے کی مدد سے چارسو سے زائد  طلبہ  اور عام کاروباری افراد کو ’’توہین مذہب اور توہین رسالت‘‘کے الزامات کے تحت ملک بھر کی جیلوں میں بھیج چکا ہے اور مذکورہ گروہ کے دھندے کو’’بلاسفیمی بزنس‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔رپورٹ میں اس بزنس میں شامل کچھ کرداروں کے نام بھی شامل تھے۔ ملک میں لاگو نئی سنسرشپ کے مدنظر مقامی میڈیا اس قسم کی رپورٹس اور خبروں کی اشاعت نہیں کرسکتا،شاید اسی لیے ملک سے بھاگے ہوئے ایک معروف صحافی احمد نورانی نے اس رپورٹ کے مندرجات کو اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شائع اور نشر کردیا۔ظاہر ہے اس رپورٹ کو نشر مکرر کے طور پر بھی شائع یا نشر نہیں کیا جاسکتا تھا،اس لیے ہمارے ہاں اس موضوع کو سوائے جدید کافی ہاوسسز اور قریبی ہم خیال دوستوں کے کہیں بھی بحث کے لیے جگہ نہ ملی۔

بلوچستان اور سندھ میں توہین کے دو مبینہ مرتکب افراد کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر بحث جاری ہے جو یقینی طور پر اگلے کسی اس سے مماثل واقعے تک مکمل طور پر ماند پڑجائے گی۔ یہ گمان کرنا فضول ہوگا کہ کوئی سیاسی،سماجی یا کسی بھی شعبے کی نمایاں شخصیت ان واقعات پر لب کشائی کرنے کا خطرہ مول لے گی۔ ہاں البتہ جہلم کا انجینئر اور شاید ملک سے باہر بیٹھے ہوئے نستعلیق مولوی غامدی صاحب معذرت خواہانہ انداز اور مذہبی اساطیر میں موجود رحم اور برداشت کے مادے کو جمع کرکے ان واقعات کی مذمت کریں،لیکن اِن کی لاتعداد مذمتیں ہمارے متحرک مذہبی و مسلکی دھڑے روزانہ رد کرتے رہتے ہیں۔

شاید دس بیس برس پہلے اس قسم کے معاملات و موضوعات پر کسی قدر آسانی کے ساتھ بحث و مباحثہ ہوسکتا تھا،خطرہ اگرچہ پھر بھی منڈلاتا نظر آتا لیکن اب یہ صورت حال ہے کہ اِس قسم کے سانحات پر شاید طاقتور حکومتیں یا اسٹیبلشمنٹ کسی عام سے مولوی کو بھاری مالی لالچ دے کر بھی تیار نہیں کرسکتیں کہ وہ کوئی الگ سے یا مختلف اور صلح جُویانہ موقف کا اظہار کرے۔انسانی حقوق کمیشن کی تین سطری پریس ریلیز بھی شاید قلیل سی اشاعت کا حامل انگلش اخبار ڈان شائع کرے گا، کوئی دوسرا اس طرف دیکھے گا بھی نہیں۔

سیاسی اوزاوں کی مرمت میں مصروف اسٹیبلشمنٹ کے سوا شاید کوئی بھی ادارہ یاجماعت اس قابل نہیں کہ ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلتی ہوئی اس مہلک وبا کی شدت کو کم کرسکے،حالانکہ اس موضوع پر بہت سی اُنگلیاں خود اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی اُٹھتی ہیں،پھر بھی کسی حد تک عوامی سطح پر یہ موہوم سی اُمید باقی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اس جن کو قابو کرنے کی طرف توجہ دے تو شاید کچھ افاقہ ہو۔یہ الگ بات ہے کہ ابھی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیہات قدرے مختلف ہیں اور اگر یہی حالات رہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی جگہ یہ متشدد دماغ اس طاقت کے حامل ہوں گے اور دنیا میں ایسے ممالک تلاش کرنا مشکل ہوگا جن کی حالت ہمارے جیسی ہوگی۔

