راشد سمناکے،
نیو ایج اسلام
10 جنوری 2023
کیا اس سے
یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں - جیسا کہ علم، قلم، لفظ اور تختی؟ کہ
علماء اور سائنسدان دونوں کے پاس علم ہونا ضروری ہے؟ لہٰذا مذہب صرف عبادت سے عبارت
نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سائنس کو صرف علم سمجھا جا سکتا ہے؟
------
یہ عام طور پر مانا جاتا ہے
کہ پوری دنیا کے لوگ خود کو زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت گاہوں سے دور کر رہے ہیں۔ یعنی،
اپنی عبادت گاہوں کو جانے والے لوگ کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔
اس عمومی بیان کو اس مشاہدے کے
ساتھ اعتدال میں لانا ہوگا کہ جذباتی روحانیت کا اظہار عوام میں کھل کر کیا جاتا ہے
جب بات اپنے بتوں، ہیرو اور مشہور شخصیات مثلاً پوپ، کھلاڑی، سیاسی رہنما اور مشہور
شخصیت وغیرہ کو الوداع کہنے کی ہوتی ہے۔
لوگ جذباتی طور پر ان کے ساتھ نیک
خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں ان جگہوں پر دیکھنے کو ملا جہاں مشہور
شخصیات کے جنازوں کی رسومات ادا کی گئیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ عبادت گاہوں اور عوامی
مقامات پر ایک بہت بڑا ہجوم ان کے "اگلے سفر" پر ان کے لیے نیک خواہشات کا
اظہار کرتے ہوئے، پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہا ہے۔
لہذا اس سے کچھ "ذہین اور
متجسس" لوگوں کے درمیان یہ سوال پیدا ہوتا ہے؛ کہ یہ اگلا سفر کیا ہے یا کہاں
ہے اور کہاں ختم ہوگا؟
مختصراً، یہ سوال پیدا ہوتا ہے
کہ وہ حد بندی کہاں ہے جس سے مذہب کی بعض یقینی اور روحانی قیاس آرائیوں کے سائنسی
علم کا تعین ہوتا ہے، اور اس علم کے محافظ کون ہیں، اور بہت کچھ۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ سارے سوالات
کرسمس اور نئے سال کی اس آخری تہوار کی تعطیلات کے دوران، ہم خیال دوستوں کے جھرمٹ
میں بیٹھے ٹی وی پر پیلے کی آخری رسومات کی ادائیگی کو دیکھتے ہوئے پیدا ہوئے.....
"وہ دوسری دنیا کہاں ہے؟" ... یہ بات ایک ہسپانوی بولنے والے دوست نے اس
وقت چیخ کر کہی جب ٹی وی پر ہجوم میں سے ایک خاتون نے رپورٹر کے مائیک میں جذباتی انداز
میں بات کی۔ ہمارے دوست نے ہمیں سمجھایا کہ وہ خاتون فٹ بال کے بادشاہ پیلے کے لیے
جنت میں جگہ کے لیے دعائیں کر رہی تھی!
ایک چیز نے دوسرے اور حل طلب سوال
کو جنم دیا: علم انسانی معاشرے میں کہاں رہتا ہے؟ کیا یہ سائنسدانوں کی جماعت میں ہے
یا عبادت گاہوں کی پجاری - مادر کلیسیا کے متولیوں میں ہے؟
جیسا کہ یہ ہوا، ہمارا دوستانہ
گروپ "الگ الگ مزاج رکھنے والے لوگوں" کی ایک خوبصورت مخلوط جماعت پر مشتمل
تھا۔ کچھ تو اس میں ڈاکٹر، میڈیکل سے تعلق رکھنے والے اور اسکالر تھے، جبکہ اس میں
ایک مسلمان خاتون، جو انتہائی مذہبی سائنسدان تھی، اور اس کے شوہر بھی ساتھ ہی تھے
جو ایک ریاضی کے استاد ہیں جن کی لمبی لمبی مذہبی داڑھی ہے۔
رفت رفتہ یہ بحث خلائی سفر اور
اس کی ضرورت اور بالعموم انسانیت کے لیے اس کے فوائد کی طرف نکل پڑی۔
حیرانی کی بات تھی کہ خاتون سائنسدان
اور اس کا شوہر بھی، ایسی انسانی کوششوں کی ضرورت کے شدید مخالف نکلے۔ دونوں نے اسے
وقت، زندگی اور وسائل کا ضیاع، کار فضول اور خدا کے منصوبے کے خلاف قرار دیا، اور اس
کے ثبوت میں ان قرآنی آیت کا حوالہ دیا جن میں آسمان کی کنجیاں (مقالید) خدا کے پاس
ہونے کا بیان ہے، اس کو بائبل کے حوالہ جات سے بھی تقویت دیا۔ مزید برآں، اپولو 13
کی ناکامی، چیلنجر ڈیزاسٹر اور چند روور کے چاند اور مریخ کی سطحوں پر کریش ہونے کا
حوالہ بھی پیش کیا۔ لہٰذا، ان کے نزدیک یہ کنجیاں بنی نوع انسان کے لیے دستیاب نہیں
ہیں جیسا کہ ان واقعات سے ثابت ہے۔
کیا ہم نے 1969/70 میں ممبران سے
وہی بے اعتنائی کا اظہار نہیں سنا ہے، جب این آرمسٹرانگ اور بی ایلڈائن نے برسوں پہلے
چاند پر قدم رکھ کر بنی نوع انسان کو عروج بخشا تھا!
