ایڈون ایم یوڈور جونیئر
20 دسمبر 2020
الماریاں ان منشوروں کے
بوجھ سے کراہ رہی ہیں … اس کیلئے کراہنے سے زیادہ موزوں لفظ اور کیا ہوگا … جن میں
ادب کی موت کا اعلان کیا گیا ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے آلون کیرنن (بقید حیات، عمر
۹۷؍
سال) نے کتابی حجم کے برابر ایک خوفناک تعزیت نامہ رقم کیا ہے جس کا یہی عنوان ہے۔
پروفیسر صاحب نے شہادتیں تو بلاشبہ جمع کی ہیں مگر ان کی بنیاد پر جو فیصلہ صادر
کیا ہے وہ بڑی حد تک مبالغہ آمیز ہے۔
میں یہ سمجھ پایا ہوں کہ
وہ ان افسانوی تحریروں کی بات کررہے ہیں جو واقعیت پسندی کی روایت میں ہیں اور جن کا تخاطب عام قاری سے ہے اور جو ہمیں اپنی ادبی دنیا کے بارے میں کچھ نہ
کچھ بتاتی ہیں۔ انہوں نے ڈکنز کے ناولوں کا ذکر کیا، جنہوں نے یہ اہم فریضہ انجام
دیا کہ ’’بیسویں صدی کے بڑھتے ہوئے شہروں کے اجنبی اور عجیب ماحول میں زندہ رہنے
کا مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی‘‘ اور اس صدی میں سے ہمنگوئے ، اونیل اور
فراسٹ کے ناولوں، نظموں اور ڈراموں کی مثالیں پیش کیں۔
مشکل یہ ہے کہ کیرنن
صاحب نے بعض بہت قابل امتیاز چیزوں میں
امتیاز نہیں کیا۔
امریکہ کے بعض شعبہ ہائے
انگریزی پر واقعتاً گھر میں بیٹھنے والے انقلابیوں نے قبضہ کرلیا ہے جن کی تنقید
کا مآخذ مارکسزم ہے (اور وہ بھی مسخ شدہ)
یا پھر فرانسیسی رد تعمیری (Deconstruction) کے گرو ژاک دریدا کی فیشن ایبل بکواس اور یہ
لوگ برابر کتابوں کو اذیت پہنچا کر مار ڈالتے ہیں، لیکن جو ایسے قارئین کو جانتے
ہیں جو بغیر ان قاتلوں کو بیچ میں لائے ہوئے صرف ادب سے براہ راست معانقہ کرتے ہیں
ان کو ادب کی موت یا اس کی غیرمعقولیت کے کوئی بھی آثار نظر نہیں آتے۔
میں اپنا ایک واقعہ بتاتا
ہوں، مگر اس اعتماد پر کہ میرا مشاہدہ دوسروں کے تجربے سے ہم آہنگ ہوگا۔ حالیہ موسم بہار میں، میں نے جارج ٹاؤن
یونیورسٹی میں شام کی ایک کلاس لی۔ بیانیہ ادب، افسانوی اور غیر افسانوی دونوں طرح
کا، اس کے نصاب میں شامل ہے اور کلاس میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ دونوں کے ذہین
طلبہ ہیں۔ مجھے اب تک کوئی معمولی سی نشانی بھی نہیں ملی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا
جاسکے کہ ادب مر گیا یا مررہا ہے، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ ہم نے مختلف النوع
ادب پاروں کا مطالعہ بھی کیا، انجیل مقدس کے قصے، گرم (Grimm)برادران کی پری
کتھائیں، میکالے اور گبن کی تواریخ، ترگیناف، ٹالسٹائی، ہنری جیمز، ولیم فاکنز،
ورجینیا وولف، رابٹرس ڈیولیس ، ریبیکا ویسٹ اور میکارتھی کے رپورتاژ اور یادداشتیں
اور بہت سی دو سری چیزیں۔
اہم نقاد ، ادب کی موت کا اعلان کرتے رہیں۔ وہ تھک جائیں گے
یہاں تک کہ ان کے چہرے سیاہ پڑ جائیں، مگر ادب اپنی موت کے ان اعلانات کے بعد بھی
زندہ رہے گا۔ اس کی وجہ بالکل بنیادی ہے۔ انسان اپنی زندگی کی تخیلاتی تخلیق نو کا
مطالبہ اسی طرح کرتا ہے جیسے ہماری انا اور خودبینی و خودنمائی آئینے کا مطالبہ
کرتی ہے۔ ان کے بغیر ہم بھلا کیسے جانیں گے کہ آیا ہم دوسرے انسانوں جیسے ہیں یا
نہیں اور ہیں تو کس طرح اور کس درجہ۔ ادب آئینہ خانہ ہے ۔ ادب ایک برادری ہے۔
جب تک ہم موت کا شکار
ہوتے رہیں گے اور موت سے خوفزدہ ہوتے رہیں گے بلکہ ادنیٰ زندگی سے خائف رہیں گے،
اس وقت تک ٹالسٹائی کا دلخراش افسانہ ’’ایوان ایلچ کی موت‘‘ برمحل رہے گا۔
اس لئے نہیں کہ ٹالسٹائی
آمرانہ مزاج کا سفید فام تھا جو عورتوں اور کاشتکاروں پر حکمرانی کرتا تھا، بلکہ
اس لئے کہ وہ اعلیٰ پائے کا فنکار تھا جو سچائی کو پہچان لیتا تھا۔ جب تک کہ ثقافتیں
اور ادب و آداب مختلف رہیں گے اور ان کے ساتھ ساتھ قاعدے قرینے بدلتے رہیں
گے اور جب تک یہ اختلاف محبت کے چشمے کے پھوٹ بہنے پر بند باندھے رکھنے کی طاقت رکھے
گا تب تک ہنری جیمز کا ابتدائی ناول ’’یورپ والے‘‘ برمحل رہے گا۔ اس لئے نہیں کہ
اس کا سروکار طبقاتی فرق اور نک چڑھے پن سے ہے حالانکہ اس کا سروکار درحقیقت ان ہی
سے ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ادب کی موت کا اعلان کرنے والے اور بعض
دوسرے قنوطی حضرات اصل میں یہ کہہ رہے ہوں کہ اب کم ہی لوگ ان پرانے معنوں میں ادب
’’تخلیق‘‘ کررہے ہیں جسے وسیع الخیال فکشن کہا جاسکتا ہے اور جس میں کلاسیکی
جھنکار (Classical Resonance) ہوتی ہے، اگر یہ بات درست بھی ہے تو یہ دوسرا مسئلہ
ہے۔
ہر عہد اپنی کہانیوں کو
دلآویز اور مستقل شکل میں سنانے کے لئے مناسب ترین ہیئت اور زبان دریافت نہیں
کرپاتا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تنقید کے جبر نے تھوڑی بہت تخیلی جہد کو دبایا ہو لیکن
پھر بھی پرانی اور عظیم روایات میں
عالیشان فن پارے سامنے آرہے ہیں۔ پیٹرٹیلر کا ناول A Summons to Memphis جو چند برس پیشتر ہی چھپا ہے، میرے نزدیک کسی
بھی نئے یا پرانے امریکی ناول کی ٹکر کا ہے ۔
جن طالب علموں کو میں
پڑھاتا رہا ہوں انہوں نے بھی یہ محسوس کیا ہے اور بارہا اس ناول کو جیمز، فاکنر
اور ٹالسٹائی کے بہترین فن پاروں کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ پھر یہ ادب کی موت کا
غلغلہ کیا ہے؟ جب تک زندگی ہے تب تک
کہانیاں ہیں اور جب تک کہانیاں ہوں گی اور انہیں سنانے کے مختلف اسالیب ہیں اس وقت
تک ادب باقی رہے گا اور ادب کے قاری بھی۔ (رسالہ امروز)
ترجمہ: آصف فرخی
20 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب،
نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/literature-live-even-after-announcement/d/123859
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism