نصیر احمد، نیو ایج اسلام
10 اپریل 2024
مذہبی فکر
و نظر کا اولین ثبوت، مردے کے ساتھ ادا کیے جانے والے مراسم سے عیاں ہے۔ زیادہ تر حیوان
اپنی نوع کی موت میں، صرف ایک عام دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا، رسمی طور پر مردے کی
تدفین سے، انسانی رویے میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔
قرآن آدم
اور ان کی نسل، اور ان کی طرف بھیجی گئی ہدایت، یا اللہ کے دین کے حوالے سے ہدایات
کی بات کرتا ہے۔ کیا یہ اتفاق کی بات ہے، کہ وہ ہدایت واضح طور پر آدم کے بیٹوں میں
سے، ایک کی میت کی تدفین پر رہنمائی سے متعلق ہے، جسے مذہبی فکر کا پہلا ثبوت سمجھا
جاتا ہے؟
-------
اتھارٹی کی اپیل، اس دعویٰ کی بنیاد
پر، ایک منطقی غلطی ہے، کہ چونکہ ایک ماہر نے ایسا کہا ہے، اس لیے یہ سچ ہی ہوگا۔ تاہم،
اس سیاق و سباق کو سمجھنا بہت ضروری ہے جس میں کسی ماہر نے رائے قائم کی ہے، کیونکہ
سیاق و سباق، ان کے بیان کی صداقت کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔
رسل ایک ریاضی دان اور منطقی
تھا، کوئی اخلاقی فلسفی نہیں۔ ماہرین کو اپنی مہارت کے شعبے میں ہی بات کرنی چاہیے،
کیونکہ اگر وہ کسی ایسے موضوع پر رائے زنی کرتا ہے، جس میں اس کی مہارت نہیں ہے، تو
ممکن ہے کہ اس کے خیالات گمراہ کن ثابت ہوں، جیسا کہ رسل نے ذیل کے اپنے اقتباس میں
کیا تھا:
"وہ لوگ، جنہیں خدا اور
مذہب نے اندھا کر دیا ہے، کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ اخلاقیات کی تعمیر میں،
کسی خدا، مذہب اور صحیفے کا کوئی دخل نہیں ہے۔"
آپ اسے یوں سمجھیں: آپ اپنی کار
کے انجن کے بارے میں، کبھی کسی پلمبر سے مشورہ نہیں مانگیں گے، کیا آپ ایسا کریں گے؟
صرف اس وجہ سے کہ وہ کسی ایک شعبے کا ماہر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا، کہ ہر معاملے
میں وہ ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک عقلمند انسان مذہب اور اخلاقی فلسفے
پر رسل سے کبھی مشورہ نہیں کرے گا، جس طرح وہ بال کٹوانے کے لیے کبھی موچی کے پاس نہیں
جائے گا، خواہ موچی جوتے ٹھیک کرنے میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو۔
جیسا کہ (برٹرینڈ رسل کی غلطی)
میں بتایا گیا ہے، اس نے مذہبی اخلاقیات کے بارے میں اپنی رائے، مسیحی اخلاقی اصولوں
کی روشنی میں تشکیل دی ہے، جن میں طلاق اور دیگر پیچیدہ ضوابط کو مسترد کیا گیا ہے،
جو کہ در حقیقت، انسانی تکلیفوں سے بچنے کا سبب بن سکتے ہیں، اور اس نظریے پر بھی اس
کی رائے مبنی ہے کہ "اخلاقیات کا انسانی خوشی یا تکلیف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
" یہ جاننا ضروری ہے، کہ مذہب اور فلسفہ دونوں میں، اخلاقیات کا کام انسانوں کی
زندگی کو خوشگوار بنانا ہے، جسے چرچ یکسر نظر انداز کرتا ہے۔
آئیے رسل کی تنقید کا ایک گہرا
تجزیہ کرتے ہیں۔ اگر اس نے دوسرے مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہوتا، تو اسے معلوم
ہوتا کہ طلاق کی مذمت ہر دھرم میں نہیں کی جاتی۔ مثال کے طور پر اسلام اور یہودیت میں
یہ جائز ہے۔ اس سے ایک اہم نکتہ سمجھ میں آتا ہے: کسی ماہر کی رائے کا تجزیہ کرتے وقت،
متعدد نقطہ ہائے نظر پر غور کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ عیسائیت میں طلاق کو کیوں
ایک مقدس رسم سمجھا جاتا ہے، اس کا جواب، رومیوں کی، بت پرستی سے، عیسائیت میں منتقلی
میں مضمر ہے، جو کہ ایک ایسا عمل ہے، کہ جس کی وجہ سے، بہت سے کافرانہ رسم و رواج عیسائیت
میں در آئے۔ یہاں تک کہ ان کے تہواروں کی ابتداء بھی کفر سے ہے۔ لہٰذا، رسل کی تنقید
کسی الہٰی قانون پر نہیں، بلکہ انسان کے بنائے ہوئے رواج پر ہے – الہٰی حکمت پر نہیں
بلکہ انسان کی حماقت پر ہے۔ تاہم، رسل اپنی اس غلطی سے بے خبر ہے۔
عیسائیت پر رسل کی تنقید ذاتی
تعصب سے پاک نہیں تھی۔ چرچ کے ان احکام سے اس کی خوار، جو کہ ایمان والوں پر نافذ ہیں،
واضح تھی۔ یہ اسلام سے بالکل متصادم ہے، کہ جہاں فتویٰ کو محض ایک انسانی رائے سے زیادہ
کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ عیسائیت پر اس کی ناقص معلومات، کیونکہ عیسائیت کا اس پر اور
اس کے معاشرے پر براہ راست اثر تھا، مذہبی معمولات کے وسیع تناظر کو نظر انداز کرنے
کا باعث بنی۔ اپنے مخصوص تجربے کی بنیاد پر تعمیم کی اس کی کوشش، ایک عام غلطی ہے،
حتیٰ کہ عقلمندوں کے درمیان بھی۔
اس بات کا
ثبوت کہ مذہب کی شروعات آدم سے ہوئی۔
مذہبی فکر و نظر کا اولین ثبوت،
مردے کے ساتھ ادا کیے جانے والے مراسم سے عیاں ہے۔ زیادہ تر حیوان اپنی نوع کی موت
میں، صرف ایک عام دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، لہٰذا، رسمی طور پر مردے کی تدفین سے، انسانی
رویے میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔
قرآن آدم اور ان کی نسل، اور ان
کی طرف بھیجی گئی ہدایت، یا اللہ کے دین کے حوالے سے ہدایات کی بات کرتا ہے۔ کیا یہ
اتفاق کی بات ہے کہ، وہ ہدایت واضح طور پر آدم کے بیٹوں میں سے، ایک کی میت کی تدفین
پر رہنمائی سے متعلق ہے، جسے مذہبی فکر کا پہلا ثبوت سمجھا جاتا ہے۔
(5:27) اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں
نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی بولا قسم ہے
میں تجھے قتل کردوں گا کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، سے ڈر ہے۔
(28) بیشک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑھائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں
اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑھاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک ہے سارے
جہاں کا۔
(29) میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ
پڑے تو تو دوز خی ہوجائے، اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔
(30) تو اسکے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا
تو رہ گیا نقصان میں۔
(31) تو اللہ نے ایک کوا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکھائے کیونکر اپنے
بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی
کی لاش چھپاتا تو پچتاتا رہ گیا۔
(32) اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل
کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس
نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول
روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بیشک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے
ہیں۔
مندرجہ بالا آیات، اس بات
کی دلیل ہیں کہ، اللہ کی طرف سے ہدایت پر انسان کا انحصار، آدم کے زمانے سے ہی چلا
آ رہا ہے۔ اللہ کبھی کبھی کوے جیسی مخلوق کی مثال سے ہماری رہنمائی کرتا ہے، جیسا کہ
اوپر کی مثال سے عیاں ہے۔ انسان نے فطرت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آیت 5:31 بتاتی ہے، کہ
اللہ کی ہدایات نہ صرف نازل شدہ صحیفوں کی شکل میں ہیں، بلکہ ان مثالوں میں بھی ہیں،
جنہیں اللہ نے نظام فطرت میں، انسان کو ہدایت فراہم کرنے کے لیے رکھا ہے۔ انسان نے
اپنی کائنات، اور نازل شدہ صحیفوں کے مطالعہ کے علاوہ، کسی اور ذریعہ سے کچھ بھی نہیں
سیکھا۔ اس کے باوجود انسان اللہ کا ناشکرا ہے، اور اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے، یہی
وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی ہی وحی میں فرماتا ہے:
|1| 96پڑھو
اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
|2|96آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو
|3|96اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم،
|4|96جس نے قلم سے لکھنا سکھایا
|5|96آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا
|6|96ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے،
|7|96اس پر کہ اپنے آپ کو غنی سمجھ لیا
|8|96بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا ہے
|9|96بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے،
|10|96بندے کو جب وہ نماز پڑھے
|11|96بھلا دیکھو تو اگر وہ ہدایت پر ہوتا،
|12|ی96ا پرہیزگاری بتاتا تو کیا خوب تھا،
|13|96بھلا دیکھو تو اگر جھٹلایا اور منہ پھیرا
|14|96تو کیا حال ہوگا کیا نہ جانا کہ اللہ دیکھ رہا ہے
|15|96ہاں ہاں اگر باز نہ آیا تو ضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں
گے
|16|96کیسی پیشانی جھوٹی خطاکار،
|17|96اب پکارے اپنی مجلس کو
|18|96ابھی ہم سپاہیوں کو بلاتے ہیں
|19|96ہاں ہاں، اس کی نہ سنو اور سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہوجاؤ۔
کچھ جانور، غیر معمولی قوت
دراکہ اور مسائل کو حل کرنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن صرف انسان ہی، معلومات کو
ضبط تحریر کرکے، اور اسے دوسروں تک پہنچا کر، بتدریج علم میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تو
کیا یہ اتفاق ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنے کی صلاحیت عطا کیے جانے کا ذکر
کیا؟
انسانی نطق
کا انوکھا تحفہ
اس کے علاوہ ان آیات پر بھی غور
کریں:
55|1|رحمٰن
55|2|نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا
55|3|انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا،
55|4|ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا
نطق صرف انسانوں کا ہی خاصہ
نہیں ہے۔ تو پھر قرآن میں نطق کا ذکر کیوں ہے؟ انسانی بول چال/زبان میں، ایسی کیا انوکھی
بات ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے کلام و بیان کی تعلیم کو، بنی نوع انسان پر خصوصی احسان
کے طور پر ذکر کیا ہے۔
نوح ہراری
کی کتاب "سیپینز" سے ماخوذ مندرجہ ذیل اقتباس:
"جدید انسان کی کامیابی
کا راز کیا تھا؟ ہم بہت سے دور دراز اور ماحولیاتی طور پر مختلف علاقوں میں اتنی تیزی
سے کیسے آباد ہوئے؟ ہم نے دوسری تمام انسانی نسلوں کو کیسے شکست دے دی؟ مضبوط، دماغی،
سرد علاقوں میں رہنے والے نینڈرتھل، ہمارے حملے سے کیوں نہیں بچ سکے؟ وغیرہ وغیرہ۔
سب سے زیادہ ممکنہ جواب وہی ہے جو بحث کو ممکن بناتا ہے: جدید انسان نے اپنی منفرد
زبان و بیان کی بدولت دنیا کو فتح کیا۔
"ادراکی انقلاب"
سے پہلے، قدیم انسانوں کے دماغوں کی اندرونی ساخت، شاید ہم سے مختلف تھی۔ وہ ہماری
طرح نظر آتے تھے، لیکن - سیکھنے، یاد رکھنے، بات چیت کرنے کی - ان کی ادراکی صلاحیتیں،
کہیں زیادہ محدود تھیں۔ ایسے انسانوں کو انگریزی پڑھانا، انہیں عیسائی عقیدہ کی حقانیت
پر قائل کرنا، یا نظریہ ارتقاء کو سمجھنا شاید ناممکن تھا۔
لیکن پھر، تقریباً 70،000 سال پہلے،
ہومو سیپینز نے غیر معمولی کام کرنا شروع کیا۔ اس تاریخ کے آس پاس میں، سیپینز نے دوسری
بار افریقہ چھوڑا۔ اس بار، انہوں نے نینڈرتھل اور دیگر تمام انسانی نسلوں کو نہ صرف
مشرق وسطیٰ سے بلکہ روئے زمین سے ہی مٹا دیا۔ بہت کم عرصے میں سیپینز یورپ اور مشرقی
