خواجہ ازہر عباس فاضل درس نظامی
انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ وحی الہٰی کے مطابق نظام منتقل کرتے تھے ۔ جو اس نظام کے ماتحت زندگی بسر کرتے تھے، وہ مسلم ہوتے تھے اور جو اس نظام کو مسترد کر کے ، اپنے وضع کردہ نظام کے ماتحت زندگی بسر کرتے تھے وہ کافر ہوتے تھے ۔ قرآن کریم کے مطابق جو اسلامی نظام کے ماتحت زندگی بسر نہیں کرتا وہ مجرم ہوتا ہے ( 6:123) ان پر اسلامی نظام کی طرف ہجرت کرنا واجب ہوتا ہے ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا (4:98)
( ترجمہ) مگر جو لوگ مرد اور عورتیں اس قدر بے بس میں کہ نہ تو کوئی تدبیر کرسکتے ہیں نہ اُن کو اپنی رہائی کی راہ دکھائی دیتی ہے ۔ ترجمہ پر درج شدہ حواسی میں حضرت مولانا عثمانی نے تحریر فرمایا ہے ‘‘ سو ان پر فرض ہے کہ وہ وہاں سے ہجرت کر یں ، اس رکوع میں اسی کا ذکر ہے ۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے پر ظلم کرتے ہیں یعنی کافروں کے ساتھ مل رہے ہیں اور ہجرت نہیں کرتے تو فرشتے ان سے مرتے وقت پوچھتے ہیں کہ تم کس دین پر تھے ۔ وہ کہتےہیں کہ ہم مسلمان تھے مگر بوجہ ضعف و کمزوری کے دین کی باتیں نہیں کرسکتے تھے ۔ فرشتے کہتے ہیں کہ اللہ کی زمین تو بہت وسیع تھی تم یہ تو کرسکتے تھے کہ وہاں سے ہجرت کر جاتے ۔ سو ایسوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ( 4:97) البتہ جو لوگ ضعیف ہیں اور عورتیں او ربچے کہ وہ نہ ہجرت کرسکیں او رنہ ان کو ہجرت کا راستہ معلوم ہے وہ قابل معافی ہیں ۔’’ چونکہ تمام انبیاء کرام نے اپنے اپنے دور میں اسلامی نظام قائم فرمایا تھا ( 42:13) اس لئے ان میں سے اکثر کو ہجرت اختیار کرنی پڑی تھی ۔ حضرت ابراہیم کے واقعات میں ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي ( 37:99) اور إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي (29:26) کے الفاظ آتے ہیں ۔ قرآن کریم کا تو یہ ارشاد ہے کہ مومنوں کے اعمال صرف اسلامی نظام میں نتیجہ خیز ہوتے ہیں ۔ اگر اسلامی نظام قائم نہیں ہوتا تو مومنوں کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ۔
ارشاد ہوتا ہے ۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ( 47:33) اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ ہونے دو۔ قرآن کریم میں جس جگہ بھی اللہ اور رسول کے الفاظ اکھٹے آئے ہیں اور ان کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تو یہ بات یاد رکھیں کہ ان سے مراد دو الگ الگ اطاعتیں مقصود نہیں ہوتیں، کہ اللہ کی اطاعت ایک طریقے سے اور رسول کی اطاعت کسی دوسرے طریقے سے کی جائے ۔ یہ قرآن کریم کی اپنی ایک اصطلاح ہے اور اس سے مراد وہ نظام ہوتا ہے جو اللہ کا عطا کردہ تھا اور جو حضور کے ذریعے عمل میں آیا تھا اور اس کے لئے یہ دو الفاظ استعمال ہوتے ہیں، اللہ کا عطا کردہ دین جس کو رسول اللہ نے عملی شکل دے کر مدینہ میں نافذ فرمایا تھا اس کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت تھی ۔ اسلامی نظام کی اطاعت کی عبادت خداوندی کہلاتی ہے۔ فرمایا کہ اس نظام کی اطاعت کروگے تو پھر لَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ( 47:33) تو تمہارے اعمال ضائع نہیں ہوں گے۔ نظام کی اطاعت کواعمال کے نتیجہ خیز ہونے کے لئے شرط قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن کریم کے اس دعوے کے ثبوت میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے موجودہ حالت اس کا واضح ثبوت ہے۔
