New Age Islam
Sat Apr 26 2025, 08:01 PM

Urdu Section ( 14 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Long Will The Demolition Process Last? انہدامی کارروائی کب تک؟

آکار پٹیل

12 فروری 2024

 اُترا کھنڈکی انہدامی کارروائی، جس کے بعد رونما ہونے والے تشدد میں ۵؍ جانیں تلف ہوچکی ہیں، بی جے پی کی ریاستوں میں پائے جانے والے ایک خاص رجحان (پیٹرن) کی نشاند ہی کرتی ہے۔ یہ رجحان اب ہر خاص و عام پر ظاہر ہے جس کے تحت حکومت عوام کو ’’سبق سکھانے‘‘ کی کوشش کرتی ہے بالخصوص مسلمانوں کو۔

یہ انہدامی کارروائی ایک طرح کی غیر عدالتی سرگرمی ہے جو میونسپل کارپوریشن اور پولیس کے ذریعہ انجام پاتی ہے خواہ فرقہ وارانہ تصادم کے بعد عمل میں لائی جائے یا کسی احتجاج کے بعد۔

اپریل ۲۰۲۲ء میں ایک رپورٹ ’’جبر کے راستے: مذہبی جلوسوں کو مسلح کرنے کی روش‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی تھی جو شہریوں اور وکلاء کی مرہون منت تھی۔ اس کے پیش لفظ میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روہنتن نریمان نےجو کچھ لکھا تھا کہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ رپورٹ کیلئے حاصل شدہ تفصیلات سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ملک میں جمہوری قدریں زوال پزیر ہیں۔ حاصل شدہ تفصیلات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی ۹؍ ریاستوں میں رام نومی اور ہنومان جینتی جیسے اہم موقعوں پر بھی ہنگامہ آرائی اور تشدد کا سایہ دراز رہا۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل (ہندوستان میں جس کا چیئرپرسن راقم السطور ہے) نے بھی ایسے ہی پیٹرن کا مشاہدہ کیا ہے جس کے تحت بہت سے لوگ بے گھر ہوگئے اوراُن کی روزی روٹی چھن گئی۔ متاثرین کو زبردستی مکان اور دکان سے نکالا گیا، ڈرایا دھمکایا گیا، ان کے خلاف پولیس کے ذریعہ غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کیا گیا، اور یک طرفہ طریقے سے اُنہیں سزا دی گئی (جبکہ سزا دینا عدلیہ کا اختیار ہے) جس کا معنی یہ تھا کہ اُنہیں غیر متعصبانہ طرز عمل سے محروم کیا گیا جو کہ اُن کا حق ہے۔ مزید برآں اُنہیں متبادل مکانات اور غیر جانبدارانہ مقدمے سے بھی بڑی حد تک محروم کیا گیا۔

انہدامی کارروائی کی زد میں مسلم اکثریتی علاقوں کی دکانوں، مکانوں اور جائیدادوں کا آنا غیر دانستہ عمل نہیں ہوسکتا۔ جن علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم شہریوں کی دکانیں اور مکان بھی قبضہ کی ہوئی زمینوں پر تھے وہاں غیر مسلم املاک کو بخش دیا گیا بالخصوص گجرات اور مدھیہ پردیش میں۔