بلاسفیمی بزنس نامی گروہ کے ہاتھوں توہین مذہب،توہین قرآن اور توہین رسالت کے الزمات کے بعد گرفتار کیے جانے والے نوجوانوں کو ایف آئی اے اور پولیس کے تفتیش کاروں نے فوری طور پر عدالتوں کے ذریعے جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں بندکروادیا ہے۔ ہر منگل کی صبح ان قیدیوں کے بوڑھے اور ڈرے سہمے ہوئے والدین یا رشتہ دار لاہور کی کوٹ لکھپت جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے ملاقاتی کمروں میں جمع ہوتے ہیں اور نامساعد ترین حالات اور خوفناک اقسام کے الزامات کے تحت قید بچوں کے لیے کھانے پینے،لباس اور خدشات میں لپٹی ہوئی دعاوں کے ڈبے اور بکس وغیرہ جیل حکام کے حوالے کردیتے ہیں۔یہ والدین یا لواحقین کسی قسم کی پریس ریلیز جاری نہیں کرتے کیوں کہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کی بات شائع نہیں کی جائے گی۔اِنہیں عدالتوں سے قطعی طور پر کوئی اُمید نہیں کہ اُن کے بچوں کو انصاف ملے گا،انہیں شاید ایک دوسرے پر تھوڑا بہت بھروسہ ہے کہ وہ سب مل کر کسی قسم کا معجزہ برپا کرسکیں گے۔اُن کے پاس اس معجزے کی تیاری کے لیے وہی وٹس ایپ ہے جو اُن کے بچوں کو تعلیمی اداروں سے اُٹھا کر جیلوں میں لے گیا۔ ان لواحقین نے وٹس ایپ گروپس بنارکھےہیں جہاں وہ اپنے اپنے بچوں کی حالت زار اور اپنی اپنی مایوسی اور نااُمیدی شئیر کرتے ہیں۔گذشتہ ایک سال میں توہین کے الزامات میں قید بچوں میں سے چار اِن مقدمات میں رکھی گئی سزائے موت پا چکے ہیں یعنی نامعلوم وجوہات کی بنا پر وفات پاچکے ہیں۔ان فوت شدگان کے ورثا کا خیال ہے کہ ان کے بچے طبعی موت نہیں مرے۔

یہ والدین جانتے ہیں کہ قومی و صوبائی سطح پر پائی جانے والی اسمبلیوں کے قریباً ایک ہزار ارکان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو کسی دن ان بچوں کے مقدمات اور ان کی قید کے بارے میں ایک لفظ بھی کسی اسمبلی کے فلور پر بولے گا۔اِنہیں اس بات پر بھی یقین ہے کہ ملک کی زبردست عدلیہ میں سے کوئی ایک بھی قابل احترام جج کسی کیس کی سماعت کے دوران یا اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی کسی تقریب میں کھل کر تقریر کرتے ہوئے بھی اِن بچوں اور اِن کے والدین کی حالت زار پر کچھ نہیں بولے گا۔ایک صدر مملکت،ایک وزیراعظم چار صوبائی وزرائے اعلیٰ،چار گورنرز،ایک چیف جسٹس،ایک سپیکر قومی اسمبلی،ایک چئیرمین سینٹ،ایک محتسب اعلیٰ،ایک وزیرداخلہ،ہزاروں جید علمائے  کرام،مفتیان،درجنوں میڈیائی دانش ور،بے حساب شاعر،افسانہ نگار اور ناول نگار شاید اِن میں سے کوئی بھی زندگی اور موت کی تار پر جھولتے ہوئے ان نوجوانوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہے گا؟ جو پچھلے ہفتے کوئٹہ میں محافظ کے ہاتھوں مارا گیا اور جو پرسوں سندھ میں کئی محافظوں کے ہاتھوں مرنے کے بعد دین کے محافظوں کے ہاتھوں جلایا گیا،اُن کے بارے میں دوچار دن سوشل میڈیا پر بات ہوگی اور بس۔

۔۔۔۔۔۔

 ‘‘پنجابی طالبان’’  سمیت تقریبا ایک درجن کتابوں  کے مصنف، مجاہد حسین  پاکستان کے ایک معروف اور تحقیقی مزاج رکھنے والے صحافی ہیں ۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے  اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/long-season-torture-pakistan/d/133266

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..