خواجہ ازہر عباس
جولائی، 2013
نوٹ : قرآنی حلقوں میں معروف عالم دین ،خواجہ ازہر عباس صاحب، کی نئی کتاب ‘‘ اعجاز القرآن’’ طباعت کے ابتدائی مراحل میں ہے چونکہ اس کتاب کی طباعت میں ابھی کافی عرصہ درکار ہوگا، اس لئے قارئین صوت الحق کا اصرار تھا کہ اس کتاب کی اشاعت کا قسط وار سلسلہ صوت الحق میں شروع کردیا جائے۔ قارئین صوت الحق کے اس شدید اصرار پر اس کتاب کی پہلی قسط شائع کی جارہی ہے ۔ اب آئندہ ہر پرچہ میں اس کتاب کی ایک قسط پیش کردی جائے گی کیونکہ ہمیں اپنے قارئین کرام کی خواہش کا بہت احترام ہے۔ ( اداریہ صوت الحق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب اوّل : تمام دنیا کے انسانی معاشرے آج بے چینی اور باطنی اضطراب میں مبتلا ء ہیں اور اس کی واحد اور اصل وجہ یہ ہے کہ عقل انسانی ایسا نظام وضع ہی نہیں کرسکتی جس میں پوری انسانیت سکون و آرام کی زندگی گزار سکتی ہو۔ اس دور کے تمام مسائل خود عقل انسانی کے پیدا کردہ ہیں اور خود عقل انسانی ان کا حل کرنے سے قاصر وعاجز ہے۔ بہترین نظام حیات قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اب تک کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک ایسا عطا ء کر تا ہے کہ جس کے پیش نظر ساری انسانیت کے بہود اور مرفہ الحالی ہوتی ہےاور اسی نظام کے خطوط و خدوخال دینے اور اس نظام کو قائم کرنے کے لئے برابر انبیاء کرام کی بعثت کا اصل اور بنیادی مقصد اس بہترین نظام کا قائم کرنا ہوتا تھا۔ آخری رسول جن کی آمد پرنبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردینا تھا ، وہ حضور علیہ السلام تھے انہوں نے اپنی رات دن کی محنت سے یہ نظام قائم فرمایا، جس کے نتائج ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ ان کے مملکت دس لاکھ مربع میل پر وسیع تھی اور ان کی مملکت کا کانسٹی ٹیوشن صرف قرآن کریم تھا ۔ انہوں نے یہ اسلامی مملکت اپنی مرضی یا اپنے لئے اقتدار حاصل کرنے کے لئے قائم نہیں کی تھی، بلکہ اسلام مملکت کا قائم کرنا ان کے Mandate میں شامل تھا (48۔5/26۔38) اور اس کا قائم کرنا ہر نبی کا فرض تھا (213۔2) ۔ انسانیت کی بد نصیبی کہ یہ نظام کچھ عرصہ بعد منقرض ہوگیا ۔
قرآنی نظام کے نتائج خود قرآن کو وحی الہٰی ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ قرآن کریم جو دعا وی کرتاہے وہ اس نظام کے ذریعے پورے ہوتے ہیں۔ ان قرآنی دعاوی کاپورا ہو نا قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کا بہترین ثبو ت ہے لیکن و ہ نظام ہی منقرض ہوگیا ۔ اس لئے قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت خود ہی پیش کرنے ہوں گے۔ جب تک کوئی شخص یا کوئی قوم اس بات پر دل جمعی اور حتمی طور پر مطمئن نہیں ہوجاتی کہ قرآن کریم وحی الہٰی ہے، وہ اس نظام کو قائم کرنے کی کوشش نہیں کرسکتی ۔ اگر آپ شدید ترین بھوک میں مبتلاء ہوں ، اور بھوک سے نڈھال ہورہے ہوں ، اور کوئی شخص آپ کو بہترین کھانا مہیا کردے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی جتا دے کہ اس کھانے میں زہر ہے ، تو آپ اس کو کبھی نہیں کھائیں گے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ اس کھانے سےموت واقع ہوجائے گی ۔اسی طرح جب تک آپ کو یہ یقین نہ کہ حرام کی آمدنی سےخرید ا ہواکھانا ، نفس انسانی کو بالکل مضمحل کردیتا ہے، آپ حرام رزق سے اجتناب نہیں کریں گے۔ جب تک آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ طاغوتی نظام میں رہنے سےنفس انسانی کی پرورش نہیں ہوسکتی، آپ اسلامی نظام کے قیام کی کوشش نہیں کریں گے اور یہ یقین اس وقت حاصل ہوگا جب آپ کو قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کا پورا پورا اطمینان بخش یقین ہوگا اور آپ کو یہ یقین ہوگا کہ اس کاایک ایک لفظ وحی الٰہی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ محفوظ ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ سونے سے بھی زیادہ قیمتی دھات سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ہمالیہ پہاڑ سےزیادہ وزنی ہے ۔ ہمالیہ پہاڑ اپنی جگہ سے سرک سکتا ہے ، لیکن قرآن کریم کا ایک لفظ بھی اپنی جگہ سےنہیں ہلا یا جاسکتا ۔ یہی انسانیت کی آخری پناہ گاہ ہے اور یہی انسانیت کے مسائل حل کرسکتا ہے اور یہی ہمارے لئے جنم جنم کا ساتھی ہے۔
قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کا اصل اور مستحکم ثبوت تو دین کے نتائج ہیں۔مذہب میں ایسے مضبوط او رمستحکم ثبوت خود پیش کرنے ہوں گے۔ ہمارے یہاں عربی زبان میں اس ا عجاز القرآن کے موضوع پر چند کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ تیسری صدی ہجری کے بالکل شروع میں نظم القرآن تحریر کی گئی ۔ اس کے مصنف بلند پایہ عالم قرآن ، حافظ تھے، جو گروہ معتزلہ کے نمایاں عالم تھے۔ اس کے بعد قاضی ابوبکر یا قلانی سے اعجاز القرآن تصنیف کی ۔ ہم سے قریب سابقہ دور میں مصطفےٰ صادق رافعی نے مصر میں اعجاز القرآن نام سے ایک عمدہ کتاب تحریر کی۔ مشہور عالم سید رضاء نے بھی اس کام کو آگے بڑھایا اور ‘‘ الو حی المحمدی ’’ نام کی ایک بہت عمدہ کتاب تحریر کی ۔ اردو زبان میں اس اہم موضوع پرکوئی خاص کام نہیں ہوا۔ حضرت اقدس مولانا شیبر احمد صاحب عثمانی مرحوم نے ایک مختصر سی کتاب تحریر کی تھی جو ہند کے ایک فرقہ آریہ سماج کے مقابلہ کے لئے تحریر کی گئی تھی ۔ یہ مختصر سی کتاب آج سے تقریباً سو سال پیشتر تحریر کی گئی تھی ۔ یہ ساری کتابیں جو قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت میں تحریر کی گئی تھی ۔ ان سب کے مصنف وہ علماء کرام تھے جن کے سامنے قرآن کریم بحیثیت مذہب کے تھا، ان علماء کرام کے سامنے دین کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی ان حضرات نے یہ کتب دینی نقطہ نگاہ سےتحریر کیں۔ قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت صرف اس وقت سامنے آئے گا جب آپ اس کو ایک مملکت کا کانسٹی ٹیوشن قرار دے کر اس پر عمل کریں ۔ اس کے ایک ایک حکم کی تعمیل کے جو نتائج سامنے آتے جائیں گے ، وہ قرآن کے وحی الہٰی ہونے کے واضح ثبوت ہوں گے۔ اس طریقہ سے آپ کو قرآن کے وحی الہٰی ہونے کے اس طرح کے ثبوت ملیں گے جس طرح قرآن آپ کی آنکھوں کے سامنے نازل ہورہا ہے۔ پھر دنیا بھر کے بہترین Constitutionalist ، اس سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ اس کانسٹی ٹیوشن کی ایک خوبی یہ ہوگی کہ ان قوانین کے مطابق جب فیصلے کئے جائیں گے تو ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِھمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (65۔4) پھر جوکچھ فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہو ں بلکہ خوش خوش اس کو بھی مان لیں اور اس مملکت میں تمام شہریوں کی خوابیدہ صلاحتیں پوری پوری طرح بیدار ہوجائیں گی ( 129۔2/164۔3/2۔62)
قرآن کریم نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَی مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِل فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۔ مَن يَأْتِيہِ عَذَابٌ يُخْزِيہِ وَيَحِلُّ عَلَيْہِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ (40۔39/39) کہہ دو کہ اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے طریقہ پر کام کرو، میں اپنے طریقہ پرکام کرتا رہوں گا، تو تم جلد جان لوگے کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اس کو رسوا کردیتا ہے اور کس پر وہ عذاب نازل ہوتا ہے، جو ٹِک کررہ جاتا ہے ۔یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اعلان کرایا گیا ہے کہ ان لوگوں سےکہو اگر تم لوگ میرے پیش کردہ نظام عمل کرنے لئے آمادہ نہیں ہو، تو تم عنقریب دیکھ لوگے کہ کن لوگوں پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے جو دائمی عذاب ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے نظام کے نتائج جلد ہی سامنے آجائیں گے اور وہ تنائج میری حقانیت کے واضح ثبوت ہوں گے ۔ کفار کو یہی تحدی دو اور مقامات (125۔6/9311) پر بھی دی گئی ہے۔ اس قسم کی تحدی دنیا، مذہب کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ حوصلہ صرف دین میں ہوتا ہے۔ اس آیت نے مذہب اور دین کے فرق کو بھی واضح کردیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُھا (6۔11) زمین پرکوئی ایسا متنفس نہیں ہے جس کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر نہ ہو۔ فرمایا کہ وہ اللہ ہی ہے جس کے ہاتھوں سے ہر جاندار کو رزق مل رہاہے۔ واضح رہے کہ قرآن میں جس جگہ بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ ایسا کرتا ہے، تو اس سے مراد اس کا نظام ہوتا ہے۔ یہا ں بھی مقصود یہی ہے کہ اللہ اپنا رزق اس طرح نہیں بھیجتا کہ آسمان سے روٹیاں برسنے لگیں بلکہ وہ رزق اپنے نظام کے ذریعے پہنچاتا ہے اور اگر اس نظام کے ذریعے ہر شخص کو رزق مل رہا ہے تو یہ قرآن کے دعویٰ کی ایسی دلیل مہیا ہوجاتی ہے جس سے قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت مل جاتاہے۔
ارشاد عالی ہے يَا أَيّھَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّہَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (7۔47) اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروگے، تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔ ارشاد یہ ہورہا ہے کہ اللہ کے دین کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑے ہو ، اگر تم پورے عزم اور حوصلہ کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے، تو باقی کام اللہ تعالیٰ خود سنبھا ل لے گا، اور تمہارے قدم اس طرح جمادے گا کہ ان کوکوئی اکھاڑ نہیں سکے گا۔ قرآن نے یہ دعویٰ فرما دیا۔ اب اگر ہم دین کی اقامت کے لئے کھڑے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہماری مدد فرمائے گا اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگا، اور قرآن کا وحی الہٰی ہونا ثابت ہوگا۔
خلاف راشدہ کے بعد سے نہ کہیں مسلمان اقامت دین کے لئے کھڑے ہوئے ا و رنہ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا کوئی وقت آیا۔ مسلمان بادشاہ اور مسلم حکومتیں ہی آپس میں لڑتی رہیں ۔ یہ لڑائیاں بادشاہوں کے اقتدار کےلئے تھیں، اسلامی مملکت کے قیام کےلئے نہیں تھیں البتہ 1965 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو لڑائی ہوئی تھی یہ صرف دین کی مدد کی جذبہ سےلڑی گئی تھی اور یہاں اسلامی مملکت قائم کرنے کا امکان تھا یہ کسی بادشاہ یا ملوکیت کی جنگ نہیں تھی ۔ اس جنگ میں پاکستان نے ہندوستان پر جو برتری حاصل کی تھی اس میں اللہ کی مدد شامل تھی ۔ اس جنگ میں اللہ کا وعدہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے پورا ہوا۔ اور اس نے قرآن کریم کو وحی الہٰی ثابت کرنے کا ایک موقع دیا۔
ارشاد عالی ہے وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّھْمْ فِي الْأَرْضِ (55۔24)۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کئے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کوملک میں اقتدار بخشے گا جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سےپہلے ہو گزرے ، اس جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے جو لوگ دیانت اور سچائی کے ساتھ ایمان او رعمل صالح کی راہ اختیار کریں گے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ ان کو اس زمین میں اسی طرح اقتدار بخشے گا جس طرح سابقہ رسولوں کی اُمتوں کو اس نے اقتدار بخشا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک وعدہ کیا ہے۔ ایمان و عمل صالح کے بعد اگر اقتدارمل جاتا ہے، تو یقیناً قرآن کریم وحی الہٰی قرار پا جاتاہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین کرانی ہےکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اس کے اندازے کے پورے ہونے سے قرآن وحی الہٰی ثابت ہوجاتا ہے۔ آپ اس بارے میں صرف اوپر درج کردہ تین آیات پر ہی غور فرمالیں (135۔6/93۔11/39۔39) جن میں کفارہ منکرین کو یہ تحدی (چیلنج)کی گئی تھی کہ اگر تم نے میری پیش کردہ روش اختیار نہیں کی، اور قرآنِ کریم کے عطاء کردہ نظام سےمسلسل رُو گردانی کرتے رہے تو تم پر عذاب مقیم مسلط ہوجائے گا۔ اس آیت کے ثبوت کےلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اپنی مثال اس کے ثبوت کے لئے بہت کافی ہے۔ جب مسلمانوں نے قرآن نظام قائم کیا ۔ اس کے نتائج یعنی قوم کا عروج اور اس کی بلندی سب نے دیکھ لی ۔ جب مسلمانوں نے اس سے روگردانی اختیار کی، اس دن سے آج تک ہم پرایک درد ناک عذاب مسلط ہے اور کوئی راہ اس عذاب سے نکلنے کی کسی کو دکھائی نہیں دی ۔ قرآن کریم کا وعدہ اور پھر اس کے بعد اس کا یہ انداز جس طرح ہمارے اپنے ساتھ پورا ہوا ہے، اس کے بعد تو قرآن کے وحی الہٰی ہونے کی دوسری کسی دلیل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔
قرآن نے اپنے وحی الہٰی ہونے کے خود بھی چند ثبوت دیئے ہیں جو آپ کی خدمت عالی میں پیش کئے جائیں گے۔ اس بارے میں آپ ایک آیت پر غور فرمائیں ۔ اس آیت کی تشریح کے بعد قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت پیش کئے جائیں گے۔
ارشاد ہوتا ہے۔
بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمہ وَلَمَّا يَأْتِھمْ تَأْوِيلُہ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِھمْ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِينَ (39۔10) ترجمہ (وہ علم و دانش کی بناء پر قرآن کا انکار نہیں کرتے) بلکہ وہ ایسی چیز کی تکذیب کرتے ہیں جس سے آگاہی نہیں رکھتے اور ابھی تک اس کی حقیقت ان کے لئے واضح نہیں ہوئی۔اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نےبھی تکذ یب کی تھی بس دیکھو کہ ظالموں کا انجام کیا ہوا۔ اس آیت کریمہ میں قرآن نے یہ بات واضح کردی کہ قرآن کریم کا انکار کن وجوہ سےہوسکتا ہے قرآن نےاس کی نشاندہی کرتےہوئے، اس کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں۔
(1) قرآن کریم کی تکذیب وہ لو گ کرتے ہیں جو اس کا علمی احاطہ نہیں کرتے۔
(2) قرآن کی تکذیب وہ لوگ کرتے ہیں جن کے سامنے اس (نظام) کے محسوس نتائج نہیں آئے ۔
(3) قرآن کی تکذیب وہ لوگ کرتے ہیں جو تاریخی شواہد کا مطالعہ نہیں کرتے۔ وہ اس بات کا مطالعہ نہیں کرتے کہ قرآن کریم نے قوموں کےعروج و زوال کے جو قوانین بیان کئے ہیں۔ گزشتہ اقوام کو انہیں اصولوں کے مطابق عروج و زوال نصیب ہوا ہے۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ قرآن پرایمان لانے کے تین اسباب ہوسکتے ہیں۔
(1) پہلی وجہ ایمان لانے کی یہ ہے کہ جو شخص قرآن پر ایمان لانا چاہتا ہے وہ اس کا علمی احاطہ کرے۔
(2) دورسرا سبب اس پرایمان لانے کا یہ ہے کہ اس کا نظام قائم کیا جائے اور قرآن جو وعدے کرتاہے کہ اس کےنظام کے قیام سےانسانیت کو یہ ثمرات حاصل ہوں گے ۔ اگر قرآنی نظام کے قیام سے انسانیت کو وہ ثمرات حاصل ہوجائیں اور قرآنی نظام کے وہی نتائج بر آمد ہوں جو قرآن نے پہلے سے بتادیئے تھے، تو یقیناً قرآن کریم وحی الہٰی ہے۔
(3) تیسری صورت یہ ہے کہ قوموں کے عروج زوال کے اسباب معلوم کئے جائیں ۔ اور سابقہ اقوام میں سے چند اقوام کے عروج و زوال کا بد قّتِ نظر مطالعہ کیا جائے اور یہ بات بغور دیکھی جائے کہ ان چند اقوام کے عروج و ز وال کا باعث وہی قوانین تھے جوقرآن نےبیان کئے ہیں۔ یا ان کا عروج و زوال ان قوانین کے برعکس دیگر قوانین کے سبب ہواہے۔ گزشتہ ادوار میں تو یہ بات مشکل تھی لیکن اس زمانہ میں تو سینکڑوں کی تعداد میں History of civilization پر کتابیں موجود ہیں۔ اب تو خرید نے کی بھی ضرورت نہیں ، کمپیوٹر پریا Kindle پر یہ کتابیں دستیاب ہیں ،فلسفہ تاریخ پر بے شمار کتابیں Kindle میں موجود ہیں کمیونسٹ مدرسہ فکر ، اور خود مارکس نے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اس پورے مواد کو سامنے رکھ کر ، پتہّ ماکر، کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر قرآن کریم کے بیان کردہ اصول و قوانین درست ہیں تو اس سے بڑھ کر قرآن کی صداقت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ قرآن نے اس بارے میں بہت مواد دیا ہے۔ اس طرح سے مطالعہ کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پہلے تو قرآن کریم کی ان آیات کو جو اس موضوع سے متعلق ہیں، ان کو ایک جگہ جمع کرلیا جائے پھر قوموں کے عروج و زوال کےاصول متعین کئے جائیں۔
واضح رہے کہ جو شخص بھی قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کا انکار کرتاہے وہ ایک Advantageous پوزیشن ہوتا ہے اگر وہ صرف ایک آیت کو علمی طور پر مشکوک ثابت کردیتا ہے، تو وہ اپنا مقدمہ جیت لیتا ہے ، اور اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے جب کہ قرآن ماننے والوں کو قرآن کریم کی تمام آیات کو علمی طور پر درست ثابت کرنا ہوگا۔
قرآن کریم کی حقانیت ثابت کرنے کے ان تین طریقوں میں سےپہلے طریقہ کے متعلق عرض ہے کہ جو صاحب اس بارےمیں قدم اٹھا نا چاہیں ان کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اس مضمون او رموضوع کا انتخاب کریں جس میں ان کا بہت گہرا مطالعہ ہو اور جہاں تک انسانی فکر اس مضمون میں پہنچ گئی ہے وہ اس پر پوری گرفت کر چکے ہوں اور اس علم کے ان مسائل کو لیں جہاں عقل انسانی صحیح حل تلاش کرنے سے قاصر ہورہی ہو اور ان مسائل میں اس علم کے مفکرین متضاد او رمختلف آراء رکھتے ہوں۔ اس علم یا اس خاص مسئلہ پر پوری گرفت کرنے کے بعد قرآن کریم کی طرف رجوع کریں تو وہ آیت جس میں اس علم یا اس مسئلہ کا حل ہوگا وہ آیت فوراً Crop up ہوکر، آپ کے سامنے نمایاں ہوجائے گی۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی مسئلہ زیر غور ہو اور آپ اس کا حل قرآن سے دریافت کریں اور قرآن کریم اس کا جواب نہ دے کیونکہ قرآن کا دعویٰ ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (60۔40)مجھے پکارو میں جواب دونگا ۔ اس طرح مختلف حضرات، مختلف علوم اور موضوعات میں تحقیق کریں، اور ان علوم میں جہاں عقل انسانی درماندہ ہوکر تھک جائے وہ قرآن کریم کےباب عالی پر دستک دیں۔ اگر قرآن کریم پچاس یا ساٹھ ،مختلف علوم کے ماہرین کی دستگیری کرکے، ان کو درست راہ دکھادیتا ہے تو پھر قرآن کریم بیشک وحی الہٰی ہے اور یہ کسی طرح بھی فکر انسانی کا نتیجہ نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بات کسی صورت میں بھی باور نہیں کی جاسکتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ کے تمام علوم کو Anticipate کرلیا تھا۔ ایک شخص کا اتنے علوم پر مہارت حاصل کرنا، نا ممکن ہے اور وہ بھی وہ علوم جن میں برابر تحقیقات کی جارہی ہوں۔
آج کل اسلام کی تبلیغ اور اس کے پھیلنے کی بڑی شہرت ہورہی ہے۔ اخباری ذرائع سےمعلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں روزانہ اوسطاً پانچ سو آدمی مسلمان ہورہے ہیں ۔ چند سال پیشتر جب پاکستان میں بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اورترکی میں چلّر وزیر اعظم تھیں ، اخباری اطلاعات کے مطابق اس سال انگلستان میں د س ہزار خواتین مسلمان ہوئی تھیں ۔ ایک مشہور کتاب ‘‘ میں مسلمان کیوں ہوا’’ مارکیٹ میں موجود ہے۔ اس کتاب میں ان معروف ایک سو حضرات کا حوالہ ہے جو مسلمان ہوئے ہیں۔ اگر آپ ان حضرات سے ملاقات کریں جو مسلمان ہوئے ہیں یا ایسی کتاب ملاحظہ فرمائیں جس کا حوالہ ابھی دیا گیا ہے ، یا کوئی بھی ایسی کتاب ملاحظہ فرمائیں جن میں ان حضرات کا ذکر ہے جو کسی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں، کسی جگہ بھی فکری طور پر مسلمان ہونے کا حوالہ نہیں ملتا۔
تبلیغی جماعت کے لوگ بھی مختلف ممالک میں لوگوں کومسلمان بنارہے ہیں جو ایک بہت خوش آئند بات ہے۔ تبلیغی جماعت کے یہ حضرات خود کوئی علمی حیثیت نہیں رکھتے ۔ مسلمان ہونے والے یہ سب حضرات جذباتی ہوتےہیں اور اپنے پریشان کن معاشروں سےفرار کی راہ تلاش کرتے ہیں۔ یہ نومسلم حضرات، مسلمانوں کی پرستش کے طور طریقوں سے متاثر ہوکر، اسلام کوبحیثیت مذہب کے اختیار کرلیتےہیں ان میں ایک شخص بھی فکری طور پر قرآن کے نظام سے متاثر ہوکر مسلمان نہیں ہوا ہے۔ اس لئے مجموعی طور پر ان کے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو اتنا ہی فائدہ ہوتاہے، جس قدر ہمارے مسلمان ہونے سے ہے ، صرف مردم شماری کے رجسٹر میں تعداد بڑھ جاتی ہے ۔ ہم بھی پیدائشی مسلمان ہیں ، خالص قرآنی مسلمان نہیں ہیں، وہ بھی خالص قرآنی مسلمان نہیں ہوتے۔
قرآن کریم نے اپنے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت خود بھی دیئے ہیں ۔ اس نے اپنے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت میں ایک ایسا کھُلا چیلنج دیا ہے جو نزول قرآن سے آج تک قائم ہے اور ہمیشہ اپنے منکرین کے لئے قائم رہے گا۔ اس کا چیلنج ہے۔
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِہ وَادْعُوا شُہدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّہِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (24۔23۔2) (ترجمہ) اگر تمہیں اس چیز کے بارےمیں جو ہم نےاپنے بندے پر نازل کی ہے کوئی شک و شبہ ہے تو ایک سورۃ اس کی مثل لے آؤ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے گواہوں کو بھی اس کام کی دعوت دو، اگر تم سچے ہو۔ اگر یہ کام تم نے نہیں کیا او رکبھی کر بھی نہ سکوگے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسانوں کے بدن اور پتھر ہیں۔ یہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
جب قرآن کریم نے اپنے وحی الہٰی ہونے کادعویٰ کیا تو کفار مشرکین عرب نے قرآن کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا ہے۔ قرآن نے اپنے وحی ہونے کے جو ثبوت دیئے ہیں، ان ثبوتوں میں سب سے پہلا او رنہایت مضبوط ثبوت یہی تھا اور آج تک بر قرار ہے کہ اگر قرآن کریم وحی الہٰی نہیں ہے، بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تصنیف کردہ ہے اور ایک انسانی فکر کا نتیجہ ہے ، تو تم بھی اس جیسی کتاب بنالاؤ، آخر تم بھی عقلمند اور دانشور لوگ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی فکری صلاحیت دی ہے ، رسول اللہ بھی تمہارے جیسے ایک بشر ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم اس جیسی کتاب نہیں لکھ سکتے ۔ قرآن کا یہ اتنا بڑا تھا اور اب بھی ہے، جس کا کوئی جواب منکرین قرآن کے پاس نہیں ہوسکتا ۔اس چیلنج کو قبول نہ کرنے کے تین دور بہت نمایاں ہیں ۔ ایک تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دور۔ قرآن عربی مبین نازل ہوا۔ ان عربوں کی زبان بھی یہی عربی مُبین تھی ۔ ان میں بہترین شاعر اور طلیق لسان لوگ موجود تھے لیکن انہوں نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ عربوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مسلمانوں سے چھوٹی بڑی 82 لڑائیاں لڑیں، لیکن انہوں نے اس چیلنج کو قبول کرنے کی جسارت نہیں کی۔ وہ سب مل کر ایک سورۃ بھی اس کی مانند بنادیتے تو وہ اپنا مقدمہ جیت جاتے اور اس کا خاتمہ ہوجاتا ۔ دوسرا موقع ماضی قریب کا ہمارے ملک کا ہے۔ 1857 کے غدر کے بعد ، جب انگریز وں نے اس وقت کے ہندوستان پر پورا پورا قبضہ کرلیا تو ان کی خواہش یہ ہوئی کہ وہ اس علاقہ میں عیسائیت کو فروغ دیں۔ اس مقصد کےلئےحکومت کی نگرانی میں بڑے پیمانے پر مناظر ے ہوتے تھے، جن کا سلسلہ بہت عرصہ تک جاری رہا ۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری فنڈ اورپادری Sale آتے تھے اور ہم مسلمانوں کی طرف سے مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہوتے تھے ۔ آپ اس زمانہ کا ریکارڈ دیکھ لیں ، وضع وضع اور طرح طرح کے عناویں پرگفتگو ہوتی تھی۔ طرح طرح کے مسائل زیر بحث آتے تھے لیکن ان پادریوں اور ان کے ہمنوا ساتھیوں میں سے کسی کی یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اس موضوع پر گفتگو کریں کہ ان میں سے کوئی شخص قرآن کا جواب لکھ سکتا ہے۔ دو سوسال سے ساری دنیا کے مسلمان ممالک یورپ کے زیر نگیں ہیں اور اس سارے عرصہ میں عیسائیوں اور یہودیوں کی مسلمان دشمنی بھی کوئی مخفی و پوشیدہ چیز نہیں ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں مُستثر قین (Orientalists) بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ خود عرب ممالک میں بھی عرب عیسائی دانشور بڑی تعداد میں ہوئے ہیں۔ مشہور عربی لُغت المنجد کا مصنف عیسائی تھا۔ عربی کی بڑی زبردست مشہور ڈکشنر ی Lexi کا مصنف ولیم لین William Lane بھی عیسائی تھا قاموس العصری کا مصنف الیاس الطون الیاس بھی مسیحی تھا لیکن ان تمام معائدین اسلام میں سے کسی کی بھی ہمت نہیں پڑی کہ وہ قرآن کریم کا یہ چیلنج قبول کرلیں۔
قرآن کریم نے جو یہ تحدی دی ہے کہ قرآن کا مثل نہیں بن سکتا تو اس تحدی میں قرآن نے زبان کی کوئی شرط نہیں لگائی ہے۔قرآن کے Contents اس کے محتویات ایسے ہیں کہ ان کا جواب تحریر نہیں کیا جاسکتا او ریہ دعویٰ علی الاطلاق ہر زبان کے لئے ہے صرف عربی زبان تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی کسی زبان میں قرآن کا مثل نہیں بن سکتا ۔ پادریوں کے غول کے غول اور فوج کی فوج ہندوستان میں آئے لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں لکھا ۔ اب یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کا چیلنج کبھی بھی قبول نہیں کیا جاسکتا او ریہ بات قرآن نے اپنے نزول کے وقت ہی کہہ دی تھی کہ اس کا جواب کوئی نہیں لاسکتا فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا (24۔2) او ریہ کام اگر تم نے نہیں کیا اور کبھی کر بھی نہ سکو گےاور اس طرح قرآن کریم کی پیشگوئی پوری ہوگئی ۔
اس بارے میں تیسرا دور صلیبی جنگوں کا زمانہ ہے یورپ کی تمام عیسائی حکومتیں تین سو سال مسلمانوں سے لڑائی لڑتی رہیں ان عیسائیوں میں اس دور میں خصوصاً بڑے بڑے عربی دان موجود تھے ۔ عربی جاننے والے عیسائیوں کی آبادیاں اور بستیاں ان کے اندر موجود تھیں۔ عربی ان عیسائیوں کی ہوتی تھی ۔ سار ا مشرق وسطیٰ ان عیسائیوں سے بھرا پڑا تھا ۔ ان میں بڑے بڑے ادیب تھے جن کی کتابیں بطور سند کے پیش کی جاتی تھیں۔ ان میں سےکسی ایک نے بھی قرآن کے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ یہ ہے قرآن کا اعجاز اور یہ ہے اس کا رعب او ردبدبہ۔
قرآن نے اپنے بے مثال ہونے کا دعویٰ صرف ایک جگہ نہیں کیا بلکہ اس نے اس دعویٰ کو بار بار چار جگہ دہرایا ہے۔
(1) پہلا مقام تو یہی ہے سورہ ٔ بقرہ کی زیر غور آیت نمبر 23 ہے۔
(2) دوسرا مقام سورۂ اسرا کی اٹھاسیویں آیت ہے ارشاد ہوتا ہے۔ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلی أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ ھذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِہ وَلَوْ كَانَ بَعْضُھمْ لِبَعْضٍ ظَھيرًا (88۔17)
( اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر آدمی اورجن اس بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ اس قرآن کامثل لے آئیں تو وہ اس کامثل نہیں لاسکتے ۔ اگر چہ اس کوشش میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔
(3) تیسری جگہ سورۂ ہود میں ارشاد ہوتا ہے أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَیہُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّہِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (13۔11) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نےاس قرآن کو اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے تو تم کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو ایسے دس سورۃ اپنی طرف سےگھڑ کے لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو تم مدد کے لئے بلا سکتے ہو، اس کو بلالو۔
(4) چوتھا مقام سورۂ یونس میں ہے جہاں ارشاد ہے أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَا یہُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَة مِّثْلِہ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّہِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (38۔10) کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو رسول نے خود جھوٹ موٹ بنا لیا ہے (اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو ایک ہی سورۂ اس جیسی بنا لاؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو تم بلا سکو بلا لو۔
ان چاروں آیات کریمات میں من مثلہ کی تحدی کی گئی ہے قرآن کریم نے من مثلہ کی تفسیر بھی خود ہی قرآن میں بیان فرمادی ہے جب کہ ارشاد ہوتا ہے۔
قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِّنْ عِندِ اللَّہِ ھوَ أَھدَىمِنْھُمَا أَتَّبِعْہُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (49۔28)(ترجمہ) ان سےکہو کہ اگر تم اس کو جھٹلا تے ہوتو اللہ کے پاس سےکوئی اور کتاب لاؤجو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو، میں اسی کی پیروی کرلوں گا، اگر تم سچے ہو، یعنی قرآن اور تورات دونوں ایسے مضامین اور مشمولات کے باعث اھدیٰ اور اقوم ہیں ۔ یہاں چیلنج ان کے اھدیٰ ہونے کا ہے۔ قرآن یہ چیلنج صرف اپنی زبان کی وضاحت و بلاغت کی وجہ سے نہیں کررہا ہے۔ یہ بات بھی خیال میں رکھیں کہ قرآن کریم تورات کی تکذیب نہیں کرتا ، بلکہ اس کا مصدق ہے۔ البتہ اس میں جو تحریفات ہوئی ہیں قرآن کریم ان کی تکذیب کرتا ہے۔ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ صرف وہ ہی ہدایت کا صحیفہ نہیں ہے بلکہ تورات بھی ہدایت کا صحیفہ تھی چونکہ اس میں تحریف کردی گئی ہے اس لئے اب صرف قرآن ہی اھدیٰ ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کی بنائی ہوئی چیزیں اور اللہ کی تخلیق کردہ چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جو ایک نظر میں دکھائی دے جاتا ہے ، انسان کبھی بھی اللہ کی تخلیق کردہ چیزوں کو نہیں بنا سکتا ۔ انسان سو سو منزلہ عمارتیں بنا سکتا ہے ، خوب صورت سے خوبصورت باغ بنا سکتا ہے لیکن انسان ایک پتہ یا ایک پھول نہیں بنا سکتا ۔ جنگل، پہار، پھول، پتے، پتھر ، گھاس ، سب ایک نظر میں معلوم ہوجاتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہیں ۔ و فی کل شئیٍ لہ آیۃ تدل علیٰ انہ واحد ۔ ( ترجمہ)ہر چیز میں اللہ کی ایک نشانی موجود ہے جو اس کی وحدانیت پر دلیل دیتی ہے یہ کائنات اللہ کا فعل ہے اور قرآن کریم اللہ کا قول ہے۔ جس طرح اللہ کا فعل بے مثال ہے او رکوئی شخص ایک پھول نہیں بنا سکتا ، اسی طرح اللہ کا قول بے مثال ہے کوئی شخص اس کے قول کی مانند ایک آیت نہیں بنا سکتا ۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ صرف قرآن ہی بے مثال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سےنازل شدہ سب کتب سماویہ بے مثال تھیں ۔ تورات بھی اللہ کاکلام ہے۔ وہ بھی ہدایت کا ایک نور تھا ۔ تحریف سے پہلے وہ بھی اسی طرح بےمثال تھی جس طرح آج قرآن ہے چونکہ تورات میں تحریف ہوگئی، اس لئے اس کی بے مثالیث ختم ہوگئی ہے۔ ورنہ Original تورایت بیشک بے مثال تھی۔
تم کتب سماویہ نےاپنے اپنے دور میں اپنے وحی الہٰی ہونے کی یہی ولیل دی ہے کہ وہ صحف بے مثال تھے اور ان کی مثل نہیں بن سکتی تھی لیکن یہ کتب سماویہ مختلف اقوام میں مختلف زبانوں میں نازل ہوئی تھی قرآن میں ارشاد ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ لِيُبَيِّنَ لَھُمْ (4۔14) ( ترجمہ) اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر بولنے والا اپنی قوم کی زبان تاکہ ان کو سمجھائے ۔ اس آیت سے واضح ہے کہ عربی زبان کا ہی یہ اختصاص نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے اعجاز قرآن کو عربی زبان کے ساتھ مُنو ط و محدود کردیا جائے کیونکہ کُتب سماویہ میں سے ہر کتاب مختلف زبان میں نازل ہوئی تھی ۔ اس لئے یہ بات بڑی واضح ہے کہ قرآن کا اعجاز صرف اس کی زبان نہیں ہے بلکہ اصل اعجاز کی ہدایت ہے۔ اس کا وہ نظام حیات ہے جو دوسری کتاب پیش نہیں کرسکتی ۔ اور قرآن کریم دونوں وجوہ سے معجزہ ہے۔ زبان کےاعتبار سےبھی ہدایت کے حوالہ سے بھی ۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن کریم نے تحدی کا خطاب یا ایھا الناس سے شروع کیا ہے جس کا مُخاطب ساری دنیا بنتی ہے۔ یہ خطاب صرف عربوں تک محدود نہیں ہے۔ نیز یہ بات بھی غور ہے کہ اس تحدیٰ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پیش کیا گیا تاکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی تَرَفع و تعلّی ظاہر نہ ہو۔ اس تحدی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے وابستہ کرکے، ‘‘ہم’’ کے لفظ کے ساتھ تحدی کو پیش کیا ہے کہ اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں شک ہے جو ‘‘ ہم ’’ نے اپنے بندے پر نازل کی ۔ اس سے یہ بات بھی واضح کرنی مقصود تھی کہ اس وحی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں ہے،بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اظہار کا ایک واسطہ ہیں اس کے علاوہ یہ ان کا ذاتی کلام نہیں ہے۔ قرآن کا یہ دعویٰ کہ تم اس کی مثل نہیں لا سکو گے یہ بھی اس کا اعجاز ہے کہ اس کے دعویٰ کی اب تک تردید نہیں ہوسکی ۔ یہ تینوں نکات جو اس پیرا گراف میں تحریر کئےگئے ہیں یہ خود قرآن کے وحی ہونے کے دلیل ھیں ۔
یہاں یہ بحث ہم نے عمد اً اس لئے چھیڑی ہے کہ بعض حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کی مثل کوئی کتاب نہیں تحریر کی جاسکتی ہے تو اس قسم کی اور بھی کتابیں ہیں جن کا مثل بنانا بہت مشکل ہے ۔ ان کے خیال میں فردوسی کا شاہنامہ ، دیوان حافظ ، مثنوی مولوی روم ، شیکسپیئر کے ڈرامے ،ان کتابوں کامثل نہیں بن سکتا لیکن قرآن سے ان کا مقابلہ کرنا بے جابات ہے۔ قرآن کی ہدایت اس کے علوم ، اس کے عطا ء کردہ ضابطہ حیات کے مقابلے میں یہ کتابیں تو کیا چیز ہیں، ساری دنیا کی کوئی کتاب ، اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی ۔ قرآن کریم نے تقریباً 32 ہزار مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی ہے۔ قرآن کے چند علوم کا تذکرہ آئندہ ابواب میں آتا رہے گا جس سے آپ کو اندازہ ہوگاکہ ذہن انسانی کے حاصل کردہ موجودہ مغربی علو م قرآن کے سامنے بچوں کے کھلونے اور ان کے گھروندے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تو انسانیت کی انتہائی بد قسمتی ہے کہ مغربی اقوام کے سامنے قرآن کریم براہ راست نہیں آیا ۔اگر ان کے سامنے قرآن خالص آجاتا تو آج دنیا کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہوتا ۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ غیر مسلم عربی کے ماہرین نے قرآن کریم کے تراجم تو کئے ہیں لیکن اس کا مثل لا نے کی ہمت تک نہیں کی ۔ ماضی قریب میں جرجی زیدان عربی کے سکا لر گزرہے ہیں ۔ آج بھی مصر میں سینکڑوں کی تعداد میں Copts موجود ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے لیکن قرآن کی مثل لکھنے کی کسی کی بھی ہمت نہیں ہوتی ۔
( اعجاز قرآن جاری ہے)
جولائی، 2013 بشکریہ : صو ت الحق ، کراچی
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/ijaz-ul-quran’-(miracle-quran)/d/12632
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-1-/d/12633