New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 05:18 AM

Urdu Section ( 12 Aug 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tarikh-e-Ridda Part- 11 (تاریخ ردّہ حصہ ( 11

 

خورشید احمد فارق

رافع بن خُدیج رضی اللہ عنہ  کی دوسری روایت : ‘‘ ہم مدینہ سے چلے تو ہماری  تعداد چار ہزار تھی اور ہمارے انصاری ساتھی پانچ سو اور چار سو  کے درمیان تھے،  ان کے لیڈر ثابت  بن قیس تھے، ہمارا جھنڈا  ابُو لُبابہ 2 ؎ کے پاس تھا ، (2؎ رِفاعہ ابُو لُبابہ بن عبدالمنذِ انصاری ،بدری صحابی ۔ استیعاب 2/655) ، ہم  یمامہ پہنچے  تو ہمارے  مقابلہ میں وہ قوم تھی جس  کے بارےمیں خدا نے کہا ہے ستُد عَون الیٰ قوم أُولی بأس شدید 3؎ (3؎ تم ایک نہایت شجاع قوم سے لڑنے بلائے جاؤگے)  جب ہم نے اپنی صفیں مرتب کرلیں اور جس جس  کو جھنڈے دینا تھے دے دیئے ، تو بنو  حنیفہ نے ہم پر حملہ کردیا اور ہم کو کئی بار میدان  سے بھگادیا اور  گو ہم اپنی صفوں کو لوٹ آتے  ان کا نظم  باقی نہ رہتا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہماری فوج  میں کئی قسم کے لوگ تھے، ان میں ایک بڑ ی تعداد بد و رنگروٹوں  کی تھی، ان کے پیر جلد اکھڑ جاتے او رپکّے مخلص مسلمانوں  کو کم پاکر دشمن  آوباتا، ، یہ رنگروٹ کئی بار پسپا ہوئے ، پھر  خدانے اپنے فضل سے ہم کو دشمن پر فتح  عطا کی،  اور یہ اس طرح ثابت  بن قیس رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا : خالد! ہمیں ایسے سپاہی دو جن کے  دل میں سچا اسلامی جوش ہو۔’’  خالد رضی اللہ عنہ :  ‘‘ میں تم کو انتخاب کا اختیار دیتا ہوں ، تم اپنے ساتھیوں  کو بلاؤ اور ایسے  سپاہی چن لو’’۔ ثابت رضی اللہ عنہ نے جھنڈالیا اور پکار کر کہا : ‘‘ انصار مدد ! انصار مدد!’’ ایک ایک کرکے انصار  ان کے پاس آگئے، خالد رضی اللہ عنہ نے اب مہاجرین کو پکارا ، وہ بھی ان کے  گرد جمع ہوگئے،  اسی طرح عَدی بن حاتم اور مِکنف بن زید طائی نے بنوطئی  کے سپاہیوں  کو جو بہادری سے لڑے تھے  ، پاس بلالیا،  بدو رنگروٹ  بھاگ کر الگ جا کھڑے ہوئے انہوں نے ہمارے پیچھے  بقدر پرواز تیر یا اس سے دو چند فاصلہ پر  جگہ لے لی، انہی کی بزدلی کی وجہ سے بنو حنیفہ ہم پر حملے کر تے تھے،  ہم آگے بڑھے اور دشمن کی فوج  پر حملہ کیا، ہم اور وہ جس صبر و استقلال سے تلواروں کے نیچے ڈٹے رہے  اُس کی مثال دیکھنے میں نہ آئی ، اس موقع پر قیس بن خَطِیم 1؎ (1؎ متن میں: خَطِیم بحاء مہملہ )  کے یہ شعر مجھے یاد آئے :۔

إذا مافر رنا کان أَسو أُ فڑنا 2؎ ( منتن میں : خَطِیم بحاء مہملہ)                                صُد وْ دَالخد و دوأ زرورا رَالمناکب

ہم ( میدان جنگ  سے) بھاگتے تو ہمارا بد ترین فراریہ ہوتا کہ کلے ادھر ادھر  پھیر لیتے یا کندھے اچکا یاد با لیتے

صد ود الخد و دو القَنا متشا جِر               ولاَ تبَرح الاَقدام عندالتضارب

کلے ادھر سے ادھر پھرتے لیکن  قدم جگہ  سے نہ ہٹتے جب نیزے اور تلواریں کھٹا کھٹ  چلتیں

پرانے آزمودہ کا ر اور مخلص  مسلمانوں نے دشمن  کو دھکیلا اور سینہ سپرد ہوکر ان کے بالکل سامنے آکھڑے ہوئے  لیکن  ان کی صفوں  میں گھسنا ممکن نہ تھا الا یہ کہ ان  کاکوئی سپاہی مارا جائے یا زخمی  ہوکر گر پڑے، اور اگر ایسا  ہوتا بھی تو کوئی دوسرا مرنے والے کی جگہ آلیتا ، تاہم ہم نے بنو حنیفہ  کی خوب خبر لی، اُن  کی صفوں میں بدنظمی واقع ہونے لگی او رہماری تلوار کی بے پناہ ضرب سے وہ چیخ  اُٹھے ، پھر ہم باغ میں  گھس پڑے ، وہاں تلوار  سے خوب جنگ ہوئی، انہوں نے باغ کا دروازہ  بند کرلیا  او رہم نے دروازہ  پر پہرہ  بٹھا دیا تاکہ کوئی حنفی اس کو کھول کر بھاگ نہ جائے ، یہ دیکھ کر بنو حنیفہ  سمجھ گئے کہ اب موت سے مفر نہیں لہٰذا وہ اور زیادہ بے جگری  سے لڑے تلواریں کھٹا کھٹ  چلنے لگیں ، تیر ، پتھر اور نیزے سے بالکل  کام نہیں لیا گیا،  آخر کار ہم نے دشمن خدا مسیلمہ  کو قتل کردیا، رافع بن خُدیج سے کسی نے پوچھا : ‘‘ ابو عبداللہ! تمہارے مقتول زیادہ تھے یا اُن  کے تو انہوں نے کہا : اُن  کے مقتول  زیادہ تھے، میرا خیال  ہے ان کے مرنے والوں  کی تعداد ہم سے دُگنی تھی،جنگ میں ستّر  انصاری شہید  ہوئے اور دو سو زخمی ، جواء 1؎ (1؎ مدینہ کے شمال مشرق  میں نجد کی ایک چراگاہ  معجم البلدان  3/155)  میں ہمارا  مقابلہ بنو سُلیم  سے ہوا، وہ زخمی تھے،  پھر بھی بڑی بہادری  سے لڑے’’۔

ابو خثیمہ نجَّاری 2؎ (2؎ عبداللہ بن خثیمہ انصاری اُحدی، صحابی ۔ استیعاب 2/639): یمامہ  کی جنگ میں جب  مسلمان بھاگے تو میں بھی ایک طرف چلا گیا ، ابودُجانہ 3؎ (3؎ سِماک بن خَرَشہ بدری صحابی ۔ استیعات 2/643) دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے  تھے ، تلوار  یں اُن پر پڑرہی تھیں  لیکن وہ منہ نہ موڑ تے تھے ، بالآخر مارے گئے رحمہ اللہ،  وہ جنگ  ہیں اکڑ کر چلتے تھے  ، غرور سے نہیں بلکہ  ان کی فطرت تھی،  ایسا نہ کرنا ان کے امکان  سے باہر تھا ، بنو حنیفہ کی ایک ٹولی نے ان کو آگھیر ا ، وہ دائیں بائیں آگے پیچھے  برابر تلوار چلاتے رہے اور ایک حنفی  پر ایسا وار کیا کہ وہ  مردہ ہوکر زمین پر گر پڑا ، اس کی زبان  سے ایک حرف  تک نہ نکلا ، بنو حنیفہ  ابو دجُانہ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ، مسلمان پہلے ہی فرار ہوچکے تھے اُن  کے اور ابو دُجانہ  کے درمیان  میدان بالکل  خالی تھا، بس  مہاجرین و انصار باقی رہ گئے تھے، اُن  سے لڑنے والا کوئی نہ تھا ، اس لئے وہ سب ایک طرف کو کھڑے ہوگئے، ذرا دیر بعد بھاگے ہوئے مسلمان  لوٹے تو مہاجرین و انصار نے ان کے ساتھ دشمن پر ہلّا بول دیا اور اس کو دبا تے ہوئے بڑھتے رہے ، حتّٰی  کہ باغ آگیا ، جس  میں گھسنے پر وہ مجبور  ہوگئے، ابو دُجانہ نے کہا : ‘‘ مجھے ڈھال میں لٹکا کر قلعہ  میں اتار دو ، وہ مجھ  سے لڑنے میں مصروف ہوجائیں گے اور تم دروازہ توڑ کر اندر آجانا انہوں نے باغ کا دروازہ بند کرلیا تھا، مسلمانوں  نے ڈھال پر بٹھا  کر ابو دُجانہ  کو باغ میں ڈالا  اور وہ یہ کہتے ہوئے  اُترے : ‘‘ تم ہم سےبھاگ کر کہاں جاؤ گے ’’۔یہ کہہ کر وہ دشمن  پر ٹوٹ پڑے اور لڑتےلڑتے دروازہ کھول دیا ، ہم اندر داخل  ہوئے تو وہ مارے جاچکے تھے ، ان پر خدا کی رحمت ، ایک قول یہ ہے کہ باغ میں بَراء بن مالک کو اتارا گیا تھا لیکن پہلی روایت  زیادہ مستند ہے۔

اُس دن ثابت بن قیس  رضی اللہ عنہ بآواز بلند کہتے انصار بھائیو! خدا سے ڈرو، اپنے دین کی شرم کرو ، ان لوگوں نے ہمیں  خوب مزہ چکھا یا ’’، پھر باقی فوج سے مخاطب ہوکر ’’: تُف ہے تم پر اور تمہاری  بزدلی پر ! ’’ اس کے بعد : ‘‘ ان سے لڑنے کے لئے چھوڑ دو ہمارا راستہ ہمیں مُخلص  جاں باز چاہئیں ’’۔انصار نے سچے  دل سےلڑنے کا عہد کیا، پھر اُن کے راستہ  میں کوئی رکاوٹ  حائل نہ ہوئی، انہوں نے مُحکم  بن طفیل  کو جاکر قتل  کردیا  پھر دشمن  کو دباتے ہوئے باغ  میں پہنچے  اور اس میں گھس پڑے ، وہاں سخت   جنگ  ہوئی مسلمان اور حنفی  ایسے گتھے کہ جنگی  نعروں  کے سوا دشمن  اور دوست  میں کوئی  وجہ امتیاز  باقی نہ رہی ، مسلمانوں کانعرہ تھا ۔ اُمت  ( خدا یا ان کو مار، خدا یا ان کو مار) ثابت بن قیس نے مسلمانوں  کو پاس بلانے  کے لئے للکار  کر کہا : یا أَصحابَ سُورۃ البَقَرۃ ( سورۃ البقر والو) اس پر قبیلہ  طیَّ کاایک شخص بولا:بخدا میرے پاس تو بَقَرہ کی کوئی آیت ہے نہیں ! ‘‘ ثابت کامطلب  تھا : یا أھل القرآن ( اے قرآن والو) ۔

واقد بن عمر بن سعد بن مُعاذ 1؎ (1؎ انصاری تابعی 12 ھ میں وفات پائی ، تہذیب التہذیب 11/107): جب مسلمان بنو حنیفہ سے لڑنے گئے اور لڑائی   ہوئی تو وہ بری  طرح  بھاگے ، ایسے کو جو دیکھتا  یہی خیال  کرتا کہ اس  لڑائی میں پھر وہ یکجا نہ ہوسکیں ، اسلامی فوج  الگ الگ ٹولیوں  میں پراگندہ ہوگئی،  ان پر جمود  طاری ہوگیا،  یہ دیکھ کر بنو حنیفہ کے حوصلے بڑھ گئے او رانہوں نے مسلمانوں پر خوب بڑھ بڑھ کر حملے  کئے ، عَبَّاد بن  بِشر  ایک ٹیلے پر چڑھ گئے اور چلاّ کر کہا: ‘‘ میں  ہوں عبَّاد بن بشر انصار مدد،اِدھر آؤ، ۔ ‘‘ سارے انصار  لبیک کہتے ان کی طرف بھاگ پڑے اور جب عبَّاد  کے پاس پہنچے  تو انہوں نے کہا :‘‘ میرے ماں باپ تم پر قربان ، اپنی  نیا میں توڑ ڈالو ۔’’ یہ کہہ کر انہوں نے  اپنی نیام توڑ دی اور اس کو پھینک دیا،  انصار نے بھی اپنی نیامیں  توڑ ڈالیں ، عبَّاد: میں بھرپور حملہ کروں گا ، تم سب میرے پیچھے  رہنا’’۔ وہ انصار کے آگے بڑھ گئے اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس زور کا حملہ کیا کہ دشمن منہ موڑ گیا ، وہ برابر  دشمن کو دباتے  اور پیش قدمی کرتے رہے یہاں  تک کہ وہ باغ میں گھس گیا اور اس کا دروازہ  بند کرلیا، عبَّاد بن بِشر  قلعہ  کی دیوار پر چڑھ گئے  اور تیر اندازوں سے کہا کہ تیر ماریں،  اس کا اثر  یہ ہوا کہ دشمن  کی ساری فوج  ایک ایسی جگہ جمع  ہوگئی جو تیر وں کی زد سے باہر تھی، آخر کار خدا کی عنایت سے قلعہ  فتح ہوا، مسلمان اندر گھس گئے او ردیر تک  بنو حنیفہ  پر تلواروں  کامینہ برساتے رہے جب ان کے ہاتھ شل ہوگئے  تو عَبَّاد  بن بِشر نے باغ کا دروازہ بند کردیا تاکہ کوئی حنفی  بھاگ نہ جائے ، عبَّاد کہتے : ‘‘  مالک میں بنو  حنیفہ کے مذہب سے اظہار بیزاری کرتا ہوں’’  واقد بن عمر 1؎ (1؎ دیکھئے فٹ نوٹ 1 صفحہ 95) : ‘‘مجھ سے ایک عینی شاہد نے بیان کیا کہ عَبَّاد  بن بشر نے اپنی زرہ باغ کے دروازہ  پر پھینک دی،ننگی تلوار لے کر اندر گئے او رلڑتے ہوئے مارے گئے، خدا  کی رحمت ہو ان پر ’’۔

ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ 2؎ (2؎ سعد بن مالک انصاری ، جنگ احد کے وقت تیرہ چودہ سال کا سن تھا اس لئے اس میں شریک نہ ہوسکے ، بعد کے سارے  معرکو ں میں حصہ لیا، جنگ یمامہ میں بائیس تئیس سال کے تھے، روایت حدیث کا بہت شوق  تھا، بقول و اقدی 74 ھ میں انتقال ہوا۔ اصابہ 2/35) : عبَّاد  نے مجھ سے کہا کہ جب ہم بزُاخہ  کی مہم سے فارغ ہوئے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان کھلا او رمجھے  بند کرلیا، اس کی تعبیر  خدا نے چاہا تو شہادت ہے۔’’ میں نے کہا:  اس کی  تعبیر  اچھی ہوگی ’’۔ جنگ یمامہ  کے موقع پر میں دیکھتا کہ وہ چلّا چلّا کر انصار کو آواز دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں  : ‘‘مخلص  مجاہد لاؤ! مخلص  مجاہد لاؤ!  انصار چار سو مجاہد لائے جن  کے دلوں میں  سچّی لگن تھی ، ان میں کوئی بھرتی کا آدمی نہ تھا، ان کے قائد  بَراء بن مالک 1؎ (1؎ دیکھئے فٹ نوٹ 3،86) ، ابو دُجانہ 2؎ (2؎ دیکھئے فٹ نوٹ 2 صفحہ 94) اور عَبَّاد بن 3؎ بِشر تھے (3؎ دیکھئے فٹ نوٹ 5، 90) ، یہ لوگ دشمن کو دباتے  باغ کے دروازہ  تک چلے گئے ، عَبَّاد کے چہرے  پر اتنے زخم  تھے کہ ان کی شناخت کرنا مشکل تھا،  ان کے جسم پر ایک خاص علامت  تھی جس  کی مدد سے میں ان کو پہچاننے  میں کامیاب ہوسکا۔

جب اوسامہ بن زید رضی اللہ عنہ 4؎ (4؎ دیکھئے فٹ نوٹ 1،10) ( شام کی مہم سے) لوٹ کر آئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے ان کی  کمان میں 400 سوار  دے کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  کی مدد کو بھیج دیا تھا، وہ خالد رضی اللہ عنہ  کے یمامہ  میں داخل ہونے سے تین دن پہلے اُن سے جاملے، خالد رضی اللہ عنہ نے بَراء بن مالک رضی اللہ عنہ  کی جگہ اُسامہ رضی اللہ عنہ  کو سوار فوج  کا لیڈر مقرر کیا اور بَرار رضی اللہ عنہ  سے کہا کہ پا پیادہ لڑیں ، وہ گھوڑے سے اُتر پڑے اور پاپیادہ ہوگئے، جنگ  یمامہ میں جب مسلمان پسپا ہوئے اور اُسامہ  مع اپنے سواروں  سے بھاگ  پڑے تو مسلمانوں  نے للکار  کر کہا : ‘‘ خالد ! بَراء رضی اللہ عنہ  کے پاس بھیجا  او رکہا : ‘‘ سواروں کی قیادت کیجئے ۔’’بَراء رضی اللہ عنہ : کہاں ہیں سوار، تم نے مجھے معزول  کیا اور ان کو میری قیادت سے نکال  لیا۔’’ خالد رضی اللہ عنہ : مرد آدمی یہ ملامت  کا موقع نہیں ، سواروں  کو اپنی کمان میں لو، تم دیکھتے نہیں صورت  حال کتنی سنگین  ہے۔’’ بَراء  گھوڑے  پر سوار  ہوئے ، مسلمان سوار شکست  کھا کر چھوٹی چھوٹی  ٹولیوں میں ادھر ادھر پراگندہ  تھے، بَراء اپنی تلوار گھُما تے اور اپنے ساتھیوں کو آواز دیتے : ‘‘ انصار مدد! انصار مدد! سوار و افسوس! ‘‘ میں ہوں بَراء بن  مالک، یہ آواز سن کر ہر طرف سے سوار  اور پیادہ ان کے پاس آگئے، ابو سعید خُدری 1؎ (1؎ دیکھئے فٹ نوٹ 1،97) : اب بَراء نے کہا : ‘‘ میرے ماں باپ تم پر قربان ، موت کی لگن  سے دشمن پر ایک بھر پور حملہ کردو۔’’ پھر انہوں نے جب زور سے تکبیر  کہی اور ان کے ساتھ ہم  نے بھی اس کے بعد ہمارے سامنے باغ  کے دروازہ  کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔

عبداللہ بن اَبی  بکر بن حَزم 2؎ (2؎ عبداللہ بن اَبی بکر بن محمد بن عمر و بن حَزم ، مدنی تابعی ، محدث  فقیہ 135 ھ میں انتقال ہوا۔ تہذیب التہذیب  5/164۔165) : بَراء بن مالک اچھے  سوار تھے ، جب انہیں میدان جنگ  میں جوش آتا تو  ان کا سارا جسم کانپنے لگتا، لوگ ان کو ذرا دیر تک پکڑے رہتے تو وہ ٹھیک  ہوجاتے او رمہندی  کی طرح سرخ  پیشاب  کرتے جب انہوں نے مسلمانوں  کو پے در پے پسپا ہوتے دیکھا تو انہیں جوش آگیا  او ران کا جسم کانپنے لگا، ان کے ساتھی ان کو سنبھا لنے  لگے  تو انہوں نے  کہا : ‘‘ مجھے زمین پر لٹا دو۔’’  ذرا دیر بعد وہ  ٹھیک ہوگئے،  شیر کی طرح چاق و چوبند اور یہ رجز پڑھی :۔

أسرنی 3؎ رَبَّی علے الأ نصار ( 3؎ اصل میں أسعدنی )          کانوا یداً طُراً علے الکفّار

فی کل یوم ساطع الغبار                  فأستَبْدَ لُوا النَّجاۃ بالفرار

میرے  مالک نے مجھے انصار  کا لیڈر بننے کی سعادت  عطا کی، انصار جنہوں نے  مل کر کافروں کی ایسی خبر لی کہ میدان جنگ  پر غبار چھا گیا او رکفار  نے بھاگ کر جان بچائی ۔

بَراء رضی اللہ عنہ  ا س بےجگری سے تلوار  کےوار کرتے  آگے بڑھے کہ دشمن ان کے سامنے سے ہٹ گیا،  پھر وہ  اس کی صفوں میں گھس گئے ، انصار  پامردی سے ان کے گرد جمے ہوئے تھے  جس طرح شہد کی مکھیاں  خطرہ کے وقت اپنی ملکہ کے گرد جمع رہتی ہیں ۔

