New Age Islam
Wed Feb 12 2025, 08:47 AM

Urdu Section ( 16 Nov 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Miracles of the Quran Part 4 اعجاز القرآن قسط چار

 

خواجہ ازہر عباس

اکتوبر، 2013

گذشتہ باب میں آپ نے قرآن کریم کے وحی الہٰی  ہونے کے ثبوت میں تصریف الآیات کا عنوان ملاحظہ فرمایا تھا ۔اس باب میں قرآن کریم کی وحی الہٰی ہونے کے ثبوت میں انسانی ذات اور مستقل اقدار کا تصور پیش خدمت  عالی کیا جاتا ہے۔ انسان نے جب شعور حاصل کیا ہے ، ا س وقت وہ بے مقصد  اور بے ضابطہ زندگی بسر کررہا تھا ۔ اس کے سامنے زندگی  کا کوئی واضح مقصد نہیں  تھا ۔ انبیاء کرام انسان  کو اس کی زندگی کا مقصد بتانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ عربوں کو سوسائٹی بھی جس میں حضور تو لد ہوئے ، اور جس سوسائٹی میں قرآن کریم کا نزول ہوا، انسانی زندگی  کے کسی مقصد  سے واقف نہیں تھی۔ شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔مکّہ جو اُن کا مرکز ی شہر تھا ۔ اس میں بھی کُل  17آدمی ایسے تھے جو نوشت و خواندے واقف تھے۔ اس غیر  علمی اور تاریک معاشرہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا۔ آپ غور فرمائیں  کہ قرآن کس طرح زندگی  کامقصد واضح کرتا ہے۔ اس معاشرہ  میں عام تصور یہی تھا کہ انسان اس طبعی  جسم سے عبارت جو طبعی قوانین  کے مطابق وجود میں آجاتا ہے ۔ یہ جسم  انسانی ان ہی قوانین کی رُو سے زندگی  بسر کرتا ہے اور انہیں کے مطابق کچھ عرصہ کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔

وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ (45:24)

( ترجمہ) اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس دنیا ہی  کی زندگی ہے( یہیں مرتے ہیں اور یہیں جیتے ہیں او رہم کو صرف زمانہ ہی (جلاتا) مارتا ہے۔ اس تصور حیات  کی رُو سے زندگی  کا کوئی مقصد سامنے نہیں  رہتا، اس کے برخلاف ایسے غیر علمی  دور میں قرآن کریم نے ، اپنا منفرد اور نادر اور مبنی برعلم و حقیقت یہ نظریہ پیش کیا کہ انسان صرف طبعی جسم سے عبادت نہیں ہے۔ بلکہ جسم  کے ساتھ  ساتھ ایک او ر چیز بھی ہے جسے انسانی ذات کہتے ہیں اور یہ انسانی ذات ہی اصل و حقیقی  شے ہے اور یہ انسانی ذات ہی وہ چیز  ہے جس پر انسانی زندگی، انسانی معاشرہ اور اس کے دین کی ساری عمارت استوار  ہوتی ہے۔ اگر انسانی ذات کا انکار کردیا جائے تو نہ تو زندگی  کے مقصد کا تعین کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ صحیح خطوط پر متشکل  کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن کریم  نے اسی ذات کو ‘‘ روحی’’ کہا ہے (29۔15۔72۔38) یعنی توانائی اس روحی میں اضافت، اضافت تعظیمی ہے ۔ جس  طرح بستی  (125۔2) میرا گھر اور ارضی (56۔29) میری زمین  میں یہ اضافت ، اضافتِ تعظیمی ہے اس سے یہ مقصد نہیں کہ گھر یا زمین اللہ کا جُز ہے۔ یہاں  بھی مراد صرف ایک ایسی  توانائی  ہے جس کو عمل  کرنے کا اختیار ہوتا ہے جو پیکر انسانی میں از خود پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی انسانی ذات کو خود ی بھی کہتے ہیں ۔ اس انسانی ذات سے انسان صاحب اختیار  دار ادہ ہوجاتا ہے اوراپنے اعمال  کا ذمہ دارقرار دیا جاتا ہے۔ انسان کے ہر عمل کا اثر اس کی ذات  پر پڑتا ہے ۔ اچھے  اعمال اس کی ذات  میں استحکام پیدا کرتے ہیں اور برُے اعمال  سے اس کی ذات  کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ مرنے سے انسان کا جسم تو ختم  ہوجاتا ہے  لیکن  اس کی یہ ذات باقی رہتی  ہے۔ ذات  کے باقی رہنے پر علامہ اقبال  کے کافی  استعمار  ہیں جن میں سے یہ بھی ہیں۔

