غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
8 مئی
2023
اہم نکات:
1.
امیر خسرو کی فارسی اور اودھی شاعری نے تکثیری ہندی-اسلامی روایت کو جامع ہندوستانی
ثقافت کے ساتھ کامل ہم آہنگی میں سمیٹا۔
2.
روحانی ہم آہنگی اور مذہبی ہم آہنگی، سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی
کا مظہر، امیر خسرو، حضرت نظام الدین اولیاء کے قریب ترین شاگرد، ہندوستانی زبان ہندی
یا ہندوی کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
-----
کچھ روز قبل ، ہم نے عظیم ہندوستانی صوفی اور شاعر حضرت امیر خسروؒ کے
2 روزہ سالانہ عرس کی سالگرہ منائی ۔ روحانی ہم آہنگی اور مذہبی ہم آہنگی، سماجی ہم
آہنگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظہر، امیر خسرو، حضرت نظام الدین اولیاء کے قریب
ترین شاگرد، ہندوستانی زبان ہندی یا ہندوی کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
جامع ہندوستانی ثقافت کے ساتھ
کامل ہم آہنگی میں، خسرو کی تعلیمات ان فارسی اور آودھی شاعری کی شکل میں تکثیری ہندی
و اسلامی روایت پر زور دیتی ہیں۔ 653 میں پیدا ہونے والے خسرو بچپن سے ہی روحانیت کی
طرف مائل شاعر تھے۔ لیکن ان کی باطنی عقیدت اسی وقت سیر ہوئی جب انہوں نے اپنے مرشد
حضرت نظام الدین اولیاء کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے، جنہیں محبوب الٰہی (خدا کا محبوب)
کہا جاتا ہے۔
فارسی شاعری کی مختلف شکلوں مثلاً رباعی اور مثنوی کے علاوہ، خسرو نے ہندی،
ہندوی اور اودھی زبانوں میں دیسی شاعری کو ترجیح دی اور دوہے بڑے پیمانے پر لکھے۔ ان
کے دوہوں میں ایک عجیب سی سحر انگیزی پائی جاتی ہے مثلاً یہی دوہا دیکھ لیں جو انہوں
نے حضرت نظام الدین اولیاء کی وفات کے بعد ترتیب دیا تھا:
سراپا حسن محو استراحت ہے،
اس کے گیسو چہرے پر چھائے ہوئے ہیں، خسرو گھر جاؤ، ہر طرف شام ڈھل چکی ہے۔
روحانی ہم آہنگی اور مذہبی
ہم آہنگی، سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظہر، امیر خسرو، حضرت نظام
الدین اولیاء کے قریب ترین شاگرد، ہندوستانی زبان ہندی یا ہندوی کے بانیوں میں شمار
کیے جاتے ہیں۔
فارسی اور اودھی شاعری کی
شکل میں خسرو کی تعلیمات نے تکثیری ہندی و اسلامی روایت پر زور دیا۔ 653 میں پیدا ہونے
والے خسرو بچپن سے ہی روحانیت کی طرف مائل شاعر تھے۔ لیکن ان کی باطنی عقیدت اسی وقت
سیر ہوئی جب وہ اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کے حلقہ ادارت میں شامل ہوئے۔
سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ، خسرو نے اپنے دوہا اور مثنوی میں وحدت
الوجود کے صوفی تصور کو عام کیا، جو ادویت کے ویدانت فلسفے کے متوازی ہے۔ ادویت کے
ویدانت فلسفہ کی طرح وحدت الوجود کے صوفی نظریے کا نچوڑ بھی آفاقی ہے۔ وحدت الوجود
میں کائنات میں موجود ہر چیز کو مختلف موجودات کی شکل میں رب العالمین کی ربوبیت کا
اظہار مانا جاتا ہے ہے۔ لہٰذا، ادویت اور وحدت الوجود ایک ہی جوہر کے دو مظہر ہیں۔
خسرو نے خدمت خلق پر اپنی
توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہندوستانی ثقافت کی ہم آہنگی والی اقدار کو فروغ دیا ، ایک انسانیت
نواز نظریہ جس کا تصور ان کے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء نے دیا تھا۔
خسرو نے صلح کل کی رسم کو بھی عام کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان
لوگوں کو عزیز رکھتا ہے جو انسانوں کی خاطر اس سے محبت کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ
کی خاطر انسانوں سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
حضرت نظام الدین اولیاء علیہ
الرحمہ کے چہیتے شاگرد ہونے کے ناطے امیر خسرو نے اپنی فارسی شاعری میں اپنے مرشد کے
فلسفہ صلح کل کو خوبصورتی سے بیان کیا:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست; ہر راگ من تار گشتہ حاجت زُنار نیست۔
سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ، خسرو نے اپنے دوہا اور مثنوی میں وحدت
الوجود کے صوفی تصور کو عام کیا، جو ادویت کے ویدانت فلسفے کے متوازی ہے۔ ادویت کے
ویدانت فلسفہ کی طرح وحدت الوجود کے صوفی نظریے کا نچوڑ بھی آفاقی ہے۔ وحدت الوجود
میں کائنات میں موجود ہر چیز کو مختلف موجودات کی شکل میں رب العالمین کی ربوبیت کا
اظہار مانا جاتا ہے ہے۔ لہٰذا، ادویت اور وحدت الوجود ایک ہی جوہر کے دو مظہر ہیں۔
خسرو نے خدمت خلق یعنی بنی نوع انسان کی خدمت پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے
ہندوستانی ثقافت کی ہم آہنگی والی اقدار کو فروغ دیا۔ انہوں نے صلح کل (سب کے ساتھ
مفاہمت) کا رواج بھی جاری کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عزیز رکھتا
ہے جو انسانوں کی خاطر اس سے محبت کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر انسانوں
سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
English
Article: Ameer Khusrau: Harbinger of Wahdatul Wajud —Unity of
the Being—in the Indian Mysticism
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism