New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 09:00 PM

Urdu Section ( 16 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Kubravi Order and Its Spread to Kashmir کبروی سلسلہ اور کشمیر میں اس کی ترویج و اشاعت

ساحل رضوی، نیو ایج اسلام

 07 نومبر 2024

 کبرویہ سلسلہ کی اشاعت کشمیر میں سید علی ہمدانی نے کی، جس کی بنیاد نجم الدین کبریٰ کی تعلیمات پر تھی، اور ان کے شاگردوں مریدوں نے اسے پھیلا۔ سید علی ہمدانی نے تیمور کے جبر و استبداد سے تنگ آکر ہجرت کی تھی۔

 اہم نکات:

 1. نجم الدین کبریٰ کا قائم کردہ کبرویہ سلسلہ تمام عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔

 2. نجم الدین کبریٰ کے شاگردوں مریدوں نے صوفی تعلیمات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 3.  سید علی ہمدانی نے کشمیر میں کبرویہ سلسلہ متعارف کرایا۔

 4.  سید علی ہمدانی نے شیخ مزدقانی سمیت بڑے بڑے صوفی شیوخ سے تربیت حاصل کی تھی۔

 5.  تیمور کے ظلم و ستم نے سید علی کو کشمیر میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔

 ------

 کشمیر کے صوفی سلاسل طریقت میں، کبرویہ سلسلے کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی بنیاد احمد بن عمر الخیوقی نے رکھی تھی، جنہیں نجم الدین کبریٰ بھی کہا جاتا ہے، جو خوارزم میں 540/1145 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی جوانی کا بیشتر حصہ مختلف اسلامی ممالک کے سفر میں گزارا۔

 خراسان میں قیام کے دوران ان کا رابطہ شیخ ابو النجیب سہروردی کے مرید شیخ اسماعیل قصری سے ہوا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ اسماعیل نے انہیں شیخ عمار یاسر کے پاس جانے کا مشورہ دیا، جنہوں نے انہیں تصوف و طریقت کی طرف مائل کیا، اور اس کے بعد نجم الدین کو شیخ روزبہان کے پاس مزید تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا۔

 نجم الدین کی روحانی ترقی سے متاثر ہو کر، شیخ روزبہان نے انہیں شیخ عمار یاسر کے پاس واپس بھیج دیا، جنہوں نے بالآخر نجم الدین کو اپنے آبائی علاقے خوارزم میں آباد ہونے کے لیے کہا۔ نجم الدین نے اپنے شیخ کی ہدایت کے مطابق خوارزم کو اپنی دینی و دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔

 نجم الدین جلد ہی اپنے دور کی ایک ممتاز شخصیت بن کر ابھرے۔ آپ ایک قابل مصنف تھے، اور آپ کی تخلیقات کو جدید صوفی نظریات کی معیاری درسی کتابوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ برتھلس لکھتے ہیں، "نجم الدین کی صوفی تحریریں، اولین نظریہ سازوں (نویں اور دسویں صدیوں کے نیشاپور مکتب) کے پرانے تصوف سے، ابن العربی اور ان کے جانشینوں کے، بعد کے تصوف کی طرف منتقلی کا باعث بنیں"۔

 نجم الدین کے دور میں وسطی ایشیا اور فارس انتشار اور بدامنی کا شکار تھے۔ چنگیز خان (1227-1206) نے اپنی فتح کی مہمات شروع کر دی تھیں۔ خوارزم کو بھی منگول فوج نے ختم کر دیا تھا۔ چنگیز خان نے نجم الدین کبری کو تحفظ کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا، اور 1221 میں منگولوں کے ساتھ لڑائی کے دوران ہزاروں دیگر افراد کے ساتھ شہید ہوئے۔

 نجم الدین کبری کے شاگردوں مریدوں نے کبرویہ سلسلے کی تعلیمات کو مسلم دنیا کے مختلف حصوں میں، خاص طور پر وسطی ایشیا اور فارس میں، وسیع پیمانے پر پھیلایا۔ ان کے ممتاز شاگردوں میں مجد الدین بغدادی (متوفی از 609/1209 تا 616/1219)، رضی الدین علی لالہ (متوفی 642/1244)، سعد الدین حماوی (متوفی 1253-650) اور نجم الدین رازی (متوفی 654/1256)، اور بابا کمال الدین جنڈی کے نام قابل ذکر ہیں۔ جامی کے مطابق یہ سب صوفیاء میں بے مثال تھے۔

 سید علی ہمدانی، جنہوں نے کشمیر میں کبرویہ سلسلے کو متعارف کرایا، وہ اس سلسلے سے رضی الدین علی لالہ کے ذریعے منسلک ہوئے۔ بہت سے اسلامی ممالک کا سفر کرنے کے بعد رضی الدین ترکستان میں آباد ہو گئے۔

