قرآن کریم کے عطاء کردہ حقوق انسانیت ، باب دواز دہم
قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت میں ایک ثبوت قرآن کریم کے وہ انقلابی نظریات ہیں جو قرآن نے اُس وقت دیئے تھے ۔ جن کا تصور آج بھی پوری انسانیت میں کہیں نہیں ملتا ۔ عقل انسانی اگر چہ آہستہ آہستہ ترقی کرتی جارہی تھی لیکن قرآن نے جو نظریات دیئے وہ اپنے زمانہ سے بہت آگے تھے ۔ عقل انسانی چونکہ آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے، اس لئے اس طویل مدت میں ذہن انسانی کی سطح بھی بلند ہوتی جاتی ہے اور وہ بلند تصورات کو اپناتی چلتی ہے ۔ لیکن جب قرآن کریم نے اپنے انقلابی نعرے بلند کئے تو اُن سے صرف وہی جماعت متاثر ہوئی جو اس پر ایمان لا چکی تھی ۔ اس جماعت سے باہر کے لوگ، جو اس پر ایمان نہیں لاتے تھے اور جن کی ذہنی سطح اتنی بلند نہیں ہوئی تھی وہ ان حقائق کو ماننے کے قابل نہیں ہوسکے تھے ۔ قرآن کریم نے جو نئے تصورات دیئے اُن کی فہرست طویل ہے ، جو آئندہ ایک باب میں بیان کئے جائیں گے ، ان میں ایک تصور انسانی حقوق کا بھی ہے ۔ اُس تاریک دور میں انسانی حقوق کا تصور ذہن میں آہی نہیں سکتا تھا ۔ یہ تصور کہ انسانوں کے کچھ ایسے حقوق ہونے چاہئیں جن سے انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکتے ہوں، بہت بعد کی بات ہے۔ انسانی عقل نے جو حقوق وضع کئے ، وہ انسانیت کے حقوق نہیں ہیں وہ صرف قانون حقوق ہیں ۔
عقل انسانی حقوق کے تصور کا احساس کرنے کے قابل سترہویں صدی عیسوی میں ہوئی ہے ۔ جس کا سب سے پہلا عملی مظاہرہ جون 1215 ء میں مینگنا کارٹا کی شکل میں سامنے آیا ۔ اس وقت کے بادشاہ John سے اس کے ہم عصر Barons سخت ناراض تھے ۔ انہوں نے سب سے مل کر بادشاہ سے زبردستی اس پر دستخط کرائے جس کی صرف تین شقیں تھیں ۔ اس معاہدہ کی جو تین شقیں ہیں ان کا تعلق عوام سے بالکل نہیں تھا ۔ اس لئے اس معاہدہ کا عام انسانوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ مشہور علماء مغرب ہابز Hobbes، لاک Loch اور رُوسوں کی کوششوں سے انسانی حقوق کا تصور مزید نمایاں ہوتا چلا گیا تھا مس پین ( Paine) نے اٹھارویں صدی میں اس بارے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کی مشہور و مقبول کتاب Rights of man اب بھی بہت دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے ، اس نے آزادی ، املاک، استبداد کی مخالفت کو بنیادی حقوق انسانی قرار دیا ۔ Paineکے پیش کردہ حقوق انسانی ہی وہ حقوق تھے ، جنہیں فرانس کے عظیم انقلاب کے بعد فرانس کی نیشنل اسمبلی نے اپنے چارٹر میں درج کیا تھا ۔ امریکہ کا منشور آزادی بھی جو 1774ء میں پیش ہوا ، Paine ہی کے فطری حقوق کے نظریہ پر مبنی تھا ۔ انسانی حقوق کے بارے میں آخری قدم مجلس اقوام متحدہ نے اُٹھایا جب کہ یو ۔ این ۔ او ( U.N.O) نے انسانی حقوق کا جائزہ لیا اور ا س مجلس نے ایک چارٹر 1948 ء میں شائع کیا جسے منشور حقوق انسانی کے نام سے موسوم کیا گیا ۔ اس منشور کی تیس (30) شقیں ہیں جو بڑی حد تک انسانیت کے آنسو پوچھ سکتی ہیں اور یہ عقل انسانی کی معراج کبریٰ ہے ۔ یہ تمام حقوق وضع کرنے کے بعد، اس چارٹر کے آخر میں یہ رعایت دی گئی ہے کہ ان حقوق کا اطلاق حکومتوں کی عائد کردہ پابندی کے بعد ہوگا اور چونکہ ہر حکومت اپنی مرضی کے مطابق قانون سازی کرتی ہے ۔لہٰذا ان حقوق کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ یہ حقوق حکومتو ں کی زیادتیوں کے خلاف ہی تو وضع کئے جاتے ہیں اور جب آپ ان حقوق کو حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیں گے ، توان کی کیا اہمیت رہ جائے گی ۔اس ساری طویل جد وجہد کانتیجہ بالکل مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ انسانی حقوق مطلق (Absolute) حقوق نہیں ہیں ۔ یہ صرف اضافی حقوق ہیں اور ان کے اطلاق کا انحصار حکومتوں کی مرضی پر ہے جب کہ آپ آگے چل کر ملاحظہ فرمائیں گے کہ قرآن کریم کےعطا ء کردہ حقوق مطلق حقو ق ہوتے ہیں ۔ ان میں کسی حال میں کوئی بھی ترمیم و تنسیح نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ان کو کسی صورت میں بھی چھینا جاسکتا ہے ۔ انسانیت کے سامنے آج بھی مطلق حقوق کا تصور نہیں ہے، یہ تصور صرف قرآن کے سامنے ہے اور یہاں سےہی قرآن کریم کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
ہم یہاں انسانی حقوق کی مختصر ترین تاریخ تحریر کردی ہے کیونکہ ہمارا مقصد اس کی تاریخ Trace کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ عقل انسانی نے صدیوں کی جد وجہد کے بعد یہ حقوق وضع کئے ہیں جب کہ اس کے مقابلہ میں قرآنِ کریم نے چھٹی صدی عیسوی میں جو حقوق دیئے ہیں وہ اس نظام کے اندر Inherent اور IN-Built ہوتے ہیں ۔ وہ حقوق مطلق ہیں، ان حقوق سے کسی حال میں بھی کسی شخص کو محروم نہیں کیا جاسکتا ، نہ ہی ان پر کسی قسم کی پابندی عائد کی جاسکتی ہے ۔ عقل انسانی نے جو حقوق بنائے ہیں ان کی اساس ہی غلط ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے انسانی حقوق کا سب سے پہلا علمبردار ہابز Hobbes تھا ۔ اس کی پیدائش 1588 ء میں ہوئی اور وہ 1679 ء میں فوت ہوا ۔ یہ Stuarts کا زمانہ تھا اور بادشاہت مضبوط تھی ۔انسانی حقوق با لکل معدوم تھے ۔ اس کے ماحول کا یہ ردعمل تھا کہ اس نے حقوق انسانی کی آواز بلند کی۔ مغربی مفکرین جن حقوق انسانی کا ذکر کرتے ہیں وہ سیکولر حکومتوں کے اجزاء نہیں ہوتے ۔ یہ حقوق حکومتی نظام کے باہر ہوتے ہیں ، اور ان حقوق کو پبلک ، بادشاہوں سے زبردستی چھینتی ہے اگر بادشاہت مضبوط ہے تو وہ رعایا کو کم سے کم حقوق دے گی ۔ اگر عوام زیادہ طاقتور ہیں اور حکومت کمزور ہے ، تو وہ عوام حکومت سے زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کریں گے ۔ خود سیکولر حکومت میں حقوق کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ یہ حقوق حالات کے مطابق زیادہ کم ہوتے رہتے ہیں ۔ اس موجودہ دور میں بھی مغربی اقوام جو زیادہ مہذب کہلائی جاتی ہیں ۔ ان میں عوام کو زیادہ حقوق حاصل ہوتےہیں ۔
ایشیائی ممالک میں حقو ق کم دیئے گئے ہیں ۔ ان کے برخلاف قرآن کے عطا ء کردہ حقوق ، قرآنی نظام کے اجزا ء ہوتے ہیں ۔ جب قرآن نے فرمایا وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (17:70) او رہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ۔ تو یہ حق مطلق ہے Absolute اس نظام کا حصہ ہے ۔ اس حق کو کوئی شخص یا کوئی حکومت اس سے چھین نہیں سکتی ۔ اس نظام کے وجود کا جواز ہی یہ ہے کہ اس نظام میں ہر شخص کی عزت کی جائے ۔ اسلامی نظام کی اطاعت کرنا، خدائی وعدوں کو پورا کرنے سے مشروط ہے ۔ اگر کسی نظام میں انسانوں کی عزت نہیں ہورہی ہے تو اس نظام کی اطاعت مرفوع ہوجاتی ہے ۔پھر اس کی اطاعت کرنا لازمی نہیں رہتا ۔ قرآن کریم کے دیئے ہوئے حقوق وہ حقوق ہیں جن کا تعلق انسانیت کی نشو نما سے ہے جب کہ عقل انسانی کے بنائے ہوئے حقوق کا کوئی تعلق انسانیت کی نشو و نما سےنہیں ہوتا بلکہ یہ صرف قانونی حقوق ہوتے ہیں ، جو حکومتوں میں امن و امان رکھنے میں مددگار بنتے ہیں۔ قرآنی نظام ہر شخص کو از خود حقوق دیتا ہے ، اس نظام میں عوام کو جد وجہد کرکے، احتجاج کر کے حقوق حاصل کرنے نہیں ہوتے۔
شروع میں انسانوں کی زندگی میں انفرادی طور پر گزر تی تھی اور اس کو فطری زندگی کہا جاتا ہے ۔ جب عقل انسانی نے کچھ ترقی کی اور معاشرے وجود میں آنے لگے ۔ یہاں سے فطری زندگی کا سلسلہ ختم ہوکر تمدنی زندگی کی ابتداء ہوئی ۔ اس تمدنی زندگی میں کچھ لوگ زیادہ طاقتور ہونے لگے او رکچھ لوگ کمزور رہ گئے ۔ اسی طرح کچھ لوگ امیر بن گئے ، او رکچھ لوگ غریب رہ گئے ۔ ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ۔ اس لئے اپنے کو محفوظ بنانے کے لئے حکومتوں کا قیام عمل میں آیا ۔ حکومت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ سب لوگ حکومت کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور حکومت ان کو ہر طرح تحفظ فراہم کر ے، اور ان کی ضروریات پوری کرے ۔ حکومت بنی تو اس لئے تھی کہ وہ عوام کا خیال رکھے اور ان کی ضروریات پوری کرے لیکن حکومتوں نے خود عوام کو ہر طرح سے تنگ کرنا شروع کردیا عوام سے اپنی اطاعت کرانا تو وہ اپنا حق سمجھتے تھے لیکن ان کا تحفظ کرنا، ان کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کو اپنا فرض نہیں سمجھتے تھے ۔ حکومتوں کے مظالم اور ان کی تجاوزات سے بچنے کے لئے انسانی حقوق وضع کئے گئے اور یہ طے پایا کہ حکومتوں کی تشکیل سے پیشتر انسان جو فطری زندگی گزار رہا تھا، اس فطری حالت میں انسان کے کچھ حقوق تھے، جنہیں کسی نے غصب نہیں کیا تھا ۔ ان حقوق کو انسانی حقوق قرار دیا جائے، اور ان فطری حقوق کا نام ‘‘ بنیادی حقوق انسانیت ’’ رکھا گیا ۔
موجودہ انسانی حقوق کی بنیاد حاکم و محکوم کے تصور پر قائم ہے ۔ قرآن کریم کے نزدیک حاکم و محکوم کاکوئی امتیاز نہیں ہے ۔ پوری امت مسلمہ حکومت چلانے کی ذمہ دار ہوتی ہے (22:4،24:55) ۔ قرآن نظام میں معاہدہ عوام اور نظام کا ہوتا ہے ۔ نظام اپنی اطاعت کراتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ عوام کے حقوق کا از خود پورا ہونا ہوتاہے کیونکہ دین کی اطاعت سے حقوق انسانی از خود پورے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ قرآنی حقوق انسانی اور قرآنی معروفہ مستقل اقدار اور صفات باری تعالیٰ ایک ہی چیز ہوتی ہے ، ارشاد ہوتا ہے ۔ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ (22:41) یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں روئے زمین پر قابو دے دیں تو یہ لوگ صلوٰۃ ادا کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کریں گے اور برُی باتوں سے روکیں گے۔ یہ قرآنی معروف ہی انسانی حقوق ہیں اور حکومت کے قیام کا جواز ہی ان رؤف یا حقوق انسانی پر عمل کرانا ہوتا ہے ۔
اسلامی مملکت جو احکامات نافذ کرتی ہے وہ معروف ہوتے ہیں اور جن سے منع کرتی ہے وہ منکر ہوتےہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا (24:27) اے ایمان والو!اپنے گھروں کےسوا دوسرے گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ ان سے اجازت حاصل نہ کر لو۔یہاں دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت داخل نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ ایک معروف ہے جس پر حکومت عمل کرتی ہے ۔ یہ ایک انسانی حق بھی ہے کہ ہر شخص کا گھر محفوظ رہے او رکوئی دوسرا شخص اس گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہو ۔قرآن میں حکم ہوتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (16:90) اس میں شک نہیں کہ خدا انصاف او رحسن سلوک کا حکم دیتا ہے ۔ یہ عدل و انصاف کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اسلامی مملکت کا ایک معروف ہے ۔ یہی انسانی حق بھی ہے کہ ہر شخص کے لئے عدل و انصاف ہے، اس طرح آپ اس بات کو بغور ملاحظہ فرمائیں کہ قوانین خداوندی کے اتباع سے خود بخود انسانی حقوق پورے ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑی اور اہم بات ہے ۔
یہودی پہلے تو لوگوں کو گھروں سے باہر نکال دیتے تھے وہ یہودی مارے مارے پھرتے تھے تو ان کے احبار و رُہبان عوام سے اپیل کرتے تھے کہ ان بے گھر غریب لوگوں کو آباد کرو، اس سے ثواب حاصل ہوگا یہی حال انسانیت کا ہے ۔ انسان پہلے خود وہ قوانین بناتے ہیں جو ظلم ، کفر، اور فسق پر مبنی ہوتے ہیں (5:45،5:44،5:47) پھر ان ظلم پر مبنی قو انین کے نفاذ کے بعد وہ قوانین بناتے ہیں جو ان قوانین کے ظلم سے محفوظ رکھ سکیں او راپنے حقوق کا تحفظ ہو سکے ۔ جب تک انسانوں کو قانون وضع کرنے کا اختیار باقی رہے گا ، اسی قسم کے قوانین بنیں گے اور پھر حقو ق محفوظ کرنے کے قانون بنیں گے۔ آپ انسانوں کو قانون سازی کا حق نہ دیں اور قرآن کریم کے قوانین نافذ کریں ، خود بخود ہر شخص کو اس کا حق ملتا چلا جائے گا۔
ہمارا فقہ جب مُدوّن ہوا تو دین کا نظام منقرض ہوچکا تھا او رمذہب کاشدید غلبہ تھا ۔ ہماری ساری فقہ مذہب کے نقطۂ نگاہ سے لکھی گئی ہے ۔ اسی لئے ا سکا بڑا حصہ قرآن کے خلاف ہے ہمارے فقہاء کرام نے مذہب کے غلبہ کی وجہ سے عبادات اور معاملات کو الگ الگ قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔ عیسائیت میں بھی ثنویت ( Dualism) تھی عیسائیت میں یہی حکم تھا کہ خدا کا حصہ خدا کو دو اور قیصر کا حصہ قیصر کو دو مذہب کے غلبہ کی وجہ سے یا شاید عیسائیت کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تصور پیدا ہوگیا لیکن دین کے نظام میں اس کو کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ دین میں اللہ کا کوئی حق نہیں ہوتا ۔ تمام حقوق انسانی کے ہوتے ہیں کیونکہ انسانوں کے باہمی تعلقات کو وحی کی رُو سے طے کرنا دین ہے ۔ اس میں انسانوں کے حقوق وحی کی رُو سے ملتے جاتے ہیں ۔ قرآن میں اللہ کے حق کا ذکر صرف ایک جگہ آیا ہے ۔ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ (6:141) ( ترجمہ) اور فصل کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کردو ۔ اس آیت میں جس چیز کو اللہ کا حق کہا ہے دوسرے مقام پر اس کو ضرورت مندوں کا حق کہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا حق تو یہی ہے اس کا نظام قائم کیا جائے اور اس کی اطاعت کی جائے ۔
اب ہم آپ کے سامنے قرآنی حقوق انسانیت پیش کرتے ہیں آپ انہیں بغور ملاحظہ فرمائیں ۔ قرآن کریم کے ان حقوق کو پیش نظر رکھیں اور پھر آپ غور فرمائیں کہ کیا عقل انسانی اس زمانہ میں ان حقوق کا ادراک کرسکتی تھی ۔ انسانیت کو ان حقوق کا عطا ء کرنا قرآن کے وحی الہٰی ہونے کی دلیل ہے ۔
قرآنی حقوق انسانی
(1) قرآن کریم کے عطاء کردہ حقوق انسانی میں پہلا حق یہ ہے کہ ہر انسانی بچہ عزت و تکریم کا مستحق ہے ۔وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ ( 17:70)ہم نے تمام فرزندانِ آدم کو واجب الاحترام قرار دیا ہے ۔ حسب نسب ، یا خاندانی نسبت کی بنا،پر کوئی رعایت روا نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ امارت و غربت کا بھی اس عزت و تکریم میں کوئی دخل نہیں ہے ۔ جس شخص کی بھی عزت مجروح ہوئی اسلامی مملکت کا فرض ہے کہ وہ اس کا تدارک کرے ۔ ‘‘ آدمیت احترام آدمی، باخبر شواز مقام آدمی ’’ ۔ قرآن کاپہلا اصول ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق بھی ۔
(2) جنسی مساوات :۔ قرآن کریم کی رُو سے جنسی تفریق نہ باعث عزت ہے اور نہ وجہ ذلت ہے ۔ ہر مرد اور عورت برابر کی عزت کی مستحق ہے ۔ خلقکم من نفس واحدہٍ ( 4:14) دونوں ایک ہی نفس سے پیدا ہوتے ہیں ۔ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ ( 49:13) ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ۔ اس لئے نہ مرد عورتوں سے کوئی الگ نوع ہیں اورنہ ہی عورتیں مردوں سے الگ نوع ۔ جسم کی ساخت کی بنا ء پر عورتوں اور مردوں میں فرق ہے ، اس کا تعلق ان کے طبعی و ظائف حیات سے انسانیت کی سطح پر ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ، لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ( 3:195) تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام میں اجر ضائع نہیں ہوسکتا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، زندگی کے تمام معاملات میں برابر شریک ہو ، اس لئے اعمال کے نتائج میں بھی کوئی فرق نہیں ہوسکتا ۔
(3) مدارج اعلی بقدر اعمال :۔ احترام آدمیت سے تو کوئی شخص محروم نہیں کیا جاسکتا البتہ افراد کے مدارج کا تعین اس اصول کے تحت ہوگا وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا ( 46:19)ہر شخص کا مرتبہ اور مقام اس کے اعمال کے مطابق متعین کیا جائے گا ۔ جتنی زیادہ خوبیوں کا مالک، اتنے ہی اعلیٰ مقام کا حامل ۔إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ( 49:13)جو سب سے زیادہ حسنِ عمل کا پیکر ہے وہ سب سے زیادہ واجب العزت ہے لیکن افسوس کہ ہمارے معاشروں میں اس کے بالکل بر خلاف ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جتنا بڑا لٹیرا ہوتاہے، اس قدر وہ عزت کا حامل ہوتا ہے ۔
(4) حق محنت :۔ قرآن کا ارشاد ہے ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ ( 39:70) ہر شخص کو اس کے کام کا پورا پورا معاوضہ ملے گا کوئی کسی کی محنت کو غصب نہیں کر سکتا ، وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ( 53:39) کوئی شخص محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کر سکتا ۔ اس معاشرہ میں مفت خوروں Parasites کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جو دوسروں کی محنت پر عیش کی زندگی بسر کریں ۔ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی محنت کو Exploit نہیں کر سکتا ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کسان سارے سال محنت کرے اور اس کی محنت کا حاصل زمیندار یا جاگیر دار اس سے چھین کر لے جائے ۔
(5) عدل و احسان :۔ ہر شخص کو اس بات کا حق ہے کہ اسے عدل ملے ۔ اس میں دوست اور دشمن کی کوئی تمیز نہیں ہے ۔ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۔ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ کردے کہ تم اس کے ساتھ عدل و احسان نہ کرو ۔ اعْدِلُوا۔ وہ کچھ بھی کریں لیکن تم ان کے ساتھ عدل کرو ۔ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۔( 5:8) کیونکہ یہ تقویٰ کے قریب ہے ، دوسری جگہ ارشاد ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ ( 16:90) اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے ۔ عدل کے علاوہ کسی کی کمی کو پورا کرنابھی اسلامی مملکت پر فرض ہے اور یہ احسان ہے ۔ احسان کا تصور دنیا کے کسی معاشرہ میں نہیں ہے، یہ احسان انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے اور اس کا وحی ہی حکم دے سکتی ہے ۔ عقل انسانی کے بس کی یہ بات نہیں ہے۔
(6) رزق کا حق :۔