یہ نکُہ سیکھا میں نے  بو الحسن  سے

کہ جان مرتی نہیں مرگِ بدن سے

پھر ارشاد ہے

تو اسے پیمانہ امروز فرد اسے نہ ماپ

جاودان ہر پیہم ، ہر دم، رواں ہے زندگی

غالباً احسان  دانش  نے کہا ہے۔

موت کے صدمے سے کم ہوتی نہیں ہے زندگی۔ اس طرف بھی زندگی  ہے اُس طرف بھی زندگی  انسانی جسم کے مرجانے کے بعد، ذات  کی اس زندگی کو حیات  اُخروی کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی رُو سے نشو و نما یا فتہ ذات، زندگی  کے اگلے  درجہ میں پہنچ  کر اگلی نوع  میں تبدیلی  ہوجاتی ہے۔ جسے جنتی زندگی کہتے ہیں  اور غیر نشو و نمایا فتہ  ذات اسی  مقام پر کھڑی رہتی ہے او ریہ جہنم کی زندگی ہے۔ انسانی ذات یا عقل انسانی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے  کہ وہ ذات کی نشو و نما  کے قوانین خود بنالے۔ یہ قوانین وحی الٰہی  کی رُو سے ملتے تھے ۔ جن اعمال سے ذات  کی نشو و نما  ہوتی ہے وہ اعمال صالحہ کہلاتے ہیں اور جن اعمال  سے اس کو ضعف پہنچتا ہے  وہ اعمال وحی الہٰی  کے خلاف ہوتے ہیں۔ انسانی ذات کو تو صرف عمل کا اختیار وارادہ دیا گیا ہے۔ یہ خود خیر و شر میں تمیز نہیں کرسکتی ۔ انسانی ذات کو نشو و نما مستقل اقدار پر عمل کرنے سے ہوتی ہے۔ یہ اقدار قرآن کریم نے عطا کی ہیں۔ عقل انسانی ان کو وضع نہیں کرسکتی اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسانیت وحی الہٰی  کی محتاج ہوتی ہے۔

چونکہ عربوں میں ذات کا  ہی تصور نہیں تھا ۔ اس لئے اُن میں دور دور تک بھی مستقل اقدار کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ انسانی ذات کی ترقی و کمال  کا دار و مدار ہی ان مستقل اقدار پر عمل کرنے پر ہے۔ یہ اقدار انسانی ذات کی بنیادی خصوصیات ہوتی ہیں اور ان پر صرف معاشرہ میں رہ کر ہی عمل ہوسکتا ہے۔ جو شخص کسی جنگل  یا کسی پہاڑ کی چوٹی پر تنہا زندگی بسر کرتاہے ، اسے مستقل اقدار کا تحفظ زندگی کو حیوانی سطح سے بلند  کر کے، انسانی سطح پر لے جاتا ہے او ر مومن کی زندگی کامقصد ہی ہےیہ ہے کہ مستقل اقدار کی حفاظت کرے۔ زندگی کی نشو و نما کا طریقہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی بھی کسی مستقل قدر اور انسان کی ذاتی منفعت میں TIE  ،آپڑے ، تو اپنے ذاتی فائدہ کو چھوڑ کر مستقل  قدر پر عمل کرنے سے ذات کی نشو و نما ہوتی ہے۔ یہا ں تک کہ اگر کبھی ایسا موقع آجائے کہ مستقل قدر پر عمل  کرنے کی وجہ سے جان پر دینی پڑجائے تو انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذات اس مستقل قدر کے تحفظ  کی خاطر دے دے۔