رضی الدین کے اہم شاگردوں میں شیخ احمد جوزقانی (متوفی 669/1270) تھے، جو اپنے زمانے کے ایک نامور صوفی تھے، جنہوں نے بعد میں شیخ عبدالرحمٰن اسفرائینی (پیدائش 639/1241) کو کبرویہ سلسلے میں داخل کیا۔ شیخ اسفرائینی کے بے شمار مرید ہوئے، جن میں سب سے ممتاز نام رکن الدین ابوالمکارم کا ہے، جنہیں عام طور پر علاؤالدولۃ سمنانی (659-736/1261-1336) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 علاء الدولہ سمنانی ایک باکمال عالم اور نامور مصنف تھے۔ اپنی جوانی میں، انہوں نے ارغون خان (613-690/1284-1291) کی خدمت کی تھی، جس کے ماتحت ان کے والد ملک شرف الدین اور چچا ملک جلال الدین اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ تاہم، تصوف و طریقت کی طر مائل ہونے کے بعد انہوں نے منگولوں کی خدمت ترک کر کی، اور خود کو مکمل طور پر راہ خدا میں وقف کر دیا۔

 سمنانی نے اس تصور کا رد کیا کہ صوفیوں کو دولت سے بچنا چاہیے۔ انہوں نے مجد الدین بغدادی جیسے پیشروؤں کی مثالیں پیش کیں، جنہوں نے تصوف و روحانیت پر قائم رہتے ہوئے دولت جمع کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک صوفی کا فرض اپنے دین کی تبلیغ کرنا ہے، اس لیے انہوں نے رہبانیت کی زندگی کو بھی ناپسند کیا۔

 سمنانی کی خانقاہ میں جن علماء اور صوفیاء کی تعلیمات و تربیت ہوئی ان میں شیخ ابوالمعی شرف الدین محمود بن عبداللہ مزدقانی بھی تھے، جو اپنے شاگرد سید علی ہمدانی کی وجہ سے مشہور ہوئے، جنہیں انہوں نے کبرویہ سلسلہ میں داخل کیا تھا۔

 سید علی ہمدانی، جو کشمیر میں "شاہ ہمدان" کے نام سے مشہور ہیں، 12 رجب 714/22 اکتوبر 1314 کو ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق علوی سیدوں کے خاندان سے یعنی چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھا۔ ان کے والد، سید شہاب الدین، جو ہمدان کے گورنر تھے، انہیں اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، اس لیے انہوں نے یہ ذمہ داری ان کے ماموں علاؤ الدولہ کے سپرد کر دی تھی، جو کافی متقی و پرہیزگار انسان تھے۔

 چھوٹی سی عمر میں سید علی نے قرآن حفظ کر لیا۔ بارہ سال کی عمر میں، ان کے چچا انہیں شیخ مزدقانی کے پاس لے گئے، جنہوں نے انھیں تصوف کی بنیادی تعلیم دی اور بعد میں انھیں تقی الدین علی دستی کے پاس بھیج دیا۔ اپنے استاد کی وفات کے بعد سید علی ہمدانی شیخ مزدقانی کے پاس واپس آئے جنہوں نے ان کی تعلیم و تربیت مکمل کی۔

 بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سید علی ہمدانی نے بھی علاؤ الدولہ سمنانی سے تربیت حاصل کی۔ جعفر بدخشی کا دعویٰ ہے کہ سید علی ہمدانی نے سمنانی سمیت اپنے وقت کے مختلف اولیاء سے تقریباً 400 احادیث جمع کیں۔

 سید علی نے بارہ مرتبہ حج و زیارت کی اور بڑے پیمانے پر سفر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا کشمیر کا سفر، ہمدان کے علوی سیدوں پر تیمور کے ظلم و ستم کا نتیجہ تھا۔ علی اصغر حکمت اور محب الحسن جیسے علماء کا خیال ہے، کہ تیمور کا 1383 میں فارس اور عراق پر تیسرا حملہ، سادات کی ہجرت کا باعث بنا، جس سے مجبور ہو کر سید علی ہمدانی نے کشمیر میں پناہ لی۔

 سید علی ہمدانی سمیت دیگر کبرویہ صوفیاء نے تصوف کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا اور تبلیغی سرگرمیوں میں پوری زندگی بسر کی۔ سمنانی کی خانقاہ کے بہت سے صوفیاء نے اپنے اثر و رسوخ اور تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے، جنوبی ہندوستان کے گلبرگہ سمیت کافی دور دراز علاقوں کا سفر کیا۔

-------------------

English Article: The Kubravi Order and Its Spread to Kashmir

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/kubravi-order-kashmir/d/134037

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..