آج کل چاروں طرف سے اسلامی نظام ، اسلامی مملکت ، اقامت دین ، نفاذ شریعت کی آوازیں بلند ہورہی ہیں ۔ یہ بات تو اپنی جگہ آئند ہے لیکن ہر جگہ اسلامی نظام قائم کرنے کے لئے تشدد ، جبر اور قوت و طاقت کو استعمال کیا جارہا ہے جس سے صحیح اسلامی نظام کے قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ پیش آرہی ہے ۔ جو لوگ اسلامی نظام سے تھوڑی بہت دلچسپی بھی رکھتے ہیں وہ اس تشدد اور طاقت کے بے جا استعمال سےاس نظام سے تنفر کرنے لگے ہیں ۔ قرآن کریم نے تو اقامت دین کا ذریعہ ایمان اور اعمال صالحہ کو قرار دیا ہے اور ارشاد عالی ہے۔
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ( 24:55) ( ترجمہ) تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا او راچھے کام کئے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو روئے زمین پر ضرور اقتدار عطا کرے گا، جس طرح ان لوگوں کو اقتدار دیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے ۔ اس پر انہیں پوری قدرت دے گا اور ان کے خائف ہونے کے بعد ضرور امن میں تبدیل کردے گا کہ وہ میری ہی حکومت میں رہیں گے اور کسی کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔
اس آیۃ کریم میں بہت واضح طور پر ایمان او راعمال صالحہ کا نتیجہ اقتدار اور اپنی مملکت کا قائم ہونا بتا یا گیا ہے ۔ اسلامی مملکت کے قائم کرنے میں کبھی بھی کسی طور پر بھی طاقت کا استعمال ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے ۔ قرآنی مملکت کے قیام کے لئے حسن اعمال صالح کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور جو اسلامی مملکت کی اساسات اور اس کی Pre-requisites ہوتی ہیں ۔ اب یہاں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
(1) قرآن کریم نے روح کا لفظ 20 بیس مقامات پر استعمال کیا ہے اور کے معنے وحی، وحی لانے والا، وحی پہنچانے والا کیا ہے ، قرآن کریم نے روح کا لفظ Soul یا Spirit کے معنے میں استعمال نہیں کیا ۔ عربوں میں اس کا تصور نہیں تھی، تین مقامات پر روح الہٰی کا ذکر ہے ( 38:72،15:29،32:9) کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح انسان میں ڈالی وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ اس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی اور اس کا نتیجہ ہوا کہ ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ (32:9) انسان کو اسمع ، سمع، بصر اور قلب یعنی ذرائع علم عطا کئے ۔ اس جگہ روح الہٰی ، کی وضاحت قرآن کریم نے خود ہی کردی کہ اس سے مراد توانائی ہے، جسے انسانی ذات یا نفس انسانی کہتے ہیں جو ہر انسان کو یکساں طور پر ملی ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھئےکہ سارے قرآن میں کسی ایک جگہ بھی انسانی روح کا تذکرہ نہیں آیا ہے ، صرف روح الہٰی کا ذکر ہے ۔ جب یہ روح الہٰی یعنی خدائی توانائی انسان کو عطاء کردی گئی تو قرآن کریم نے اس کو اپنی جگہ اصطلاح میں نفس کہا ہے ۔ ( 91:7:9) قرآن میں انسانی روح کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
سارے قرآن میں روحانیت کا لفظ ہی استعمال نہیں ہوا ہے ۔ ہمارے ہاں روحانیت کا تصور بالکل خلاف قرآن ہے۔ روحانیت کے اس تصور پر ہی سارا تصوف قائم ہے ۔ اسی تصور پر یہ سارے اولیاء کرام ، پیر ، فقیر، مرید، مشائخ عظام ، مزارات ، عتبات ، عالیات، عرس، قوالی، پر ستش ، دنیا بیزاری ، نوافل ، تہجد، لمبے لمبے تبلیغی دورے ، بڑے بڑے پر مشقت چلے قائم ہیں ۔ یہ سب قرآن کے خلاف ہیں اور یہی مسلمانوں کے زوال کاسبب ہے۔ قرآن کریم نے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہی نفس انسانی اسلامی نظام کی اساس بنیاد بنتی ہے اور اس نفس پر یقین و ایمان رکھنے سے ہی وہ سارے اعمال صالحہ سر انجام دئے جاتےہیں جن سے اسلامی نظام عمل میں آتا ہے ۔ زندگی کا مادی نظریہ یہ ہے کہ انسان نام اس کے جسم کا ہے اور اس کا یہ جسم طبعی قوانین کے ماتحت رہتا ہے ۔ اچھی غذا، اچھا ماحول و حالات میں یہ جسم زیادہ عرصہ چل سکتا ہے ، برے حالات میں یہ جسم کم عرصہ کام کرسکتا ہے اور آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ یہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر الامر جب یہ کام کرنا ختم کردیتا ہے تو اس جسم کی موت واقع ہوجاتی ہے یہ مادی نظریۂ حیات ہے۔ قرآن کریم کی رو سے یہ حیوانی سطح کی زندگی ہے، ا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ ( 47:12) (ترجمہ) فائدہ اٹھاتے ہیں اور جیسے جانور کھاتےہیں یہ بھی کھاتے ( پیتے) ہیں ۔ ان کی زندگی کا کوئی مطمع نگاہ نہیں ہوتا ۔ نہ ان لوگوں کے ہاں خیر و شر کی کوئی مستقل تمیز ہوتی ہے۔ جس کو اکثریت خیر کہہ لیتی ہے ۔ وہ خیر ہے اور جس کو اکثریت شر کہہ دیتی ہے وہ شر ہے۔ عقل انسانی آج تک خیر اور شر کو Define نہیں کرسکی ہے او رنہ کبھی آئندہ Define کرسکتی ہے۔
اس کے برخلاف زندگی کا دوسرا تصور یہ ہے کہ انسان جسم اور ذات ( نفس) دو چیز وں کا مرکب ہے۔ اسی ذات سے انسان صاحب اختیار و ارادہ ہوتا ہے او راپنے اعمال کا ذمہ دار بنتا ہے۔ ذمہ دار سے مراد یہ ہے کہ اس کے ہر عمل کا ایک اثر اس کی ذات پر مر تسم ہوجاتاہے ۔ اچھا عمل یونی خیر وہ ہے جو اس کی ذات کو مستحکم کرتاہے اور جو عمل اس کی ذات کو کمزور اور ضعیف کرتا ہے وہ براعمل اور شر ہے ۔ انسان کی زندگی کا مقصد اس ذات کو مستحکم کرنا ہے انسانی جسم طبعی قوانین کے ماتحت رہتا ہے ۔ لیکن نفس انسانی کی تربیت و پرورش اور اس کا تذکیہ مستقل اقدار پر عمل کرنے سے ہوتا ہے ۔ حیوانی سطح زندگی پر مستقل اقدار کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن انسانی زندگی کا تو سارا دار و مدار ہی مستقل اقدار پر ہوتاہے ۔ قرآن کریم نے خود اس ذات کی پرورش اور تذکیہ کے اصول ان مستقل اقدار کو ہی ٹھہرا یا ہے ۔ ارشاد عالی ہوتا ہے ۔ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ ( 92:18) جو شخص اپنا مال دوسروں پر خرچ کرتا ہے اس کا تذکیہ نفس ہوجاتا ہے ۔ پھر ارشاد فرمایا يُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ( 59:9) ترجمہ۔ اور اگرچہ اپنے اوپر تنگی ہو وہ دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ۔
اسلامی نظام کی تشکیل انسانی ذات کے عقیدہ پر قائم ہوتی ہے، اگر کوئی شخص انسانی ذات پر عقیدہ نہیں رکھتا تو اس کو دین کے نظام کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ یہ ساری سیکولر حکومتیں جو حیوانی سطح پر قائم ہیں ان میں ذات کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ ان کے ہاں خیر و شر کی کوئی تعریف نہیں ہوسکتی او رنہ ہی ان میں جرائم کا انسداد ہوسکتاہے ۔ او رنہ طبقات کی تقسیم ختم ہوسکتی ہے ۔ دین کی اساس انسانی ذات کے عقیدے پر قائم ہوتی ہے ۔ اسلامی نظام کے باشندے اپنے نفس کی پرورش کرنے کی وجہ سے دوسروں کی پرورش کرتے ہیں، تاکہ اس سے اپنی پرورش ہوسکے، اس نظام میں دوسروں کی پرورش سےاپنی پرورش ہوتی ہے ۔ اس مملکت کے شہری چوری ، فریب، ڈاکے جیسے جرائم کا اس لئے ارتکاب نہیں کرتے تاکہ ان کی نفس پر برے اثرات مرتب نہ ہوں ۔ نفس کے Develop کرنے میں ہر اقدام سے معاشرہ خود بخود اچھا اور پر امن ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایک شہری ان قوانین کی پابندی اپنے نفس کی پرورش کی وجہ سے کرتا ہے، ان کے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ سوسائٹی بہترین خطوط پر منتقل ہوتی جاتی ہے چونکہ اسلامی نظام کی اطاعت میں اللہ و رسول کی اطاعت ہوتی ہے ۔ اس لئے اس میں پرستش یا چرچ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس معاشرہ میں Sin اور Crime ایک ہی ہوتے ہیں ، جو شخص شدید پیاس کے باوجود دن میں روزہ نہیں توڑتا کہ اس سے گناہ ہوگا وہی شخص Red Signal عبور نہیں کرے گا کیونکہ نفس انسانی پر دونوں کا برا اثر ایک جیسا مرتب ہوگا ۔ اسلامی نظام میں پرستش کے لئے الگ مخصوص مساجد نہیں ہوتیں بلکہ ہر وہ ادارہ جہاں سے قوانین الہٰی کا اجر ہوتا ہے وہ مسجد ہوتا ہے ۔ اسلامی نظام کی پارلیمنٹ سپریم کورٹ ، تحصیل ، تھانے سب مساجد الہٰی ہوتے ہیں ۔ یہ تھانیدار اور تحصیلدار خطیب ہوتے ہیں ۔ اس میں الگ شریعت عدالتیں قائم نہیں ہوتیں، اس میں ہر عدالت قرآنی عدالت ہوتی ہے، اس میں Taxes ، بجلی کے بل، پانی کے بل T.V او رکمپیوٹر کے بل ادا کرنا عبادت الہٰی ہوتا ہے ۔
اسلامی نظام کی دوسری اساس اور دوسرا عمل صالح مکافات عمل کا عقیدہ اور اس پر کامل یقین ہے ۔ انسان با اختیار و ارادہ پیدا کیا گیا ہے ۔ اس لئے ہر انسان اللہ کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے اور ان قوانین سے انحراف و اعتراض بھی کرسکتا ہے ۔ جب ایک انسان اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو اس کی ذات کی نشو و نما ہوتی ہے اور اس کی ساری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اس کا تزکیہ نفس کہا جاتا ہے ۔ جب وہ قوانین الہٰی کے خلاف زندگی بسر کرتاہے تو اس کی ذات مضمحل اور ضعیف ہوجاتی ہے ۔ جس قسم کے افراد ہوں گے اس قسم کا معاشرہ ہوگا ۔ جو لوگ اپنے نفس کی پرورش کرنے کےلئے تعمیری کام زیادہ کریں گے تو معاشرہ بہتر سے بہتر ہوتا چلا جائے گا ۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں بڑا واضح موقف اختیار کیا ہے کہ جس طرح طبعی قانون جاری ہیں اور ان کے اپنے نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے بر آمد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک اور قانون نفس انسان پر بھی Apply ہوتا ہے ۔ ان قوانین کو مستقل اقدار کہا جاتاہے، جو شخص کسی مستقل قدر کی خلاف ورزی کرے گا ۔ اس کی ذات میں ضعف پیدا ہوگا ۔ جو کوئی مستقل اقدار کے مطابق کام کرے گا اس کی ذات مضبوط و مستحکم ہوگی ۔ سارا دار ومدار مکافات عمل پر یقین اور اس پر کامل بھروسہ کرنے کا ہے ۔ جس قدر مکافات عمل پر یقین زیادہ ہوگا اسی قدر انسان ان کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔
اگر کوئی شخص سخت بھوکا ہے او رآپ اس کے سامنے بہترین کھانے رکھ دیں لیکن اس کے ساتھ اس کو بتادیں کہ اس کھانے میں زہر ملا ہوا ہے ۔ تو وہ شخص اس کھانے کو کبھی نہیں کھائے گا ۔ اگر اسی انسان کو یہ یقین ہو کہ حرام کالقمہ کھانے سے اس کی ذات کو ضعف پہنچے گا تو وہ حرام کا رزق کبھی نہیں کھائے گا ۔ جس قدر مکافات عمل پر یقین ہوگا اسی قدر اسلامی نظام میں استحکام پیدا ہوگا اور اس کانظم و نسق بہتر ہوگا ۔ ہماری طبعی و جسمانی زندگی قوانین فطرت کے ماتحت بسر ہوتی ہے قوانین فطرت کے مطابق زندگی بسر کرنے سے جو عمدہ نتائج بر آمد ہوتے ہیں ان سے انسان میں صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ مستقل اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنے سے صالحیت پیدا ہوتی ہے ۔صالحیت میں صلاحیت از خود پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف صلاحیت میں صالحیت شا مل نہیں ہوسکتی صلاحیت ایک سیکولر اسٹیٹ میں بھی رہنے سے آسکتی ہے لیکن صالحیت سیکولر اسٹیٹ میں زندگی بسر کرنے سے پیدا نہیں ہوسکتی ۔ قرآنی نظام کو ہمیشہ اس حیثیت سے پیش کرنا چاہئے کہ قرآن کریم کی یہ وہ مابہ الا متیاز خصوصیت ہے جو کسی اور نظام میں موجود نہیں ہوسکتی ۔ یہ نظام انسان میں وہ صالحیت پیدا کرتا ہے جس سے اس کانفس، اس کی ذات، انسان کی طبعی موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے اور اگلی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے ۔ اسی کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا ۔
یہ نکتہ سیکھا میں نے بو الحسن سے
کہ جان مرتی نہیں مرگ بدن سے
مشہور شاعر احسان دانش نے کہا ہے:
موت کے صدمے سے بھی مرتی نہیں یہ زندگی
اس طرف بھی زندگی ہے،اس طرف بھی زندگی
اوپر درج شدہ معروضات سے آپ نے یہ غور فرمایا ہوگا کہ انسانی نظام کی پوری عمارت کس طرح انسانی ذات کے عقیدہ پر قائم ہوتی ہے اور کس طرح انسانی ذات تمام اعمال کا محور ہوتی ہے ۔
اسلامی نظام کی تیسری اساس یعنی عمل صالح اللہ تعالیٰ کی صفات پر ایمان ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ کا علم، انسان کے حیطۂ ادراک میں نہیں آسکتا ۔ قرآن کریم نے اس کی ذات کا تعارف اس کی صفات کے ذریعے کرایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ تمام صفات ، یہ الاسماء الحسنیٰ ، محدو د طور پر ہر انسانی ذات میں موجود ہوتی ہے ۔ انسانی ذات میں یہ تمام صلاحیتیں خوابیدہ طو رپر ہوتی ہیں ۔ انسان کی زندگی کامقصد ان صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے ۔ جس قدر یہ صلاحیتیں انسان کے اندر بیدا ر ہوں گی ، اس قدر اس انسان کو قرب الہٰی حاصل ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ رازق ، رب، علیم، عزیز، وہاب، جبار ہے ۔ یہ تمام صلاحیتیں ہر انسان کے اندر خوابیدہ غیر نشو و یافتہ صورت میں موجود ہوتی ہیں ۔ ان کے بیدار کرنے سے انسان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اسلامی نظام کی اساس بھی ان ہی صفات پر ہوتی ہے۔
ہر اسلامی نظام کو رزق و عدل فراہم کرنا ضروری ہے ۔ ہر اسلامی نظام سمیع وبصیر ہوتاہے اور رعایا کے ایک ایک فرد پر اس کی نگاہ ہوتی ہے ۔ہر اسلامی مملکت عزیز و حکیم ہوتی ہے کہ اسے غلبہ حاصل ہوتا ہے اور اس کا یہ غلبہ حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور اس کے تمام قوانین Rationlity پر قائم ہوتےہیں۔ مملکت کے علاوہ پوری امت مسلمہ بھی ان صفات کی حامل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رب ہے، اس لئے ہر فرد ، ہر اسلامی نظام اور پوری امت مسلمہ پر فرض ہے کہ وہ دوسروں کی ربوبیت و پرورش کریں ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات السلام او رالمومن بھی ہیں اس لئے ہر فرد، اسلامی نظام اور امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ ساری دنیا میں سلامتی اور امن کو فروغ دیں اور ان کو پھیلاتے چلے جائیں ۔ یہ ہی اعمال صالحہ ہیں جن کے نتیجے میں امت مسلمہ کو اقتدار حاصل ہوتا ہے ۔ اسلامی نظام قائم کرنے میں تشدد اور Voilance کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔
قرآن کریم میں ہر حکم او رہر ہدایت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا تذکرہ ضرو رہوتا ہے ۔کبھی کسی حکم کے بعد اللہ تعالیٰ کو حکیم و عزیز کہا گیا ہے۔ کہیں ایک بات کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے بعد اللہ کو قوی عزیز کہا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تمام دین اور اس کی عملی شکل یعنی اسلامی ریاست درحقیقت اللہ کی صفات کو مظاہرہ ہے۔ قرآنِ کریم کی اطاعت کا اصلی مزہ صرف اس شخص کو محسوس ہوتا ہے جو قرآن کے احکام کے اندر اللہ کی صفات کو محسوس کررہا ہے، یہی حال اس کو اسلامی ریاست کی اطاعت میں محسوس ہوگا ۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق تو اسلامی ریاست ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی یہ تمام صفات ٹھوس شکل اختیار کرلیتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گو یا اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ زمین پر جلوہ گر ہورہا ہے ۔ یہ وہ نظام ہوتا ہے جو الحمد اللہ رب العلمین کی عملی تعبیر ہوتا ہے ۔ یہی وہ مملکت ہوتی ہے جو قابل حمد و ستائش ہوتی ہے اور جو قرآن کے قوانین کے مطابق نوع انسانی کی ربوبیت کا ذریعہ بنتی ہے اس مملکت کا سربراہ ہوتاہے جو مقام محمود پرفائز ہوتا ہے۔
قرآن کریم کا یہی وہ نظام ہے جو آج ساری انسانیت کے لئے پناہ گاہ ہوسکتا ہے ۔وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا (18:27) ( ترجمہ) اور تم اس کے علاوہ کوئی بھی پناہ کی جگہ نہیں پاؤگے۔ اس کے علاوہ او رکوئی نظام ایسا نہیں ہے جو انسانیت کو پناہ دے سکے ۔ ہم نے یہاں اس نظام کے ان چند اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو اس نظام کو قائم کرنے میں ممدو معاون ہوتےہیں ۔ جب یہ نظام قائم ہوا تھا تو سب نے اس کے نتائج و ثمرات و برکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر افسوس کہ وہ نظام ملوکیت کے غلبہ کی وجہ سے منقرض ہوگیا ۔اس مبارک نظام کے انقراض کی وقتی و ہنگامی وجہ سے تو ملوکیت کا غلبہ تھا، جو ایک وقتی چیز تھی ۔ لیکن ملوکیت جو دائمی اسباب چھوڑ گئی ہے اور جن کی وجہ سے یہ نظام دوبارہ قائم نہیں ہوا ہم اب ان کا تذکرہ کرتے ہیں اور جب تک یہ دو اسباب رفع نہیں ہوں گے ، دین کبھی بھی قائم نہیں ہوسکتا ۔
چونکہ حضور کے فرائض میں دین کا قیام تھا (42) اس لئے حضور نے اپنے دور میں وہ نظام قائم فرمایا ، جو دس لاکھ مربع میل پر مشتمل تھا اور اس کے بعد خلافت راشدہ تو 22 لاکھ مربع میل پر وسیع و عریض تھی ۔ حضور نے اپنے دور میں مقامی حکام او رمقامی ولی الامر جس کو قرآن نے اولوالا مر کہا ہے مقرر فرما کر اس کو ایک نظام کی حیثیت دے دی تھی ۔ان اولوالامر کی اطاعت بھی رسول کی اطاعت کی طرح فرض ہے ۔جب مقامی حکام کی اطاعت بھی فرض قرار دے دی گئی تھی ، تو اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ یہ ایک نظام کی صورت اختیار کر چکا تھا ۔ اس نظام کی اطاعت رسول کی اطاعت تھی ، رسول اللہ کی موجودگی میں اطاعت رسول کا طریقہ بالکل واضح تھا کہ جب حضور کے احکامات جاری ہو رہے تھے ان کی اطاعت بھی ضروری تھی لیکن جو لوگ حضور سے دور رہائش پذیر تھے ان کے لئے مقامی حکام کی اطاعت ہی رسول کی اطاعت تھی ۔ حضور کے انتقال کےبعد یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ حضور کی اطاعت کس طرح کی جائے ۔ قرآن کریم کی رو سے رسول کی اطاعت ان کے اس خلیفہ کی طرف منتقل ہوتی تھی جو ان کے قائم کردہ نظام کا سربراہ ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ اطاعت حضرت ابوبکر کی طرف منتقل ہوئی ۔ حضرت ابوبکر کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت تھی ۔ اطاعت الہٰی کا واحد ذریعہ وہ نظام تھا لیکن بد قسمتی سے ہمارے علما کرام نے اس اطاعت رسول کی، رسول کے جانشین یعنی سربراہ نظام الہٰی کی طرف منتقل کرنے کے بجائے اس اطاعت کو روایات کی طرف منتقل کر کے روایات کی اطاعت کو رسول اللہ کی اطاعت قرار دے کر اقامت دین کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسدو د کردیا ۔