عدالتی حکم کے بغیر ایسی کارروائیوں کا کتنا جواز ہے اور یہ کتنی حق بجانب ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب غیر قانونی عمارات تعمیر ہوتی ہیں تب انتظامیہ اُ ن کی جانب سے چشم پوشی کرتا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں دہلی ہائی کورٹ کے تشکیل کردہ ایک پینل کی رپورٹ میں نیشنل کیپٹل ریجن (این سی آر)،دہلی کی تعمیرات کا جائزہ لینے کے بعد کہا گیا تھا کہ ۹۰؍ فیصد تعمیرات ایسی ہیں جن میں کسی نہ کسی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مئی ۲۰۲۳ء کی ایک اخباری سرخی سے صورت حال مزید واضح ہوتی ہے جو کچھ اس طرح تھی: ’’دہلی کے سینک فارمس کو ریگولرائز کرنے میں عجلت (Expedite) کی جائے: ہائی کورٹ‘‘۔ واضح رہے کہ یہ سوسائٹی ریگولرائز نہیں ہے مگر یہاں بلڈوزر نہیں پہنچا۔ کیا اس لئے کہ یہ امیر طبقے کے لوگوںکی ہے؟ ملک کے غریب لوگوں بالخصوص غریب مسلمانوں کو اپنی دکانیں اور مکان ریگولرائز کرنے کا ایسا موقع نہیں ملتا۔ ان کی دکانوں اور مکانات کے خلاف جبریہ کارروائی دھڑلے سے ہوتی ہے ! اس پس منظر میں یہ کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو زبردستی اُن کے مکانوں اور دکانوں سے نکالنا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔دور حاضر میں یہ پامالی بار بار ہورہی ہے۔

بین الاقوامی حقوق انسانی قانون کے مطابق حکومتوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ لوگوں کو زبردستی اُن کے مکانوں سے نکالنا تب ہی ہو جب ایسا کرنا شدید طور پر ضروری ہو یعنی استثنائی حالات ہی میں ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جب (استثنائی حالات میں) ایسا کیا جائے تو اس کا بھی باقاعدہ قانونی جواز ہونا چاہئے مگر، آپ جانتے ہیں کہ، نئے ہندوستان میں اس بین الاقوامی قانون کا کچھ احترام نہیں کیا جاتا۔

حد تو یہ ہے کہ اکثر اوقات بلڈوزر کارروائی کی شہ اعلیٰ سیاسی قیادت کی جانب سے دی جاتی ہے چنانچہ یہ بات منظر عام پر ہے کہ افسران براہ راست یا بالواسطہ،مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کارروائی  کا اعلان کرتے ہیں۔ ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کارروائی یا اس کی دھمکی ایک نفرتی مہم کا حصہ ہے۔ بجائے اس کے کہ عدالت کی ہدایت کے بغیر ہونے والی بلڈوزر کارروائی روکی جاتی، سیاسی لیڈروں اور سرکاری افسروں نے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

اپریل ۲۰۲۲ء میں دہلی میں جو کارروائی کی گئی تھی، اس وقت بی جے پی کے ترجمان جی وی ایل نرسمہا نے جے سی بی (بلڈوزر) کو یہ کہتے ہوئے حق بجانب ٹھہرایا تھا کہ جے سی بی کا معنی ’’جہادی کنٹرول بورڈ‘‘ ہے۔ یہ ٹویٹ اب ہٹا دیا گیا ہے۔

یہ تعصب دیگر جگہوں پر بھی دکھائی دیتا ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ سال پہلے ایمنیسٹی نے انہدامی کارروائی کے بعد کی صورت حال پر ایک دستاویز تیار کی تھی۔ اس کی تیاری کے دوران پایا گیا تھا کہ جن لوگوں کے مکان اور دکان بلڈوزر کی زد میں آئے اُن کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت اور معرض التواء میں ہیں۔ جہاں تک ’’سبق سکھانے کی غرض سے‘‘ ہونے والی انہدامی کارروائیوں کا تعلق ہے، عدلیہ نے اس پر اب تک کوئی ہدایت نہیں دی ہے جس کے سبب انہدامی جوش و خروش تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

اس کے برخلاف، یوپی اور ایم پی میں وہ ٹریبونل معرض وجود میں لائے گئے جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے مگر ان کے ذریعہ غیر مسلموں کی دکانوں اور مکانوں کو پہنچنے والے نقصان کی بھرپائی کا انتظام کرلیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ (جبر کے راستے......) میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ملک میں فرقہ وارانہ فساد اور تصادم ماضی میں بھی ہوا ہے مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سماج پر سرکاری بالادستی یا اداروں کا اختیار متاثر ہوا ہو جیسا کہ موجودہ دور میں ہورہا ہے۔سٹیزنس اینڈ لائرس اِنی شیئیٹیو نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ اس پیارے ملک سے تشدد ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

12 فروری 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/long-demolition-process-last/d/131712

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..