New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 06:22 PM

Urdu Section ( 15 Jul 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Making Language as an Idol زبان پرستی

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 11 جولائی 2023

 کشمیری زبان کے بہت سے حامیوں نے استدعا کی کہ اسکولوں میں کشمیری زبان کو رائج کیا جائے۔ زبان کے کارکنوں نے کشمیری زبان کو اسکولوں میں شامل کرنے کے لیے جدوجہد کی اور اب اسے اسکولوں میں ہائی اسکول کی سطح تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ اس سے ان بے روزگار نوجوانوں کو بھی کچھ کام مل گیا جنہوں نے کشمیری زبان میں پوسٹ گریجویشن یا ماسٹر کی ڈگری مکمل کر لی تھی اور انہیں ملازمتیں حاصل کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ اس قدم سے انہیں سرکاری ملازمتوں میں شامل ہونے کا موقع ملا، اور اس طرح ان کا مستقبل محفوظ ہوا، کشمیری زبان کے علمبردار، ادیب اور اہل علم اسکول کے نصاب میں کشمیری زبان کے شامل کیے جانے پر بہت خوش تھے۔ میں نے کبھی کشمیری زبان کو بطور زبان نہیں پڑھا تھا لیکن اپنی ذاتی کوششوں سے اسے آسانی سے پڑھنا سیکھا۔ لیکن اس کا اسکولوں میں شامل کیا جانا کوئی خوشی کی بات نہیں ہے کیونکہ اردو کی طرح طلباء اسے امتحانات میں پاس کرنے کے لیے پڑھتے ہیں، بعد میں ہائی اسکول ختم ہونے کے بعد اسے بھول جاتے ہیں۔

 کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اعلیٰ کلاسوں میں کشمیری کو بطور مضمون لینے والے طلباء کا داخلہ ویسا ہی رہے گا۔ اس سے طلباء کے داخلے میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ اردو اور دیگر مقامی زبانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اس لیے کہ ان زبانوں کا دائرہ معاشی طور پر بہت تنگ ہے، اس لیے اسے لینے والے بہت کم ہوں گے۔ جو لوگ کسی بھی زبان کے بارے میں پرجوش ہیں انہیں اس کے مطالعہ کے لیے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جب نصاب میں کشمیری زبان کو شامل کرنے کی مہم چل رہی تھی تو یہ کہا گیا کہ اس سے کشمیریوں کو اتحاد پیدا کرنے اور ان میں قوم پرستی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی، جو کہ ندارد ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ کشمیری قوم پرستی کو مضبوط کرنے سے آزادی کا جذبہ مزید گہرا ہو گا۔

 یہ بھی اسی طرح کا تصور تھا جیسا کہ اس سے پہلے مؤرخ فدا محمد حسنین نے خفیہ طور پر پیش کیا تھا کہ اگر ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کشمیر میں موجود ہونے کا شور مچائیں گے تو دنیا کی زیادہ توجہ کشمیر کی طرف مبذول ہو گی اور کشمیر کا تنازعہ عالمی سطح پر زیادہ بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جائے۔ حسنین نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو کشمیر میں دفن کیا گیا ہے۔ یہ ایک قادیانیوں کا پروپیگنڈہ تھا جس کا پرچار انہوں نے کیا، لیکن اس نظریہ کو بہت کم لوگوں نے اپنایا۔ انہوں نے اپنے اس نظریہ کے ذریعے کشمیریوں کی آزادی کے جذبات کو مضبوط کرنے کا کھلے عام دعویٰ نہیں کیا، کیونکہ دوسرے مقامی مورخین کی طرح وہ بھی حکومت کے ٹکڑوں پر پل رہے تھے اور مختلف حکومتوں میں مراعات اور بڑے عہدوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان کا کوئی تاریخی یا سیاسی موقف نہیں تھا، لیکن وہ ایسے تنازعات پیدا کرنے والے کچھ خیالات کو ظاہر کرنا پسند کرتے تھے جو کبھی بھی عوام تک نہیں پہنچتے تھے جیسا کہ کشمیری زبان کا نظریہ قوم پرستی کو مضبوط کرتا ہے۔

 کشمیری زبان کبھی بھی جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک ساتھ نہیں باندھ سکتی۔ جو ایسا سوچتے تھے وہ خیال خام کا شکار تھے۔ صرف اردو زبان میں ہی یہ صلاحیت تھی کیونکہ اس نے لسانی طور پر جموں و کشمیر کے تمام اختلافات کو مٹا دیا تھا۔ اگر ہم ادبی نقطہ نظر سے بات کریں تو بھی کشمیری زبان غریب ہے۔ رشی سنتوں کی صوفیانہ شاعری کے علاوہ دیگر اصناف میں کشمیری زبان افلاس کا شکار ہے۔ درحقیقت، رشی تحریک کے وہ باکمال شاعر جو مذہبی اور اصلاح پسند تھے، اس کے دو بڑے حامی لال دید اور شیخ العالم کی شاعری نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ اب بھی ان کی تالیفات ایک دوسرے کی شاعری کے ساتھ یکجا ہیں، کیونکہ ان کا پیغام، موضوعات اور عنوانات ایک جیسے تھے۔

 ان کی شاعری میں سیاست کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، حالانکہ انہوں نے ذات پات کے نظام، علماء اور مذہبی پنڈتوں کے ذریعے عوام کے استحصال کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ہم عصر شاعر بھی ہیں جو مختلف حیثیتوں میں سرکاری ملازم تھے۔ رحمن راہی، امین کامل، مہجور جیسے ان میں سے اکثر لوگ برسرِ اقتدار حکومت کا پروپیگنڈہ عام کرتے تھے۔ ان سے کسی انقلاب کی توقع رکھنا بے معنیٰ ہے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں، جب ان کے پاس حکومت کے لیے کوئی کام نہیں تھا یا جب ان کی تحریروں سے ان کی روزی روٹی کو کوئی خطرہ نہیں رہا، تو انھوں نے چند اشعار لکھے، جس سے یقیناً وہ مزاحمتی یا قوم پرست شاعروں میں شمار نہیں کیے جا سکتے۔ لہٰذا یہ سوچنا کہ کشمیری زبان کی مضبوطی خود بخود کچھ کشمیری قوم پرستی پیدا کر دے گی، یہ ایک غلط خیال اور غلط نظریہ ہے۔

 کشمیریت کی اصطلاح ایجاد کی گئی تھی اور کشمیر کی ہم آہنگی اور کثیر ثقافت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی، لیکن جیسا کہ یہ 1975 کے معاہدے کے بعد انہی سرکاری مورخین اور زبان کے کارکنوں کے ذریعہ ایجاد اور مسلط کی گئی تھی، یہ 1990 کی دہائی میں کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے ساتھ ایک قدرتی موت مر گئی۔ رشی کی ہم آہنگی اور تکثیریت تھی لیکن کشمیریت جیسی کوئی چیز نہیں جس کے نقصان پر اب ماتم کیا جا رہا ہے۔ چند کشمیریوں کی طرح، کچھ عربی زبان کے علمبردار بھی عربی زبان کو مسلط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک ایسی زبان ہونے کے ناطے جس میں قرآن مجید نازل ہوا اور جس میں ہمیں اسلام کی بنیادی نصوص دستیاب ہیں، شاید یہ ایک حقیقی مطالبہ سمجھا جائے۔ لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی بھی عربی زبان غالب زبان کے طور پر مسلمانوں کی زبان نہیں رہی۔

 یہ مستقبل میں بھی ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ مسلمانوں کو عربی سیکھنے کے لیے کبھی وقت اور وسائل نہیں ملیں گے۔ نیز عربی سیکھنا جنت کا دروازہ نہیں ہے۔ عربی جانے بغیر کوئی بھی شخص اسلام کی مکمل پیروی کر سکتا ہے کیونکہ اسلام کی بنیادی نصوص دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہیں۔ جو بھی دلچسپی رکھتا ہے وہ ان ترجمہ شدہ تصانیف سے اسلام کو جان سکتا ہے۔ کشمیری زبان کے شائقین کی طرح جو احمقانہ طور پر یقین رکھتے ہیں کہ کشمیری زبان اتحاد کو فروغ دے گی، اسی طرح عربی زبان کے کچھ علمبرداروں کا خیال ہے کہ جب لوگ عربی جان لیں گے تو مکاتب فکر کے درمیان مذہبی اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اسلامی فہم خالص نہیں ہے، اس میں فارسی اور اردو کا امتزاج ہے، اس لیے اس سے اسلام کی سمجھ میں خامی پیدا ہوئی ہے۔

 لہٰذا اسلام کے بارے میں عربوں کا فہم بے عیب ہوگا۔ زبان کے یہ حامی اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ جن چاروں فقہا کی طرف مکاتب فکر منسوب ہیں، نیز صوفی سلسلہ اور دیگر فرقوں مثلاً شیعہ مذہب کے بانی عربی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مذہبی نصوص کی تفہیم اور تشریح میں ان کے درمیان بہت زیادہ اختلاف تھا۔ اس وقت بھی جب کہ عربی دنیائے عرب کی زبان ہے، تب بھی ان عرب اقوام کا اتحاد حقیقت سے بعید ہے، مسلم دنیا کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ یہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ ہم زبانوں کو بت بنا دیں اور ایک بار جب ہم ایسا کر لیں تو ہم دوسری زبانوں سے نفرت اور توہین کرنے لگتے ہیں۔ اسلام ہر قسم کے بتوں کو توڑنے اور کچھلنے کا پیغام لے کر آیا ہے۔ اس طرح اگر کوئی زبان بت بن جائے، خواہ اسے کسی بھی بہانے سے جائز قرار دیا جائے، تو اسے توڑنا ضروری ہے۔ زبان رابطے کا ایک ذریعہ ہے اسے زندگی اور موت، اسلام اور کفر کا مسئلہ بنانا غلط ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو کچل دیا جانا چاہیے، تب ہی ہم نفرت، تعصب اور تشدد سے پاک دنیا کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ زبان کی یکسانیت ہمیشہ کسی بھی برادری کے لیے تباہی کا باعث بنے گی۔

English Article: Making Language as an Idol

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/language-idol/d/130218

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..