خواجہ ازہر عباس ، فاضل درسِ نظامی
قرآن کریم نے تمام گزشتہ انبیاء کرام کی تصدیق اور ان پر ایمان لاناضروری قرار دیا ہے۔ مسلمانوں میں اس عقیدہ کی بنیاد پر یہودیوں کو یہ غلط تاثر تھا کہ مسلمان اپنا قبلہ بھی بیت المقدس کو ہی قرار دیں گے۔ بالخصوص اس وجہ سے او ریہ بھی کہ کعبہ اس وقت تک بُت کدہ بن چکا تھا ، اور اس لئے مسلمان اس کو اپنا قبلہ قرار نہیں دے سکتے ۔ لیکن مسلمانوں نے کعبہ ہی کو اپنا قبلہ مقرر کردیا تو یہودیوں کو یہ بات بڑی ناگوار گزری اور ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ کعبہ قریش کی تولیت میں ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے اس کو ہی اپنا قبلہ قرار دے دیا ہے اور بیت المقدس کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں نے چونکہ دین کو نسلی بنا رکھا تھا اس لئے بیت المقدس ان کا قبلہ بن سکتا تھا، لیکن اسلام چونکہ ایک عالم گیر دین تھا اس لئے اس کا قبلہ بیت المقدس نہیں بن سکتا تھا اس کا قبلہ بھی بین الاقوامی ہوناچاہئے تھا جس آیہ کریمہ سے تحویل قبلہ کا عقیدہ اخذ کیا جاتا ہے وہ آپ ملاحظہ فرمائیں ارشاد ہوتا ہے:۔
سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (2:142)
ترجمہ:۔ بعض احمق لوگ یہ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ (بیت المقدس) کی طرف پہلے تھے اس سے دوسری طرف مڑ جانے کا کیا سبب ہوا۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم اس کے جواب میں کہو کہ مشرق و مغرب سب خدا کا ہے،جسے چاہتاہے راستہ کی طرف ہدایت کردیتا ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر کے ذیل میں حضرت مولانا عثمانی صاحب نے تحریر فرمایا ہے‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے مکہ تشریف لائے تو سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رہے اس میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آگیا تو یہود و مشرکین اور منافقین او رکچّے مسلمان ان کے بہکانے سے شبہے ڈالنے لگے کہ یہ تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتے تھے جو قبلہ نما پہلے انبیاء کا ہے اب انہیں کیا ہوا جو اس کو چھوڑ کر کعبہ کو منہ کرنے لگے ۔ کسی نے کہا کہ یہود کی عداوت پر ایسا کیا۔ کسی نے کہا کہ یہ اپنے دین میں متر ددو متحّیر ہیں جن سے ان کا نبی اللہ ہوناظاہر نہیں ہوتا۔ مخالفوں کے اس اعتراض اور اس کے جواب میں جو آگے ہے، اللہ نے اطلاع فرما دیا کہ کسی کو اس وقت تردد نہ ہو، اور جواب میں تامل نہ ہو’’۔
تفسیر معارف القرآن میں رقم ہے ‘‘ حضرت خاتم الانبیاء پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتداءًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قرار دیا گیا ۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے او رمدینہ طیبہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سے ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیے۔ صحیح بخاری کی روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی ۔ مسجد نبوی میں آج تک اس کی علامت موجود ہے جہاں کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی تھی ۔ بہر حال ہجرت مدینہ کے سولہ سترہ مہینے بعد آپ کا اور مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ کو بنایا گیا ۔ اس پر یہود او ربعض مشرکین و منافقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ ان کے دین کابھی کوئی ٹھکانہ نہیں ان کا قبلہ بھی روز بروز بدلتا ہے۔ ( جلد اوّل ۔ صفحہ 362)
تفسیر ضیاء القرآن میں ہے ‘‘ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کےساتھ مسجد نبی سَلَمَہ میں ظہر کی نماز با جماعت ادا کررہے تھے ۔ دو رکعت ادا فرما چکے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی ۔ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس سےمنہ موڑ کر کعبہ کی طرف رخ کر لیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے رخ کعبہ کی طرف پھیر لیے ۔ مدینے کی دوسری مسجد وں میں بھی جہاں جہاں جماعت ہورہی تھی جب یہ حکم پہنچاتو اسی لمحہ صحابہ نے اپنے رخ پھیر لیے اور دنیا کو تسلیم و رضا کا ایک بے مثال نمونہ دکھا دیا ۔ ( جلد ۔1۔ صفحہ 103)
تفسیر نمونہ میں تحریر ہے ۔ ‘‘ایک روزمسجد بنی سَا لمَ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر پڑھا رہے تھے ۔ دو رکعت ادا فرماچکے تھے کہ جبرئیل کو حکم ہوا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا بازو تھام کر ان کا رخِ انور کعبہ کی طرف پھیر دیں ’’۔
اس آیت کا شان نزول اور اس کی تفسیر تقریباً تمام تفاسیر میں اسی طرح آئی ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت میں یا اس سے ما سبق یا مابعد کی آیات میں کہیں بھی نماز کا ذکر ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں ہمارے مفسرین کرام نے اس آیت کو نماز کے ساتھ کس طرح منسلک کردیا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یہ تفسیر اس وقت تحریر کی گئی ہے جب دین کا تصور مذہب میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ دین میں تو صبح سے شام، اور شام سے صبح تک ہر وقت رخ اور توجہ صرف کعبہ کی طرف ہوتی ہے۔ اور کعبہ امت مسلمہ کا ایک محسوس مرکز ہوتا ہے جس کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی مملکت قائم فرمائی تو بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دارالخلافہ مدینہ تھا ۔ لیکن اس نظام کا مرکز کعبہ ہی تھا۔ مسلم مملکتیں آئیں اور ختم ہوئیں لیکن ان کا مرکز بھی کعبہ ہی تھا ۔ قرآن کی رو سے کعبہ پوری انسانیت ( الناس) کا مرکز ہے۔ مسلمانوں کی مملکتیں آئندہ بھی قائم ہوں گی اور منقرض ہوں گی۔ ان کے دارالخلافے دنیا کے مختلف شہر ہوں گے لیکن مسلمانوں کا مرکز خانہ کعبہ ہی رہے گا۔ اسلامی حکومت ختم ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ حج اس حکومت کا سالانہ اجتماع تھا ۔ اسلامی حکومت ختم ہونے کے باوجود حج اب بھی بدستور قائم ہے۔ اگر کبھی مسلمانوں کی قسمت نے یاوری کی، اور اسلامی مملکت قائم ہوگئی تو کعبہ سے ہی ہدایت جاری ہوگی اور حج کے نتائج بھی بر آمد ہونے شروع ہوجائیں گے۔ دین کے نقطہ نگاہ سے اس آیت کی موجودہ تفسیر درست نہیں ہوسکتی ۔
دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ کعبہ تو اوّل دن سے تمام انبیاء کرام علیہ السلام کا قبلہ تھا ۔ بیت المقدس تو کبھی بھی قبلہ نہیں ہوا۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ( 3:96)
ترجمہ:۔ بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہ مکہ ہے، بابرکت ساری دنیا کے لئے ہدایت ہے۔
اس آیت نےیہ بات واضح کردی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک صرف ایک ہی مرکز مقر ر کیا گیا ہے جو مکہ ہے۔ یہ بات فرض کرنی ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا تھا او رہجرت نبوی کے بعد بیت المقدس کی بجائے کعبہ قبلہ قرار دیا گیا درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بیت المقدس کو قبلہ نہیں ٹھہرایا او رنہ کبھی نماز اس کی طرف رخ کر کے ادا کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں پیدا ہوئے تو وہاں اس وقت ایسے لوگ موجود تھے جو ملت ابراہیم علیہ السلام کے متبع تھے اور حنیف کہلاتے تھے اور جو ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں مکہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملت ابراہیم علیہ السلام کے اتباع کا حکم ہوا تھا اسی لئے لازمی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے ہی ادا کرتے ہوں گے۔
ہمارے علماء نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ
اب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پروہ تھے ( معارف القرآن) ۔ لیکن اگر روایات پیش نظر نہ ہوں تو اس کا درست ترجمہ یہ ہے۔ یہ بیوقوف لوگ ( یہودی) کہیں گے کہ مسلمانوں کو کس چیز نے پھیر دیا اس قبلہ سے جس پر وہ ( یہود) ہیں ۔ التی کانواعلیھا سے مراد مسلمان نہیں بلکہ اس سے مراد وہ یہود ہیں جو اب بھی بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دے رہے ہیں۔ یہودیوں کو تعجب اس بات پر تھا کہ جب مسلمانوں نے ان کے تمام انبیاء علیہ السلام کو تسلیم کرلیا تو ان کا قبلہ کیوں تسلیم نہیں کیا۔ اور بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیوں بنایا۔
اس آیت سے آگے ارشاد ہوتا ہے۔وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ (2:143)
ترجمہ:۔ اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے یہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کون تابع رہے گا رسول کا او رکون پھرجائے گا الٹے پاؤں۔
ہمارے مفسرین کرام روائت کے زیر اثر پہلے بیت المقدس کو قبلہ قرار دے کر اس آیت میں بھی الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا سے مراد بیت المقدس ہی لیتے ہیں جب کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ اول قرار دینا ہی خود قرآن کے خلاف ہے لیکن بیت المقدس کو قبلہ قرار دے کر اس مقروضہ پر ہمارے مفسرین کرام یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ‘‘ اس آیت کو سمجھنے کے لئے اس کا پس منظر اور شانِ نزول سمجھنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ کے بعد مکی زندگی کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ وہ اپنی نمازیں بیت المقدس کی جانب رُخ کرکے ادا کریں۔ گویا بیت المقدس کو قبلہ متعین کردیا گیا تھا ۔ سترہ ماہ تک مسلمان بیت المقدس کو بطور قبلہ اختیار کئے رہے۔ سترہ ماہ کے بعد قرآن کریم نے سابقہ حکم منسوخ کردیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مسجد حرام کو اپنا قبلہ قرار دیں اور نمازوں میں اسی طرف رُخ کریں۔’’
بیت المقدس کے قبلہ اول ہونے کے مفروضہ پر وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا ، سےہمارے علماء کرام یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ‘‘ یہاں سابقہ مقرر کردہ قبلہ کےحکم کی خود اللہ تعالیٰ کی جانب نسبت کی گئی ہے جس سے واضح ہے کہ بیت المقدس کو خود اللہ تعالیٰ کے حکم سےقبلہ مقرر کیا گیا تھا ۔اب قرآن کریم کو شروع سے آخر تک پڑھاجائے ۔ اس حکم کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ملے گا نہ کوئی ایسی آیت ملے گی جس میں بیت المقدس کی طرف رُخ کرنے کا حکم موجود ہو۔ درحقیقت یہ حکم خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی کسی آیت کے حوالے کے بغیر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود قرآن کریم میں اسے اللہ کا حکم قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہے گئے کہ ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ اس لئے مقرر کیا تھا’ بلکہ الفاظ یہ ہیں ‘ ہم نے قبلہ اسی لئے مقرر کیا تھا’’۔
جو اقتباس اوپر تحریر کیا گیا ہے اس کے بعد اس اقتباس کے نتیجے کے طور پر تحریر ہے ‘‘ یہ اتنا واضح ثبوت ہے کہ اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ سابقہ حکم جو رسالت مآب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے دیا گیا تھا ۔ ایک ایسی وحی پر منبی تھا جو کہ قرآن کا جز نہیں تھی ۔ اور یہی وحی غیر متلو کا مطلب ہے’’۔
اقتباسات درج کرنے سے مضمون MONOTONOUS بوجھل بن جاتا ہے، لیکن اس کے لئے ہم معذرت خواہ ہیں کہ ان کا اندراج ضروری تھا۔ ان تمام اقتباسات میں وحی خفی کے عقیدے کو ثابت کیا جارہا ہے لیکن چونکہ ان اقتباسات کی بنیاد ہی تحویل قبلہ کے غلط مفروضہ پر قائم ہے اس لئے ان کا نتیجہ درست نہیں ہے کہ ‘ ہم نے قبلہ اس لئے مقرر کیا تھا’ کے الفاظ قرآن میں موجود نہیں لہٰذا یہ بھی وحی خفی تھے۔
ہمارے علماء کرام وحی خفی کے عقیدے کے ثبوت میں یہ موقف اختیار کرتے ہیں اور چند آیات سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پرعمل فرمایا لیکن اس حکم کے الفاظ قرآن میں نہیں ہیں فلھذا ‘وحی خفی’ تھے،جو روایات ہیں بیان کردی جاتی ہیں۔ اسی آیت کریمہ میں بھی ‘ ہم نے قبلہ اس لئے مقرر کیا تھا’ کے الفاظ وحی خفی قرار دئیے جارہےہیں لیکن آپ کو حیرانی ہوگی کہ جس وحی کا استدلال ان الفاظ سےکیا جارہا ہے ، یہ وحی خفی کسی حدیث میں موجود نہیں ہے۔ کسی بھی وحی خفی کا محکَیٰ عنہ’ روایات میں نہیں ملتا۔ جب وحی خفی کا محکیٰ عنہ، روایات میں موجود ہی نہیں ہے تو پھر ان آیات سے وحی خفی کا استدلال کرنا ہی بے بنیاد بات ہے۔
معزز قارئین کرام کےلئے محکیٰ عنہ کا مفہوم واضح کرنے کےلئے چند او رمثالیں پیش خدمت کی جاتی ہیں۔
ماہانہ ‘ محدث’ اہل حدیث حضرات کا ایک مشہور او رمعتبر علمی رسالہ میں اکتوبر 1995 کے ایشو میں ایک مضمون بعنوان ‘ سنتِ نبوی وحی پر مبنی اور محفوظ ہے’ طبع ہوا تھا ۔ وحی خفی کے ثبوت کے بارے میں انہوں نے بھی یہی موقف اختیار کیا تھا اور اسی طرح چند آیات سے استدلال فرمایا تھا ، اس رسالہ میں تحریر ہے:
‘‘ ارشاد ہوتا ہے وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا ( 9:84)
اس آیت سےمعلوم ہوتاہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل ہی نماز جنازہ شروع ہوچکی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اموات کے جنازوں پر نماز پڑھا کرتے تھے حالانکہ قرآن میں جنازے ہونے والی اس سے پہلے کوئی آیت نہیں بتائی جاسکتی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا مسلمانو ں کو نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہو’’۔ اقتباس ختم ہوا۔
اس جگہ پھر وہی اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ملتی تو روایات میں بھی کوئی ایسا حکم نہیں ملتا کہ جنازہ کی نماز پڑھا کرو۔
(2) موقر رسالہ ‘محدث’ میں دوسری مثال یوں تحریر ہے:
‘‘ قرآن کریم میں ہے وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ( 66:3)
ترجمہ:۔ اور جب نبی علیہ السلام نے کسی وجہ سے اپنی ایک بات چپکے سے فرمائی مگر جب آپ کی اس زوجہ نے وہ بات (دوسری بیویو ں کو) بتلادی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے باخبر کردیا تو آپ نے تھوڑی سی بات بتلادی اور تھوڑی سی بات ٹال گئے ۔ جب آپ نےاس بیوی کو یہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگی آپ کو کس نے خبر دی۔ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر نے مطلع کیا۔
لیکن قرآن کریم کی کسی بھی آیت میں علیم و خبیر کا اپنے نبی کو اس بات سے مطلع کرنا مذکور نہیں ہے کہ آپ کی اس زوجہ نے آپ کا راز دوسری بیویوں کو بھی بتا دیا ہے پس معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی کے پاس وحی آتی تھی جس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ سے باخبر کیا گیا تھا’’۔ اقتباس ختم ہوا۔
‘ محدث’اس جگہ پر یہ استدلال کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود وحی خفی کے ذریعے یہ بات بتائی تھی کہ آپ کی زوجہ محترمہ نے آ پ کا راز فاش کردیا ہے اور وہ وحی خفی قرآن میں نہیں ہے بلکہ قرآن کے باہر ہے۔ یہاں پر یہ اعتراض بنتا ہے کہ اس وحی خفی کا محکیٰ عنہ روایات میں بھی موجود نہیں ہے۔ حدیث کی کسی کتاب میں یہ موجود نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس افشائے راز کی خبر دی تھی۔ رسالہ کے اس مضمون کا عنوان ہی یہ ہے کہ ‘ سنتِ نبوی وحی پرمبنی اور محفوظ ہے’ ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر وحی خفی کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو افشائے راز کی اطلاع دی گئی تھی تو اس وحی خفی کو کتبِ احادیث میں محفوظ ہوناچاہئے تھاجو کہ فی الحقیقت نہیں ہے۔
(3) وحی خفی کے ثبوت میں مؤخر ماہنامہ ‘ محدث’ ایک اور آیت رقم کرتا ہے ۔ ارشاد ہے کہ
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ ( 59:5)
ترجمہ: جو کھجوروں کے درخت کے تنے تم نے کاٹے یا ان کو جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ چیز اللہ تعالیٰ کے حکم ( اور رضا) کے مطابق ہے۔
لیکن مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودی قبیلہ بنو نضیری بد عہدی کے نتیجے میں کی جانے والی اس تادیبی کاروائی میں جس ‘ اذان الہٰی’ کا تذکرہ ہے وہ قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں چنانچہ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں :۔
ولا نجدُ فی القرآن ذلک اذن فشبت قطیعا انّ الرسول کان یا تیہ الوحی ایضا کما قلنا سابقا
رسالہ نے علامہ ابن کثیر کے اس اقتباس کا ترجمہ نہیں لکھا ۔ ہمارے پاس یہ مضمون مکمل نہیں ہے ۔ اس کے آخری صفحات ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ممکن ہے اس کا ترجمہ آخر میں درج ہو۔ لیکن ہم خود اس کا ترجمہ درج کرتے ہیں ۔ ‘ ہم اس اذن ( اجازت) کو قرآن میں کہیں نہیں پاتے بس قطعی طور پر ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور وحی بھی آتی تھی ، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے’ ۔ لیکن رسالہ اور علامہ ابن کثیر کے قول پر ہمارا پھر وہی اعتراض ہے کہ اگر اذن ( اجازت) قرآن میں نہیں ہے تو اس وحی خفی کا محکیٰ عنہ کتب احادیث میں بھی موجود نہیں ہے پھر اس وحی خفی کو محفوظ کیسے مان لیا جائے ۔
(4) محدث، اس بار میں اگلی آیت پیش کرتا ہے:۔
وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ ( 5:58)
ترجمہ: اور جب نماز کے لئے پکارتے ہو ( اذان) تو وہ لوگ اس کے ساتھ ہنسی او رکھیل کرتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے ۔
مندرجہ بالا آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی اذان ایک دینی عمل کی حیثیت سے رائج تھی لیکن قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں بتائی جاسکتی جس کے ذریعہ اذان کا حکم دیا گیا ہو’ ( اقتباس ختم)
لیکن حیرانی اور اعتراض کی بات یہ ہے کہ کتب روایات میں کوئی ایسی روایت نہیں بتائی جاسکتی جس کے ذریعہ اذان کا حکم دیا گیا ہو۔
ہمارے علماء کرام کا یہ استدلال کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتا باقی رہا آیات کا وہ درست مفہوم جو وحی خفی کی مدد کے بغیر لیا جاتا ہے اس سے بیشتر کئی مرتبہ رسالہ ھذا میں پیش خدمت کیا جاچکا ہے۔ اگر کسی صاحب کو ان آیات کے مفہوم کی ضرورت ہو تو وہ مفہوم القرآن یا تفسیر القرآن، با آیات القرآن یا بیان للناس کا مطالعہ فرمائیں ان تفاسیر میں ان آیات کا مفہوم واضح کردیا گیا ہے ۔ اگر مزید تشنگی محسوس ہو یا کسی خاص آیۂ کریمہ پر کوئی تحقیقی کام کرنا پیش نظر ہوتو ‘مطالب القرآن’ اور ‘ دروس القرآن’ سے مدد لی جاسکتی ہے ۔ ان دروس میں ہر آیت کا مفہوم بغیر وحی خفی کی مدد کے بہت واضح کردیا گیا ہے۔ البتہ اس میں محنت بھی درکار ہوگی اور سابقہ مفسرین کے راستوں کو بھی چھوڑنا ہوگا۔
منزلت دور است و بارت بس گراں
کوششے کن پس ممان از دیگراں
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ طلوع اسلام، لاہور
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/no-narrator-hidden-revelation-mentioned/d/100238