Text and Context: Quran and Contemporary Challenges
By Arif Mohammed Khan
Rupa & Co.
Pp 306, Rs395/-
By Saif Shahin
To justify his political and self-serving decision to support the Muslim League, Maulana Shabbir Ahmad Usmani resorted to the misuse of religion, declaring all non-Muslims as one group of kafirs and all Muslims as united against them.Today, of course, it’s not just non-Muslims who are thus damned; the clergy of virtually every Muslim sect calls all other sects kafirs who must be annihilated in the name of Islam.Where does the Quran stand on this issue? Khan writes: “The Quran, unlike the clergy, acknowledges that all people have been recipients of divine guidance and uses the term ‘kafir’ for individuals and groups who deny the truth and arrogantly indulge in persecution and mischief. The Quran does not use the term Kafir to describe any religious denomination or community.”Khan goes on to challenge Islamist exclusivism and violence-mongering as a religious cause by enunciating Quran’s emphasis on restraint and thoughtful action. The Quran, he says, has more than two dozen verses highlighting the importance of the virtue of moderation and strongly denouncing extremist behaviour in religion and other matters.
URL for English article:
https://www.newageislam.com/books-and-documents/let-the-quran-speak-for-itself/d/4872
قرآن کو خود ہی بولنے دیجئے
سیف شاہین،نیو ایج اسلام
متن اور حوالہ :قرآن اور
دور حاضر کے چیلنجر
عارف محمد خان
روپا اینڈ کمپنی صفحات 306۔ قیمت
۔395روپا اینڈ کمپنی
کیا مذہب اسلام طبیعتاً پر
تشدد ہے؟ کیا ہندوستان او رپوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کی مذمت اس لئے ہوتی ہے
کہ وہ ناخواندگی ،تنگ نظری اور بنیاد پرستی میں ڈوبے رہتے ہیں؟ یا پھر وہ جدید دنیا
، جو جمہوریت ، خواتین کے حقوق اور کثیر ثقافتوں والی ہے، کا سامنا اپنی شرطوں پر کرسکتے
ہیں؟
عارف محمد خان کا خیال ہے
کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں ۔گزشتہ ایک دہائی یا اس سے زیادہ کے دوران متعدد اخباروں او
ررسالوں میں شائع ان کے مضامین کے مجموعے ، متن او رحوالے : قرآن او ردور حاضر کے
چیلنجز میں اس غیر معمولی اسکالر اور سیاست داں نے بتایا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرسکتے
ہیں۔
جیسا کی نام سے ظاہر ہے، مجموعہ
میں ا یسے مسائل پر قرآنی نقطہ نظر سے مضامین ہیں جو حالیہ برسوں میں خصوصی طور پر
ہندوستانی مسلمانوں اور عمومی طور پر پوری امت کو گھیرے رہے ہیں۔
اس کتاب میں عارف محمد خان
نے اس سیاق وسباق کو پیش کیا ہے جن میں یہ مسائل پیدا ہوئے اور ساتھ ہی حوالے کے طور
پر دی گئی ان آیات کے نازل ہونے کے وقت کے حالات کو بھی بیان کرنا،یہ بتاتا ہے کہ
کسی مسئلے کی مناسب فہم کے لئے حوالوں کی کس قدر ضرورت ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر تین طلاق کے