یہ عقیدہ وضع کیا کہ قرآن کریم کے ذریعے اللہ کی اطاعت ہوتی ہے اور روایات کے ذریعے رسول اللہ کی اطاعت ہوتی ہے ۔ اطاعت کا یہ ذریعہ وضع کر کے پھر دین کی کوئی اہمیت و ضرورت نہیں رہی ۔ حالانکہ قرآن کریم نے ان دو اطاعتوں کو ایک اطاعت قرار دیا ہے ( 9:3،5:33،59:4) او ران دو اطاعتوں کے لئے ایک ضمیر واحد کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ واضح رہے کہ جب تک مسلمان روایات کو رسول کی اطاعت کا ذریعہ قرار دیں گے، دین قائم نہیں ہوسکے گا۔
اسلامی نظام قائم نہ ہونے کا دوسرا سبب عبادت کا غیر قرآنی تصو رہے ۔ قرآن کریم نے عبادت کا لفظ محکومیت کےلئے استعمال کیا ہے کہ اللہ کی محکومیت اختیار کرو، اس کی محکومیت کے علاوہ او رکسی کی محکومیت اختیار نہ کرو ۔ ہمارے ہاں عبادت کا مفہوم محکومیت کے بجائے پرستش کرلیا گیا ہے۔ پرستش کسی جگہ بھی ہوسکتی ہے ۔ عبادت صرف اسلامی نظام میں ہوتی ہے۔ اسلامی نظام کی اطاعت میں عبادت الہٰی ہوتی ہے جب تک ہم عبادت کا قرآنی مفہوم یعنی محکومیت الہٰی اختیار نہیں کریں گے اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا ۔ اسلامی مملکت میں پرستش کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی اطاعت میں عبادت الہٰی ہوتی ہے۔ اسلامی مملکت میں جب آپ سپاہی کے اشارے پر اپنی کار روک لیتے ہیں، تو آپ عبادت الہٰی کرتےہیں ۔ جب آپ حکومت کے Taxes ، پانی ، بجلی ، کمپیوٹر ، ٹی وی کے بل ادا کرتے ہیں تو آپ عبادت الہٰی سر انجام دیتےہیں ۔ اسلامی مملکت کے ہر حکم کی اطاعت عبادت الہٰی ہوتی ہے ۔
اسلامی مملکت ایمان و اعمال صالحہ کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات ربوبیت ، رزاقیت ، رحمت، رحمانیت، فضل، عدالت اور دیگر تمام صفات جلوہ گر ہوتی ہیں ۔ حضور کے ارشاد کے مطابق اس نظام کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات السلام المومن بھی ہیں ۔ (59:23) امن سلامتی دینے والا ، اس موجودہ دور میں جبکہ ہر انسان ساری دنیا میں امن و سلامتی حاصل کرنے کےلئے مارا مارا پھررہا ہے ، اس ریاست میں اسے امن و سکون کی زندگی میسر ہوگی ۔ جس میں نہ کسی قسم کا خون ہوگا او رنہ کسی قسم کا خوف (2:38)اتباع وحی کا لازمی نتیجہ ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں کسی بھی حالت میں خوف و حزن نہیں ہوسکتا (2:38) مذہب میں کعبہ پرستش کا مرکز ہوتا ہے ۔ دین میں کعبہ سب مسلمانوں کا سیاسی مرکز ہوتا ہے اور امن وا مان کا گہوارہ ہوتا ہے۔ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ( 3:97) جو شخص بھی اس نظام کی حدود میں داخل ہوگیا وہ امن میں آگیا ۔ یہ ریاست انسانیت کے لئے وہ پناہ گاہ ہوگی جہاں کسی ظالم کے دست ظلم کی رسائی نہیں ہوگی ۔ اس ریاست میں ہر شخص کا مل حرمت و آزادی کی فضا میں سانس لے گا ۔ قرآن کریم مسلمانوں کی قلبی و ذہنی تعلیم کا مرکز و محور ہے ، وہ امن و سلامتی کا سر چشمہ ہے۔ کعبہ امن و عافیت کا مرکز ہے۔ اس لئے اسلامی نظام دنیا میں وہ واحد ریاست ہوگی جس کا مرکز امن و سلامتی کا سرچشمہ ہوگا ۔ فرمایا ۔ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (10:25) یہ وہ طرز حیات سے جس کی طرف اللہ دعوت دیتا ہے اس کا نتیجہ سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہ کامیابیوں کا وہ راستہ ہے جس کی طرف اللہ کا قانون ہر اس شخص کو دعوت دیتا ہے جو اس کی رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
یہ نظام کوئی وقتی یا ہنگامی نظام نہیں تھا ۔ یہ قیام قیامت تک کےلئے انسانیت کی تقدیر ہے اور صرف یہی نظام اللہ کے ہاں مقبول ہے (3:85)اس کے علاوہ او رکوئی نظام اس کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے ۔ اس نظام کا بڑا درجہ او ربڑامقام ہے۔ اسی طرح اس نظام کو قائم کرنے والوں کا بھی بڑا مقام ہے۔ قرآن کریم نے حضور کے ساتھیوں کے لئے صحابی کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ اس میں جسمانی حاضری Physical Presence ، لازمی ہوتی ہے۔چونکہ وہ بلند مقام آئندہ کے لوگوں کے لئےبھی تھا، اس لئے قرآن کریم نے معہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ ( 48:29) ترجمہ، محمد الرسول اللہ اور آپ کے ساتھی ۔ اس لئے جب بھی اقامت دین کے لئے کوئی جماعت یا افراد کھڑے ہوں گے ، ان کا شمار حضورکے ساتھیوں میں ہوگا، ارشاد فرمایا يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ( 8:64) اےنبی تیرے لئے اللہ اور یہ جماعت مومنین جو تیرا اتباع کرتی ہے کافی ہے ۔ ان مومنین میں شامل ہونے کےلئے ہر دور کے وہ مومنین میں جو اقامت دین کے داعی ہوتے ہیں ۔ سورۂ توبہ میں ارشاد عالی ہے ۔ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ ( 9:100) (ترجمہ) او رجو لوگ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیروہوئے نیکی کےساتھ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ان کے واسطے باغ تیار کر رکھے ہیں ۔ تفسیر معارف القرآن میں تحریر ہے( صحابہ کےبعد) دوسرا درجہ ان کے بعد کے سب مسلمانوں کا ہے جو قیامت تک ایمان اور اعمال صالحہ اور اخلاق فاصلہ میں صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ پر چلے اور ان کا مکمل اتباع کریں ۔ جلد 4 صفحہ 449 اسی آیہ کریم 9:100 کے ذیل میں ‘‘اتباع باحسان’’ کی تشریح کرتے ہوئے تفسیر نمونہ میں مرقوم ہے ‘‘لغت کے لحاظ سے آیت کا مفہوم اس گروہ میں محدود نہیں ہوسکتا بلکہ‘‘تابعین با حسان’’ کی تعبیران سب کےلئے ہے جنہوں نے کسی زمانےمیں بھی سابقین اسلام کے اہداف و مقاصد کی پیروی کی ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی سوچ کے بر عکس ‘‘ہجرت ’’ اور ‘‘نصرت’’ دونوں اسلام کی اصطلاحی او ر تعبیری مفاہم میں جو زمانہ پیغمبر میں محدود نہیں ہیں بلکہ آج بھی یہ دونوں مفاہم دوسری صورت میں موجود ہیں او رکل بھی ان کا وجود ہوگا۔ اس بناپر وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی طرح ان دونوں پر وگرامز پر عمل پیرا ہوں ، ‘‘ تابعین باحسان’’ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ جلد 4 صفحہ 700 ان ہی الفاظ یعنی ‘‘تابعین با حسان’’ کی تشریح تفسیر مظہری نے تحتی کی ہے۔
‘‘ او ربقیہ اُمت میں جتنے لوگ اِخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں بعض علماء کا قول ہے کہ ان سے سابقین اولین کے علاوہ دوسرے انصار و مہاجر ہیں۔ بعض نے کہا کہ قیامت تک جتنے لوگ سابقین اولین کی راہ پر چلنےوالے ہوں گے ۔ یعنی ایمان میں ہجرت میں ، اور رسول اللہ کے دین کی مدد کرنے میں جو سابقین کے نقش قدم پر چلیں وہ سب مراد ہیں ۔ جلد 5 صفحہ 259 آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس دور میں یا کسی دور میں بھی جو لوگ اقامت دین کی تحریک لے کر اٹھیں گے، وہ بڑے مراتب کے حامل ہوں گے ۔ وہ رضی اللہ عنہم ، یعنی ان کی اقامت دین کی کوششوں کو اللہ نے پسند فرما لیا ہر دور کے اقامت دین کرنے والوں کے یکساں مراتب ہیں ۔ جو حضرات حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے ان کے بہت بلند درجات تھے اور اس موجودہ دور میں جو اقامت دین کی کوشش کرے گا اس کا بھی وہ ہی بلند مرتبہ ہوگا ۔ بہت خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس دور میں پیدا ہوئے اورجنہوں نے اس تحریک کے آگے بڑھانے کےلئے اپنی جانیں لگادیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ (40:44)
مئی ، 2015 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-system-established-good-deeds/d/102878