حفاظت قرآن کریم باب نہم
خواجہ ازہر عباس ، فاضل درس نظامی
جب خود قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت فرمائے گا تو اس کے آج تک محفوظ ہونے سے قرآن کے اس دعویٰ کی تصدیق ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا قرآن کا آج تک محفوظ رہنا، اس کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے۔ حفاظت قرآن کے دعویٰ کے بارے میں ارشاد ہے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ( 9۔15) بیشک ہم نے نصیحت نازل کی اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔ اس آیہ کریمہ کے الفاظ اس درجہ پرُ زور Forceful ہیں کہ اس میں حفاظت قرآن کے وعدہ کو پانچ مرتبہ مُوکدہ کہا گیا ہے ۔ پہلے اِن لا یا گیا پھر ‘‘ نا’’ کی تاکیدنحن سے کی گئی ، پھر آگے چل کر ایک اور اِنَّ ، اور پھر لام تاکید لایا گیا، اس طرح تاکید درتا کید لائی گئی ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی اس درجہ پرُ زور عبادت نہیں لکھ سکتا ، دیگر زبانوں کو تو چھوڑ ئیے خود عربی زبان میں ایسا موثر فقرہ نہیں لکھا جاسکتا ۔ اس لئے اس کا کسی زبان میں ترجمہ نہیں ہوسکتا ۔ مفسرین نے حد درجہ کوشش کی مگر وہ زور پیدا نہیں ہوسکے ۔ ایک تفسیر میں اس کا ترجمہ یوں تحریر کیا ہے ‘‘ مُجّردیہ دعویٰ کہ یہ لفظ بہ لفظ کلام الہٰی ہے آج روئے زمین میں کسی بھی دوسری کتاب کا نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ توریت و انجیل کا بھی نہیں ۔ قرآن اس دعویٰ میں بالکل منفرد ہے ۔دوسری ( مذہبی) کتابوں کا زیادہ سے زیادہ یہ دعویٰ ہے کہ ان کے اندر خدا ئی تعلیم کی روح آگئی ہے ۔ باقی وہ ( مذہبی کتاب) تمام غیر معصوم انسانوں کی مرتب کردہ ہیں ۔ قرآن مجید کی جامعیت ، اکملیت ، ابلغیت وغیرہ سے قطع نظر، اس کی محفوظیت کا مل اور پھر شروع ہی سے دھڑلے سے اس کا اعلان بجائے خود ایک معجزہ و دلیل اس کے کلام الہٰی ہونے کی ہے ۔ دنیا کے کتب خانے کسی دوسری کتاب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں جو ساڑھے تیرہ سو سال سے اپنے الفاظ ، حروف ، نقوش سب کے لحاظ سے جوں کی توں چلی آرہی ہو۔
اصل یہ ہےکہ دین کا سارا دارو مدار ہی قرآن پر تھا، اور ہے، صحابہ کو ا سے محبت تھی ۔ انہیں دین میں قرآن کے مقام اور اس کی اہمیت کا خوب اندازہ تھا ۔ ایک ایک شخص کے سامنے ہر وقت قرآن تھا ۔ اس کا محفوظ نہ رہنا ، عقلی طور پرممکن نہیں ہے ۔ حضور کے اپنے دور میں اس کی حفاظت کی حد درجہ کوشش کی گئی اور جب قرآن ایک مرتبہ محفوظ ہوگیا تو اس کی اہمیت کے پیش نظر یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اس میں کوئی تحریف ہوسکے کا تبان وحی کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے ۔ یہ حضرات تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق قرآن کی آیات نزول کے فوراً بعد تحریر کرلیتے تھے ۔ تاریخ میں ان حضرات کی تعداد 14 سے لے کر 43 تک آئی ہے ۔ تفسیر نمونہ میں مرقوم ہے ۔ کان للنبی کتاباً یکتبون الوحی وھم ثلاثۃ واربعوں، اشھر ہم الخلفاء الاربعہ وکان الز مھم للنی زیدین ثابت و علی بن ابی طالب ۔ (ترجمہ) پیغمبر کے کاتب او رلکھنے والے کو جو وحی لکھا کرتے تھے وہ 43 افراد تھے جن میں زیادہ مشہور خلفاء اربع تھے لیکن اس سلسلے میں پیغمبر کے سب سے بڑھ کر ساتھی زید بن ثابت اور علی ابن ابی طالب تھے ۔
حفاظت قرآن کے بارے میں مولاناشبیر احمد صاحب عثمانی نے اپنے حواشی میں آیت نمبر 9۔15 کے حاشیہ میں جو تحریر فرمایا وہ تعریف و تحسین کے قابل ہے ۔ یہ حاشیہ اگر چہ ذرا طویل ہے لیکن اس کامطالعہ بہت سود مند ہوگا ہم وہ پورا حاشیہ یہاں نقل کرتے ہیں آپ اس کو بغور ملاحظہ فرمائیں ۔ فرماتے ہیں ۔
یاد رکھو ۔ اس قرآن کے اتارنے والے ہم ہیں اور ہم نے اس کی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔ جس شان او رہئیت سے وہ اُترا ہے بدون ایک شعثہ یاز برزیر کی تبدیلی کے چار دانگِ عالم میں پہنچ کررہے گا اور قیامت تک ہر طرح کی تحریف لفظی و معنوی سے محفوظ و مصنون رکھا جائے گا ۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر ا س کے اصول و احکام کبھی نہ بدلیں گے ۔ زبان کی فضاحت و بلاغت اور علم و حکمت کی موشگافیاں کتنی ہی ترقی کرجائیں پر قرآن کی صوری و معنوی اعجاز میں اصلاً ضعف و انحطاط محسوس نہ ہوگا ۔ قومیں اور سلطنتیں قرآن کی آواز کو دبا یا کم کردینے میں ساعی ہوں گی لیکن اس کے ایک نقطہ کو کم نہ کرسکیں گی ۔ حفاظت قرآن کے متعلق یہ عظیم الشان وعدہ الہٰی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا کررہا ہے جسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب و مغرور مخالفوں کے سر نیچے ہوگئے ۔ ‘‘ میور ’’ کہتا ہے، جہاں تک ہماری معلومات ہیں دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کے تحریف سے پاک رہی ہو ‘‘ اور ایک یورپین محقق لکھتا ہے کہ ہم ایسے ہی یقین سے قرآن کو بعینہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں جیسے مسلمان اسےخدا کا کلام سمجھتے ہیں ’’۔واقعات بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک جمّ غفیر علماء کا جن کی تعداد اللہ کو ہی معلوم ہے ایسا رہا ہے جس نے قرآن کے علوم و مطالب اور غیر منقفی عجائب کی حفاظت کی ۔ کاتبوں نے رسم الحظ کی ماریوں نے طرز ادا کی ، حافظوں نے اس الفاظ و عبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر و زبر تبدیل نہ ہوسکا کسی نے قرآن کے رکوع گن لے ، کسی نے آیتیں شمار کی، کسی نے حروف کی تعداد بتائی حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کو شمار کر ڈالا ۔ آنحضرت کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جاسکتی جس میں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد حافظ قرآن کی موجودنہ رہی ہو ۔ خیال کر و آٹھ دس سال کا ہندوستانی بچہ جسے اپنی مادری زبان میں دو تین جزوکا رسالہ یاد کرانا دشوار ہے ۔ وہ ایک اجنبی زبان کی اتنی ضخیم کتاب جو مُتشا بہات سے پرُ ہے ، کس طرح فرفرسنا دیتا ہے ۔ پھر کسی مجلس میں ایک بڑے باوجاہت عالم اور حافظ سے کوئی حرف چھوٹ جائے یا اعراب کی فرد گزاشت ہوجائے تو ایک بچہ اس کو ٹوک دیتا ہے ۔ چاروں طرف سے تصیح کرنے والے للکار تے ہیں ۔ ممکن نہیں کہ پڑھنے والے کو غلطی پر قائم رہنے دیں ۔ حفظ قرآن کے متعلق یہ ہی اہتمام و اعتنا ء عہد نبوت میں او ربعد میں سب لوگ مشاہدہ کرتے تھے ’’ ۔ ( P-348 حواشی عثمانی )
قرآن کریم کے غیر محفوظ ہونے کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔
(1) موجودہ نسخہ قرآن میں جو 6666 آیات پرمشتمل ہے، اس میں کچھ اضافہ کردیا گیاہو ۔ اس طرح کہ چند آیات خود بنا کر لوگوں نے اس میں شامل کردی ہوں لیکن یہ مفروضہ بالکل نا قابل عمل ہے ۔ قرآن کریم کی زبان اور اس کے مشمولات اس درجہ بے مثال ہیں کہ ان کی کوئی شخص مثال نہیں بنا سکتا ۔ اگر بالفرض یہ صورت ممکن ہوسکتی اور ا سکی مثل بنا کر شامل کیا جاسکتا تھا تو پھر قرآن کا وحی الہٰی ہونے کا دعویٰ ہی باطل ہوجائے گا۔ اس کا تو دعویٰ یہ ہے کہ اس کی مانند ایک آیت بھی کوئی شخص نہیں بنا سکتا ۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ اس میں کچھ آیات شامل ہونے سے رہ گئی ہوں ، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر کچھ آیات ایسی ہوتیں جو موجودہ نسخہ قرآن میں شامل ہونہیں سکیں تو جن لوگوں کے پاس وہ ہوتیں وہ ضرور اس کو پیش کرتے ۔ اگر وہ غیر مسلم ہوتے تو قرآن کی مخالفت میں اس کو پیش کرتے اور اگر وہ خود مسلمان ہوتے تو ان کو قرآن میں داخل کرنے پر اصرار کرتے ۔
(3) تیسری صورت یہ ہے کہ قرآن کریم میں کمی بیشی تو بالکل نہیں ہو ئی ، نہ تو اس میں کوئی خود ساختہ اضافہ ہے اور نہ ہی کوئی آیت اس میں شامل ہونے سے رہ گئی ہے ۔ اس کی ترتیب میں تبدیلی کردی گئی ہے ۔ تو اس بات کی تردید خود قرآن کریم سے ہوتی ہے ۔ جب سورہ فاتحہ نازل ہوچکی تو دوسری سورت میں اللہ تعالیٰ نے تحدی فرمائی کہ ‘‘ اگر تم لوگ ا س کلام سے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، شک میں پڑے ہو، پس اگر تم سچے ہوتو تم بھی ایسی ایک سورت بنالاؤ ( 23۔2) اس کے بعد جب دس سورتیں مکمل ہوگئیں تو گیارہویں سورت میں پھر اس تحدی کو دہرایا گیا کہ ‘‘ اگر تم اپنے دعویٰ میں کہ قرآن وحی نہیں ہے سچے ہوتو ایسی دس سورتیں اپنی طرف سے بنالاؤ ( 13۔11)
یعنی جب دس سورتیں نازل ہوچکیں تو پھر گیارہویں سورۃ میں دس سورتیں لانے کی تحدی فرمائی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور کے دور میں نزول قرآن کے ساتھ ساتھ سورتیں بنتی جارہی تھیں اور بعض سورتیں پوری پوری نازل ہوئیں ۔ سورۂ نور کے شروع میں ہی بیان کردیا گیا کہ یہ وہ سورت ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہے اور جب تحدی بھی سورتوں کے مقابل سورتیں بنانے کی ہورہی تھی تو اس سے یہ ثابت ہواکہ حضور کے دور میں ایک سو چودہ سورتیں بن چکی تھیں ۔ ہمارے ہاں روایات میں بھی آتا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ سورۃ یٰسین پڑھنے کے بڑے فضائل ہیں ۔ اسی طرح اور سورتوں کے فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں جن میں حضور نے یا صحابہ کرام نے مختلف سورتوں کے فضائل بیان فرمائے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سورتیں حضور کے دور میں بن چکی تھیں ۔
یہ بات کہ سورتوں کی ترتیب وہی ہے جو حضور کے دور میں میں تھی اس کا ثبوت یہ ہے قرآن کریم میں بیشتر مقامات پر حوالے اسی طرح آئے ہیں کہ بعد میں آیات میں سابقہ آیات کا حوالہ آتاہے ۔ مثلاً سورۂ ھود کی آیت 15 میں ارشاد ہوتا ہے کہ جب تمہارا مقابلہ دشمن سے ہو تو اس دن میدان جنگ میں پشت نہ دکھانا ۔ اس کا حوالہ اس کے بعد کی آیت 45 میں آیا ہے جہا ں فرمایا کہ جب تمہارا مقابلہ دشمن سے ہو تو قانون الہٰی کو پیش نگاہ رکھو ( 45۔8) اس جگہ جس قانون کا حوالہ دیا گیا ہے وہ قانون وہی ہے جو اس سے سابقہ آیت میں دیا گیا ہے ۔ اس طرح قرآن میں مذکورہ حوالہ جات ہمیشہ گزشتہ بات کی طرف راجع ہوتے ہیں ۔ جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ یہ ترتیب اسی طرح ہے جو ترتیب حضور نے خود دی تھی ۔ اسی طرح کی آیات کے اور بھی حوالے دیئے جاسکتے ہیں ۔ یہ ایک حوالہ اس بات کو واضح کرنے کے لئے بطور ایک مثال کے پیش کردیا گیا ہے ۔
کہتے ہیں کہ یونان کے مشہور ایتھنز میں چند فلاسفرز ایک سڑک کے کنارے دھوپ میں بیٹھے بہت تلخ زبان میں بحث و مباحثہ کررہے تھے ۔ صبح کے وقت ایک ٹانگہ والا جس کے ٹانگے میں گھوڑا جتاہوا تھا وہاں سے گزرا اور اس نے ان بزرگ دانشور فلاسفرز کو اس تلخ بحث و مباحثہ میں مصروف دیکھا لیکن اس نے ان کی گفتگو کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور وہاں سے گزر گیا ۔ شام کے وقت واپسی پر وہ ٹانگہ والا وہاں سے گزرا اور اس نے ان تمام بزرگ فلاسفرز کو اسی بحث و مباحثہ میں مصروف پایا ۔ جیسا کہ وہ صبح کے وقت تھے ۔ وہ ٹانگہ والا ان حضرات کے پاس گیا او رموقع پاکر ایک بزرگ سے سوال کیا کہ آپ حضرات کس بحت میں مصروف ہیں ۔ اس دانشور نے جواب دیا کہ ہم یہ بحث کررہے ہیں کہ گھوڑے کے کتنے دانت ہوتے ہیں ۔ اس پر اس ٹانگہ والے نے کہا کہ یہ کون سا مشکل مسئلہ ہے ۔ یہ میرا گھوڑا حاضر ہے ۔ آپ حضرات ا س کے دانت خود شمار کرلیں تو آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ مگر اس دانشور نے کہا کہ اس طرح گھوڑے کے دانت گننا بہت ہی غیر فلسفیانہ Unsophisticated طریقہ ہے یہ علمی انداز نہیں ہے ۔
ہمارے پاس نزول قرآن کے وقت سے اب تک 14 سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد قرآن لاکھوں نسخے موجود ہیں ۔ آپ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک کے نسخے جمع کر لیں ۔ ان ہزاروں میل پر محیط نسخوں میں ایک شُعثہ یا ایک نقطہ کابھی فرق نہیں مل سکتا ۔ جب عملی طور پر یہ صورت حال ہے تو فرضی بحث و مباحثہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔
دسمبر ، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-9-/d/87593