New Age Islam
Wed Mar 26 2025, 12:14 AM

Urdu Section ( 12 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Changing Face of Lashkar-e-Jhangvi in Pakistan پاکستان میں لشکر جھنگوی کا بدلتا چہرہ

 نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 10 اکتوبر 2023

 لشکر جھنگوی کے جنگجوؤں نے اب پاکستان میں القاعدہ، طالبان اور آئی ایس آئی ایس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے تاکہ فوج اور عام شہریوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

 اہم نکات:

1.      بلوچستان میں عید میلاد النبی کے موقع پر حملوں کے پیچھے لشکر جھنگوی کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

2.      لشکر جھنگوی انجمن سپاہ صحابہ کی ایک مسلح شاخ ہے۔

3.      انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد مولانا حق نواز نے رکھی تھی

4.      2006 میں، لشکر نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کیا تھا۔

5.      2018 میں، اس جماعت نے ایک انتخابی ریلی پر بھی حملہ کیا تھا۔

6.      اس نے نواز شریف کے قتل کی بھی کوشش کی۔

 ------

The Baloch National Movement organises a three-day long exhibition showcasing about the history and violations of human rights in Balochistan during the 54th Session of the UN Human Rights Council in Geneva. | Representational image | ANI

------

 13 ربیع الاول کی صبح بلوچستان کے شہر مستونگ کے مسلمان عید میلاد النبی کی تقریبات میں نکالے جانے والے جلوس میں شرکت کے لیے ایک مسجد کے باہر جمع تھے۔ تبھی جلوس کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے دھماکہ کیا جس میں بچوں سمیت 55 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ اگرچہ کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبے میں داعش موجود ہیں۔

 واضح رہے کہ 2014 میں جب داعش نے عراق کے شہر موصل میں اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان کیا تھا اور اردو میڈیا کا ایک طبقہ اور کچھ اسلامی تنظیمیں ان کی جوب واہ واہی کر رہی تھیں تو پاکستان کے میڈیا اور اسلامی حلقوں نے اس پوری پیش رفت پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، القاعدہ اور طالبان جیسی متعدد عسکریت پسند اور انتہا پسند تنظیمیں پہلے سے ہی سرگرم عمل تھیں اور وہ اسی سلفی وہابی نظریے پر کاربند کسی نئی تنظیم کو جگہ دینا نہیں چاہتے تھے۔

 تاہم، جیسے ہی عراق اور شام سے داعش کا خاتمہ ہوا، اس نے مسلم دنیا کے دیگر حصوں میں بھی اپنے پاؤں پسارنے کی کوشش کی۔ بدلتے ہوئے حالات کی بدولت داعش نے افغانستان اور پاکستان میں قدم جمائے بھی۔ لیکن لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں سے تنگ آکر ان کے ارکان داعش اور القاعدہ کی پناہ میں آنے پر مجبور ہو گئے تاکہ وہ اپنی شناخت چھپا سکیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ نے انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں کیونکہ ان علاقوں میں حکومت کا کنٹرول مضبوط نہیں ہے۔

 آئی ایس آئی ایس کی نمو اور پاکستان میں اس کی توسیع سے قبل، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب کے کچھ علاقوں کے قبائلی خطوں میں لشکر جھنگوی مضبوط پوزیشن میں تھی۔ اسے انجمن سپاہ صحابہ کی مسلح شاخ مانا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد اس صدی کے شروع میں مولانا حق نواز نے رکھی تھی۔ یہ فرقہ وارانہ قتل و قتال کے علاوہ پاکستان کے کچھ بڑے دہشت گرد حملوں میں ملوث رہی ہے۔ 2006 میں کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر حملے میں اسی کا ہاتھ تھا اور 2018 میں اسی جماعت نے ایک انتخابی ریلی پر بھی حملہ کیا تھا۔ 2019 میں لشکر جھنگوی نے نواز شریف کے قتل کی کوشش بھی کی تھی۔

 جب پاکستانی فوج نے لشکر اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو وہ افغانستان فرار ہو گئے اور طالبان کا دامن تھام لیا۔ انہوں نے القاعدہ کے ساتھ بھی اتحاد کیا۔ اب انہوں نے آئی ایس آئی ایس سے بھی ہاتھ ملا لیا ہے اور شیعوں، فوج اور لڑکیوں کی تعلیم کے حق کی حمایت کرنے والوں کو قتل کر رہے ہیں۔

 اس لیے عید میلاد النبی کے جلوس پر خودکش حملہ ان دہشت گردوں کی کارستانی معلوم ہوتی ہے جو سلفی نظریے کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ہم خیال بنیاد پرست تنظیموں کے ساتھ ہمیشہ ساز باز کرتے رہتے ہیں۔

 پروین سوامی کے درج ذیل مضمون میں شیعہ مخالف انتہا پسندی سے سنی مخالف انتہا پسندی کے ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

----

 بلوچستان میں داعش کا عروج، پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ یہ جنگ جیت سکے

 از، پروین سوامی

 04 اکتوبر 2023

 1886 میں خاران کے قدیم شہر میں داخل ہوتے ہوئے، جب وہ بلوچستان سے ہوتے ہوئے افغانستان اور فارس کی سرحدوں تک عظیم صحرائی تجارتی راستے سے گزر رہے تھے، نوآبادیاتی سرکاری ملازم جارج ٹیٹ نے راستے کی حفاظت کرنے والے دو ستونوں کا مشاہدہ کیا: اندر، دو آدمیوں کو پٹے سے باندھ کر زندہ دفن کیا گیا تھا۔ ٹیٹ نے لکھا، "یہ لوگ ایک جوڑے بہت ہی عمدہ گدھوں کے مالک تھے جن پر ان کے قبیلے کے سردار کی نظر تھی۔" مردوں نے اپنے انعامی گدھے لے کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑے گئے۔

 مقامی باشندوں نے ٹیٹ کو بتایا، "سربراہ ان کے ساتھ کافی نرمی کا مظاہرہ کر رہا تھا، "چونکہ ان کے سروں پر ستون مکمل ہونے سے عین قبل ان گمراہ افراد میں سے ہر ایک پر، جنہوں نے اپنی جائیداد پر اپنا حق جتانے کی جرأت کی تھی، کلہاڑی کے ہینڈل سے ایک زوردار وار کیا گیا۔"

 گزشتہ ہفتے، مبینہ طور پر اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک وحشیانہ حملہ انجام دیا، جس کے نتیجے میں پیغمبر اسلام کے یوم پیدائش کے موقع پر نکالے گئے جلوس میں شامل کم از کم 55 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اگرچہ جہادیوں کے ہاتھوں پاکستان میں شیعہ اقلیت کا کئی مرتبہ قتل عام ہوا ہے، لیکن داعش، بریلویوں کے جلوس میں شریک ہونے جیسی مذہبی روایات کی مخالفت میں کافی جارحانہ رخ اختیار کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

 اگرچہ بلوچستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی طاقت پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہی ہے۔ نوآبادیاتی دور میں بنائے گئے خام ریاستی ڈھانچے، جنہیں پاک فوج کی طاقت حاصل ہے، بکھر رہے ہیں— جس سے جہادیوں، منشیات فروشوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کو اس خلا کو پر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ معاشی انحطاط اور سیاسی بحران سے دوچار پاکستان کے پاس اب اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو سنبھال سکے۔

 مستونگ میں ہونے والے اس بم دھماکے کا یقیناً اسلامی شریعت سے کوئی تعلق ہے: طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ آخندزادہ سیفی کے رکن ہیں، جو کہ ایک صوفی سلسلہ ہے جس کے پیروکار افغانستان کے اندر ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم، یہ قتل عام بلوچستان بھر میں نسلی پشتون برادریوں اور ان کی قیادت کو دھمکانے کی ایک کوشش بھی ہے۔

 اس موسم گرما کے شروع میں، نسلی پشتون سیاست دان محسن داور نے جہادی قاتلوں کی بڑھتی ہوئی طاقت پر تشویش کا اظہار کیا تھا جو معاشرے کے اہم اداروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ داور نے کہا تھا کہ مقامی رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کاروباریوں اور صنعت کاروں سے بھتہ وصولا جا رہا ہے: "لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور ان کی ویڈیو بنا کر آن لائن پوسٹ کی جارہی ہے۔"

اسلامی ریاست کا عروج

 پاکستان میں داعش کی پیدائش کس طرح ہوئی یہ سب نے دیکھی، کچھ خوش ہو رہے تھے اور کچھ خاموش تھے۔ 2009 میں اسلحے سے لیس پچاس مردوں نے تین خواتین کو گھسیٹ کر ان کے گھروں سے باہر نکالا اور انہیں برہنہ حالت میں لاہور کے ایک گاؤں کی گلیوں میں گھمایا۔انسانی حقوق کے تفتیش کاروں نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ ان خواتین کے چہروں پر سیاہی ملی گئی تھی اور "بچوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ لاٹھی مار کر ان کی تذلیل کریں۔" پولیس کے پہنچنے کے بعد خواتین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف جسم فروشی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

 مقامی اسلام پسند رہنما انتظار الحق کی قیادت میں، پنجاب کے لشکر جھنگوی نے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس کی حکمرانی پاکستانی ریاست پر نہیں، دل کی سرزمین پر ہے۔ اور مقامی سیاست دان بنیاد پرستوں کے پیچھے کھڑے تھے۔

