New Age Islam
Sat Jun 14 2025, 12:42 AM

Urdu Section ( 28 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Lamp in the Niche in Ayat al-Nur is the Quran Itself آیت النور میں طاق کے اندر چراغ خود قرآن ہے

 

 نصیر احمد، نیو ایج اسلام

 21 مئی 2025

 تعارف

 اس موضوع پر میرا پہلا مضمون "An Exposition of the Verse of Light (Ayat al-Nur)

" مورخہ 29 ستمبر 2016 کو شائع ہوا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر وہی کچھ ہے جو میں نے اپنے اس مضمون میں ایک بار پھر لکھا تھا: "Ayat al-Nur: Divine Light as a Beacon for Moral Living" جو مورخہ 29 اپریل 2025 کو شائع ہوا۔ یہ دوسرا مضمون، جس میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے، پہلے مضمون کا ضمیمہ ہے۔ لوگوں کے خیال کے برعکس، جب آپ کی اپنی سوچ اصلی ہو تو مصنوعی ذہانت کا استعمال مشکل ہوتا ہے۔ لٹریچر میں علماء کے اتفاق اور رائے کی بنیاد پر، مصنوعی ذہانت مسلسل اپنی ڈیفالٹ پوزیشن پر لوٹتا رہتا ہے۔ اسے اپنی طرح سوچنے کے قابل بنانا مشکل اور وقت طلب ہے، لیکن کوئی بات نہیں، اتنی توانائی تو صرف ہونی ہی چاہیے۔ یہ آپ کے اپنے خیالات کو واضح کرنے میں مدد کرتا ہے، اور اسی موضوع پر دوسروں نے جو کچھ کہا ہے، اس کے خلاف انہیں جانچنے میں معاون ہے۔

 میں رشید صاحب کے اس تبصرے کا مشکور ہوں، کہ انہوں نے میری تفسیر کا موازنہ کلاسیکی علماء کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے تبصرے کو پڑھتے ہوئے، 24:35 کے درست معانی میرے ذہن میں اچانک پیدا ہونے لگے۔

 استعارہ مرکزِ گفتگو ہے

 آیت النور (24:35) مضبوطی سے مربوط استعاروں کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ ایک بار جب وحی الہی کی نظر سے اخلاقی روشنی کے طور پر دیکھا جائے تو، آیت کی ایک مکمل اور مربوط تصویر ظاہر ہو جاتی ہے۔ جو بات حال ہی میں میرے ذہن میں ابھری، وہ یہ ہے کہ یہ آیت ہدایت کے تجریدی تصور کو نہیں، بلکہ کوئی ایک مخصوص اور ٹھوس چیز بیان کر رہی ہے: وہ ہے قرآن۔

پرنٹنگ پریس سے پہلے کے زمانے میں قرآن نایاب، ہاتھ سے لکھا ہوا اور قابل قدر تھا۔ مساجد کی دیوار میں ایک جگہ ہوتی تھی — جو صرف نماز کی سمت کی نشاندہی کے لیے محراب کے علاوہ — ایک خالی جگہ ہوتی تھی جہاں قرآن رکھا جاتا تھا۔ جب ہم پڑھتے ہیں کہ "اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو اور اس کے اندر ایک چراغ ہو..."، یہ منظر کشی نہ صرف استعارے کے طور پر، بلکہ ایک کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی حقیقت کے طور پر بھی درست ہے۔ قرآن، بطور وحی الہٰی کے ایک کامل ذریعہ کے، طاق میں رکھا ہوا چراغ ہے۔

 قلب کو روشن کرنے والا تیل اور اخلاقیات کا پہلا اصول

 کسی درخت سے نکلنے والے تیل، جو نہ تو مشرق کی جانب ہے اور نہ ہی مغرب کی جانب، جس کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ "آگ سے چھونے کے باوجود روشنی دیتا ہے۔" یہ واضح، آفاقی اخلاقی سچائی ہے - یعنی سنہرہ اصول: دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو، جیسا تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا جائے۔ یہ کسی ثقافت یا استدلال سے ماخوذ نہیں ہے۔ یہ الہی اصول ہے، جو ہر تہذیب پر رسولوں کے ذریعے نازل کیا گیا ہے۔ اس اصول کے بغیر کوئی تہذیب اپنی بنیاد نہیں جما سکتی تھی۔

 یہ بنیادی حقیقت خودبخود چمکتی ہے، جب ایک بار ظاہر ہو جاتی ہے یا ایک بار نظر آ جاتی ہے، لیکن ایک بار جب "روشن" ہو جاتی ہے - ایک بار جب قرآن جیسی آسمانی کتابوں میں بیان ہو جاتی ہے- تو یہ "روشنی پر روشنی" پیدا کرتی ہے۔ قرآن آفاقی اخلاقی اصول پر استوار ہے، اور قوانین، مثالوں اور احسان کے ذریعے طہارت قلب و باطن، اور وضاحت کے ساتھ اپنا مکمل بیان پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ تھامس ایکیناس نے کہا ہے، تمام اخلاقی اصولوں کی اصل، اپنے پڑوسی سے اپنے جیسا پیار کرنے کا، ابتدائی اصول ہے۔ کانٹ نے سیکولر فریم میں بھی یہی بات کہی تھی: صرف اس اصول پر عمل کریں جسے آپ ایک آفاقی قانون بنانا پسند کر سکتے ہیں۔ لیکن قرآنی فریم ورک میں یہ اصول وحی ہے، عقل و استدلال نہیں۔

 وحی بمقابلہ فطری اخلاقیات

 کلاسیکی علماء بشمول امام غزالی دو وجوہات کی بنا پر اس نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔ سب سے پہلے، یہ دریافت کہ سنہرہ اصول ہر تہذیب میں موجود رہا ہے، جو جدید دور میں ہی ظہور پذیر ہوا۔ دوسرا، انہوں نے اس مفروضے کے تحت کام کیا، کہ انسان کچھ فطری اخلاقی علم کے حامل ہیں، جسے وہ فطرہ کہتے ہیں۔ لیکن قرآن کبھی بھی اس بات کی تصدیق نہیں کرتا، کہ ہم مکمل طور پر تیار شدہ اخلاقی اصولوں کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ بلکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیں سکھایا ہے۔ ہم جس چیز کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں وہ زندہ رہنے کی فطرت اور اخلاقی رویے سیکھنے کی صلاحیت ہے، نہ کہ خود اخلاقی اصول۔ یہاں تک کہ بنیادی سماجی اخلاقیات بھی سیکھنے سے ہی آتے ہیں۔

غزالی کی تشریح کی حدود

 امام غزالی کی مشکوٰۃ الانوار ایک مشہور کتاب ہے۔ انہوں نے طاق کو سینہ، شیشے کو دل اور نور کو الہی روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن یہ تشریح اگلی ہی آیت (24:36) سے متصادم ہے، جو کہتی ہے کہ روشنی عبادت گاہوں میں پائی جاتی ہے دلوں میں نہیں۔ مزید برآں، قرآن نے انسانی دل کو پردہ دار، بیمار اور ناقص قرار دیا ہے۔ یہ نقص و عیوب سے پاک نہیں، کہ الہی روشنی سما سکے۔ 24:35 میں شیشے کو شفاف اور شاندار بیان کیا گیا ہے - "گویا یہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے" - جو کہ انسانی دل کے لیے ایک ناقابل تصور استعارہ ہے۔

 مذکورہ گفتگو کا ماحصل

 جب اس نظریہ سے دیکھا جائے تو آیت کا ہر عنصر منظم نظر آتا ہے:

         درخت آسمان میں واقع ایک الہی ماخذ ہے۔

         تیل ایک بنیادی، از خود واضح اخلاقی سچائی ہے — جو نازل ہو جانے کے بعد از خود چمکدار ہے۔

         چراغ اللہ کا مکمل اور کامل دین ہے جب وحی کے ذریعے بیان کر دیا جائے۔

         شیشہ قرآن کی شفاف اور صاف زبان ہے۔ اس کا کام نہ صرف منتقل کرنا ہے بلکہ شعلے کی حفاظت کرنا بھی ہے — بالکل اسی طرح جیسے فصیح و بلیغ زبان بغیر کسی تحریف یا تبدیلی کے، ہدایت الہی کی حفاظت کرتی ہے اور کلام پہنچاتی ہے۔

         طاق ایک جامع فریم ورک ہے جو ان سب باتوں کا حامل ہے — بصری طور پر، جسمانی طور پر، اور نظریاتی طور پر۔

یہ تمام ایک واحد اور مربوط شئی کے پہلو ہیں: اور وہ شئی قرآن ہے۔ یہ نور علی نور ہے - ایک آفاقی سچائی جو کامل و اکمل کلام کے ذریعے روشن و منور ہے۔

 یہ ہے آیت النور کا حسن۔ جب ہم اسے قرآن کے مجموعی پیغام کے مطابق دیکھتے ہیں تو، اس کے استعارے پراسرار نہیں ہوتے: وحی اخلاقی تعلیمات کو روشن کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور قرآن اس کا بہترین چراغ ہے۔

خلاصہ کلام

 مجھے پوری طرح سے یہ سمجھنے میں نو سال لگے کہ آیت النور کس طرف اشارہ کر رہی ہے، حالانکہ تمام استعارے میری طرف سے بالکل اسی طرح بیان کیے گئے ہیں، جیسے میں نے آج کیے ہیں۔ جو چیز چھوٹ رہی تھی، وہ واحد چیز تھی جس کی طرف تمام استعاروں کا اشارہ تھا۔ یہ تاخیر ناکامی کی علامت نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے، کہ قرآن کس طرح ہر شخص کے سامنے اس کی کوشش، خلوص اور غور و فکر کے مطابق اپنے رازہائے سربستہ کھولتا ہے۔ اس لحاظ سے، قرآن ایک قسم کا ذاتی وحی بن جاتا ہے: مواد کے اعتبار سے نہیں، بلکہ ان معانی کو واضح اور روشن کر کے، جس کے ساتھ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی روشنی دل و دماغ میں داخل ہوتی ہے۔ وہ آیت جو کبھی پراسرار محسوس ہوتی تھی اب روز روشن کی طرح صاف و شفاف ہے۔

 اس میں اتنی دیر لگنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ آج کل قرآن کو طاق میں رکھے ہوئے دیکھنا اتنا عام نہیں ہے۔ ہم بڑے پیمانے پر پرنٹنگ کے دور میں رہتے ہیں، جہاں ہر گھر اور مسجد میں قرآن پاک بکثرت موجود ہے۔ لیکن پرنٹنگ پریس سے پہلے کے دور میں وہ بہت کم اور قیمتی تھے۔ بہت سی مساجد میں، دیوار میں ایک طاق نہ صرف قبلہ کو نشان زد کرنے کے لیے، بلکہ قران مقدس کو رکھنے کے لیے بھی ہوتی تھی۔ اس تاریخی حقیقت نے اچانک استعارے کو مکمل توجہ میں لے لیا - اور اس کے ساتھ ہی آیت کے روشن معنی کو بھی۔

 یہ ایک ایسی کتاب کا معجزہ ہے جو "نور علی نور" ہے - الفاظ میں ہمیشہ ایک جیسی، لیکن تلاش کرنے والوں کے لیے معنی میں ہمیشہ نئی۔

 اللہ ہمیں اپنے نور کی طرف ہدایت دے۔

 ----

English Article: The Lamp in the Niche in Ayat al-Nur is the Quran Itself

URL: https://newageislam.com/urdu-section/lamp-niche-ayat-al-nur-quran/d/135694

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

 

 

Loading..

Loading..