خورشید احمد فارق
دَبا، اَزد اور عُمان کی بغاوت
عُمان کے بڑے شہر دَبا کے اَزدی باشندوں کا ایک وفد اپنے اسلام کا اقرار کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آیا تھا، انہوں نے ایک معزز آدمی کو جس کا نام حُذیفہ بن یَما ن تھا، محصلِ زکاۃ کردیا، اس کو زکاۃ کی شرح لکھ دی اور ہدایت کی کہ زکاۃ امیروں سے لےکر غریبوں میں تقسیم کردیں، حُذیفہ نے ہدایت کے مطابق عمل کیا، غریبوں اور ناداروں کو دینے کے بعد جو زکاۃ بچی وہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دی، رسول اللہ کی وفات پر اہل دَبانے زکاۃ روک لی اور باغی ہوگئے ، حُذیفہ نے ان کو ترغیب دی کہ تو بہ کریں اور پھر اسلام کے وفادار بن جائیں لیکن وہ نہ مانے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ناشائستہ الفاظ استعمال کئے ، حُذیفہ نے کہا : ‘‘ صاحبو! آپ میرے ماں باپ کو بُرا کہہ لیجئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت نہ کیجئے ’’۔ وہ باز نہ آئے اور یہ جز پڑھی:۔
لقد أ تَا نا خبرُ رَدیٔ ۔أَمسَت قریشُ کلھاّ نبی ۔ ظلم لعَمر اللہ عَبقری
ہمارے پاس ایک بری خبر آئی ہے اور وہ یہ کہ قریش کے سب لوگ نبی بن بیٹھے ہیں، بخدا یہ تو بہت بڑا ظلم ہے۔
حُذیفہ بن یمان نے ان کی بغاوت اور بد تمیزی کا حال ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا تو وہ بہت برہم ہوئے اور بولے: ‘‘ اُن کا بُرا ہو، کون ان کی خبر لے گا؟’’ انہو ں نے دَبا کی مہم عِکرمہ بن اَبی جَہل کے سپرد کی ، عکرمہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر ین بنو عامر صَعصَعہ1؎ (1؎ ان کی بستیاں وسطی بخد میں تھیں) پر محصل زکاۃ مقرر کیا تھا ، ان کے انتقال پر بنو عامر کے تیور بدلے تو عِکرمہ وفادار عربوں کی ایک جماعت کے ساتھ تبالہ1؎ (1؎ مدینہ سے سو ا پانچ میل جنوب مشرق میں عدن کی شاہراہ پر ایک کارواں جنکشن ۔ معجم البلدان 2/357) آکر مقیم ہوگئے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ملا یہاں یہ بتادینا مناسب ہے کہ عِکرِمہ سب سے پہلے سالار تھے جنہیں باغیوں کی گوشمالی کے لئے مقرر کیا گیا تھا ۔
‘‘ تمہارے ساتھ جو مسلمان ہوں ان کو لے کر اہل دَبا کی خبر لینے نکل جاؤ ’’۔
عِکرِمہ دو ہزار آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوگئے ، دَبا میں بغاوت کا سرغنہ لَقیط بن مالک تھا، جب اس کو عِکرمہ رضی اللہ عنہ کی پیش قدمی کاعلم ہوا تو اس نے ہزار جو ان مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے بھیجے ، عکرمہ کو خبر ملی کہ لَقیط کی فرستادہ فوج تو انہوں نے ایک ہر اول مقابلہ کے لئے بھیجا اور لَقیط کی فوج کی طرف سے بھی ایک دستہ آگیا ، دونوں متصادم ہوئے، تھوڑی دیر لڑائی ہونے کے بعد دشمن ہار کر بھاگ گیا، عِکرمہ رضی اللہ عنہ کو فوراً اس کی خبر کی گئی اور وہ بعجلت تمام اپنے دستہ سے آملے اور اس کو ساتھ لے کر جنگی ترتیب کے ساتھ پسپا دشمن کے تعاقب کو نکل کھڑے ہوئے اور اسے جا پکڑا ، لڑائی ہوئی جس میں دشمن نے پھر شکست کھائی، اس کے بہت سے آدمی مارے گئے، باقی بھاگ کر لَقیط بن مالک کے پاس پہنچے اور اس کو بتایا کہ عِکرمہ فوج لئے چلے آرہے ہیں نیز یہ کہ مسلمانوں کا مقابلہ ان کے بس سے باہر ہے۔
اہل وبا کی ہزیمت اور کمزوری سے جو اُن کے بہت سے آدمیوں کے قتل اور گرفتاری سے رونما ہوئی تھی، حوصلہ پاکر (دَبا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے) حُذیفہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ اُس جگہ سے نکل آئے جہاں اپنی ناطاقتی کی وجہ سے جا چھپے تھے ۔ لَقِیط کی فوج سے ان کی کچھ جھڑپیں ہوئیں ، اس اثناء میں عِکرِمہ بھی آگئے اور حُذیفہ کے ساتھ ہوکر لڑنے لگے، دشمن کے سویا اس کے لگ بھگ آدمی جب مارے گئے تو وہ میدان سے بھاگ پڑا اور دَبا کی فصیس میں جاکر پناہ لی ، مسلمانوں نے دَبا کا محاصرہ کر لیا جو لگ بھگ ایک ماہ تک چلا، یہ زمانہ محصورین کے لئے بڑا سخت گذرا کیونکہ انہوں نے شہر میں محاصرہ کے لئے خورد و نوش کا سامان جمع نہیں کیا تھا، مجبور ہوکر انہوں نے حُذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس صلح کی بات چیت کےلئے سفیر بھیجا، حُذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ‘‘ دو صورتوں میں سے ایک اختیار کرلو :’’ تباہ کن جنگ یا ذلّت آمیز صلح۔’’ سفیر نے پوچھا: ‘‘ ذلّت آمیز صلح کا کیا مطلب ہے؟ ’’ حُذیفہ :’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ ہمارے مقتول جنّت میں اور تمہارے دوزخ میں جائیں گے، اور تمہارا جو سامان ہم نے لیا ہے وہ ہمارا ہے اور ہمارا جو سامان تم نے لیا ہے وہ تم کو لوٹانا ہوگا نیز یہ کہ ہم حق پر ہیں تم باطل پر ہو ، اس کے علاوہ ہم جیسا چاہئیں گے تمہارے ساتھ سلوک کریں گے۔’’ لَقیط اور اس کی محصور فوج نے یہ ساری شرطیں مان لیں ۔ حُذیفہ رضی اللہ عنہ محصورین سے کہا : ‘‘نہتے ہوکر شہر پناہ سے باہر آجاؤ ۔’’ وہ آگئے او رمسلمان شہر پناہ میں داخل ہوگئے، اس کے بعد حُذیفہ نے کہا : ‘‘ میں نے تمہارے اکابر کو قتل کرنے اور تمہارے بال بچوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیاہے۔’’ اس فیصلہ کے موجب حُذیفہ رضی اللہ عنہ نے 100 اکابر کو قتل کردیا اور باقی لوگوں کو جن میں تین سو مرد اور چار سو عورتیں بچے تھے گرفتار کر کے مدینہ لے گئے، عِکرِمہ گورنر کی حیثیت سے دَبا میں مقیم ہوگئے ۔
حُذیفہ رضی اللہ عنہ قیدیوں کو لے کر مدینہ آئے تو صحابہ کے درمیان اس بارے میں اختلاف رائے ہواکہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے، زید بن ثابت 1؎ (1؎ انصاری صحابی مرتب قرآن 45 ھ میں وفات پائی ، اِصابہ 1/561۔562)کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نوواردوں کو رَملہ2؎ (2؎ ام ثابت ، انصاری خاتون اِصابہ 4/305) بنت حارث کے گھر میں ٹھہرایا ، وہ مردوں کو قتل کرنا چاہتے تھے ،عمر فاروق اس کے خلاف تھے ، وہ کہتے : ‘‘ یہ لوگ مسلمان ہیں ، انہوں نے روپیہ کی مامتا میں آکر زکاۃ روک لی تھی ۔ ‘‘قید ی بھی کہتے : ’’ بخدا ہم نے اسلام نہیں چھوڑا ، ہم تو زکاۃ سے بچنا چاہتے تھے ۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ عذر ماننے کے لئے تیار نہ تھے، ( اس اختلاف رائے کی بناء پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور) قیدی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات تک رَملہ کے گھر میں نظر بند رہے، عمر فاروق نے خلیفہ ہوکر ان کو بلایا او رکہا : ‘‘ میری رائے شروع سے تم کو چھوڑنے کی ہے، اب میں خلیفہ ہوگیا ہوں ، تم آزاد ہو، جہاں چاہو جاسکتے ہو ’’۔ یہ لوگ بصرہ جاکر آباد ہوگئے ، ان میں ( مشہور جنرل) مُہلَّب بن اَبی صُفرہ بھی تھا، اس وقت وہ لڑکا تھا، اس نے بھی بصرہ میں سکونت اختیار کرلی۔
ابن عباس : ‘‘مہاجر صحابہ کی رائے تھی کہ قیدیوں کو یا تو قتل کردیا جائے یا بھاری زرِ مخلصی لے کر چھوڑ دیا جائے ، عمر فاروق قتل اور زرِ مخلصیِ دونوں کے خلاف تھے اسی اختلاف رائے کی وجہ سے قیدیوں کا معاملہ معلق رہا، جب عمر فاروق خلیفہ ہوئے تو انہوں نے قیدیوں کو آزاد کردیا۔
عمر بن عبدالعزیز 1؎ (1؎ اموی حلیفہ ،101 ھ میں انتقال ہوا) کی سند پر ایک قول یہ ہے کہ عمر فاروق نے ہر قیدی کے لئے چار سو درہم ( دو سو روپئے) زرِ مخلصی مقر ر کیا تھا لیکن بعد میں ان کی رائے بدل گئی اور انہوں نے کہا : ‘‘ لا سِبانی الأ سلام و ھم أحرار ( مسلمان عرب غلام نہیں رہ سکتے اور وہ آزاد ہیں) لیکن پہلی روایت زیادہ مشہور ہے، جب وہ لوگ گھر واپس آئے جن کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دَبا کی بغاوت فرد کرنے بھیجا تھا تو انہوں نے ہر ایک کو پانچ پانچ دینار ( پچیس روپئے ) دیئے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-16/d/98788