خواجہ ازہر عباس، فاضل درس نظامی
روز نامہ ‘‘دی نیوز’’ اور روز نامہ ‘‘ ڈان’’ کی یکم مئی 2013ء کی اشاعت میں یہ خبر طبع ہوئی کہ واشنگٹن میں قائم شدہ Pew Forum کے ایک سروے کے مطابق ساری دنیا کے مسلمانوں کی 84 فیصد آبادی شریعت کے قوانین کا اجراء چاہتی ہے ۔ اس خبر میں کچھ مزید معلومات بھی ہیں کہ چند فیصد لوگوں کے نزدیک اسلامی سزائیں زیادہ سخت ہیں۔ کچھ حضرات نے عالمی قوانین کے متعلق بھی اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ محترم التھام جناب انصار عباسی صاحب میڈیا کی دنیا میں بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں ۔ وہ T.V مختلف چینلز پر آتے رہتے ہیں ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رجحان بھی شریعت کی طرف ہے۔ اس سلسلہ میں ان کی بھی ایک رپورٹ ‘‘ دی نیوز’’ میں شائع ہوئی ہے اس سروے میں جو کچھ بیانات اور خیالات مختلف ممالک کے مسلمانوں کے طبع ہوئے ہیں ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں اور گفتگو صرف شریعت کے نفاذ تک محدود رکھیں گے۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو اضطراب او ربے چینی پائی جاتی ہے ، شاید اس سے پیشتر کبھی ایسی نہ ہوگی۔ ہر ملک مسائل سے دوچار ہے۔ کچھ کم اور کچھ زیادہ مسلمانوں کی حالت تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں سب سے بدتر ہے اور تحقیر آمیز ہے۔ مسلمانوں کےاپنے اعمال کی وجہ سے آج اسلام ساری دنیا میں بدنام ہے ۔ مسلمان چونکہ زیادہ پریشان حال ہیں او ر سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین مسلمانوں کے مسائل حل کرسکتے ، اس لئے انہوں نے اس خوش فہمی کی بنا ء پر کہ شریعت کے قوانین ان کو دنیاوی ذلت سے نکال دیں گے اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انگلینڈ میں 86 شرعی عدالتیں ہیں، جہاں مسلمانوں کے تناز عات کے فیصلے شریعت کے مطابق کئے جاتےہیں ۔ اصل غور طلب بات تو یہ ہے کہ دنیا میں بے چینی کی وجوہات کیا ہیں۔ قرآن کریم نے اس کی نشاندہی کی ہے ( 30:41) اور اس فساد کی دو وجوہات بتائی ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب تک انسان میں یہ جذبہ برقرار رہے گا کہ میں دوسروں پر حکومت کروں ، دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا اس موجودہ دور میں ہر سیاسی پارٹی کا منشور اور اس کا نصب العین اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اس کے بعد ان سر بر آور دہ حضرات کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے آخری سانس تک دوسروں پر حکومت کریں اور اس کے بعد ہماری اولاد، پشت در پشت ، دوسرے انسانوں پر حکومت کرتی رہے۔ مسلم ممالک میں یہ بیماری زیادہ عام ہے۔پاکستان کے حالات تو آپ سب حضرات کے سامنے ہیں ، اس لئے ہم ان پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتے لیکن صدام حسین ، لبیا کے حالات بھی سب کو معلوم ہیں ۔ حافظ الاسد زندگی کے آخری لمحہ تک شام کے صدر رہے ہیں ۔ اسی لئے ان کے اپنے ملک والے طنزاً انہیں حافظ اسد الا سدالی الا بد کہتے تھے اس کے بعد ان کا بیٹا ، ان کا جانشین ہوا۔ ان کے دستور میں صدارت کے لئے 40 سال کی عمر ہونا ضروری تھا لیکن بشر الاسد کو صدر بنانے کے لئے دستور میں ترمیم کی گئی ۔ بظاہر ا س دور میں دستور کی بڑی Sanctity ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں کو اس لئے سزا کا مستو جب سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے دستور توڑا تھا لیکن ہمارے ہی ملک میں صدر ضیاء الحق نے یہ بھی کہا تھا کہ دستو ر کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ یہ تو چند صفحات پر مشتمل ہوتاہے، میں جب چاہوں اس کو پھاڑ سکتا ہوں کسی بھی ملک کے دستور کی اہمیت فی ذاٖتہ نہیں ہوتی ، جب چاہا اور اس طرح چاہا اس تبدیلی کرلی جاتی ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اس میں گنجائش پیدا کرلی ۔ قرآن نے اس کے متعلق فرمایا ۔
أَسْمَاءٍ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا نَزَّلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ( 7:71) تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے کچھ نام گھڑ لئے ہیں حالانکہ اللہ نے ان کے لئے کوئی سند نازل نہیں فرمائی ۔ اسلامی مملکت کا دستور قرآن ہوتا ہے، جو منزل من اللہ ہے۔ نہ تو اس میں کوئی تبدیلی اور ترمیم ہوسکتی ہے او رنہ ہی یہ Revoke کیا جاسکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اس سے زیادہ اور کوئی تحقیر ہوہی نہیں سکتی کہ کوئی دوسرا انسان اس پر حکومت کرے ۔ اسلامی مملکت میں کسی شخص کی حکومت نہیں ہوسکتی ۔ اس میں صرف اور صرف قانون کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم اور محکوم کا تصور باقی نہیں رہتا ۔ ہر شخص قانونِ الہٰی کا محکوم ہوتا ہے ۔
دنیا کی بے چینی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ قرآن کی رو سے انسان صرف اس کے طبعی جسم سے عبارت نہیں ہے ۔ جسم کے علاوہ ایک اور شے بھی ہے جسے انسانی ذات کہتےہیں ۔ موجودہ ممالک اس ذات کے قائل نہیں ہیں اور ان کے نزدیک انسان صرف ا س کے طبعی جسم کا نام ہے ۔ موجودہ حکومتیں یہ انتظام کرتی ہیں کہ اس کے باشندوں کی جسمانی ضروریات پوری کرتی رہتی ہیں لیکن وہ انسانی ذات کی نشو ونما کے لئے کچھ نہیں کرتیں ۔ جب تک بھی انسان اس ذات کو تسلیم نہیں کرتے دنیامیں بے چینی بر قرارہے گی ۔ قرآن کی رو سے اس ذات کی نشو و نما کرنا لازمی ہے اور انسان کی زندگی کا مقصد بھی ذات کی نشو و نما کرنا ہے ۔ انسان کی ذات کی نشو و نما چونکہ مستقبل اقدار سےہوتی ہیں ، اسلامی مملکت کا نظم و نسق مستقل اقدار کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی مملکت سکون و امن کا گہوارہ ہوتی ہے اور ساری دنیا کے امن کی ضامن ہوتی ہے ۔ جو حضرات شریعت کے نفاذ کامطالبہ کررہے ہیں وہ اسلامی مملکت کے قیام اور شریعت کے نفاذ کو غلط ملط کررہے ہیں اور شریعت کے صحیح مفہوم کو نظر انداز کررہے ہیں۔
خلافت راشدہ کے انفراض کے بعدملوکیت نے غلبہ حاصل کیا اور اسلام دین کےبجائے مذہب میں تبدیل ہوگیا ۔ دین اور مذہب میں سب سے بڑا واضح فرق یہی ہوتا ہے کہ دین میں پبلک لائز اور پرسنل لائز میں کوئی تفریق ہوتی لیکن مذہب میں یہ ہوتا ہے کہ پبلک لائز حکومت بناتی ہے اور پرسنل لائز کی تشکیل اپنے وقت کے علما ء کے سپر د کردی ۔ آپ اس بات پر غور فرمائیں کہ بنو عباس کی مملکت بڑی وسیع مملکت تھی اور اس مملکت کو چلانے کے لئے اس دور کے مطابق قو انین بھی وضح کئے گئے ہوں گے لیکن ان پبلک لائز کا ایک صفحہ بھی ہمیں نہیں ملتا جب کہ پرسنل لائز جو ہمارے علماء کرام نے بنائے تھے وہ تیرہ سو سال سےاسی طرح چلے آرہے ہیں ۔ جس شریعت کے نفاذ کا آج کل مطالبہ ہورہا ہے ۔ وہ قرآنی یا دینی شریعت نہیں ہے ۔ وہ تو مذہب کی رو سے وضع کی گئی تھی اور ساری شریعت انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہے اس شریعت کا بڑا حصہ خلاف قرآن ہونے سے واضح ہے کہ یہ مذہب کی رُو سے وضع کی گئی ہے۔
قرآن کریم کے نزدیک شریعت کا تصور یہ ہے کہ قرآنی شریعت میں عبادات او رمعاملات کی تفریق ہوتی ۔ ہر حکم کی اطاعت عبادت الہٰی ہوتی ہے اور دنیا کاہر کام جس کا فیصلہ وحی الہٰی کی رُو سے کردیا جائے وہ دینی کام ہوجاتا ہے اور اس کی اطاعت عبادت الہٰی ہوتی ہے ۔ ہماری شریعت میں شروع سے ہی عبادات اور معاملات کو الگ الگ کردیا گیا ہے لیکن عبادات اور معالات تقسیم غیر قرآنی ہے اور ارشاد ہوتا ہے ۔ (1) وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ( 2:83) لوگوں سے نرمی سے بات کرو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو ۔ اس آیت میں آقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ اور لوگوں سے نرم کلامی ۔ یہ تینوں امور ایک ہی درجہ میں شامل ہیں اور معاملات اور عبادات کی کوئی تفریق نہیں ہے سورۃ جمعہ میں ارشاد عالی ہے ۔ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا ( 62:10) ترجمہ پھر جب صلوٰۃ ہوچکے تو زمین میں جاؤ اور اللہ کے فضل ( روزی) کوتلاش کرو اور اللہ کو بہت دیا کرتے رہو ۔یہاں پھر اقامات صلوٰۃ ، تلاشِ رزق اور ذکر الہٰی کو ایک درجہ میں شمار کیا ہے اور عبادات و معاملات کی تفریق نہیں کی مزید ارشاد عالی ہے الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ( 22:41) یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین پر قابودے دیں، تو یہ لوگ نماز ادا کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کاحکم کریں گے،برُی باتوں سے روکیں گے اور تمام کاموں کے فیصلے قانون الہٰی کے مطابق ہوں گے ۔
اس آیہ کریمہ میں اقامت صلوٰۃ ایتائے زکوٰۃ ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ہر معاملہ کا فیصلہ قانون الہٰی کے مطابق طے کرنا ،پانچوں امور کو ایک ہی زمرہ میں شامل کیا گیا ہے اور عبادات اور معالات کی تفریق پر خط نسخ کھینچ دیا ہے ۔ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ( 73:20) صلوٰۃ پڑھو ، زکوٰۃ دو اور اللہ کو قرض حسنہ دو ۔ اس آیت میں نماز پڑھنا ، زکوٰۃ دینا اور اللہ کو قرض دینا ایک ہی دجہ رکھتاہے ۔
ہماری شرعیت بنو عباس کے دور میں مُدوّن ہوئی تھی ۔ اس وقت کے حالات ، آج کے حالات سے بالکل مختلف تھے ۔ اس موجودہ دور کے معاشرتی حالات ، بنو عباس کے دور کے حالات سے مختلف ہیں ۔اس زمانے کے مُذ وَّن شدہ قوانین اس دور کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ اس دور میں ہمارے معاشرتی رشتے بدل گئے پیدا وار کے طریقے بدلے، سماجی قدریں بالکل بد گئیں۔ دین مبین کے طریقے بدلے، سوچنے کا انداز بدلا، سائنس نے بے شمار ایجادات کیں ۔ ٹی وی، فریج، ائر کنڈیشن ، کاریں، ریلوے، ہوئی ، بحرین جہاز ، ان تمام چیزوں نے زندگی بدل کے رکھ دی ہے۔
جب ہماری شریعت مدون ہوئی تھی ، اس وقت بینک نہیں تھے ۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا نہیں تھا ۔ اس شریعت میں اجتہاد کرکے ان کے لئے قوانین نہیں بن سکتے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے لئے الگ قوانین و ضع کرنے ہوں گے ، اسی طرح اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن ، امپورٹ ایکسپورٹ ، PIA, VISA ، واپڈا ، واسا ، ڈاک خانہ جات تمام محکموں کے قوانین وضع ہوں گے اور ان کی اطاعت عبادت الہٰی کے متراردف ہوگی ۔ ایک ہزار سال پرانی وضع کردہ شریعت اس دور کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ میں مملکت قائم کی تھی وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے دورِ مبارک میں د س لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئی تھی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مملکت میں مقامی حکام مقرر فرمائے ۔ قرآن کریم نے حکام ( 2:188) اور الووال مر ( 4:59) دونوں کی نشاندہی فرمائی ہے ۔ دُور دراز کے باشندوں میں جب جھگڑے ہوتے تھے ، تو وہ لوگ اپنے جھگڑوں کافیصلہ کرانے مدینہ نہیں آتے تھے ، بلکہ وہ اپنے مقامی حکام سےفیصلہ کرالیتے تھے ۔اجتماعی حاکم جو فیصلہ کرتا تھا، فریقین ا س کی اطاعت کرتے تھے اور یہ عبادتِ الہٰی ہوتی تھی ۔ ارشاد عالی ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ ( 4:59) اے ایمان والو، اللہ ، رسول اور صاحبان حکومت کی اطاعت کرو اور اگر تم میں کوئی جھگڑا ہوجائے تو اس کو مرکز کی طرف پھیر دو ۔ اس آیہ کریمہ میں ‘‘مِنكُمْ ’’ کا لفظ بڑا معنی خیز ہے ان مقامی حکام کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں ۔ سابقہ دور کے حکام کی اطاعت ہم پر فرض نہیں ہے بلکہ اپنے زمانے کے زندہ حاکم کی اطاعت فرض ہے۔
فرض کریں کہ آپ کے قصبہ میں ایک وسیع میدان خالی پڑا ہے۔ آپ نے اپنے قصبہ کے چند سربرآور وہ لوگوں کو ساتھ ملا کر ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی کہ ہم اس میدان میں بچوں کے لئے Play Ground بنانا چاہتے ہیں ۔ اس میں ایک لاکھ روپے کی رقم خرچ ہوگی ۔ 60 ہزار روپے ہم اہل قصبہ خرچ کریں گے اور 40 ہزار روپے حکومت امداد فراہم کردے ۔ حکومت کو اس قسم کی مالی پیشکش کرنے کو قرآن نے نذر کرنا بیان کیا ہے يُوفُونَ بِالنَّذْرِ ( 76:7) یعنی وہ ان امور کو جو وہ اپنے اوپر واجب قرار دے لیں، پورا کرتے ہیں ، اسی کو دوسری جگہ فرمایا وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ ( 22:29) اور انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اوپر عائد کردہ واجبات کو پورا کریں لیکن اسی قصبہ کے چند اور بااثر حضرات نے اس تجویز کی مخالفت کردی اور D.C سےکہا کہ ہم اس میدان میں لڑکیوں کا اسکول کھولنا چاہتےہیں ۔ قصبہ کے ان لوگوں کے اس تنازع کا فیصلہ مقامی حاکم (D.C) کردے گا ، اس کے لئے فریقین کو اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں ہوگی (D.C ) کے فیصلہ کی اطاعت دونوں فریق کریں گے اور D.C کےا س فیصلے کی اطاعت ، عبادت الہٰی ہوگی کیونکہ یہ اطاعت D.C کی نہیں ہوگی بلکہ اس نظام کی اطاعت ہے جو اللہ و رسول کے قوانین او راحکامات جاری کررہا ہے۔ ہمارے علمائےکرام کے نزدیک بھی اولو الامر کی اطاعت فرض ہوتی ہے اوراس کی اطاعت رسول کی اطاعت کے مترادف ہوتی ہے۔ اسلامی مملکت کے یہ فیصلے ہی شریعت ہوتے ہیں اور یہ شریعت حالات کے مطابق خود بخود Develop ہوتے چلے جاتے ہیں ۔شریعت کوئی جامعہ یا State چیز نہیں ہے کہ وہ بنی بنائی پہلے سے وضع کردہ موجود ہو۔ شریعت حالات کے تقاضوں کے مطابق بنتی چلی جاتی ہے ۔ اس شریعت کی اطاعت عبادتِ الہٰی ہے ۔ اگر یہ شریعت موجود نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا ۔یہ بات واضح رہے کہ اسلامی حکومت کے فیصلے قرآن کے مطابق ہوں گے اس لئے شریعت کا ماخذ صرف قرآن ہے ۔ اوپر درج شدہ آیت ( 4:59) میں یہ ارشاد ہے کہ اگر تمہارا آپس میں تنازعہ ہوتو اللہ و رسول کی طرف رجوع کرو۔ اس آیت سے اجماع و قیاس جو ہماری شریعت کے ماخذوں میں شامل ہیں، ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اللہ و رسول قرآن کریم نے بطور ایک اصطلاح کے استعمال کیا ہے ۔ جس کی کئی باروضاحت پیش خدمت کی جاچکی ہے کہ اس سے اسلامی مملکت کا سربراہ مراد ہوتا ہے جس کو یہ حکم ہے کہ لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( 42:12) تمہارا جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے سپر د ہے ۔ اس آیت نے بخوبی واضح کردیا کہ اسلامی مملکت کے قانون اور اس کی شریعت کاماخذ صرف قرآن ہے ۔ ہماری شریعت جس کے نفاذ پر اس زمانہ میں بہت اصرار ہورہا ہے، خود قرآن کے خلاف ہے کیونکہ قرآن نے تو واضح طور پر حکم دیا ہے وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ( 5:44) جو لوگ ما انزل اللہ کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں ۔ ہماری شریعت کی اساس بما انزل اللہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی اساس، میں روایات ، قیاس و اجماع بھی شامل ہیں ۔ حالانکہ قرآن کی رُو سے ماانزل اللہ کے علاوہ کوئی چیز بھی شریعت کے ماخذ میں شامل نہیں ہوسکتی ۔
اسلامی مملکت میں کونسل آف اسلامی آئیڈیالوجی شرعی عدالتیں ، محکم ، زکوٰۃ وعشرہ ، محکم اوقات نہیں ہوتے ۔ اسلامی مملکت کی ساری عدالتیں شرعی عدالتیں ہوتی ہیں ۔ جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس سےیہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تھا ۔ اس کو مقام اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام کے مشورہ کے ساتھ ، قرآن کے مطابق طے فرمادیتے تھے اور یہ اس دور کی شریعت تھی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب کوئی معاملہ پیش آتا تو یہ معلوم کیا جاتاتھا کہ ایساکوئی معاملہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آیا تھا یا نہیں ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکیا ہوا فیصلہ معلوم ہوتا اور اس میں تبدیلی کی ضرورت نہ ہوتی تو اس فیصلہ کو من وعن نافذ کردیا جاتا تھا ۔ اگر تھوڑی سی تبدیلی کی ضرورت ہوتی تو وہ تبدیلی کرلی جاتی ورنہ حالات کے تقاضہ کے مطابق ا س معاملہ کافیصلہ قرآن کے مطابق کردیا جاتاتھا ۔
یہی طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رہا ۔ اس دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کےفیصلوں کو بطور Precelent ( نظیر) سامنے رکھاجاتا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت طویل بھی تھا اور مملکت میں وسعت بھی ہوتی جارہی تھی اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں سابقہ فیصلوں سے اختلاف بھی کیا گیا ۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اُوّلیاتِ عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے ایسے فیصلوں کی تعداد 40 بتائی ہے۔
اس طرح مملکت کے فیصلے کرنے میں قرآن ، سنت ، اجماع اور قیاس، چاروں ذرائع کو استعمال کیا گیا ہے ۔قرآنِ کریم قانون کے ماخذ ،سابقہ حکومتوں کے فیصلو ں کو سامنے رکھنا، اتباع سنت ، قرآن و سنت کی روشنی میں قیاس کر کے نئے فیصلے کئے گئے اور چونکہ مسلمانوں کا مشورہ اس میں شامل ہوتا تھا ، اس لئے ان کے فیصلے اجماع پر مبنی ہوتے تھے ۔ قانون کا ماخذ صرف قرآن تھا اور یہ تینوں طریقے شریعت و ضع کرنے میں استعمال ہوتے تھے ۔ جو ان کے علاوہ ، یہ تینوں باقی شقیں قانون کی تنفید کے سلسلے میں استعمال کی گئی تھیں حکومتیں خواہ سیکولر ہوں یا تھیو کریسی، ان کا مطمح نگاہ انسان کی طبعی ضرورتیں پورا کرنا ہوتا ہے ۔ ان مملکتوں کے پیش نظر حیوانی سطح کی زندگی ہوتی ہے ۔ یہ حکومتیں انسانی سطح کی زندگی تک نہیں جاتیں یہ تمام طبعی مسائل انسان اور حیوان کے مُشترک مسائل ہیں ۔ اسلامی مملکت صرف ان مسائل کو حل نہیں کرتی ، وہ اس سےبہت آگے جاتی ہے ۔ اسلامی مملکت و ہ مسائل حل کرتی ہے جن کا تعلق خالص انسانیت سے ہوتا ہے ۔ صرف اسلامی مملکت میں ہی انسانیت پروان چڑھ سکتی ہے ۔غیر اسلامی مملکت میں خالص انسانیت کے مسائل حل نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ حکومتیں انسانی ذات کی قائل ہی نہیں ہوتیں ، وہ اس کاحل پیش کریں گی ۔
جو حضرات شریعت کےنفاذ کا تقاضہ کررہے ہیں ہماری ان سے گزارش ہےکہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش کریں، اس حکومت کے نظم ونسق کےقوانین خود شریعت ہوجائیں گے ۔ اسلامی حکومت طاقت کے زور پر قائم نہیں ہوتی ۔ اسلامی مملکت ایمان اور اعمال صالحہ کالازمی نتیجہ ہوتی ہے ارشاد عالی ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ ( 24:55) تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اعمال صالح سر انجام دیئے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین پر اقتدار دے گا ۔ حکومت اور مملکت تو قوت کے زور پر حاصل ہوتی ہیں ۔ انگریزوں نے قوت حاصل کی وہ دنیا کے بیشتر ممالک میں حاکم تھے لیکن اسلامی مملکت ایمان اور اعمال صالحہ کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ یہ اپنی اپنی مابہ الامتیاز خصوصیات کی وجہ سے خلافت کی جاتی ہے کیونکہ یہ خالص انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے ۔ اس کی اساس اسماء الہٰی پر ہوتی ہے ۔ اس نظم و نسق مستقل اقدار کے مطابق ہوتا ہے ۔اس لئے وہ مملکت صفاتِ الہٰی کی مظہر یعنی الہٰی وعدہ کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اس کی اس ہئیت ترکیبی کی وجہ سے اس کے باشندوں میں بھی صفاتِ الہٰی کی نمود ہوتی چلتی ہے اور اس طرح اس کے تمام شہریوں کی پوری پوری صلاحیتیں بیدار اور Polent اور Aclinalize ہوجاتی ہیں اور اسلامی مملکت کے ہر فرد کی صلاحیتیں پوری طرح بروئے کار لانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں شامل تھا ۔ وَيُزَكِّيهِمْ (2:129)اور وہ رسول ان کی صلاحیتوں کی نشو و نما کرتا ہے ۔
مئی، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/demand-implementation-shariah-/d/98154