ایشیا تک پہنچ گئے۔ تقریباً 45,000 سال پہلے، وہ کھلے سمندر کو عبور کر کے آسٹریلیا
میں اترے – ایک ایسا براعظم جو اب تک انسانوں سے اچھوت تھا۔ تقریباً 70,000 سال پہلے
سے لے کر تقریباً 30,000 سال پہلے کے عرصے میں، کشتیاں، تیل کے لیمپ، تیر و کمان اور
سوئیاں (گرم کپڑوں کی سلائی کے لیے) ایجاد کی جا چکی تھیں۔ یہ وہ اولین چیزیں تھیں،
جنہیں اس دور کے فنون کی تاریخ قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ مذہب، تجارت اور سماجی
سطح بندی کا یہ پہلا واضح ثبوت ہے۔ زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ یہ بے مثال کامیابیاں،
سیپینز کی علمی صلاحیتوں میں ایک انقلاب کا نتیجہ تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جنہوں
نے نینڈرتھلوں کو مٹا دیا، آسٹریلیا میں آباد ہوئے، اور سٹیڈیل کے مردِ شیر کو تراشا،
اور ہماری طرح ذہین، تخلیقی سوچ کے حامل اور حساس تھے۔ اگر ہم سٹیڈیل غار کے فنکاروں
سے ملتے، تو ہم ان کی زبان سیکھتے اور وہ ہماری۔ ہم ان کو وہ سب کچھ سمجھا سکتے جو
ہم جانتے ہیں – ایلس ان ونڈر لینڈ کی مہم جوئی سے لے کر کوانٹم فزکس کے پیچیدگیوں تک
– اور وہ ہمیں سکھا سکتے کہ ان کے لوگ دنیا کو کیسے دیکھتے تھے۔ 70,000 اور 30,000
سال قبل کے درمیان، سوچنے اور بات چیت کے نئے طور طریقوں کا ظہور، اس ادراکی انقلاب
کی بنیاد ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اس سلسلے میں سب
سے مقبول نظریہ یہ ہے، کہ حادثاتی جینیاتی تغیرات نے سیپینز کے دماغ کی اندرونی وائرنگ
میں تبدیلی پیدا کر دی، جس سے وہ بے ایک انوکھے انداز میں سوچنے، اور مکمل طور پر نئی
قسم کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے، بات چیت کرنے کے قابل ہو گئے۔ ہم اسے Tree
of Knowledge mutation (ٹری آف نالج میوٹیشن) کہہ سکتے ہیں۔ یہ تبدیلی نینڈرتھل کے بجائے،
سیپینز کے ڈی این اے میں ہی کیوں ہوئی؟ اس بارے میں ہم صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں، کہ
یہ محض قسمت کی بات تھی۔ لیکن ٹری آف نالج میوٹیشن کے نتائج کو سمجھنا، اس کی وجوہات
سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ نئی سیپینز زبان میں ایسی کیا خاص بات تھی، کہ اس نے ہمیں دنیا
کو فتح کرنے کے قابل بنایا؟* یہ کوئی پہلی زبان نہیں تھی۔ ہر حیوان کی کوئی نہ کوئی
زبان ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ کیڑے مکوڑے، مکھی اور چیونٹیاں بھی، ایک دوسرے کو کھانے کے
ٹھکانے سے آگاہ کرتے ہوئے، نفیس طریقوں سے بات چیت کرنا جانتی ہیں۔ نہ ہی یہ کوئی پہلی
مکھر بولی تھی۔ بہت سے جانور جن میں بندر اور لنگور کی تمام اقسام شامل ہیں، کی مکھر
بولیاں ہیں۔ مثال کے طور پر، سبز بندر بات چیت کے لیے مختلف قسم کی بولیاں بولتے ہیں۔
ماہرینِ حیوانات نے ان کی بولی کی نشاندہی کی ہے جس کا مطلب ہے، 'ہوشیار! عقاب!' ایک
قدرے مختلف بولی میں، 'ہوشیار! شیر!‘‘۔ جب محققین نے بندروں کے ایک جھنڈ کو، پہلی بولی
کی ریکارڈنگ سنائی، تو بندروں نے جو کچھ وہ کر رہے تھے، اسے روک دیا اور خوف سے اوپر
کی طرف دیکھنے لگے۔ اور جب اسی جھنڈ کو شیر کی وارننگ والی ریکارڈنگ سنائی گئی، تو
وہ بڑی تیزی سے ایک درخت پر جا بیٹھے۔ سیپینز، سبز بندروں کے مقابلے میں بہت زیادہ
الگ آوازیں پیدا کر سکتے ہیں، لیکن وہیل اور ہاتھی یکساں طور پر حیرت انگیز صلاحیتوں
کے حامل ہیں۔ ایک طوطا وہ سب کچھ کہہ سکتا ہے، جو البرٹ آئن سٹائن کہہ سکتا ہے، نیز
فون کی گھنٹی بجنے، دروازے کھسکنے، اور سائرن بجنے کی آواز کی بھی نقل کر سکتا ہے۔
آئن سٹائن کو طوطے پر جو بھی فضیلت حاصل تھی وہ صرف بولی نہیں تھی۔ تو پھر ہماری زبان
میں کیا خاص بات ہے؟ اس کا سب سے آسان جواب یہ ہے کہ ہماری زبان حیرت انگیز طور پر
نرم اور لچکدار ہے۔ ہم محدود آوازوں اور علامات کو جوڑ کر، لامحدود جملے ادا کر سکتے
ہیں، جن میں سے ہر ایک کا ایک الگ معنی و مفہوم ہوگا۔ اس طرح ہم ارد گرد کی دنیا کے
بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل اور جمع کر سکتے ہیں، اور ان کی ابلاغ و ترسیل کر
سکتے ہیں۔ ایک سبز بندر اپنے ساتھیوں کو چیخ کر بس خبردار کر سکتا ہے کہ 'ہوشیار! شیر!‘‘،
لیکن ایک جدید انسان اپنے دوستوں کو بتا سکتا ہے، کہ آج صبح، ندی میں، میں نے ایک شیر
کو بائسن کے جھنڈ کا تعاقب کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے علاوہ، وہ اس علاقے کی طرف جانے
والے مختلف راستوں سمیت صحیح مقام کی تعین بھی کر سکتا ہے۔ اس معلومات کے ساتھ، اس
قبیلے کے لوگ مل جل کر یہ مشورہ بھی کر سکتے ہیں، کہ کیا ہمیں شیر کو بھگانے، اور بائسن
کا شکار کرنے کے لیے دریا کے قریب جانا چاہیے۔ دوسرا نظریہ اس بات سے اتفاق کرتا ہے،
کہ ہماری زبان و بیان کی انفرادیت یہ ہے کہ ہم دنیا کے بارے معلومات ایک دوسرے کے ساتھ
شیئر کر سکتے ہیں۔
قرآن ہمیں
یہ بتاتا ہے، کہ واقعی آدم کے پاس بہت ساری معلومات تھیں۔
جدید انسان یعنی آدم کی تخلیق میں،
قرآن ان تمام انوکھے تحفوں کی بات کرتا ہے، جو انہیں منفرد بناتے ہیں۔ زبان و بیان
کا تحفہ، لکھنے کا تحفہ، نظام فطرت سے سیکھنے کا تحفہ، اور اس کے الفاظ کا اچانک اتنا
وسیع ہو جانا کہ جس میں اس کے ارد گرد کی ہر چیز سما جائے، جسے ہراری نے "دی ٹری
آف نالج میوٹیشن" کہا ہے۔
2|31|اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام (اشیاء کے) نام سکھائے پھر سب
(اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ
2|32|بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا
بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے -
2|33|فرمایا اے آدم بتادے انہیں سب (اشیاء کے) نام جب اس نے (یعنی آدم
نے) انہیں سب کے نام بتادیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور
زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے
ہو -
2|34|اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو
سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا ۔
نتیجہ:
سائنس یہ بتانے سے قاصر ہے، کہ
اس ادراکی انقلاب کی وجہ کیا ہے۔ قرآن ادراکی صلاحیتوں کے حامل انسان کی تخلیق کی بات
کرتا ہے، جسے سائنس ادراکی انقلاب کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ قرآن ثابت کرتا ہے، کہ بنی
نوع انسان کی رہنمائی کا سلسلہ، یا "اللہ کا دین" آدم سے شروع ہوا۔ سائنسی
مطالعات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں، کہ مذہب اتنا ہی پرانا ہے جتنا یہ "ادراکی
انقلاب"۔ لہٰذا، مذہب اور اس کی اخلاقیات، اتنی ہی پرانی ہیں جتنے آدم، یا اتنی
ہی قدیم ہیں، جتنا یہ" ادراکی انقلاب"۔
لہذا، رسل کا یہ بیان کہ،
"وہ لوگ، جنہیں خدا اور مذہب نے اندھا کر دیا ہے، کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کریں
گے کہ اخلاقیات کی تعمیر میں، کسی خدا، مذہب اور صحیفے کا کوئی دخل نہیں ہے۔"
بے بنیاد ہے، اور اس موضوع سے اس کی لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ شاید وہ سوچتا ہے کہ مذہب
کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا۔
English
Article: The Logical Fallacy Of “Appeal To Authority”
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism