معصوم مرادآبادی
17اگست،2023
بنارس کی گیان واپی مسجد
کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھانے کے بعد اب فرقہ پرستوں کی نظریں متھرا کی شاہی
عیدگاہ پر لگی ہوئی ہیں۔ گیان واپی مسجد کی طرز پرشاہی عیدگاہ کا بھی سائنسی سروے
کرانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کو معاشرے میں بے
چینی پیداکرنے کا سبب قرار دے کر مسترد کرچکا ہے مگر اس وقت ملک میں تاریخی مسجدوں
او رمسلم دور حکومت کی عمارتوں کو متنازعہ بنانے کی جو شرانگیز مہم چل رہی ہے اس
میں کب کیا ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
مجھے یاد ہے کہ جس وقت
ملک میں بابری مسجد بازیابی تحریک اپنے شباب پر تھی توہمارے کچھ دانشوروں کی رائے
تھی کہ اگر ایک مسجد دے کر امن وچین حاصل کیا جاسکتا تو مسلمانوں کو یہ قربانی دے
دینی چاہئے۔ کئی لوگ اس کے حق میں بھی تھے۔ یہ درحقیقت صورتحال کا ایک سرسری تجزیہ
تھا اور ایسا کہنے والوں کو اصل سازش کا علم نہیں تھا۔ وشوہندوپریشد نے جس وقت رام
جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا تو اس کا نعرہ تھا یہ بس ایک جھانکی ہے،کاشی،متھرا
باقی ہے۔ انتا ہی نہیں اس وقت وشو ہندو پریشد کے ہاتھوں میں تین نہیں تین ہزار
تاریخی مسجد وں کی فہرست تھی، جو ان کے خیال میں مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں۔لہٰذا
بابری مسجد بازیابی تحریک کے دوران دور اندیش لوگوں کا یہی خیال تھاکہ مسلمانوں کو
اپنے دستوری حقوق کی لڑائی آخری مورچے تک لڑنی چاہئے۔بابری مسجد بازیابی تحریک سے
مسلمانوں کو فائدہ ہوا یا نقصان؟اس موضوع پربحث ہوسکتی ہے، کیونکہ ایک طبقے کا
خیال تھا کہ مسلم قیادت نے بابری مسجد کے مسئلہ کو سڑکوں پر لاکرفرقہ پرست اور
فسطائی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تحریک صحیح خطوط پر چلی
یانہیں،یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ یہ اس ملک میں مسلمانوں کی آخری مزاحمتی تحریک
تھی۔
بابری مسجد عدالت کے
راستے سے مسلمانوں سے چھین لی گئی،لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے فیصلے میں
اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اسے بابری مسجد کے نیچے کسی مندر کے کوئی ثبوت نہیں ملے
اور نہ اس بات کا کوئی سراغ ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔
اتنا ہی نہیں عدالت نے بابری مسجد کے انہدام کو مجرمانہ سرگرمی سے بھی تعبیر کیا،
لیکن اس باوجود ملک میں تاریخی مسجدوں کے نیچے مندر تلاش کرنے کی خطرناک مہم شباب
پر ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں عدالتیں شرپسندوں کی ہمنوائی
کررہی ہیں۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کا سائنسی سروے عدالت عالیہ اور عدالت اعظمیٰ
کی نگرانی میں ہورہا ہے۔ اس سے قبل گیا ن واپی مسجد کے حوض کے فوارے کو نام نہاد
شیولنگ قرار دینے کی کوششوں کو بھی ایک مقامی عدالت نے ہی پایہ تکمیل تک پہنچا یا
تھا۔ اب فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کا رخ متھرا کی انتہائی خوبصورت شاہی عیدگاہ
کی طرف ہے۔متھرا کے ایک ٹرسٹ نے اورنگزیب کی تعمیر کردہ شاہی عیدگاہ کا سائنسی
سروے کرانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ واضح رہے کہ بنارس کی گیان واپی
مسجد کی طرز پر ہندو انتہا پسند تنظیموں نے متھرا میں شاہی عیدگاہ کو ہٹانے کیلئے
مقدمہ دائر کررکھا ہے۔
سال رواں کے شروع میں
یوپی کی ایک ذیلی عدالت اور الہٰ آباد ہائی کورٹ نے شاہی عید گاہ کے سروے کے لئے
ہندو ٹرسٹ کی درخواست کو مستر د کردیاتھا جس کے خلاف مذکورہ ٹرسٹ نے سپریم کورٹ
میں اپیل دائر کی ہے۔ٹرسٹ نے سپریم کورٹ میں متھرا کی شاہی عیدگاہ کے بارے میں
اپنے دعوے کو یقینی بنانے کے لئے سائنسی سروے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرسٹ
نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم فریق اس جگہ پر نماز ادا کررہا ہے، احاطہ کو بیت الخلاء
کے طور پر استعمال کررہا ہے او ر ٹرسٹ کے ذریعہ مقدس سمجھی جانے والی جگہ پر
پریشانیاں پیدا کررہا ہے۔ درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا گیاہے کہ ہندو
علامتوں، مندر کے ستونوں او رمندر کے دیگر اہم عناصر کی مسلسل کھدائی اور اس کا
تباہ کیا جارہا ہے۔ٹرسٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان سب باتوں کی وجہ سے اس مقام
کے تقدس اور ثقافتی ورثہ کو نقصان پہنچا ہے۔ جنریٹر کے استعمال سے دیوار میں
دراڑیں نظر آرہی ہیں۔ اس لئے عدالت کو کمشنری کی تقرری پر غور کرناچاہئے وغیرہ
وغیرہ۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو
پائیں گے کہ بی جے پی اقتدار میں منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کو دیوار
سے لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں صفر بنانے کے علاوہ
انہیں پڑمردگی کا شکار بنانے کے لئے ان کی مذہبی اور ثقافتی پہچان پر جو لگاتار
حملے ہورہے ہیں وہ اس حکمت عملی کے تحت ہیں۔ یہاں جان ومال اور جائداد کی بربادی کا
حال بھی بیان کیا جاسکتا ہے جس کانظارہ آپ نے حال ہی میں ہریانہ کے میوات علاقہ
میں دیکھا۔حکمران وقت چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اتنا بے بس او ر لاچار کردیاجائے
کہ وہ جان ومال کی حفاظت کی خاطر اپنی مذہبی شناخت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار
ہوجائیں۔ یکے بعد دیگرے ان کی عبادت گاہوں پر حملے اسی حکمت عملی کے تحت ہورہے
ہیں۔یہاں تک کہ مسجدوں کو وجود مٹانے کے لئے انتظامی حربے بھی اختیار کئے جارہے
ہیں۔ نئی دہلی کے سنہری روڈ پر واقع 150 سالہ قدیم سنہری مسجد کو ٹریفک کی آمدورفت
کے مقصد سے مسمار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ دہلی وقف بورڈ نے اس کے خلاف عدالت
عالیہ سے رجوع کیا ہے۔قابل غو ر بات یہ ہے کہ نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے عدالت
میں اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سنہری باغ مسجد 150 سال پرانی ہے لیکن اسے ٹریفک کی
آمد ورفت کو ہموار بنانے کے لئے ہٹایا جانا لازمی ہے۔دہلی وقف بورڈ اس مسجد کے
انہدام کی کوششوں کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کررہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب یہ
مسجد تعمیر ہوئی تھی تویہاں کوئی سڑک نہیں تھی۔ اس کے چاروں طرف سڑکیں بعد میں
تعمیر کی گئی ہیں، لیکن اب اس مسجد کاوجود ہی مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔اس
مسجد کا بھی سروے ہوچکا ہے جس میں متعلقہ افسران نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مذہبی
ڈھانچے کو ہٹانے یا منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ دہلی میں کئی
مقامات پر سڑکیں چوڑی کرنے کی غرض سے مزاروں کو منہدم کیا جاچکا ہے۔سوال یہ ہے کہ
کیا یہی سب کچھ دیگر عبادت گاہوں کے معاملے میں بھی ہوسکتا ہے؟
یہاں بنیادی سوال یہ ہے
کہ جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون مجریہ 1991 موجود ہے تو پھر عدالتیں
مسجدوں کے خلاف عرضیاں کیوں قبول کررہی ہیں؟ قابل غور بات یہ ہے کہ بنارس کی گیان
واپی مسجد کے معاملے میں جب ذیلی عدالت میں یہ دلیل دی گئی تھی تو عدالت نے کہا
تھا کہ یہ قانون عبادت گاہوں کے سروے سے نہیں روکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا
ہماری عدالتیں اتنی سادہ لوح ہیں کہ وہ ان کوششوں کے پیچھے کار فرما مقاصد کو
سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے سپریم کورٹ میں عبادت
گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کو بھی چیلنج کررکھا ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ
کے اصرار کے باوجود مرکزی حکومت نے ابھی تک اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ وہ اس
معاملے میں ٹال مٹول کی پالیسی پرگامزن ہے۔
17 اگست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism