New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 02:18 AM

Urdu Section ( 11 Nov 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Living Nations Are Not Defeated! !زندہ قومیں شکست خوردہ نہیں ہوتیں

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

8 نومبر 2024

نشیب و فراز زندگی کا وہ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن میں سیکھنے کو اتنا کچھ ہوتا ہے کہ اگر اس کوبر وقت پڑھ لیا جائے تو بہت سی آز مائشوں سے بچا جا سکتا ہے۔ یوں بھی خود احتسابی خود نمائی سے افضل عمل ہے ۔اخلاقیات بھی اس کاتقاضہ پہلے کرتی ہے۔دوسرا پہلو تو فطری طور پر نمایاں ہو ہی جاتا ہے۔

تنقید، تنقیص، تجزیہ، اپنے اندر نقائص کی تلاش جہاں کسی حد تک احتساب کے حوالے سے لازم ہیں وہیں اس سے بھی کہیں زیادہ ان پہلوؤں کی نشاندہی ضروری ہے جو نہ صرف حوصلہ افزائی کا باعث ہوں بلکہ ہر قسم کی پسپائی کو شکست دینے  کی صلاحیت سے بھی معمور ہوں ۔آج اس طرف رخ کرتے ہیں جو جسم میں حرارت، دماغ میںتازگی، احساس میں گرمی، جذبات میں تلاطم، فکر میں جدت و جدیدیت، عمل میں مستعدی، قول میں قرار اور فکر میں ہیجان کی جگہ اطمینان قلب اور سکون پیدا کرنے کا موجب ہو۔

اس کوشش کے ذریعے ان گوشوں کی تلاش کرتے ہیں جو حالات کو وہ کروٹ دے سکیں جس کی رہنمائی میرا نوجوان آج اپنے بڑوں سے چاہتا ہے۔ شکوے، شکایات بہت ہوئے۔ اب قدم بڑھانے میں تاخیر کسی طور بھی مناسب نہیں وہ قدم کیا ہوں اور اس میں پہلا کیا ہو؟

فی الوقت جہاں جائیے اور جس سے بات کیجیے وہ حالات کا رونا روتا ملے گا۔ ایک عجیب مایوسی، بے بسی اور بد نظمی کا احساس ہماری مجلسوں، نشستوں اور حلقوں کا خاصہ  بن گیا ہے۔ پہلے قدم کے طور پر حوصلہ سازی کی طرف اجتماعی پیش قدمی ہے۔ حوصلے کا راست تعلق ایمان سے ہے اور الحمد للہ آج بھی دین کا جو جذبہ من حیث القوم ہمارےیہاں پایا جاتا ہے اس کی نظیر نہیں۔ اللہ رب ذوالجلال کی جانب سے بہترین امت کے لقب سے نوازی گئی وحدت جس کے ہاتھ میں قرآن و حدیث ہے، سیرت طیبہ ہے، فقہ اسلامی ہے، تاریخ کے سنہری ابواب ہیں وہ کیسے مایوس ہو سکتی ہے۔ بند کیجیے رونا دھونا، ہاتھ پھیلانا، رعایتیں مانگنا اور در در کھڑے بھیک مانگنے کا چلن۔خود اعتمادی، خود انحصاری، خود اختیاری اور خود احتسابی پر توجہ رکھیں مانگیں خدائے وحدہ لا شریک سے اور زمینی پہل کو اپنے ہاتھ میں رکھیں ایماندارانہ محنت جہاں ہوگی وہاں فضل خدا منہ سے بولے گا ۔

آزمائش اور ایمان، امتحان اور ایمان ایک دوسرے سے مشروط ہیں ۔یہ دنیا دارالعمل ہے اور ساتھ ہی دارالفتن بھی۔ یہ ایک ایسا پل صراط ہے جس پر ذرا سی لغزش ہوئی اور آپ جہنم واصل ہوئے؟ اس لئے پہلا، حوصلہ ایمان سے حاصل کیجیے۔ نفسیات میں یہاں سے مضبوطی آئے گی ، استحکام پیدا ہوگا، انتشار اور بکھراؤ پر قابو پاناآسان ہوگا۔ ایک بات کبھی نہ بھولیے کہ اصلاح کا عمل رد عمل نہیں ہوتا، کسی کو چیلنج دینے کی غرض سے تعلق نہیں رکھتا، اس کا مقصد کسی کو چڑھانا یا اکسانا نہیں ہوتا، کسی مخاصمت کو دعوت دینا نہیں ہوتا بلکہ کمزور اور مضبوط دونوں کا ہاتھ تھامناہوتا ہے تاکہ مستحق کو اس کا حق ملے اور مخیر کو خیر کا موقع۔

دوسرا قدم جو دستیاب ہے اس سے آگاہی اور اسکا مثبت و تعمیری صد فیصد استعمال ہے تاکہ جو حاصل ہے وہ بھی استعمال اور افادیت سے محروم نہ رہ جائے۔ ایک فرد سےلے کر بڑی بڑی تنظیموں اور اداروں تک جو جہاں ہے وہ مباحثے، تکرار، الزام تراشی، سازش اور تعصب پر وعظ کرنے کی  بجائے اس وقت کو اس کردار کی احسن ادائیگی پر خرچ کرے جس پر وہ مامور ہے اور اس سے وہ روزی بھی کما رہا ہے، رزق حلال جب جسم میں جائیگا تو عبادات میں خشوع و خضوع داخل ہوگا۔ دعا میں اثر پیدا ہوگا، اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے تعلق بنے گا اور پھر جو عطا ہوگا وہ اطمینان قلب کی غذا ہوگا۔

تیسرا قدم موجود اداروں کی فعالیت میں بدرجہ اتم اضافہ ہے۔قابل مبارکباد ہے یہ ملت جس کو  اس کے گھر سے دس قدم پر اللہ کا گھر دستیاب ہے ۔ آج ہمارے پاس پانچ لاکھ مساجد ہیں جن کا نظام ہمارے پاس ہے۔ان کو تعلیم و تربیت، شخصیت سازی، رفاع عامہ اور رضاکارانہ سرگرمیوں میں لگا دیجیے پھر دیکھئے کیسے چو طرفہ خیر سگالی پھیلتی ہے۔ منافرت پر قابو ہوتا ہے اور آپسی رشتے استوار ہوتے ہیں بہت سی جگہ اسطرح کی پہلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ساتھ ہی ہزارہا مدارس ہیں جہاں دینی تعلیم دی جا رہی ہے ۔ ان کے در و دیوار کو اب کھول دیجیے  ۔مذاہب کا تقابلی مطالعہ کو لازمی مضمون بنا دیجیے۔ قدر مشترک اتنا کچھ ہے کہ اس کوبھی اپنے نصاب کا حصہ بناکر ایک ایسے کردار کی آبیاری کا مرکز بن جائیے جو قابل تنقید و تنقیص نہ رہ کر قابل رشک اور سب کےلئے لائق تقلید بن جائے۔ مدارس سے فارغین کے سامنے روزگار کابڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اب مدارس کے طلباء کو عام تعلیمی نظام سے جوڑنا لازمی ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ ہم خود کریں ایسا اب بڑے پیمانے پر دکھائی بھی دے رہا ہے۔

چوتھے قدم کا تعلق ان ہزارہا تعلیمی اداروں سے ہے جو ملک گیر سطح پر الحمد للہ چل رہے ہیں ۔بس ان کا معیار بلند کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔ جس طرف اب مثبت توجہ دی جارہی ہے۔ آج ہر مسلم بستی کے پاس جاکر اس خاموش تعلیمی انقلاب کو دیکھیے، جہاں والدین اپنے نونہالان کو اپنا پیٹ کاٹ کر بہترین تعلیم دلانے کے لئے کوشاں ہیں ۔آج کتنے انگریزی میڈیم اسکول جو ہم خود چلا رہے ہیں اور کتنے برادران وطن کے قائم اداروں میں کثیر تعداد میں ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں۔ ان کی ستائش اور حوصلہ افزائی کیجئے ۔ ایک روایتی گفتگو کہ مسلمان پڑھتا نہیں، اس میں بیداری نہیں، یہ مفروضہ اپنی زمین کھو چکا ہے ،بیداری شباب پر ہے۔ یہاں گفتگو کے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