مسئلہ کو لے لیں۔ جو لوگ ایک ہی بار میں تین طلاق کہنے کو جائز ٹھہراتے ہیں ، وہ شاید
ہی آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بتا یا گیا کہ
ایک شخص نے اسیا کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور فرمایا ‘تم لوگ اللہ
کی کتاب کونظر انداز کر رہے ہو’ حضرت عمرؓ نے ایسے شخض کو کوڑے مارنے کو کہا تھا۔
ایک اور عام عادت دوسرے لوگوں
یا غیر مومنوں کو کافر کہنے اور ان کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کی ہے۔ عارف محمد خان
کا کہنا ہے کے اس کی شروعات 1945میں دیوبند کے علما کی ایک میٹنگ کے بعد ہوئی،جب ایک
گروپ مسلم لیگ کو حمایت کرنے کے لئے جمعیۃ علما سے الگ ہوگیا تھا۔
عارف محمد خان کے مطابق میٹنگ
کی رودار پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کے نظریاتی طور پر دونوں گروپوں کے خیالات یکساں
تھے اور ان کی لڑائی اس بات پر محدود تھی کہ ان کے مفادات کا خیال کہاں رکھا جائے گا
ہندوستان میں یا پاکستان میں ۔
آیات کا غلط استعمال
اپنے اور سیاسی فائدہ کے مدنظر
مسلم لیگ کی حمایت میں جواز پیش کرنے کےلئے مولانا شبیر احمد عثمانی نے مذہب کا غلط
استعمال کیا اور سبھی غیر مسلموں کو کافر اور سبھی مسلمانوں کو ان کے خلاف متحد ہونے
کا اعلان کیا۔
ظاہر ہے آج کل اس لفظ کا
استعمال صرف غیر مسلموں کے لئے نہیں ہورہا ہے بلکہ سبھی فرقہ کے مسلمان دوسرے فرقے
کے مسلمان کو کافر اور اسلام کے لئے ان کا خاتمہ ضروری بتارہے ہیں۔
قرآن اس مسئلے پر کیا کہتا
ہے؟ عارف محمد خان لکھتے ہیں کہ علما کے برعکس قرآن یہ تسلیم کرتا ہے کہ تمام انسان
اللہ کی مخلوق ہیں۔ قرآن ایسے افراد اور گروہوں کے لئے کافر لفظ کا استعمال کرتا ہے
جو حق سے انکا ر کرتے ہیں اور ظلم وستم اور فساد میں ملوث ہیں۔ قرآن لفظ کافرکی اصطلاح
کو کسی مذہبی گروہ یا طبقے کے لئے استعمال نہیں کرتا ہے۔
عارف محمد خان اسلامی انتہا
پسندوں اور مذہب کے نام پر تشدد کرنے والوں
کو چیلنج کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام ضبط اور پرفکر عمل پر زور دیتا ہے ۔عارف محمد
خان کہتے ہیں کہ قرآن میں دو درجن سے بھی زائد آیتیں ہیں جو مذہب اور دیگر معاملات
میں اعتدال کی تلقین اور انتہا پسند انہ رویہ کی مذمت کرتی ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن میں پانچ
سو سے زائد آیات میں مسلمانوں کو غور وفکر اور صبر کی تعلیم دی گئی ہے۔ عارف محمد
خان کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا
ہے کہ ایک گھنٹے کی غور فکر ستر ّسال کی عبادت سے افضل ہے۔
عارف محمد خان لکھتے ہیں کہ
‘اسلامی تعلیمات اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتوں نے اب تک نا معلوم موضوعات
پر علم کےلئے ایک نہ بجھ سکنے والی پیاس پیدا کردی ہے۔ اسلام مذہبی اور قدرتی سائنس
کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا ہے۔ اس کے برعکس علم اور جہالت میں امتیاز کرتا ہے’
اسلام کے انہیں پہلوؤں نے
مسلمانوں کو سائنس ،فلسفہ اور دانشور انہ بہادری کا پیروکار بنایا جس سے مشرق کا علم
یوروپ پہنچا اور انقلاب برپا کرنے میں مدد کی۔
اصلاح کا راستہ
عارف محمد خان کی کتاب مسلمانوں
کے ماحول اور دیگر طبقات کے درمیان ہم آہنگی کے لئے ہندوستانی اصلاح پسندوں جیسے سر
سید احمد خان اور مولانا ابو الکلام آزاد کی تحریروں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
کتاب میں سر سید احمد خان
کے امرتسر میں دئے گئے بیان کو درج کیا گیا ہے‘کالج واقعی قومی تعلیم کے لئے ہیں اور
قوم سے میری مراد کسی ایک طبقے سے نہیں ہے کہ بلکہ ہندو اور مسلمانوں سے ہے۔ ان دونوں
کو اس ادارے میں پڑھنا اور اچھے آداب سیکھنا چاہئے ۔ہم اپنے کو ہند ویا مسلمان کے
طور پر بیان کریں گے، لیکن غیر ملکی ہمیں ہندوستانی ہی بلائیں گے۔
مولانا ابو الکلام نے مزید
ایک قدم آگے بڑھ کر 1923میں کہا تھا ۔ ایک ہزار سال کی ہماری مشترکہ زندگی نے ہمیں
ایک قوم میں تبدیل کر دیا ہے ۔ اسے مصنوعی طور پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔قدرت اپنے پوشیدہ عمل کے ذریعہ صدیوں میں فطرت
کو تبدیل کرتی ہے۔فیصلہ ہوچکا ہے اور قسمت نے اس پر اپنی مہر ثبت کردی ہے۔ ہم اسے پسند
کریں یا نہ کریں ، اب ہم غیر منقسم ،متحد اور ایک ہندوستانی قوم بن گئے ہیں۔ مولانا
آزاد صدی کی ایک چوتھائی بعد ہی ہندوستان کو غیر منقسم کہنے میں غلط ثابت ہوگئے ۔لیکن
چھ دہائی بعد ‘اسلامی’ پاکستان کی ایک ملک کے طور پر ناکامی اور دور جہالت کی یاد دلانے
والے ایک ایسے ملک میں تبدیلی جہاں قبائلی جنگ اور لاقانونیت ہو، اس کے برعکس ہندوستان
کے عالمی طاقت بننا اور یہاں مسلمانوں کا اپنے ہم سایوں کے ساتھ امن سے رہنا ، بتاتا
ہے کہ ان کے خیالات صحیح تھے۔سرسید احمد خان او رمولانا ابوالکلام آزاد دونوں کو عالموں
نے نام نہاداورغیر اسلامی تعلیمات پرعمل کرنے والا بتا کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
تاریخ خود کو دہراتی ہے ،اور عارف محمد خان جیسے لوگ اسلام کو لڑنے والے اور متصب کی
جگہ متحمل اور روشن خیال مذہب کے طور پر پیش کرنے کے سبب اسی طرح کے الزمات کا سامنا
کررہے ہیں۔
یہ لڑ کپن اورہٹ دھرمی ہی
ہے جس نےاسلام کے لئے خوف پیدا کیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان اور
پوری دنیا میں امتیاز کا سلوک کیاجا رہا ہے اور ان پر حملے ہورہے ہیں ، اور اس سے مسلمانوں
میں مظلومیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اسی احساس پر مسلم لیڈر اور مسلمانوں سے ہمدردی
رکھنے والی سیاسی جماعتیں اپنا کھیل کھیلتی ہیں۔
عارف محمد خان کو 1986میں
بطور کابینہ وزیر مستعفیٰ ہونا پڑا جب یاد گار شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے
کو پلٹتے ہوئے کانگریسی حکومت برے کام میں عالموں کی مدد کررہی تھی۔ یہ کمزوری کا وہ
موقع تھا جس کےاثرات اب بھی ہندوستانی مسلمان محسوس کرتے ہیں۔ اپنے مفاد کے لئے کام
کرنے والے عالم ویسے رہیں گے جیسے وہ ہمیشہ تھے، لیکن مسلمان اس سے اپنا منھ موڑ سکتے
ہیں ، کیو نکہ وہ مناسب سیاق وسباق میں قرآن کے بتائے مشکل راستے پر چلنا شروع کرسکتے
ہیں۔
انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن
،نیو ایج اسلام
URL : https://newageislam.com/urdu-section/let-quran-speak/d/5537