 1984 میں اس وقت کے ایک غیر معروف عالم مولانا حق نواز جھنگوی نے پنجاب کے شہر جھنگ میں انجمن سپاہ صحابہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ جنرل ضیاء الحق کے اسلام پسند منصوبوں سے برطرف، انجمن ان متعدد تنظیموں میں سے ایک تھی جو شرعی خطوط پر پاکستان کی تعمیر نو کے لیے کوشاں تھیں۔ تنظیم کی مسلح شاخ، لشکر جھنگوی نے شیعہ برادریوں ان کی مساجد اور ساتھ ہی ساتھ پولیس کو بھی نشانہ بنایا۔

 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو قتل کرنے کی ان کی ناکام کوشش کے بعد حکام نے لشکر جھنگوی پر اپنا شکنجہ مضبوط کر لیا۔ اس وقت اس کی قیادت نے طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں پناہ لی، جن کی نائن الیون کے بعد اس وقت وطن واپسی ہوئی جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے پاکستانی جہادیوں کو گھر واپسی کا موقع فراہم کیا۔

 لشکر جھنگوی کے ساتھ ساتھ دیگر نسلی پنجابی جہادی دھڑے بھی شمالی مغربی پاکستان میں پھیلے طالبان سے منسلک تحریکوں میں شامل ہو گئے۔ اسکالر قندیل صدیقی نے لکھا کہ، 2009 تک، پاکستانی طالبان نے مٹہ، میدان اور کالام جیسے علاقوں میں تھانوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا، اور یہاں تک کہ ایک متوازی پولیس فورس بھی چلانے لگ گئے تھے۔ اور ان کے دور میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے پر خواتین کو جیل بھیج دیا گیا اور لڑکیوں کے اسکولوں کو اڑا دیا گیا۔

 آخر کار فوج کے خلاف طالبان کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں سے تنگ آکر پاکستان، طالبان کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں جنگ کا اعلان کر دیا۔ طالبان دوبارہ اپنے پرانے طالبان اتحادیوں کی مدد سے سرحد پار افغانستان فرار ہو گئے۔ کچھ وقت کے لیے، راولپنڈی کے جرنیلوں نے خود کو ہی مبارکباد دی، اور یہ سمجھا کہ ان کے طالبان حاشیہ نشین خاموش بیٹھے رہیں گے۔

داعش کی اقتصادی پالیسیاں

 نسلوں سے، ہم ٹیٹ جیسے نوآبادیاتی حکام کی تحریروں سے جانتے ہیں کہ افغان-بلوچ سرحدوں پر ڈاکہ زنی ہی نوآبادیاتی دور میں جینے کا سہارا تھی۔ ٹیٹ کی کہانیوں میں 1899 میں سرحدی محافظوں کے ہاتھوں گولی سے ہلاک ہونے والے دو ڈاکوؤں کی کہانی بھی موجود ہے، جنہیں ریت میں یونہی دفن کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ، ریت نے دوسرے ڈاکو کے زخم پر مرہم کا کام یا۔ جو بعد میں صحت یاب ہو کر اپنی قبر سے باہر نکلا پھر وہاں سے گزرنے والے مسافروں نے اس کی جان بچائی۔

 ٹیٹ نے لکھا "شاید کیمپ میں موجود ہر بلوچ نے اسے کھانا دیا،" "اور ایک وقت وہ اس جگہ کا شیر تھا۔" انہوں نے لکھا کہ "ڈاکہ زنی ایک ایسا پیشہ تھا جس میں لمبے اور معزز شجرہ نسب کا آدمی ہی داخل ہو سکتا تھا۔" "چھوٹی موٹی چوری کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔"

اگر چہ، اس خاص ڈاکو نے فیصلہ کیا کہ اب میں زندگی بھر ڈاکہ زنی نہیں کرونگا اور کھیتی کسانی کر کے زندگی بسر کرونگا کیونکہ میں اپنی قسمت کو کافی آزما چکا ہوں۔

 اقتصادی تاریخ دان تیرتھنکر رائے کی افغانستان پر ایک لاجواب کتاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کا تشدد حالات کی وجہ سے تھا۔ جیسے جیسے اقتصادی طاقت ایشیا کے عظیم بندرگاہی شہروں میں منتقل ہوئی، وہ تجارتی راستے جو کہ افغان-فارس سرحدوں سے گزرتے تھے متروک ہو گئے۔ نئی نوآبادیاتی طاقتوں نے سرحدی علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے میں کوئی خاص عقلمندی نہیں دیکھی اور انہیں بندرگاہوں سے جوڑنے کے لیے سڑکوں یا ریلوے لائنوں کی تعمیر میں کوئی حکمت نظر نہیں آئی کیونکہ وہ وسائل سے خالی تھے۔