پانچواں قدم سیاست اور انتخابات کو سب کچھ مت سمجھ لیجئے۔ ان کی اہمیت سے مجھے انکار نہیں۔ مگر ذرا میری گزارش پر غور کرکے دیکھیں کہ یہاں سے ہم کتنا اور کچھ حاصل بھی کر پا رہے ہیں یا تمام مخالفتیں اور رنجشیں ہمارے ہی گلے میں طوق بناکر ڈالی جا رہی ہیں، ملائی کوئی اور ہی کھا رہا ہے۔ کافی استعمال ہو گئے ،بہت اپنا استحصال کروالیا اب اور نہیں۔تعلیم، تربیت، شخصیت و کردار سازی، روزگار، ترقی اور سائنسی فکر کے فروغ پر توجہ کریں ۔ایک فعال معاشرہ اب ہمارا ہدف ہے اور ہم اس کےمتحمل بھی ہیں علماء، دانشور، صاحب فکر و نظر افراد کی ہمارے درمیان کوئی کمی نہیں۔ بس اب سب کو زمین پر کردار ادا کرنے کے لئے آگے آنا ہے اور ایسا کئی جگہ ہو بھی رہا ہے جو خوش آئند ہے۔جذباتیت اور جنون ہم سے بہت کچھ چھین  چکے ہیں ۔ اب حکمت، مصلحت، مکالمے اور مفاہمت سے عزت نفس کے تقاضوں کی بھر پائی ہماری منزل ہے۔

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

چھٹا قدم یہ ہونا چاہیے کہ جس طرح ہم نے پر وقار زندگی گزارنے، تجارت و ملازمت کرنے کے طریقے اور قرینے دریافت کر لئے ہیں بالکل اسی طرح اب زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا کوئی دشمن یا حریف نہیں! جو اس راستے پر چلا بھی گیا ہے اس سے بھی راست الجھنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کس طرح خیر سگالی کا ماحول بنے ،اس سمت پہل کرنی ہے۔ میری نظر میں ماحول کی درستگی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

آخری حصے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم بڑے خوش نصیب ہیں جن کو وہ آئین اور ادارے دستیاب ہیں جو ہر شہری کی طرح ہم کو بھی وہ یکساں احساس، اعتماد اور احساس ذمہ داری دیتے ہیں۔ جن سے وطن عزیز میں بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔ آئیے اپنے آپ سےیہ عہد کریں کہ ہم اپنے انفرادی، اجتماعی اورادارہ جاتی کردار سے ماحول کو خوشگوار بنانے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھیں گے ۔

ہم اسلام کے ماننے والے اور اس کی داعی ہیں، جس دین میں درگزر کو بڑی فوقیت حاصل ہے۔ یہ امن، صلح و سلامتی کا دین ہے۔ فتنہ، فساد، قتل و غارت گری کی جڑ کو کاٹنے والا عقیدہ ہے، انسان کی جان کو سب سے محترم قرار دیتا ہے۔ اخلاق اور اسلام تو ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں۔ خانقاہئیت اور روحانیت نے بر صغیر میں جو سنہری تاریخ رقم کی ہے اسے اس کی اصل روح کے ساتھ زندہ کرنا ہے۔ پڑوسی جو اور جہاں بھی ہیں وہ ہمارے لئے فرض کفایہ کی ادائیگی کی سبیل ہیں ۔ ہم بس اپنے گرد و نواح پر محنت کرلیں قومی و ملی سطح خود درست ہو جائیں گی ۔اب زمین کو درست کرنا ہی ہمارا ہدف ہے۔

ہم اعتدال، رواداری، تحمل مزاجی اور بقائے باہم کے داعی ہیں اس مزاج کو سب مل کرعام کریں۔ آخری قدم یہ ہو کہ ایسا کچھ نہ ہو جس سے ہمارے خاص دوست ہماری حب الوطنی پر سوال کھڑا کر سکیں۔

 دادرسی پر سب کا مساوی حق ہے، نوجوانو! اب تمہاری باری ہے، تم سب کچھ بدل سکتے ہو۔ ذاتی رشتوں کی گرماہٹ کو قومی سطح تک لے جانا اب تمہارا فریضہ بھی ہے اور چیلنج بھی۔ وہ سنہرا پن جس پر دھول جم گئی ہے ، اس کی  چمک کو دوبارہ دوبالا تمہیںکرنا ہے۔

8 نومبر 2024 ، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

----------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/living-nations-defeated/d/133678

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..