ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
1مارچ،2024
اب کچھ ان مسائل پر گفتگو
کا آغاز کرتے ہیں جن پرکھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے اس پرکوئی بات
ہی نہیں ہورہی ہے! عوام وخواص سب کواس عمل میں فریق بنانے میں مزید تاخیر علمی،
عقلی وقلمی زیادتی ہوگی، جس کا مرتکب ہونے کے لئے یہ نا چیز آمادہ نہیں! آئیے
سیدھے چلتے ہیں ان مقامات مقدسہ کی موجودہ حیثیت کے تعلق سے جن کوآئین ہند کی رو
سے عبادت گاہ اور ہم مسلمانان مساجد کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ سلسلہ او را س کی
شروعات بابری مسجد کے تنازعے سے ہوتی ہے جس کی تفصیل نیچے آرہی ہے۔بابری مسجد، اس
کے نشیب وافراز، مذاکراتی عمل کی ناکامی، افہام وتفہیم کی زمین اور اس کا فقدان،
معاشرتی تبدیلیاں، ہندو مسلم منافرت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اوراس کے تدارک کی
کوئی صورت کا ناپید رہنا،یہ سب عوامل اپنی جگہ قابل غو ر ہیں۔ البتہ ایسے تنازعات
کا نہ تھمنا،قومی سیاست، ثقافت اور مزاج کا ان کی نذر ہوجانا اور ان کے معمولات
زندگی، روزگار، تجارت،رہائش اور سفر پر پڑتے مہلک اثرات اب ایک جامع طرز عمل اور
طرز فکر کی تشکیل کے متقاضی ہیں۔ اس تنازعہ کے الجھاؤ اور سب کی سے پوری ملت کو
گزرنا پڑا، بنااس کودرمیان میں رکھے او را س سے سبق پڑھے کوئی پیش قدمی ممکن ہی
نہیں!
ایو دھیا میں 1528 میں
شہنشاہ بابر کے گورنر میر باقی نے ایک مسجد تعمیر کروائی،1856 میں پہلی بار ہندو
او رمسلم تنازعہ 1859 میں برطانوی انتظامیہ نے ہندو فریق کو مسجد کے باہری حصے میں
رام چبوترہ تعمیرکرنے کی اجازت مسجد اور چبوترے کے درمیان ایک باڑھ لگانے کو کہا
گیا،22 دسمبر 1949 کو ایک بھیڑ کے ذریعہ مسجد کے اندر رام اور سیتا کی مورتیاں
رکھی گئیں، ملکیت کو لیکر ہندو فریق پہلے عدالت پہنچا،17دسمبر 1961 کو سنی وقت
بورڈ کا مورتیوں کو مسجد سے ہٹانے کے لئے عدالت سے رجوع، 1984 میں وشوہندو پریشد
کا تالہ کھولنے کا مطالبہ 1986 میں ضلع جج کے حکم پرتالہ کھلنا، 1987 میں تمام
مقدمات کی الہ آباد منتقلی،1989 میں رام للا فریق کا سامنے آنا، 1990 میں رتھ
یاترا،1991 میں مرکز میں نرسمہا راؤ کی حکومت، اتر پردیش میں کلیان سنگھ دوتہائی
اکثریت سے برسراقتدار،2ایکڑ 77 بیگہ مسجد کے ارد گرد کی زمین سرکاری تحویل میں،
اکتوبر 1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ کاایکٹ،1992 میں مسجد شہید، 1910 میں الہ
آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ، مسجد کے دو حصے مندر کے لئے او ر ایک تہائی مسجد کے لئے۔
معاملات گفت وشنید سے طے نہیں ہو پائے۔
عدالت اعظمیٰ نے مسجد کے
حق میں تمام دلائل او رمنطق کی موجودگی کے باوجود ایک ایسا فیصلہ دیا جس کی ہماری