مستقل اقدار کا تصور خالص قرآنی تصور ہے۔ قرآن کریم کے علاوہ مستقل  اقدار  کا تصور کسی جگہ بھی نہیں ملتا ۔ حضور کے دور کا تو ذکر ہی کیا ہے آج تک قرآن کے علاوہ مستقل اقدار کا تصور کسی جگہ بھی موجود نہیں ہے۔ عقل انسانی مستقل اقدار کا تصور دے ہی نہیں سکتی ، یہ عقل انسان کے بس کی بات ہی نہیں  ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی  میں سارا یورپ بیک وقت اٹھ کھڑا ہوا، بیدار کی ایک لہر تھی جو سارے یورپین ممالک میں ایک ہی وقت میں دوڑ گئی تھی ۔ ان ممالک نے کچھ تو سائنسی قوت حاصل کی او رکچھ اپنے معاشروں  میں اصلاح کرکے معاشروں کو نئے خطوط پر منظّم کیا ۔ ان یورپین  ممالک کو  دوسرے بر اعظموں پر بر تری حاصل ہوئی ۔ان کے سامنے مستقل اقدار نہیں تھیں ۔ نہ ہی ان کے سامنے مستقل  اقدار کا کوئی تصور تھا ۔ اس لئے انہوں نے اپنے مفتوحہ ممالک  پر ظلم و ستم کیا جو وہ کرسکتے تھے ۔ جب انگریزوں نے سوڈان  پر حملہ کیا اور مہدی  سوڈانی نے برٹش گورنمنٹ کاڈٹ کے مقابلہ کیا تو مہدی کے درویشوں کے پاس صرف ، تیر تلوار  اور پرانے اسلحہ  تھے جب کہ انگریزوں کے پاس بندوقیں اور نئے آلات تھے ۔ اس طرح مہدی کے دس ہزار درویش کام آئے ۔ جب کہ لارڈ گورڈن کے صرف 40 آدمی مارے گئے ۔ ہمارے بر صغیر ہند و پاک  میں بھی ، انگریزوں نے دھوکا ، فریب و دجل کی سیاست کا استعمال کیا اور سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیا ۔ 1857 میں جب انگریزوں نے ہندوستان پر پوری طرح قبضہ کیا ، تو انگلستان  کی کل آبادی ایک کروڑ تھی او رپورے ہندوستان کی آبادی 20 کروڑ تھی ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ ان کے سامنے مستقل اقدار  کا تصور نہیں تھا۔ صرف دولت کمانا ان کا مقصد زندگی تھا ۔ آج یورپ کی یہ اقوام انسانی حقوق  کی دعویدار ہیں، مستقل اقدار ہی  Political Parlance میں ، انسانی حقوق ہوتے ہیں ۔ اگر مغربی ممالک کے سامنے یہ مستقل  اقدار ہوتیں تو دنیا کے کمزور ممالک تباہی و بربادی سے دوچار نہ ہوتے۔

اب آپ یہ غور فرمائیں کہ اُس جہالت کے دور میں قرآن کریم نے جو اقدار عنایت  فرمائی ہیں کیا کوئی شخص اس وقت ان کا تصور کر سکتا تھا ؟ اور ان میں سے کون سی ایسی قدر ہے جو اس موجود ہ زمانہ کا ساتھ نہیں  دے سکتی ۔ نیز یہ بھی غور فرمائیں  کہ کیا اب تک عقل انسانی نے ان کے علاوہ کوئی اور مستقل  اقدار  و ضع کی ہیں جو قرآن کریم نے نہ دی ہوں اور یہ بھی  غور فرمائیں کہ کیا ان اقدار میں کوئی ایسی کمی رہ گئی ہے جو ذہن  انسانی  اس کو پورا کرنے کا اہل  ہو، اگر مستقل اقدار  کو نظر انداز کردیا جائے اور عقل انسانی کسی چیز  کی پابند نہ رہے تو وہ ہم جنس پرستی (HOMESEXUALITY)  اور سحاقت جیسے شنیع افعال کو بھی جائز قرار دینی  ہے او رکوئی شخص کسی دوسرے شخص کو ظلم کرنے سے بھی نہیں روک سکے گا ۔  ایسے معاشروں میں صرف طاقت اور طاقتوروں کا دور دورہ ہوتاہے لیکن اگر مملکت  مستقل  اقدار کی پابند  ہے اور اس مملکت  کے احکام و قوانین مستقل اقدار کے مطابق بنائے جائیں پھر آپ دیکھیں کہ معاشرہ کس طرح جنت  بداماں ہوتا ہے۔  شرط صرف یہ ہےکہ سارا مستقل اقدار پر مبنی اور اس کے احکام کے تابع  ہو۔ اب آپ کے سامنے چند مستقل اقدار پیش کی جاتی ہیں۔