ہر شخص رزق کا محتاج ہوتا ہے ۔ دنیا کا یہی دستور ہے کہ افراد اپنا رزق خود حاصل کریں لیکن کریم کا حکم ہے ، وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا ( 11:6) دنیا میں کوئی متنفس ایسا نہیں ہے کہ جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ کے اوپر نہ ہو ۔ یہ بات خیال میں رکھیں کہ جن ذمہ داریوں کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کرتاہے، اس کی وہ ذمہ داریاں اسلامی نظام پوری کرتا ہے ۔ بعد میں اسلامی مملکت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام افراد مملکت کو رزق فراہم کرے ۔ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ( 6:151) ہم تمہیں اور تمہاری اولاد کو رزق دیتے ہیں ۔ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ( 6:151) اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو۔
(7) جان کی حفاظت:۔
انسانی جان کی حفاظت کے لئے ارشاد ہوتاہے ۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ( 6:151) اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو واجب احترام قرار دیا ہے ۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو قتل کرے ہاں اگر اس کا قتل کرنا حق بنتا ہو ۔ حق کے تقاضہ کو بھی قرآن نے خود واضح کردیا، مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۔ اگر کوئی شخص کسی کو ناحق قتل کردے تو اسے قتل کی سزا دی جاتی ہے ۔ یا جو ملک میں فساد پھیلائے اس کا قتل بھی جائز ہے،اس کے بر عکس وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا ، قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ( 5:32)جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی ۔
(8) مال کی حفاظت :۔ کسی شخص کو اجازت نہیں کہ وہ دوسروں کے مال کو زبردستی چھین لے ، ُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ( 4:29) تم آپس میں ایک دوسرے کا مال زبردستی نہ کھاؤ ، مال ایک بڑی جامع اصطلاح ہے۔ اس میں ہر قسم کی ملکیت کی چیزیں آجاتی ہیں ۔
(9) عصمت کی حفاظت :۔ عصمت انسان کی بے بہا متاع ہے ۔ یہ وہ بلند ترین قدر ہے جو صرف انسان کا خاصہ ہے اسی لئے ا س حق کی پامالی تو ایسا جرم قرار دیا ہے کہ اس کے مرتکب کے لئے سو کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی ہے ۔
(10) شادی کا انتخاب :۔ زوجین کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کریں ۔ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ( 4:3) ان عورتوں سے شادی کرو جو عورتیں تمہیں پسند کریں ۔ لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا (4:19)تم عورتوں کے زبردستی مالک نہیں بن سکتے ۔ سورۂ بقرہ میں ہے ۔ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ( 2:228) عورتوں کے حقوق بھی وہی ہیں جو مردوں کے ہیں البتہ مرد کو ایک معاملہ میں رعایت ہے اور وہ عدت ہے مرد کو عدت نہیں کرنی پڑتی ۔ ہم نے صرف چند قرآنی حقوق انسانی ، بہار نو کے ایک مضمون ‘‘ بنیادی حقو ق انسانیت اور قرآن ’’ سےلئے ہیں ۔ جن حضرات کو قرآنی حقو ق انسانیت کی تفصیل معلوم کرنی ہو وہ ‘‘ بہار نو ’’ میں یہ مضمون مطالعہ فرمالیں ۔ اس میں 19 حقوق کی فہرست دی گئی ہے ۔ نیز قرآنی قوانین میں بھی حقوق دیئے گئے ہیں ، ہم نے اس باب کو مختصر رکھنے کی وجہ سے صرف 10 حقوق تحریر کئے ہیں لیکن کتابوں میں مزید حقوق درج ہیں ۔ ہر حق کے سامنے، اس کی تائید میں یا تو آیت درج کردی گئی ہے یا حوالہ دیا گیا ہے تاکہ قارئین کرام میں سے کسی کو ان حقوق کی استناد میں کوئی شک نہ رہے ۔ اب آپ خود غور فرمالیں کہ کیا رسول اللہ، اس تاریک دور میں ان حقوق کو اپنی طرف سے وضع کرسکتے تھے ۔ ان میں ہر حق خود پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ یہ وحی الہٰی کا عطاء کردہ ہے ۔
فروری، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part12-/d/87610