 جیسا کہ عظیم مورخ ایرک ہوبسبوم نے لکھا ہے یورپی خطوں کی طرح، ڈاکہ زنی کو نہ صرف اقتصادی وسائل کی حصولیابی کے ذرائع کے طور پر فروغ ملا بلکہ اس کے پیچھے مرکزی اتھارٹی اور مقامی طاقت کے ظالم دلالوں کے خلاف مزاحمت بھی کار فرما تھی۔

اسکالر فرحت تاج نے لکھا کہ نوجوان جہادیوں کی پوری نسل جو نائن الیون کے بعد افغانستان سے واپس آئی تھی وہ معاشی طور پر انتہائی پسماندہ تھی اور قبائلی اشرافیہ سے جدا، جن کی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقوں کی سیاست پر اجارہ داری تھی۔ کچھ تعلیم یافتہ اور کچھ کلاشنکوف سے لیس، انہوں نے اس خطے کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔

 آئی ایس کے پی کا عروج

 کابل میں طالبان کی فتح سے بہت پہلے، پال لوشینکو جیسے ماہرین نے دولت اسلامیہ کی بظاہر منھ توڑ شکست کے بعد بھی خود کو دوبارہ کھڑا کرنے کی ان کی صلاحیت کے بارے میں لکھ دیا تھا۔ اس کی وجوہات مبہم نہیں ہیں۔ جن عناصر کو، علاقائی طالبان کمانڈروں نے اس چیز سے محروم رکھا جسے وہ طاقت کا منصفانہ بٹوارہ سمجھتے تھے، یا جنہیں منافع بخش منشیات اور غیر قانونی کان کنی میں شامل نہیں کیا گیا وہی بعض اوقات خود کو دولتِ اسلامیہ کا نام دیا کرتے تھے۔ اگرچہ ان گروہوں اور مرکزی دولت اسلامیہ کے درمیان روابط بہت کمزور تھے۔

 اس سلسلے میں صحافی ضیاء الرحمان لکھتے ہیں، لشکر جھنگوی زندہ رہی کیونکہ اس نے دیگر جہادی تنظیموں کے ساتھ خود کو جوڑے رکھا، جن میں القاعدہ سر فہرست ہے، جو کہ مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ کا کلیدی حریف ہے۔

 لشکر جھنگوی کے کارکنوں نے ہی 2006 میں کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کیا تھا جس میں 61 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ بعد ازاں ایک خودکش بمبار نے ضلع خضدار میں صوفی بزرگ شاہ نورانی کے مزار کو نشانہ بنایا جس میں 52 افراد جاں بحق ہوگئے۔ بعد ازاں، خود کو دولتِ اسلامیہ کے نام سے منسوب کرتے ہوئے، لشکر جھنگوی کے کارندوں نے 2018 میں ایک انتخابی ریلی پر بم حملہ بھی کیا، جس میں ممتاز سیاستدان سراج رئیسانی سمیت کم از کم 128 افراد ہلاک ہوئے۔

 پاکستانی فوج کی، جہادیوں کو نسلی پشتون علاقوں سے نکالنے کی طویل اور خونریز جدوجہد، بے نتیجہ رہی۔ گزشتہ ماہ ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں تحریک طالبان کے سربراہ نور ولی محسود کو چترال میں پاکستانی فورسز کے خلاف آپریشن کی قیادت کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ بلوچستان میں بھی بڑے پیمانے پر حملے ہوئے ہیں اور تقریباً ہر جگہ، پاکستانی فوج بامعنی طور پر جوابی کاروائی کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

 اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ جہادیت کی بڑھتی ہوئی لہر وسطی ایشیا تک پھیل سکتی ہے- یہ ایک ایسا امکان ہے جو ممکنہ طور پر واشنگٹن میں بیٹھے کچھ لوگوں کو پریشان کرسکتا ہے، کیونکہ علاقائی طاقتوں یعنی چین اور ایران دونوں نے ہی امریکہ کو افغانستان سے نکالنے کے لیے طالبان کی مہم کو ہوا دی۔

 جیسا کہ فرحان صدیقی کا کہنا ہے، حل کے لیے صرف فوجی ردعمل کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل حکومتی حل کی ضرورت ہے جس میں طبقاتی، نسلی اور مذہب کی دیرینہ غلطیوں کا ازالہ کیا گیا ہو جس سے جہادی تحریکوں کو تقویت ملی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس ایسے حل پر عمل درآمد کرنے کے لیے نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی سیاسی قوت ارادی۔

 ----

 (تھریس سدیپ کا ایڈٹ کردہ)

------------------

English Article: The Changing Face of Lashkar-e-Jhangvi in Pakistan

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/lashkar-jhangvi-pakistan-army-civilians/d/130880

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..