عدالتی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں۔ اکثریتی عقیدے کو ترجیح دیتے ہوئے ملکیت کا
فیصلہ اس کے حق میں صادر کردیا اور مسلم فریق کو وہاں سے تیس کلو میٹر کے فیصلے پر
ایک جگہ دے کر اسے اس کے جائز حق ملکیت سے بے دخل کردیا گیا۔
عدلیہ او را س کا مزاج
سامنے ہے! قانون کی بے بسی سامنے ہے! ماحول کے اشارے واضح ہیں! جو ایک مرتبہ ہوا
وہ بار بار نہ ہوگا۔ اس کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ اکثریتی مزاج میں اس جانب جو
جارحانہ رجحان پیدا ہوگیاہے، نام نہاد سیکولر اکثریت آپ سے اپنا ہاتھ اٹھا چکی ہے،
وہ کہتی ہے کہ مسلمانان ہند او ران کی قیادت نے اگر ایک معاملے میں بروقت ہمارے
ہاتھ مضبوط کردیئے ہوتے تو ہم کسی قابل رہتے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی جو کل ایک
ایودھیا تک اپنے موقف کو محدود رکھے ہوئے تھے اب وہ بھی تین کی طرف باضابطہ کھسکتے
دکھائی دے رہے ہیں۔ کاشی، متھرا اب مدعے بن چکے! ادھر کئی ہزار مسجدوں کی بات بھی
کان میں پڑرہی ہے۔ وہ ایکٹ جس کا بہت ذکر ہے اس کا اصل مضمون خصوصاً یہاں شامل
کررہا ہوں! ہائے بے بسی!
پلیسز آف ورشب ایکٹ تمام
عبادتگاہوں کی 15/ اگست 1947 کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ضمانت دیتاہے۔ ایودھیا
تنازعہ اس میں شامل نہیں،بقیہ تمام کا تحفظ شامل ہے۔ وہ زمین پر عملاً ناکام
ہوچکاہے۔ بدقسمتی سے اس وقت اس ایکٹ کی مسلم اراکین لوک سبھا نے مخالفت کی اور اس
کا بائیکاٹ کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس ایکٹ کو ہماری آئین کی نویں شیڈیول
آرٹیکل 31۔بی کے ماتحت لاکر قطعی (Immunity) حیثیت دے دیئے جانے
اپنی حمایت کومشروط کیا جاتا، تاکہ اس کا اطلاق اورنفاذ قطعی ہوجاتا او رمحض آئینی
ترمیم ہی اس کی حیثیت کوتبدیل کرپاتی جو ایک مشکل کام ہوتا۔
مسئلہ آج کہا ہے؟ ماحول
میں کدورت اور منافرت گھلی ہوئی ہے، قومی قیادت او ربرسراقتدار جماعت کا اپنا
مستقل نظریہ ایجنڈا اور نصب العین ہے۔ اس کے حامیوں کی اپنی ذہنیت،نفسیات وترجیحات
ہیں۔ ایک طرف یہ عوامل کسی بھی تجریے کاحصہ بنیں تو دوسری طرف مسلمانان ہند اور
ایک اقلیتی وحدت کے طور پر حالات کا ہمہ جہت جائزہ لیں تاکہ کسی مستقل رخ کا تعین
ممکن ہوسکے؟
یہ چند نکات بھی ہمارے
پیش نظر رہیں۔ اول مسلمانان ہند آج مکمل حاشیے پر ہیں، جن پر ان کاہمیشہ تکیہ رہا
ہے۔وہ ان کو یا تو جیب میں ڈال دیا ہے یا پھر وہ ان تنازعات میں آپ کا فریق بننے
سے دستبرداری کا عملاً اظہار کرچکے ہیں۔ فضا میں آلودگی اس حد تک ہے کہ تمام ادارے
اور ان کی نفسیات ماحول کی مکمل گرفت میں ہیں۔ عملاً حالات مذاکرات و معاملات
افہام وتفہیم کے متقاضی ہیں جب کہ زمین پر ایسی کسی کوشش کا کہیں شائبہ بھی نہیں!
قیادت سے سوال ہے کہ کیا
ایسے ہی سب چلتا رہے گا او رچلنے دیا جائے گا۔ یا پھر کسی دیگر فکر کے ہم متحمل
ہوسکیں گے؟وہ فکر کیا ہے جسے معاملہ فہمی کہا جاتاہے؟ ایک وقت ایک مسجد کی بات
تھی۔بقیہ پرمعاہدہ اور قانونی تحفظ کا امکان تھا۔ اب پانی اتنا بہہ چکا کہ بات دو
اور اس سے زیادہ پر آگئی ہے، ذکر ہزاروں کاہے۔ کیایہ سلسلہ ایسے ہی بڑھتا جائے گا
یا اس پر لگام لگے گی؟ معاشرے میں منافرت کم ہو، آپسی خیر سگالی پھر سے بحال ہو،
باہمی رشتوں کی گرماہٹ واپسی لوٹے اور ہر وقت کی نفرت او رآپسی کھینچاؤکا خاتمہ
ہو۔ اس جانب قیادت کوئی کردار رکھتی ہے یا معصوم عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا
گیاہے قیادت مسائل کیا کرتی ہے، انہیں پیچیدہ نہیں بناتی!
میراا وّل وقت سے ایک
مشورہ رہا کہ جب کوئی حساس مسئلہ وجود میں آتا ہے تو قیادت کی دو ذمہ داری ہوتی
ہے۔ پہلی کہ اس مسئلے کے حدود ووقابو سے باہر نہ ہوجائیں۔ دوسرے معاشرے او رسیاست
پر اس کے اثرات کسی بڑی مشکل کا سامان نہ کردیں۔ بدقسمتی سے ربڑ کو اتنا اور اس
طرح کھینچا گیا کہ جو ہاتھ لگا وہ سب کے سامنے ہے۔مسجد کی شہادت ان گنت مسلم کش
فسادات، ہزاروں شہادتیں، اقتصادی تباہی،ماحول میں بے اعتمادی اور سب سے بڑھ کر ہر
فرنٹ پرپسپائی!
میرا آج پھر یہ کہناہے کہ
سرجوڑ کر بیٹھیں،عدلیہ پرتکیہ مزید کرنا اب سوائے نادانی کے او رکچھ نہیں۔ اسلام
ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ امن، صلح او رسلامتی کا دین ہے۔ فتنہ، فساد اور قتل
وغارتگری کے حوالے سے نجات دہندہ ہے۔عزت نفس کے ساتھ پروقار زندگی،جان، مال، آبرو،
عقیدہ،تہذیب وثقافت، اداروں کا معمول کے مطابق چلنا، ترقی کے عمل کا پرامن ماحول
میں جاری رہنا، مذہبی آزادی کا معمول،دعوت دین وتبلیغ دین کی بقا او ربنا روک ٹوک
ان پرچلتے رہنا،خوف کے ماحول کا باہمی اعتماد میں تبدیل ہونا، مساجد، مدارس،مقابر،
خانقاہوں، مزارات ودیگر مقامات مقدسہ پر آتی ہوئی آنچ پر قدغن لگانے کے لئے ایک
جامع پہل درکار ہے۔ ایسی پہل جو ایک طرف ماحول کی گرمی کو کم ترکرے تو دوسری طرف
ملت کے وہ رفیق کا رجو ہم سے کنارہ کرچکے ہیں۔ ان کو بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہونے کی
زمین مل سکے۔ یاد رکھیں اب وطن عزیز میں ہندو نفسیات کی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر
آگے آنے کی جرأت کرنے والا سوائے بائیں بازو
کے چند سیاستدانوں کے کوئی بچا نہیں اور وہ خود بھی دیوار سے لگ چکے ہیں۔
مجموعی قومی صورتحال میں
جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنا اور عوام کو بالعموم آور مسلمانان ہند کو بالخصوص
محفوظ مستقبل کی ضمانت دینا اب ملک وملت کے قائدین کی مشترکہ بصیرت کا امتحان ہے۔
1 مارچ،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism