کلدیپ نیر
13 مئی 2015
میں علی گڑھ یونیورسٹی ( اے ایم یو) سے مایوسی اور ذہنی پریشانی کی حالت میں واپس ہوا ہوں ۔ مایوس میں اس وجہ سے ہوں کہ طلبا مرکزی دھارے میں شامل ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے اور میری تشویش کا سبب یہ ہے کہ وہ اب بھی مذہبی شناخت کی اصطلاحوں میں بات کررہے تھے ۔
اگر اے ایم یو کے سرکاری طور پر مسلم یونیورسٹی ہونے کا اعلان کردیا جائے تو اس سےشاید مسلمانوں کواپنی خود کی شناخت رکھنے کی خیالی تسکین حاصل ہوگی۔ بشمول اردو تمام میدانوں میں جنگ ہارنے کے بعد مسلمانوں میں بےدلی کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اگر کسی مسلمان کو یہ احساس دلایاجائے کہ وہ خود اپنی شناخت کا مالک ہے تو یہ کوئی بے اصولی کی بات نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں رہنے والے تمام افراد کی غالب شناخت ہندوستانی کی ہے ۔
علی گڑھ وہی جگہ ہے ،جہاں معروف مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ملک کے بٹوارے سے پہلے بدسلوکی کی گئی تھی ۔ اپنے آبائی وطن کلکتہ سے دہلی سفر کے دوران طلبا کو وہ ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں مل گئے تھے ۔ انہوں نے مولانا کے کپڑے اتروا کر نہ صرف ان کی تحقیر کی بلکہ جس طرح بھی کرسکتے تھے ان کے ساتھ بےادبی کی تھی ۔
ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ سے اختلاف کرتے ہوئے تشکیل پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ ان کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ یہ مطالبہ اس بے جا مفروضے کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا کہ تقسیم ہندوؤں کی غالب اکثریت سے بچنے کا بہترین ذریعہ تھا ، لیکن قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد او ربھی کم ہوجاتی ۔ اس سے بڑ ھ کر ہندویہ کہتے کہ آپ نے اپنا حصہ لے لیا ہے اور اس لیے اب پاکستان جائیے بعینہ یہی ہوا ہے۔
ہندوستان کے اولین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے خود کناٹ سرکس جاکر بعض لٹیروں کو اپنی چھڑی سے پیٹا تھا ۔ اےایم یو کے طلبا کو یہ احساس نہیں رہا کہ مذہبی بنیاد پر کی گئی شناخت ہی ہندوستان کی تقسیم کا سبب بنی تھی ۔ تقسیم کے بعد اسی طرز کی سیاست دہرائی نہیں جاسکتی تھی اور علیحدگی کی راہ اختیار کرنےوالے مسلمان اس کا نقصان اٹھاتے ۔ ہندوؤں پر مشتمل 80 فیصد آبادی اسی پرانی بحث کو برداشت نہ کرتی ۔
میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجموعی طور پر مسلمانوں کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے اور وہ مرکزی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ وہ فرقہ وارانہ خلیج پیدا کرنے کے خطرات سے آگاہ ہیں ۔ مسلم فسادات آخر کار مسلمانوں اور پولیس کےدرمیان تصادم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور بڑی حد تک یہی صورتحال رہی ہے۔
تاہم مرکزی دھارے کی وجہ سے ہی یہ صورتحال بہت خراب نہیں ہو پائی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک پر نرم ہندوتو کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ یہ بات مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ خوف زدہ کر رہی ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بعض افراد سے بات کرتے ہوئے مجھے لگا کہ وہ ہندوتووادیوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے خائف ہیں، جنہیں مسلمانوں کے حقوق کی شاید ہی پرواہو۔
اس اعتبار سے مجھے یو ایس کانگریس کےقائم کردہ پینل کی رپورٹ بامعنی لگی ۔ تقسیم کے عنصر نے اس کی افادیت کو کم کردیا ہے۔ بصورت دیگر یو ایس کمیشن برائےبین الاقوامی مذہبی آزادی کا یہ مشاہدہ حق بجانب ہے کہ نریندر مودی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہندوستان کی مذہبی اقلتیں آر ایس ایس جیسے گروپوں کے ہاتھوں ‘‘ پرتشددحملوں’’ جبری تبدیلی مذہب اور ‘‘ گھر واپسی’’ کی مہموں کاشکار ہورہی ہیں؟
بد قسمتی سے اس رپورٹ کو سرکاری طور پر مسترد کردیا گیا ہے ۔ ملک کے عوام کو اس پربحث کرنی چاہئے تھی ۔ اس تصور میں کوئی حقیقت ضرور ہے کہ ہندو۔ مسلم تعلقات میں جو توازن ہم نےبرسوں میں قائم کیا تھا مودی حکومت کے آنے کے بعد سے اس میں اضمحلال آیا ہے۔ ہندوؤں کے درمیان احساس برتری اور مسلمانو ں کے درمیان عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ دونوں فرقوں کے درمیان پروان چڑھنے والی ہم آہنگی ایسی ہےکہ کمزورہونے کے باوجود یہ رشتہ منقطع نہیں ہوا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں فرقوں نے زمینی حقائق سےسمجھوتہ کر کے آپس میں مفاہمت کرلی جو وقتاً فوقتاً درپیش بحرانوں کے مقابل انہیں متحد رکھتی ہے۔
آر ایس ایس نے جس تشدد کا نظریہ آیا ، اس میں بھی بڑھ کر اس کے تشدد کےخطرات میں اضافہ کیا ہے، اس کہانی کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ مہاتماگاندھی کےقتل کےبعد سےعقبی نشست پر بیٹھی رہنے والی تنظیم آر ایس ایس کامکر وہ چہرہ ابھر رہاہے اور وہ گاندھی کوگولی مارنے والے گوڈسے کامجسمہ نصب کرنے کےلیے کوشاں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کانظریہ سیکولر ہے اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے سر ابھارنے پر بھی اس نےآواز بلند کی تھی ۔ مودی حکومت کےبارےمیں ایک تصور یہ ہے کہ انتظامیہ میں فرقہ پرست عناصر کو بھر دیا گیا ہے۔
مسلمانوں نےاپنی جگہ پر شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ چاہے جس قدر بھی ناممکن ہورہنا انہیں اکثریت کےساتھ ہی ہے ۔ شاید دونوں ہی اپنی الگ الگ دنیاؤں میں رہتے ہیں ۔ دونوں کے درمیان سماجی روابط کم سے کم ہوگئے ہیں ۔ تاہم ہر وقت قائم رہنےوالی تناؤ کی فضا اب نہیں رہ گئی ہے ۔
یہاں تک کہ پاکستان کے تئیں عداوت جو روز مرہ زندگی کامعمول تھی پہلے کے مقابلے میں کم ہے لیکن وہ ابھی باقی تو ہے ۔ عام آدمی پاکستان کے عوام کےساتھ خیر سگالی سےہر گز دست بردار نہیں ہوا ہے لیکن آج حکومتوں نے بھی ناقابل قبول طرز عمل کی نا معقولیت کوتسلیم کرلیا ہے چنانچہ طرفین کے سر جوڑ کر بیٹھنے اور تبادلۂ خیال کرنے کےاچھے مواقع ہیں ۔
ہندوستان اور سر حد پار کے پنجابی دونوں کی سو چ اس قدر فرقہ پرستانہ ہے کہ وہ صوفی تہذیب کی تحسین وستائش نہیں کرتے جو دونوں طرف کی مذہبی اقدار کا مجموعہ ہے، پاکستانی حکومت کا یہ الزام کہ ہندوستان ریاست جموں و کشمیر میں آبادیاتی وضع تبدیل کرنے کے درپے ہے،سراسر غلط ہے۔ کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی قابل پذیر ائی ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ اس ‘‘کشمیریت’’ کاثبوت ہے جو دونوں فرقوں کی نمائندگی کرتی ہے ۔ شاید بنیاد پرست سید علی گیلانی کو چھوڑ کر علیحدگی پسندحلقے نےبھی اس بنیاد پر اپنے درمیان پنڈتوں کی موجودگی کا دفاع کیاہے کہ وہ ان کےمعاشرے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
دراصل کشمیریت کی طاقت یہ ہے کہ وہ سیکولر فضا پر مبنی ہے۔ علی گڑھ کے طلباکو کشمیر کی صورتحال سےسبق لیتےہوئے مذہب کی بنیاد پر شناخت کرنے کےاصرار کی حرص پر قابو پاناچاہئے ۔
13مئی، 2015 بشکریہ : روزنامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-worrisome-trend-amu-/d/102946