New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 12:21 AM

Urdu Section ( 11 Jan 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Latif Alma Shamsi’s Journey: From Kako in Bihar, to the Pinnacle of Urdu Literature سید لطیف الما شمسی کا سفر: بہار کے کاکو سے اردو ادب کے شہسوار تک

سید امجد حسین، نیو ایج اسلام

 9 جنوری 2025

 سید لطیف شمسی، جو الما شمسی کے نام سے مشہور ہیں، بہار کے کاکو سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور مصنف، سیاست دان اور ثقافتی شخصیت تھے۔ ان کے ادبی کارناموں بشمول "کاکو کی کہانی الما کی زبانی" نے اردو ادب کو تقویت بخشی اور کاکو کے ورثے کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔

 اہم نکات:

1.      الما شمسی وائسرائے کے گھر میں پیدا ہوئے، اور ان کے تعلیمی پس منظر میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی سرپرستی میں کاکو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا شامل ہے۔

2.      آپ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے شاگرد تھے، اور آپ نے دیگر بڑے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ہندوستان کی سوشلسٹ پارٹی میں اہم کردار ادا کیا۔

3.      آپ نے کاکو کے اردو ادب اور اس کی میراث کو عزت دیتے ہوئے "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور میری داستان حیات" اور "کاکو کی کہانی الما کی زبانی" لکھی۔

4.      آپ نے اپنے ادب اور شاعری کے ذریعے کاکو کی تاریخ، ثقافت اور رسم و رواج کو دستاویزی شکل دی اور اس کی تشہیر کی۔

5.      آپ نے کئی نسلوں کو متاثر کیا اور آپ ان کے ذہنوں میں ایمانداری، قیادت، اور ادب اور معاشرے سے وابستگی کی ایک مثال کے طور پر ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

  ------

Letter from Indira Gandhi, then prime minister's Private Secretary Arjun Singh

------

 بہار کے جہان آباد ضلع کا ایک گاؤں کاکو، ایک زمانے سے اپنے ثقافتی ورثے اور ادبی خدمات کے لیے مشہور ہے۔ اس کی نمایاں ترین شخصیات میں سید لطیف شمسی ہیں جنہیں پیار سے الما شمسی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی اور خدمات نے ہندوستان کے ثقافتی، سیاسی اور ادبی مناظر پر اور بالخصوص اردو ادب کے حوالے سے ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

 سید آصف امام کاکوی کے مطابق، الما شمسی یعنی سید لطیف شمسی کی پیدائش وائسرائے ہاؤس (موجودہ راشٹرپتی بھون) کے اندر ایک اونچے خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد، اے ڈی شمسی، وائسرائے کے پرسنل سیکرٹری اور اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے ہندوستانی تھے۔ الما شمسی کی ابتدائی تعلیم ان کے آبائی گاؤں کاکو میں ہوئی، جس کے بعد انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

 وہ ایک اسکالر تھے اور انہوں نے ہندوستان کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کی رہنمائی میں پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اے ایم یو کے دوران ہی الما شمسی نے طلبہ یونین کے ذریعے اپنی فطری قائدانہ خوبیوں کا مظاہرہ کیا، اور اس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔

سیاسی خدمات

الما شمسی ہندوستان کی تحریک آزادی اور بعد میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر ایک سرگرم عمل شخصیت بنے رہے۔ وہ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے شاگرد تھے اور انہوں نے اندرا گاندھی، جارج فرنانڈس، ہیم وتی نندن بہوگنا، اور کرپوری ٹھاکر جیسے دیگر لیڈران کے ساتھ کام کرتے ہوئے، سوشلسٹ پارٹی میں زبردست خدمات انجام دیں۔

ادبی خدمات

الما شمسی نہ صرف ایک سیاسی شخصیت تھے، بلکہ ایک نامور مصنف اور شاعر بھی تھے۔ ان کی ادبی تخلیقات اردو ادب کا جزو لاینفک ہیں۔ ان کی دو سب سے زیادہ مشہور کتابیں، "علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور میری داستان حیات" اور "کاکو کی کہانی الما کی زبانی،" 2022 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہو چکی ہیں، جن سے ان کی علمی و فکری گہرائی و گیرائی اور ثقافت سے محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔

"علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور میری داستان حیات" کیمپس کے اندر ان کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، جس سے ان کی زندگی میں یونیورسٹی کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

 "کاکو کی کہانی الما کی زبانی" کاکو کی تاریخ، ثقافت اور ورثے کی ایک ضخیم دستاویز ہے، جس سے اپنی سرزمین کے لیے الما شمسی کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔

 الما شمسی کا کاکو سے شاعرانہ لگاؤ ان کے شعر عیاں ہے:

 "کاکو مجھ پر فدا میں فدائے کاکو

 کس آسمان کی طاقت ہے کہ ہم سے چھڑائے کاکو"

 الما کی علمی و فکری اور شخصی میراث

 الما شمسی کی زندگی ادبی چمک دمک، سیاسی مصروفیات اور ثقافتی لگاؤ کا حسین امتزاج تھی۔ اپنی دیانتداری، دور اندیشی اور قیادت کے لیے مشہور، الما شمسی کاکو اور اس سے ماوراء بے شمار لوگوں کے لیے نمونہ عمل تھے۔ لوگوں کو متحد کرنے کی ان کی صلاحیت اور سماجی بہبود کے لیے ان کی لگن، ان کی اپنی برادری میں ان کی خوب عزت افزائی کا باعث بنی۔

 ایک نابغہ روزگار کا گزرنا

 الما شمسی، 90 سال کی عمر میں، 8 جنوری 2025 کو اپنے آبائی گاؤں کاکو میں انتقال ہوئے۔ ان کی زندگی بڑی کامیاب تھی، جس کا اثر ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانے والوں کے دلوں میں ایک زمانے تک موجود رہے گا۔

 الما شمسی کو خراج تحسین

 لہٰذا میں، بہار کا باشندہ اور علم و ادب کا جہان اس غیر معمولی شخصیت سے آج محروم ہوگیا۔ وہ اپنے افکار و نظریات اور انسانیت کے لیے اپنی خدمات کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

 الوداع، الما شمسی؛ آپ کی زندگی اور تخلیقات اس ثقافتی نقشے اور اردو ادب کی دنیا میں چمکتی دمکتی رہیں گی۔

 -----

English Article: Syed Latif Alma Shamsi’s Journey: From Kako in Bihar, to the Pinnacle of Urdu Literature

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/latif-alma-shamsi-bihar-pinnacle-urdu-literature/d/134301

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..