(1)  قرآن کریم کی سب سے پہلی او راہم ترین قدر احترام انسانیت ہے چونکہ  انسانی ذات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر بچہ کو ایک جیسی ملتی ہے۔اس لئے انسان واجب الاخترام ہوتا ہے ارشاد  ہوتا ہے وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلً (70۔17) ترجمہ، اور ہم نے انسانیت کو عزت دی اور جنگل اور دریا میں ان کو سواری دی او ر پاک چیز وں کی روزی دی او رجو کچھ ہم نے پیدا کیا اس میں سے اکثر پر ہم نے فوقیت دی۔ لہٰذا احترام انسانیت  ایک اہم مستقل  قدر ہے۔ ذات پات ، حسب نسب، رنگ ونسل کے تمام امتیازات غیر قرآنی ہیں ۔ علامہ اقبال  نے کیا خوب لکھا ہے۔

 کسے کو پنجہ زد ملک و نسب را

نہ داند نکتۂ دین عرب را

اگر قوم از وطن بورے محمد

ندادے دعوت دین بو لہب را

دوسری جگہ فرمایا

قوم تو از رنگ و خون بالا تر است

قیمت یک اسودش صد احمر است

گر نسب را جزدِ و ملت کردہ

رخنہ درکار اُخوت کردہ

 (2) البتہ احترام کےبھی مختلف مدارج  ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے مدارج  کا تعین  اعمال  کی اساس پر کیا ہے۔ وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا (19۔46) ترجمہ، ہر شخص کے مدارج اس کے اعمال کے مطابق طے پائیں گے ۔ انسان کے مدارج کا معیار اس کے ذاتی جوہر  POTENTIAL  پر ہے ، اضافی نسبتوں سے نہیں ۔

(3) کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں  پر حکومت کرے (79۔3، 92۔6، 40۔12، 67۔12، 70۔28، 88۔28، 12۔40) وغیرہ ۔ ہر شخص کی آزادی ، اور اس آزادی کا احترام کرنا قرآن  کی ایک اہم قدر ہے۔ حکومت صرف اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہے۔

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمران ہے ایک وہی باقی بتانِ آزری

(4)  تمام افراد کے رزق کی ذمہ داری مملکت کے سر ہوتی ہے۔ ہر شہر ی کی بنیادی ضروریات پوری کرنا مملکت کا فریضہ ہوتا ہے اور ہر شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا (6۔11) ترجمہ، زمین پر کوئی شخص ایسا نہیں  جس کے رزق کی ذمہ داری اس مملکت کے ذمہ نہ ہو، جو اللہ تعالیٰ کے وعدے پورا کرنے کے لئے قائم کی جاتی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی بستی  میں کوئی شخص بھی رات کو بھوکا سو گیا، تو اس بستی  سے اس مملکت  کی اطاعت مرفوع ہوجاتی ہے اور اس شخص پر مملکت کی اطاعت فرض نہیں  رہتی ، نہ اس مملکت کا ٹیکس ادا کرنا لازمی رہتا ہے۔

(5) قرآن کریم کی ایک قدر یہ بھی ہے کہ ساری نوع انسانی ایک امت واحدہ ہے کیونکہ اصل کے اعتبار سے نوع انسانی کے تمام افراد، ایک ہی برادری کے افراد ہیں ( 10۔9) تمام نوع انسانی کا ایک ضابطہ حیات کے مطابق، ایک امت بن کر رہنا بھی قرآن کی ایک مستقل قدرہے۔

(6) دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی  نہیں ہے۔ انسان کی اپنی مرضی  اور اس کی اپنی رضا مندی پر منحصر ہے کہ وہ کوئی مذہب بھی اختیار  کرسکتا ہے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (256۔2)دین اختیار کرنے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے لئے مذہب CHOOSE  کرسکتا ہے اور ایک مذہب چھوڑ کر دوسری مذاہب اختیار کرسکتا ہے۔

(7) قرآن کی ایک مستقل قدر یہ بھی ہے کہ مملکت کے  احتیارات نا اہل اور غیر ذمہ دار لوگوں کے سپرد نہ کرو۔ یہ اختیارات ایک طرح کی امانتیں  ہوتی ہیں، جو صرف اس کے اہل کے سپرد کی جاسکتی ہیں ۔(58۔4)

(8) عدل قائم کرنا بھی قرآن  کی ایک مستقل  قدر ہے اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (8۔5) ترجمہ ، عدل کرو کہ یہ تقویٰ کے قریب ہے ۔ عدل کے قیام کے لئے سچی گواہی  دو خواہ یہ تمہارے اپنے خلاف ہو ، یا ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہو لیکن سچی گواہی  دینا ہر صورت میں ایک مستقل قدر ہے (283۔2)

(9) دشمن کے ساتھ بھی عدل  و انصاف کرو وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا (8۔5) اور تمہیں کسی قوم کی عداوت اس جرم میں نہ پھنسوا دے کہ تم اس سے  نا انصافی  کرنے لگو بلکہ  تم ہر حال  میں انصاف  کرو۔ قرآن  کی یہ قدر اتنی اہم قدر ہے لیکن  دنیا کی کسی قوم میں یہ نہیں پائی جاتی ۔ آج ساری دنیا قوموں اور گروہوں  میں بٹی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کے مخالف او رکبھی  کوئی قوم اپنی  دشمن قوم  سے عدل  نہیں کرتی ۔ قرآن  کریم  کی یہ قدر سونے کے حروف  سے لکھنے  کے قابل ہے اور صرف قرآن  ہی یہ قدر دے سکتا تھا ۔

(10)ہر شخص خود اپنے  اعمال کا ذمہ دار ہے ۔ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ (164۔6) کوئی  بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ قرآن کی یہ قدر سارے معاشرے کو درست کرسکتی ہے۔

ہم نے صرف دس اقدار جناب کے سامنے پیش کی ہیں۔ دل تو یہی  چاہتا تھا کہ کم سے کم 50 اقدار پیش خدمت کریں لیکن اس سے یہ باب مزید طویل ہوجائے گا۔ البتہ قارئین کرام کی خدمت میں یہ درخواست ہے کہ آپ صرف یہ اقدار ہی ملاحظہ فرمالیں اور آپ پھر نہایت دیانتداری سے یہ غور کریں کہ کیا کوئی شخص  اُس دور میں ایسی مستقل اقدار وضع کرسکتا تھا۔ یہ مستقل  اقدار وہ قدریں  ہیں جو قرآن کے نزول کے زمانہ  سے لے کر قیامت تک درست  ہوں گی اور ہمیشہ انسانیت  کا ساتھ دیں گی ۔ پھر یہ اقدار، ہر قوم، ہر خطہ ٔ زمین  اور ہر نسل میں انسانیت کی خدمت  کریں گی۔ رسول اللہ خواہ کتنے  ہی ذہین  و فطین  ہوں، وہ اس قسم کی سینکڑوں کی تعداد میں اقدار وضع نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ اقدار خود پکارپکارکر کہہ رہی ہیں کہ یہ وحی الہٰی  کی عطا کردہ ہیں ۔ حضور  خود یہ اقدار وضع نہیں  کرسکتے تھے ۔

قرآن کریم نے اپنا مثل لا نے کا جو معارضہ کیا تھا اس میں مستقل  اقدار  بھی شامل  تھیں کہ کوئی ذہن  مستقل  اقدار وضع نہیں کرسکتا ۔آج ساری دنیا کے دانشور کسی جگہ مل کے بیٹھ جائیں، اور سب ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہیں لیکن اس کے باوجود وہ مستقل اقدار نہیں بنا سکتے اور یہی  قرآن کریم کا چیلنج اور اس کی تحدی اپنے نزول کے وقت بھی ، اور یہی تحدی آج تک قائم ہے۔

( جاری ہے)

اکتوبر، 2013  بشکریہ : صوت الحق ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-4/d/24452

 

Loading..

Loading..