کہا جاتا ہے کہ رائٹ برادرز کے
ایک عزت دار والد نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ اگر بنی نوع انسان کا مقصد اڑنا ہوتا،
تو خُداوند انہیں پروں سے نوازتا!
چاند کے کامیاب سفر پر گرما گرم
بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسے ایک جھوٹا پروپیگنڈہ مان کر ایک طرف کر دیا گیا، اس
گفتگو کا رخ درحقیقت ایک فلم کی طرف کر دیا گیا جو چاند پر اترنے کے جھوٹ مفروضات پر
بنائی گئی تھی۔
کچھ دوسرے لوگ بھی اسی طرح کے ذہن
کے تھے، جو جو بڑی دل چسپی کے ساتھ یہ بات کرتے تھے کہ سائنسی لحاظ سے، یہ "غیر
سائنسی" معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز کشش ثقل کے خلاف اوپر کی طرف چلی جائے اور
پھر کبھی زمین پر واپس ہی نہ ائے!
قرآن مجید میں بھی کئی ایسی آیات
ہیں جن میں نظام کائنات کا مطالعہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ - تم کیوں نہیں دیکھتے؟
قرآن مجید کی آیت 16-12 میں دیا گیا ہے:
اسی نے رات دن اور سورج چاند کو
تمہارے لیے تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے ماتحت ہیں۔ یقیناًاس میں عقلمند
لوگوں کے لیے کئی ایک نشانیاں موجود ہیں۔
ہمارے درمیان موجود فطری طور پر
ایک مزاحیہ شخص سرگوشی میں چیخنا پڑا: ".... فسجدو الا ابلیس..." 2-34۔
یہاں تک کہ اس کے بعد اور بھی کئی
ایک ایسی آیات کے حوالہ جات کے باوجود جن میں آسمان اور آسمانی اجسام کے بارے میں غور
و فکر اور مطالعہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، اس مخمصے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا
کہ کون حق پر ہے اور یہ کہ کون علم کا نگہبان ہے چاہیے اور علم کیا ہے؟
پھر بھی، قرآن کے تناظر میں جو
کہ ایک ایسی کتاب جسے عام طور پر مذہبی کتاب سمجھا جاتا ہے، مسلمانوں، خدا اور خدا
کے احکام پر یقین رکھنے والوں کے لئے ایک مقدس کتاب ہے اور جو کائنات کے مظاہر کی طرف
اشارہ کرتی ہے مثلاً بارش، بجلی، بادل، رات، دن، سورج، چاند، سیاروں کے مدار، وقت اور....
خدا کا فرض، جسے مذہبی عبادت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یہ استدلال کیا گیا کہ، یہ ایک
فریم میں ان دو پہلوؤں کو یکجا کرتا ہے جو کہ دنیاوی اور روحانی ہیں۔
پوچھا گیا: کیا اس سے یہ معلوم
نہیں ہوتا کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں - جیسا کہ علم، قلم، لفظ اور تختی؟ کہ علماء اور
سائنسدان دونوں کے پاس علم ہونا ضروری ہے؟ لہٰذا مذہب صرف عبادت سے عبارت نہیں ہو سکتا
اور نہ ہی سائنس کو صرف علم سمجھا جا سکتا ہے؟
چونکہ کوئی اتفاق رائے قائم نہیں
ہو سکی، خوش قسمتی سے جینے اور جینے دینے کے اصول پر اتفاق ہوا اور بطور مہذب اور شاید
روشن خیال لوگوں کے، اس گفتگو کو مناسب انداز میں لکم دینکم ولی دین کے طور پر ختم
کر دیا گیا:
چنانچہ یہ تب سے جب سے جاری ہے
جب سے بنی نوع انسان سیدھے کھڑے ہوئے اور عبادت گاہوں اور درسگاہوں کی تعمیر شروع کی
ہے!
علماء اپنے مخصوص لباس میں آکر
علمائے دین ہونے کی اپنی مخصوص حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں، -- "جو ریاکاری کرتے
ہیں 107-6، اور راہگیروں کے سلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں- اور بیچارے سورہ فاطر
کی 35-28 کے سائنسدان سڑکوں پر عام انسان کی طرح گھومتے پھرتے ہیں، جن بمشکل ہی کوئی
توجہ دیتا ہو، گویا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں نویں اور دسویں صدی کے کوئی اہل علم ہوں
!
لیکن یہ ایک کھوکھلا دعویٰ ہے جیسا
کہ کسی علم والے نے کہا تھا:-
"وہ تمہارے باپ دادا تھے،
تم کیا ہو؟"
English Article: Can Knowledge Be In Two Parts - Of Science and
Religion
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism