ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
22 مارچ 2025
مصور فطرت خواجہ حسن نظامی (1878-1955) اردوزبان وادب کی ایک معتبر و معروف شخصیت ہے۔ انہوں نے ہندو دھرم کی مقدس شخصیت سری کرشن جی کی سوانح پر ایک اہم کتاب کرشن جیون کے نام سے تصنیف کی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی مقدس اور بزرگ شخصیت کرشن جی کو بڑے والہانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔اس کتاب کو مشائخ بکڈپو دہلی نے صفر/1342ہجری-ستمبر 1923میں تیسری بار شائع کیا ہے۔
خواجہ حسن نظامی
-------
واضح رہے کہ خواجہ صاحب مسلمان ہیں۔موحد ہیں۔صوفی ہیں ۔انہوں نے باوجود مسلمان ہونے کے ہندومذہب کے ایک ہادی کی بزرگی و عظمت کو جس وقعت کیساتھ ملحوظ رکھ کر اپنی بے تعصبی کا ثبوت دیاہے وہ نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ اس سے سماج میں یکجہتی اور خیر سگالی کا پیغام جائے گا ۔ قومی اتحاد اور سالمیت و یکجہتی کی فضاء ہموار ہوگی ۔ یہ کتاب گو مسلمانوں کے لیے لکھی گئی ہے۔ لیکن اس سے ہرمذہب اور عقیدہ کا آ دمی فایدہ حاصل کرسکتاہے۔ اردوزبان میں اس طرز اور اس شان کی محققانہ وبے تعصبانہ سری کرشن جی کے حالات میں اور کوئی کتاب نہ ہوگی۔ کرشن مہاراج کےہر حصہ زندگی کو اس عمدگی سے لکھا گیا ہےکہ واقعات کے سمجھنے میں معمولی علم اور سمجھ کے لوگوں کو بھی دشواری نہ ہوگی۔
خواجہ حسن نظامی کی تصنیف کردہ کتاب کرشن جیون کو غور سے پڑھنے کے بعد یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم میں شریک کرنی چاہیے ۔جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کی اقوام ہندو مسلم میں اصلی اور سچا اتحاد پیدا ہو، ان کو اس قسم کی کتابیں اپنے بچوں کو پڑھانی چاہئیں جن سے ہر قوم دوسری قوم کے رہنما اور ہادیان مذاہب کی عزت واحترا کا جذبہ موجزن ہوگا ۔ جو آج کل مفقود نظر ارہاہے ۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں ایسی کتاب کا کسی مسلمان کی طرف سے لکھا جانا اور پھر اس کی اشاعت کرنا گنگا جمنی تہذیب اور قومی اتحاد کے جذبہ کو مستحکم کرتا ہے اگر چہ اس طرح کی محمود کاوشیں چند مفسدہ پرداز طبائع پر گراں گزرتی ہیں ۔
ہندوستان کا مخصوص دائرہ عمل تصوف وروحانیت رہا ہے۔ یہاں اس فن کو جس حد کمال کو پہنچایا گیا ہے۔ اس کی نظیر شاید دنیا کے کسی بھی حصہ میں نہ ملے گی ،گوتم بدھ کی تعلیمات ہوں ہندو مذہب میں روحانیت کا نظام بھی اس کی شہادت دیتا ہے کہ یہ ملک تصوف و طریقت سے ہر دور میں متمول رہا ہے ۔ اس دھرتی کو ہمیشہ بزرگوں اور اصحاب فکر و بصیرت نے رونق بخشی ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستان کو صوفیوں ، رشیوں ، منیوں اور ارباب مذاہب کی سرزمین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دوسری صداقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں اکثریت ہندو دھرم کے متبعین کی ہے ایسے میں ایک مسلمان کی طرف سے ہندوؤں کے پیشوا کی حیات پر تصنیف کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے ۔
اس کتاب کی تصنیف و تالیف سے مسلمانوں کو سری کرشن جی کے اصلی حالات کا علم ہو سکے گا،اور ان کے پاکیزہ دماغ ایک برگزیدہ شخصیت کی نسبت بدگمان نہ ہوں گے۔ یقیناً بدگمانی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ آج سماج میں بہت سارے فتنے بدگمانی ، جہالت اور تعصب و تنگ نظری کی بنیاد پر برپا ہورہے ہیں ۔ اس طرح کا تحریری سرمایہ یقینی طور پر معاشرے سے غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتاہے ۔ سری کرشن یا کسی بھی مذہبی پیشوا کو بے اعتبار کتابوں کی بناء پر سب وشتم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔اس کتاب کو ہر طرح کے تعصب سے الگ ہوکر پڑھا جائے گا تو یقیناً اس کے معاشرے پر مفید اثرات مرتب ہوں گے ۔ نفرتوں اور غلط فہمیوں کا بخوبی ازالہ ہوگا ، سماج میں ہم آہنگی اور رواداری کا ماحول بپا ہوگا ۔ اس کتاب کے لکھنے کا جو مقصد و منشا ہے وہ یہ بھی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں سر ی کرشن کے حوالہ سے جو غلط فہمیاں پھلی ہوئی ہیں ان کو دور کیا جائے اور دونوں قوموں کے باہم رشتے خوشگوار رہیں ۔ یہ سچائی ہیکہ جب معاشرے میں ایک دوسرے کے مذہب اور برگزیدہ شخصیات کا احترام وتقدس کو یقینی بنایا جائے گاتو لازمی طور پر سماج کو صالح اور صحتمند خطوط پر تشکیل دینا آسان ہے ۔
مذکورہ بالا تمام حقائق وشواہد کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خواجہ حسن نظامی کی اردوزبان وادب میں لکھی گئی تقابل ادیان پر کتاب کرشن جیون یا کرشن بیتی کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کتاب کے اندر مصنف موصوف نے انتھائی رواداری اور انصاف کے ساتھ سری کرشن جی کے حالات کو تقریبا بیس سال کے طویل عرصہ میں مرتب و مدون کیاہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کتاب کے توسل سے ہندو دھرم کی متبرک شخصیت سری کرشن کے متعلق عوام و خواص میں جو بے بنیاد باتیں پھیل رہی تھیں یا پھیل رہی ہیں ان پر روک لگے گی ۔ تیسری بات یہ کہ اس طرح کی کاوش و سعی سے ہندوستان کی جمہوری اور آ ئینی قدریں بحال ہونگی ،نیز دونوں قوموں ہندو اور مسلم کے مابین باہم اعتبار و ارتباط اور تحمل وبرداشت کی راہ ہموار ہوگی جو یقینا ہماری نسلوں کو مذہبی منافرت کے خاتمہ سے بچائے گی اور تکثیری سماج کی شناخت بھی یہی ہے کہ اس میں ایک دوسرے کے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے ان کی خوبیوں اور خامیوں پرنگاہ رکھتے ہوئے مذاہب کے تقدس و احترام کا درس عام کریں تاکہ روئے زمین پر امن و امان اور صلح و آ شتی کی فضا روشن ہوسکے ۔
کیونکہ آج سماج میں مذاہب کو لے کر غلط فہمیاں اور نفرتیں پھیل رہی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کسی مذہب کو پڑھے بغیر اور اس کی روح و تعلیمات کو سمجھے بغیر ہی کوئی غیر مناسب بات کہہ دیتے ہیں ۔ اس لیے سماجی و فکری ہم آہنگی اور توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مذاہب کو پڑھیں اور ان کی تعلیمات و ہدایات ،روایات وارشادات سے مکمل واقفیت پیدا کریں تاکہ ہمارے قول و فعل اور کردار و عمل سے کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔
خواجہ حسن نظامی کی طرز پر آج بھی مسلم اسکالر اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ ہندوؤں کی مذہبی اور روحانی شخصیات کا تعارف اُردو زبان میں کثرت سے کرائیں اور مسلمانوں کے اداروں و محلوں تک پہنچائیں تاکہ معاشرے میں مثبت سوچ کے حاملین کی تعداد میں اضافہ ہوسکے ۔ اسی طرح ہندو دھرم کی مذہبی کتابوں اور ان کی تعلیمات کو اُجاگر کرنے کی بھی بے حد ضرورت ہے جن سے سماج میں مثبت سوچ اور نظریہ پروان چڑھے ۔ نفرتوں کا خاتمہ ہو۔ چھوٹے چھوٹے کتابچہ تیار کرکے شائع کیے جائیں گے تو یقین جانیے بہت جلد اس کے مفید اثرات سماج میں مرتب ہوں گے ۔
اسی طرح ہندو اسکالرس کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اسلام کی بابت اپنے قلم سے لکھ کر ہندو عوام و نوجوانوں تک پہنچائیں تاکہ اسلام کے متعلق جو باتیں بے سر پیر کی پھیلائی گئیں ہیں ان کا قلع قمع ہوسکے اور سماج میں جو لوگ نفرت کی کاشت کرکے اپنی سیاسی روٹیاں سیک رہے ہیں ان کی دکانیں بند ہوسکیں ۔
یہ بات بالکل سچ ہے کہ کوئی بھی مذہب نہ انسانیت کے خلاف ہے اور نہ وہ اپنے متبعین کو شدت و سختی یا جور وجبر کی تعلیم دیتا ہے۔ لہذا جولوگ مذاہب کے نام پرسماج میں شدت کو ہوا دے رہے ہیں ،ان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب سے ہو صحیح بات یہ ہے کہ وہ نہ اپنے مذہب کے لیے مخلص ہیں اور نہ اس سماج کے لیے جس میں ان کا رہن سہن ہے ۔ اس لیے کسی فرد کی غلطی کی بناء پر اس کے مذہب کو سب شتم نہیں کرنا چاہیے۔
خواجہ حسن نظامی کی کتاب کرشن جیون کا ایک اور پیغام ہے وہ یہ کہ اس طرح کے لٹریچر سے بھارت جیسے تکثیری اور تعدد پسند معاشرے میں اسلاموفوبیا پر بھی روک لگے گی نیز دو قوموں کے مابین اخوت و محبت کا رشتہ مضبوط تر ہوگا۔
اگر ہم اس نوعیت کا مزید کام کرتے ہیں تو اس سے علمی و تحقیقی مراحل تو وا ہوں گے ہی ساتھ ہی ساتھ سوچ و فکر میں توسع بھی پیدا ہوگا ۔ آج بھارت میں انہیں تمام امور کو انجام دینے کی ضرورت ہے ۔
-------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/khwaja-hassan-nizami-book-krishna-jeevan/d/134947
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism