الاسماء الحسنیٰ (صفات الہٰی ) باب ہفتم
آپ ایدا آفریش سے تاریخ انسانی کے کسی دور پرنظر دوڑائیے ، زمین کے کسی گوشہ کو نگاہ میں لائیے ، ہر جگہ اور ہر مقام پر آپ کو ایک بلند و بالا ہستی کا تصور ملے گا۔ جس کی انسان پر ستش کرتا تھا اور جس کے آگے وہ جھکتا تھا ۔ اس بلند و بالا ہستی کے آگے وہ نذرانے پیش کرتا تھا اور اس سے وہ دعائیں مانگتا تھا ۔ ہر معیث ، ہر بیکسی ، ہر بے بسی، کے عالم میں وہ اس پر تکیہ کرتا تھا ۔ اس سہارے اور ا س تکیہ سے اس کو سکون حاصل ہوتا تھا ۔ انسان اس سہارے اور اس تکیہ کے بغیر زندگی بسر نہیں کرسکتا لیکن انسان کی یہ بڑی کمزوری ہےکہ یہ عقل انسانی کے زور پر کسی مُجرّد شے کا تصور کرسکتا ۔ اس لئے انسان نے اس بلند و بالا ہستی کو اپنے جذبات اور میلانات کے مطابق تراشہ ، اور اس کا پیکر اپنے ذہن کے مطابق تیار کیا ۔ انسان کے ہاتھ، پاؤں ، سر، آنکھیں اور جسمانی اعضاء چھوٹے ہوتے ہیں ۔ اس نے اللہ کے اعضاء بڑے بنائے۔ انسان کے دو ہاتھ ہوتے ہیں، اس نے اللہ کے دس ہاتھ بنادیئے ۔ انسان اپنی مٹھی میں چھوٹی سی چیز دبا سکتا ہے ۔ ہندوؤں کے ہاں ان کا ایشور پہاڑ کو اُٹھا سکتا ہے۔ انسان تھوڑا سا پانی پی سکتا ہے ۔ دیوتا پورے کا پورا سمندر پی لیتا ہے۔ انسان غصہ میں کسی شخص کے تھپڑ یا مُکّا مار سکتا ہے ۔ اللہ غصہ میں آکر پوری ایک قوم کو تباہ کرسکتا ہے۔
ذہن انسانی اللہ کے متعلق کچھ نہیں جان سکتا ، ذہن انسانی تو صرف اس چیز کے متعلق بتا سکتا ہے جس کا وہ تصور کرسکتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہا ں انسان وحی الہٰی کا محتاج ہوتاہے یعنی وحی ایک ایسا علم ہے جو انسانی ذہن کا پیدا کردہ نہیں ہوتا بلکہ یہ علم خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیا ء کرام کی معرفت انسانیت کو ملتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے متعلق جتنا کچھ بتانا مقصود تھا ، وہ اس علم کے ذریعےبتا دیا ۔ جس قدر اپنا تعارف کراناتھا، اس علم کے ذریعے کرا دیا ۔ اس علم کے علاوہ ہم اس کے متعلق کچھ مزید نہیں جان سکتے ۔ اس نے اس وحی کے ذریعے اپنی صفات کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور اُنہیں الا سماء الحُسنیٰ کے نام سے پکارا ہے۔ سارا قرآن اُس کی ان صفات کا حامل اور ان کی تفصیل و تشریح کرنے والا ہے۔ قرآن کریم نے جو صفات الہٰی بیان فرمائی ہیں۔ عقل انسانی ان صفات کا ادراک ہی نہیں کرسکتی ۔ قرآن کریم نے جو اپنے بے مثال ہونے کا چیلنج دیا تھا اس کا ایک اہم سبب بھی یہ تھا کہ ان صفات عالیہ کی رُو سے اللہ تعالیٰ کا جو تصور ذہن انسانی میں آتا ہے ، اس سے بلند ، مقدس ، پاکیزہ اورمکمل تصور کہیں او رمل ہی نہیں سکتا ۔ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی نناوے 99 صفات بیان فرمائی ہیں ۔ ایک ایک صفت ایک دُع ءِّ تابندہ ، لوُلوُ ءِ لالا، اور گوہر درخشندہ ہے، جس قدر بھی علوم اور عقل انسانی ترقی کرتی چلی جائے گی،ان صفات عالیہ کامفہوم اوران کی اہمیت واضح ہوتی چلی جائے گی۔ انسان ذہن ان صفات کا تصور کرہی نہیں سکتا جو چیز قرآن کریم کو وحی الہٰی ثابت کرتی ہے وہ ان صفات کا آیات سے ربط ہے۔قرآن کریم میں جگہ جگہ ، بہ تکرار، آیات کےبعد صفات الہٰی بیان کی گئی ہے۔ کسی آیت کے بعد غفور و رحیم ہے۔ کسی آیت کے بعد عزیز و غفور ہے۔ کسی آیت کے ساتھ عزیز و حکیم ہے اور کسی آیت کے بعد سمیع وبصیر ہے۔ یہ و صفات الہٰی جس آیت کےساتھ آئی ہیں ، ان صفات کا اس آیت کے مضمون سےبہت گہرا ربط ہوتا ہے اور یہ ربط ہی قرآن کو وحی الہٰی ثابت کرتا ہے۔ کوئی انسانی ذہن یہ ربط قائم نہیں کرسکتا ۔ ہم اس نکتہ کو مزید واضح کرنے کے لئے نمونہ کے طور پر ان آیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
قرآن کریم نے جہاں نفح روح کاذکر کیا ہے (29۔15 ،72۔38) اس سے یہی مراد ہے کہ انسانی ذات میں یہ تمام صفاتِ الہٰی سمیٹی ہوئی شکل میں موجود ہیں ۔ انسانی ذات ، ذات الہٰی کےمقابلہ میں محدود ہے ، اس لئے اس میں یہ صفات بھی محدود ہیں لیکن قرآن کریم کی رُو سے انسان کی ذات میں وہ تمام صفات موجود ہیں جنہیں الا سماء الحسنیٰ کہا جاتا ہے۔ البتہ جو چند صفات اللہ کی لا محدود یت کی ہیں وہ انسانی ذات میں نہیں ہیں ۔ یہ وہ چند صفات ہیں جو حضرت باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان میں کوئی دوسرے شریک نہیں ہے، جیسے ہو الادل والا خر، وھو الظاہر و الباطن، اللہ تعالیٰ کی باقی تمام صفات کی نمود انسانی ذات میں ہوسکتی ہے جس انسان میں ان صفات کی نمود جس قدر زیادہ ہوگئی ، اسی حد تک وہ صاحب کردار ہوگا ۔ صفاتِ الہٰی کو اپنے ذات میں منعکس کرنا ہی مقصود حیات ہے اور جس قدر صفاتِ الہٰی کا انعکاس ہوگا اس درجہ قربِ الہٰی حاصل ہوگا ۔ صفاتِ الہٰی کو اپنے اندر زیادہ سے زیادہ بالیدگی دینا ، یہی قرُب الہٰی اور تزکیہ نفس ہے۔
انسانی سیرت کے پختہ ہونے اور قرُب الہٰی حاصل ہونے کےمعنی یہ ہیں کہ جس مقام پر جس صفتِ الہٰی کی نمود کی ضرورت ہو، وہاں اس صفت کا اتنا ہی ظہور ہو اور اتنا ہی ظہور ہو، جتنی اس موقع پر اس کی ضرورت ہو ۔ صفاتِ الہٰی میں نہ کوئی صفت ایسی ہے جس پر عمل نہ کیا جاسکتا ہو اور نہ ہی صفت ایسی ہے جس پر ضرورت سے زیادہ عمل کیا جائے اور اس میں شدت اختیار کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اپنے اپنے موقع پر بہترین تنائج بر آمد کرتی ہیں۔
ہم اس اہم اور قدرے مشکل مقام کو، مزید واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان ہی مقامات سے قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت ملتے ہیں ۔ قرآن کریم نے جو اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات بیان فرمائی ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کی صفات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے اہل بن جائیں ۔ قرآن کریم صفات الہٰی کے جس قانون کی طرف ہدایت فرماتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان خود کو صفات الہٰی کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ عزیز ہے تو مومن کابھی یہ فرض ہے کہ وہ بھی قوی و عزیز ہو اوراپنی قوت و غلبہ کے زور پر معاشرہ کو صحیح خطوط پر متشکل کرے ۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے تو مومن کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے کاموں میں حلّم سے کام لے لیکن اتنا ہی حلم کا اظہار کرے جتنی اس وقت ضرور ہو۔ اتنا حلم اختیار نہ کرے کہ دوسرے آدمی اس کو بے بس اور لاچار کردے ۔ اللہ تعالیٰ قدوس ہے تو بندہ کو لازم ہے کہ اپنے و باطن دونوں کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ بنائے، جھوٹ ، دغا، فریب، اکل حرام، ظلم و تعدی سے خود کو بچائے رہے ۔ اللہ تعالیٰ عادل ہے تو انسان کو چاہیئے کہ اپنی زندگی میں ہمیشہ عدل کادامن تھامے رہے اور ظلم اور نا انصافی سے ہمیشہ اجتناب کرے جو شخص بھی اللہ کی صفات عالیہ اور ان کے عائد کردہ حقوق و فرائض کا جس قدر علم حاصل کرے گا اور اس کاعلم حاصل کرکے اس پر عمل کرے گا، اتنا ہی اس کےتقویٰ اور اس کے قرب الہٰی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ان صفات کاعلم حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلاجائے گا ۔ قرآن کریم کے ہر حکم کے اندر اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی صفت جلوہ گر ہوتی ہے جو شخص یہ بات سوچ سمجھ کر عمل کرتا ہے کہ قرآن کے اس حکم میں اللہ تعالیٰ کی فلاں صفت جلوہ گر ہے۔ تو حقیقی معنوں میں اس کی اطاعت وہ اطاعت ہوتی ہے جس میں بندہ اپنے اللہ کو دیکھتا ہے اور اس کو ہر حکم کے اندر اللہ کی صفات کا عکس نظر آتا ہے۔ جب انسان کو حکم الہٰی کی تعمیل میں صف الہٰی کاظہور دکھائی دیتا ہے، تب اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگر ان آنکھیں اُسے دیکھ رہی ہیں۔
قرآن کریم میں حکم عالی ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا (27۔24) (ترجمہ) اے ایمان والوں ،اپنے گھروں کے علاوہ جب کسی او رکے گھر میں جانا ہو، توپہلے اس سے اجازت طلب کرو اور پھر اہل خانہ کو سلام کہو، صرف غیروں کے گھروں میں نہیں، بلکہ خود اپنے گھروں میں بھی جاو تو اہل خانہ کو سلام کرو ارشاد ہوتا ہے فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ (61۔24) سو جب تم گھر میں داخل ہو، تو اپنے لوگوں کو سلام کرو۔ ان احکامات کی تعمیل کرتےوقت اللہ تعالیٰ کی صفت سلامتی جلوہ گر ہوتی ہے ۔ سورۂ حج میں ارشاد عالی ہے وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ (60۔22) اور جو شخص اپنے دشمن کو اتنا ہی تنگ کرے جتنا یہ اس کے ہاتھوں تنگ کیا گیا تھا، اس کے بعد پھر دوبارہ دشمن کی طرف سے اُس پر زیادتی کی جائے تو اللہ اس مظلوم کی ضرور مدد کرے گا، بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا، حفاظت کرنے والا ہے۔ یعنی مظلوم اگر ظالم ہے واجبی سا بدلہ لے لے، پھر از سر نو ظالم اس پر زیادتی کرے تو وہ پھر مظلوم ٹھہر گیا اللہ تعالیٰ پھر مدد فرمائے گا جیسا کہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرتا ہے ۔ اسناد سے تو کوئی بحث نہیں لیکن ایک روایت میں آیا ہے کہ واتق دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینھا ولین اللہ حجاب ( ترجمہ) مظلوم کی دعا سے ڈرو کیونکہ مظلوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا ۔
بترس از آہِ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از درحق بیر استقبال می آمد
اس آیہ کریمہ میں نصرتِ الہٰی کی صفت خوب واضح طور پر جلوہ گر ہورہی ہے نیز آیت کے آخری حصہ میں ان اللہ غفور میں اللہ تعالیٰ کی صفات عفو اور مغفرہ (حفاظت ) بھی ظہور پذیر ہورہی ہیں ۔ اب آپ کے سامنے وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی کسی ایک یا دوصفات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان صفات کاتعلق اس آیت سےہونا لازمی و ضروری ہے۔ چند آیات ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا، إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا، فَأُولَٰئِكَ عَسَى اللَّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا (99۔98۔97۔4) (ترجمہ) جو لوگ اپنی کمزور ی اور توانائی کاسہارا لے کر غیر الہٰی نظام کے تابع قانع ومطمئن ہوکر بیٹھیں رہیں گے ، ان کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی برُا ٹھکاناہے۔ مگر جو مرد اور عورتیں اور بچے اس قدربے بس ہیں کہ نہ تو ( غیر الہٰی نظام سے نکلنے کی) کوئی تدبیر کرسکتے ہیں۔ نہ ان کو اپنی رہائی کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے تو امید ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے در گزر کرے گا وکان اللہ عفو اً غفور اور یہی وجہ ہے کہ قانون الہٰی میں ان جیسوں کے لئے عفو و حفاظت کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کی دو صفات کاکس قدر گہرا ربط آیت کے مضمون کے ساتھ ہے۔
(2) لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا (148۔4) اللہ کسی کے پکار کر برُے کہنے کو پسند نہیں کرتا ۔ مگر ہاں اگر کسی کے خلاف زیادتی ہو، تو اوربات ہے۔ اللہ کا قانون سب کی سُنتا اور ہر بات کاعلم رکھتا ہے۔
(3) وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (54۔6) (ترجمہ) اور جو لوگ ہماری آیتوں پر ایمان لائے ہیں تمہارے پاس آئیں تو تم سلام علیکم کہو تمہارے پروردگار نےاپنے اوپر رحمت لازم کرلی ہے۔ بیشک تم میں سے جو شخص نادانی سے گناہ کر بیٹھے اور اس کے بعد وہ اپنے کئے پر نادم ہو اور آئندہ کے لئے اصلاح کرے تو اس نظام کی حفاظت اور مرحمت سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔
(4) وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (115۔6) اس قرآن میں اللہ کا ضابطہ قوانین صداقتوں کے ساتھ مکمل ہوچکا ہے اب ان قوانین میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوگا۔ یہ اس اللہ کا ضابطہ قوانین ہے جو سب کچھ سنتا اور ہربات کاعلم رکھتا ہے ۔ اس لئے ہو نہیں سکتا کہ انسانی رہنما ئی کے لئے جو کچھ دیناضروری تھا، اس میں کوئی بات لا علمی کے باعث رہ گئی ہو۔
(5) وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (165۔6) (ترجمہ) اللہ وہ ہے جس نے تمہیں اقوام سابقہ کاجانشین بنایا ۔ اسی قانون کے مطابق مختلف اقوام کے مختلف اقوام کے مختلف مدارج متعین کئے تاکہ یہ معلوم کر لیا جائے کہ جس قوم کو جو کچھ دیا جاتاہے وہ اس مقصد کے لئے کام میں لاتی ہے ۔ اللہ کا قانون مکافات عمل اقوام کے اعمال کے نتائج ساتھ ساتھ مرتب کئے جاتے ہیں لیکن جو اقوام اس کے قانون کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو کافی مستحکم کر لیتی ہیں ۔ وہ چھوٹی موٹی لغزشوں اور نقصانات سے محفوظ رہتی ہے اور ان کی نشو و نما میں فرق نہیں آتا ۔
(6) وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ (153۔7) (ترجمہ) لیکن جن لوگوں سے (سہواً) غلطی ہوجائے اور اس کے بعد وہ پھر اپنے مقام کی طرف لوٹ آئیں ( اور اپنے کئے پر نادم ہوں) اور اللہ کے ضابطہ حیات کو اپنا نصیب العین بنا لیں تو تیرے نشو و نما دینے والے کے قانون ربوبیت میں ان کی حفاظت اور مرحمت کی گنجائش ہے۔
(7) ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (53۔8) ( ترجمہ) یاد رکھو یہ سب اس لئے ہوا کہ اللہ کا یہ محکم قانون ہےکہ وہ زندگی کی جو خوشگوار یاں کسی قوم کو عطا کرتا ہے، اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنے اندر تبدیلی نہیں کرلیتی ، اس لئے کہ قوموں کا عروج و زوال یونہی اندھا دھندو اقع نہیں ہوجاتا یہ اس اللہ کے محکم اصولوں کے مطابق ہوتا ہے جو سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
(8) وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (61۔8) اگر تمہارا دشمن صلح کی طرف مائل ہو ، تو تم بھی صلح کی طرف جھک جاؤ ، تم اپنا بھروسہ قانون الہٰی پر رکھو جس کے مطابق تم جنگ و صلح کرتے ہو، یہ اس اللہ کا قانون ہے جو سب کچھ سننے والا ہے۔
(9) ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (27۔9) ( ترجمہ) جس جماعت سے کوئی غلطی ہوجائے اور اس کے بعد وہ اس کی اصلاح کرلے تو اللہ کی برکات پھر اس جماعت کی طرف لوٹ آجاتی ہیں ۔ قانون الہٰی میں لغزش کے مضراثرات سے حفاظت اور مرحمت کی گنجائش رکھ دی گئی ہے۔
(10) لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (91۔9) (ترجمہ) البتہ جو لوگ کمزوریا بیمار ہیں، یا جن کے پاس ( سامان جنگ کے لئے ) خرچ کرنے کو کچھ نہیں ، ان کے لئے پیچھے رہ جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ وہ پیچھے رہ کر نظام الہٰی کی بہی خواہی چاہتے ہوں۔ اس قسم کے حسن کا رانہ انداز سے پیچھے رہ جانے والوں کے خلاف کوئی الزام نہیں اس لئے کہ نظام الہٰی میں سب کے لئے حفاظت (غفور) او ر مرحمت ہے۔
انسان صفاتِ الہٰی کا صحیح تصور نہیں کرسکتا ، آپ دیگر مذاہب کامطالعہ فرمائیں تو آپ کو بخوبی یہ علم ہوجائے گا کہ اللہ یا دوسرے الفاظ میں اللہ کی صفات کے بارے میں تصور کی غلطی ، دیگر غلطیوں کا بنیادی سبب ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ اللہ کی صفات کا تصور بالکل درست ہو، اور یہ ضرورت صرف وہی سے پوری ہوسکتی ہے۔
ان صفات عالیہ سے ہی اللہ کی صفت قدرت، رحمت، رافت، حکمت، ربوبیت، عزت و اقتدار و غلبہ کا تصور حاصل ہوتا ہے جس سے انسان میں ایمان ، توکل ،صبر استغناء کی صفات پیدا ہوتی ہیں ۔ ان صفات کاعلم حاصل ہونے کے بعد انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اگر چہ وہ اللہ کو دیکھ نہیں رہا ہے لیکن اللہ اس کو ضرور دیکھ رہا ہے۔ وحی کے ذریعے ان صفات عالیہ کا علم ہوجانے کے بعد انسان خوب سمجھ لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کاتعلق اس کی رحمت، رافت، علم ، حکم او رعدل پر مبنی ہے کوئی دوسری ہستی اللہ کے حکم کے بغیر زبان نہیں کھول سکتی ۔ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا قرآن میں بیان کرنے کا سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ ہے کہ صفات ہمارے لئے ایک محک اور میزان کا کام دیتی ہیں ۔ یہ صفات الہٰی وہ آئینہ ہیں جن کےسامنے کھڑے ہوکر ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم میں اللہ کی صفات کا کتنا انعکاس ہوچکا ہے اور کتنا باقی ہے جن کا انعکاس ہونا ابھی باقی اور ضروری ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا بیان اس کے وحی الہٰی ہونے کا ایک بڑا مضبوط ثبو ت ہے ۔ فکر انسانی ان صفات کا تصور نہیں کرسکتی ۔
نومبر، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-7-/d/87388