New Age Islam
Fri Apr 25 2025, 11:13 AM

Urdu Section ( 9 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Khusrau-e-Saani: The Sufi Poet Hazrat Bedam Shah Warsi and His Enduring Legacy خسرو ثانی: صوفی شاعر حضرت بیدم شاہ وارثی اور ان کی لازوال میراث

 سید امجد حسین، نیو ایج اسلام

 13 مارچ 2025

 اٹاوہ کے ایک صوفی شاعر، بیدم شاہ وارثی کی زندگی تصوف اور نعتیہ شاعری کے لیے وقف تھی۔ وہ حضرت وارث علی شاہ کے مرید تھے، ان کا کلام اب بھی محبت، عقیدت، اور روحانی کیفیات سے لبریز ہے۔

 اہم نکات:

 1.  1876 میں اٹاوہ میں پیدا ہوئے، بیدم شاہ وارثی چھوٹی عمر سے ہی شاعری اور تصوف کی طرف میلان رکھتے تھے، بالآخر حضرت وارث علی شاہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔

 2. انہیں عربی، فارسی، اردو، سنسکرت اور اودھی زبان پر عبور حاصل تھا، ان کی شاعری کلاسیکی اور لوک روایات کا مجموعہ تھی۔

 3. ان کی نعتیہ شاعری، گہری روحانیت پر مبنی غزلوں اور قوالیوں کی بدولت انہیں خسرو ثانی (دوسرا خسرو) کا خطاب دیا گیا۔

 4. ان کی تخلیقات، بشمول دیوان بیدم اور نور العین، دنیا بھر میں صوفی عقیدت مندوں اور قوالوں کے درمیان مقبول ہیں۔

 5.    ان کا انتقال 24 نومبر 1936 کو ہوا اور انہیں بارہ بنکی کے دیوا شریف میں ان کے پیارے مرشد کے قرب میں سپرد خاک کیا گیا۔

 ----

ایسے بھی شاعر ہوئے جن کی شاعری زندہ رہی، اور پھر ایسے بھی شاعر ہیں جن کی شاعری ایک تجربہ بن جاتی ہیں، ایک روحانی سفر کی شکل میں، جو زمان و مکان سے ماورا ہے۔ حضرت بیدم شاہ وارثی کا تعلق ایسے ہی شاعروں سے ہے۔ ان کی نظمیں محض شاعری نہیں ہیں۔ وہ عشقِ الٰہی میں کھوئے ہوئے دل کی پکار ہے، اپنے پیر سے عشق کے نشے میں مخمور ایک روح کی آواز ہے، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی تڑپ ہے۔ ان کے انتقال کے تقریباً ایک صدی گزرنے کے بعد بھی، ان کی شاعری کی چمک برقرار ہے، جس میں عقیدت کی خوشبو اور تصوف کی شدت محسوس کی جا سکتی ہے، جیسا کہ انہوں نے خود ایک بار بیان کیا تھا-"بھینی بھینی خوشبو"۔

 ایک صوفی شاعر کا آغاز

 1876 ​​میں اتر پردیش کے شہر اٹاوہ میں پیدا ہونے والے، حضرت بیدم شاہ وارثی کا اصل نام سید محمد غلام حسین تھا، حالانکہ بعض ذرائع کے مطابق ان کا اصل نام سراج الدین تھا۔ شاعری ان کے لیے محض ایک مشغلہ ہی نہیں تھی، بلکہ ایک دعوت بھی تھی، ایک خدائی تحفہ تھی جو ان کے اندر بچپن ہی سے موجزن تھی۔ بچپن سے ہی، وہ شاعری کی سُر تال، الفاظ کی وجد آور خوبصورتی، اور ما فی الضمیر کی ادائیگی میں ماہر تھے۔ لیکن اس شاعرانہ میلان سے ہٹ کر، ان کے اندر کچھ گہرا تھا - عشق الٰہی کی ایک نہ بجھنے والی پیاس، ایک بے چینی جسے صرف اولیاء اور سالکین کی صحبت سے ہی سکون مل سکتا ہے۔

 ان کے والد سید ابوالحسن کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا، اور ان کی پرورش روایتی انداز میں ہوئی تھی۔ پھر بھی، نوجوانی میں بیدم مادی زندگی کی آسائشوں کی طرف راغب نہیں تھے۔ جب وہ 16 سال کے ہوئے، ایک بڑی تبدیلی ان کے اندر رونما ہوئی- انہوں نے 'دنیاوی وابستگیوں' کو ترک کر دیا اور خود کو مکمل طور پر تصوف کی راہ پر لگا دیا۔

 ان کی زندگی میں ایک اہم لمحہ اس وقت آیا جب دیوا شریف کے صوفی بزرگ حضرت وارث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اٹاوہ کا دورہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل کا اہتمام کیا گیا، اور بہت سی آوازوں میں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کی، ان میں بیدم کی شاعری سب سے زیادہ دمدار اور دلنشیں تھی۔ ان کے کلام کو سن کر وارث علی شاہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے نوجوان شاعر کی طرف دیکھا اور کہا:

 "یہ لڑکا میرا ہے!"

 بیدم کی دادی نے، اپنے اکلوتے پوتے کی حفاظت میں، حضرت وارث علی شاہ سے التجا کی:

 "میرے پاس یہی اکلوتا پوتا ہے!"

 اس اللہ کے ولی نے مسکرا کر جواب دیا، "وہ تمہارا نہیں، میرا بچہ ہے۔"

اسی لمحے سے، حضرت بیدم شاہ وارثی تاحیات اپنے پیر کے ایک عقیدت مند مرید بن کر رہے، جنہیں وہ ایک روحانی مرشد اور محبت الٰہی کا ایک سمندر مانتے تھے۔ وہ جس دنیا کو جانتے تھے اسے پیچھے چھوڑ کر انہوں نے دیوا شریف میں سکونت اختیار کی، جہاں انہوں نے اپنے آپ کو روحانی مجاہدات، شاعری اور اپنے مرشد کی خدمت میں غرق کردیا۔

 ایک عالم، ایک شاعر، ایک صوفی

 اگرچہ انہوں نے دنیاوی خواہشات کو ترک کر دیا تھا، لیکن بیدم نے علم کو کبھی نہیں چھوڑا۔ وہ زبانوں اور ان کے اندر چھپی حکمت سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ انہیں عربی، فارسی، اردو اور یہاں تک کہ سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا- انہوں نے سید واحد حسین عرف وجد اطاوی سے عربی اور فارسی اور پنڈت رام غلام سے سنسکرت سیکھی۔ سنسکرت سے ان کی محبت اتنی گہری تھی کہ انہوں نے رامائن، اپنشد اور ویدوں کا مطالعہ کیا اور ان پر عبور حاصل کیا، ان میں محبت اور خود سپردگی کا وہی الہی پیغام پایا جس کی تصوف میں تبلیغ کی گئی تھی۔

 لیکن شاعری میں ہی بیدم کو ان تعلیمات کی تبلیغ کا موقع ملا۔ انہوں نے نعتیہ شاعری کی روایت اختیار کی اور اپنے کلام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی نعتیں محض تشبیہات ہی نہیں تھیں۔ بلکہ ان میں محبت کا پرجوش اظہار ہوا کرتا تھا۔ ان کی غزلوں اور قوالیوں میں وحدت الوجود، فنا اور عشق حقیقی جیسے موضوعات، ایک انتہائی گہرے روحانی پیرائے میں بیان کیے جاتے تھے۔

 بیدم کی شاعری قدیم اور جدید، کلاسیکی اور لوک گیتوں کے درمیان ایک پل تھی۔ انہوں نے فارسی نزاکت و نفاست کو پوربی (بھوجپوری/اودھی) کی گرمجوشی کے ساتھ ملایا، جس سے ان کے کلام کو عام لوگوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ٹھمری، دادرہ، ہوری، بسنت اور ساون پر ان کی مہارت نے، ان کی شاعری کو ایک بے لاگ ہندوستانی جوہر سے بھر دیا۔ یہی انوکھا امتزاج تھا جس کی بدولت انہیں "خسرو ثانی" کا خطاب دیا گیا، جو کہ سلطنت دہلی کے عظیم شاعر امیر خسرو کا لقب تھا۔

وہ الفاظ جو ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے

 آج بھی ان کے کلام میں وہی اثر انگیزی اور وہی خوبصورتی موجود ہے۔ مثال کے طور پر اس مصرعے کو ہی لے لیجیے، جو کہ آرزو اور قرب الٰہی کی ایک سرگوشی ہے:

"بےخود کیے دیتے ہیں، انداز حجابانہ

آ دل میں تجھے رکھ لو، اے جلوۂ جانا"

 حضرت پیر مہر علی شاہ، حضرت خواجہ غلام فرید، حضرت خواجہ حسن نظامی، اور یہاں تک کہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سمیت اپنے وقت کی عظیم ترین ہستیوں نے ان کی شاعری کی تعریف کی۔ حضرت حسن نظامی نے ان کے دیوان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

 "ہست عرفان در زبانِ پوربی" - عام لوگوں کی زبان میں خالص علم و عرفان۔

 بیدم کی عقیدت اپنے مرشد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ماوراء تھی۔ انہوں نے دیگر عظیم اولیاء کرام جیسے حضرت نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ سے بھی گہری عقیدت کا اظہار کیا۔ محبوب الٰہی کے اعزاز میں ان کی سب سے محبوب تالیفات میں سے ایک یہ ہے:

"میں آپ کا دیوانہ ہوں، محبوب الٰہی

اپنے سے بھی بیگانہ ہوں، محبوب الٰہی

میخانے سے تیرے کہیں جا ہی نہیں سکتا

دردی کشِ میخانہ ہوں، محبوب الٰہی"

 ایک میراث جو اب تک زندہ ہے

 ان کی زندگی میں ہی، بیدم شاہ وارثی کی شاعری صرف پڑھی ہی نہیں، بلکہ گائی اور سنی سنائی بھی جاتی تھی، اور عقیدت مندوں کے دلوں میں ایک کیفیت بھی پیدا کرتی تھی۔ نور العین: مصحف بیدم، دیوانِ بیدم: کرشمہ وارثی، جگر پارہ: ارمغانِ بیدم، بوستان وارث الانبیاء، اور پھولوں کی چادر: ریاض معطر جیسی ان کی تصانیف اب بھی سالکین کے لیے مینارہ نور ہیں۔

 ان کی غزلیں اور نعتیں قوالوں میں کافی مقبول ہوئیں، جنہوں نے ان کے کلام سے روح کو تڑپا دینے والی قوالیاں پیش کیں۔ ان کا کلام گانے والوں کی آوازوں میں زندہ تھا، اور آج بھی صوفیاء کی درگاہوں اور مجالس میں ان کا کلام گونجتا ہے، اور مخلوق اور خالق کے درمیان ایک ربط پیدا کرتا ہے۔

 دیوا شریف میں آخری آرام گاہ

 24 نومبر 1936ء کو حضرت بیدم شاہ وارثی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، لیکن ان کی موجودگی اور اثر آفرینی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں بارہ بنکی کے دیوا شریف میں، ان کے پیارے مرشد حضرت وارث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے قرب میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی قبر ایک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے، ایک پناہ گاہ ہے جہاں سالکین ان کی موجودگی کا احساس کرتے ہیں، ان کے کلام پڑھتے ہیں، اور خود کو اسی محبت الہی کے نشہ میں گم کر دیتے ہیں، جس میں کبھی خود بیدم شاہ وارثی گم ہو گئے تھے۔

 آج تک، ان کی شاعری ہوا میں ایک خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی ہے، جو مدھم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ محبت- حقیقی محبت- الٰہی محبت- ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ حضرت بیدم شاہ وارثی صرف شاعر نہیں تھے: وہ اپنے محبوب میں کھوئے ہوئے ایک عاشق تھے، ایک ایسے صوفی تھے جن کے کلام سالکوں کے لیے مینارہ نور ہیں۔

 ----

English Article: Khusrau-e-Saani: The Sufi Poet Hazrat Bedam Shah Warsi and His Enduring Legacy

URL: https://newageislam.com/urdu-section/khusrau-saani-sufi-poet-hazrat-bedim/d/135102

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..