ایک شخص نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  کوکہتے سنا : ‘‘ میں نے 20 معرکے لڑے لیکن  کسی دشمن  کو تلوار  کےنیچے  اتنا  صابر نہ پایا،  نہ ایسا تلوار  باز اور نہ ایسا ثابت قدم جیسے  کہ بنو حنیفہ  تھے ، جب ہم طُلیحہ  اَسدی  سے فارغ  ہوئے جو زیادہ  خوفناک  غنیم نہ تھا تو میری  زبان سے  اور زبان ہی ساری مصیبتوں  کی جڑ ہے ، یہ کلمہ نکلا: ‘‘ کیاہیں بنو حنیفہ ! ویسے   ہی نا جیسے  اور دشمن  جن سے ہم لڑ آئے ہیں ، لیکن جب ہم ان سے نبرد  آزما ہوئے تو معلوم  ہوا کہ ان جیسا سورما کوئی نہیں،  جب ہم ان کے کیمپ کے نزدیک پہنچے تو میں نے ان کے بہت سے سپاہیوں کو کیمپ  سےبہت آگے موجود  پایا، میں  نے کہا : ‘‘  یہ کوئی چال ہے ۔’’  لیکن یہ بات نہ تھی، بلکہ ان کی ہمتیں اتنی بلند تھیں کہ  وہ ہمارے  قُرب  و بُعد  سے بے نیاز تھے، ہم نےاپنا کیمپ ان کے سامنے لگایا اور اتنا قریب  کہ وہ نظر  آتے تھے،  شام کو میں نے اُدھر نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سب ہمارے  کیمپ کی طر ف رخ کئے ہیں،  ہم نے اپنے کیمپ  میں رات گزاری اور انہوں نے اپنے کیمپ میں ، صبح تڑ کے انہوں نے  اپنی فوج  مرتب کرلی  ہم بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ، صبح ٹھنڈی  تھی، میں نے اپنی صفیں  درست کرلیں ، پھر وہ  آہستہ آہستہ  ہماری طرف بڑھے،  انہوں نے اپنی تلوار یں نیام  سے باہر کرلی تھیں،  یہ دیکھ کر میں نے اللہ اکبر  کا نعرہ لگا یا اور اُن کے اس فعل کو بزدلی پر محمول  کیا،  جب وہ قریب آگئے تو انہوں نے للکار کہا : ‘‘  ہمارا تلوار وں کو نیام سےنکالنا بزدلی نہیں ہے، وہ ہندی لوہے کی ہیں، ہم  ان کو دھوپ میں گرمارے ہیں تاکہ ٹھنڈے کےاثر سے حملہ کے وقت ٹوٹ نہ جائیں ۔’’ ہم سے مقابل ہوتے  ہی انہوں نے بے تاخیر  بھرپور حملہ  کردیا،  جس کی تاب نہ لاکر ہماری فوج کے بدّو  رنگروٹ بھاگ گئے اور صفوں  کے بیچ میں جاکر پناہ  لی، ان کے بھاگنے سے ایسی  ہیبت طاری ہوئی کہ جوش و لگن والے مسلمانوں کے بھی پیر اُکھڑ گئے ، بنو حنیفہ نے پشتی حملے  کرکے ان کو خوب قتل کیا، میں تلوار سونت کر بڑھا   ،کبھی وہ مجھے گھیر لیتے او رکبھی  میں اُن کے نرغے سے نکل آتا ، بھاگے ہوئے مسلمان سنبھلے اور پھر دشمن پر حملہ کیا، بنو حنیفہ  نے منہ توڑ جواب دیا اور ان کو تین بار مار بھگایا ، میں نے اُن کو للکارا  اور خدا نیز آخرت  سے ڈرایا ، میری للکار پر پرُانے اور آزمودہ کار مسلمانوں سے کہا : ‘‘ ہمیں مخلص مجاہد پر ٹوٹ پڑیں بہت سے قتل  ہوئے جو بچے  وہ زخموں  سے چور تھے یہی پُرانے  مسلمان  اور اسلام  کےسچے شیدائی تھے ، جنہوں نے ہماری  ناؤ پار لگائی، جو چٹان  کی طرح قدم جمائے دشمن  کا مقابلہ کرتے رہے، ان کو لڑتا دیکھ  کر بدو رنگروٹ   بھی ہماری پچھلی صفوں  میں آملے  ، بنو حلیفہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ جس طرح پہلے حملوں میں مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے تھے اسی طرح ان مخلص جانبازوں  کے بھی پیر اکھڑ جائیں  لیکن اسلام  کے یہ فدائی  اپنی جگہ سے نہ ٹلے، تلواریں کھٹا کھٹ چلتیں لیکن کوئی فریق ہار نہ مانتا ، البتہ عرب رنگروٹ  پھر ہماری پچھلی صفوں سے بھاگ گئے ہم نے ایک جان توڑ حملہ کیا جس سے بنو  حنیفہ   کے پیر اکھڑ گئے لیکن ان کا منہ  پھر  بھی ہمارے  سامنے رہا ، ہمارے حملہ کے دباؤ  سے وہ پیچھے ضرور ہٹتے  رہے لیکن  برابر لڑتے ہوئے او رباغ  کے دروازہ  پر جاکر رُ ک گئے ، اب تلواریں  ایسی تندی اور تیز سے چلنے لگیں کہ ان سے آگ نکلتی نظر آئی ہمارے اور ان کے مقتولوں کے پشتے لگ گئے ، باغ کے دروازے  بند تھے ،اس میں اسلام  کے متوالے پُرانے مسلمانوں  کی ایک  جماعت گھس گئی اور دورازہ  کے محافظوں  سے لڑنے لگی ، ہمیں موقع مل گیا او رہم بھی  باغ میں داخل  ہوگئے  ،وہاں ہم نے دیکھا کہ پرانے  مخلص  مسلمان جام شہادت پینے  کا تہیہّ کر چکے ہیں، چند منٹ  میں ان کو بنو حنیفہ  نے باغ میں دیکھ لیا، میں للکار کر اپنے ساتھیوں سے کہا : ‘‘ دانت بھینچ لو’’۔ا سکے بعد ایسا رن  پڑا کہ تلواروں کی کھٹا کھٹ کے علاوہ او رکوئی آواز سنائی  نہ دیتی تھی ، بالآخر دشمن خدا مسیلمہ  قتل ہوا،  اس کے ساتھ ہی بنو حنیفہ کی تلوار بازی  کے کرتب بھی ختم ہوگئے،وہ حیرت انگیز عزم و جرأت کے ساتھ ہمارے سامنے طلوع آفتاب سے لے کر نماز عصر تک  ڈٹے رہے ، باغ میں ایک حنفی سوار نے مجھے آلیا، میں بھی گھوڑے پر تھا، دونوں اُتر پڑے اور گتھُ گئے میں اس کو خنجر سے مارتا جو میری تلوار میں  تھا او روہ اس کدال ؟ سے جو اس کی تلوار میں تھا، اس نے میرے  سات زخم لگائے ، میں نے صرف ایک  لیکن ایسا کہ خنجر  اس کے جسم کے پار ہوگیا، خنجر  پر میری گرفت  ڈھیلی ہوگئی، میرا سارا جسم  زخموں سے چور تھا اور خون جاری  ، لیکن شکر ہے کہ میں بچ گیا اور اس کوموت نے لقمہ  بنالیا۔’’

ضَمرہ نے ابو سعید 1؎ حذُری (1؎ اصل میں حدّت ضَمرۃ بن سعید  ہی ہمارا خیال ہے کہ حدّت ضِمرۃ عن ابی سعید ( الخُدری) ہونا چاہئے کیونکہ ضمرۃ تابعی ہیں جنگ یمامہ کے بہت بعد پیدا ہوئے  ، ابو سعید  خدری جنگ میں شریک تھے ، ضمرہ کی ان سے روایت  بھی ثابت ہے۔)کے حوالہ سے بیان کیا  کہ وہ لڑتے لڑتے بنو حنیفہ  کے بار سوخ لیڈر مُحکم  بن طُفیل کے پاس جا نکلے ، انہوں  نے دیکھا کہ مُحکم  بن طُفیل بنو حنیفہ  کو غیرت اور جوش دلارہا ہے: ‘‘ جان توڑ کوشش  کرو اس  سے قبل کہ تمہاری  شریف زادیاں  گرفتار کرلی جائیں او رسلمان  بجبران  سے ہم بستر ہوں ، اپنے ننگ و ناموس کے لئے  جان دے دو، صورت حال بڑی سنگین  ہے، آج ہی وہ دن  ہے  جب ننگ و ناموس  کے لئے جان لڑا دینا  از بس ضروری ہے، باغ میں گھس جاؤ، عقب  سے میں خود تمہاری حفاظت  کروں گا ، پھر اس نے حسرت  سے یہ شعر پڑھا:۔

لَبئسما اُوردنا مسیلمہ      أورَثنا من بعد ہ أُ غیلمہ

مُسیلمہ نے ہم پر بہت بڑی مصیبت  لا  ڈالی  ہے جس سے ہماری  قوم تباہ  ہوجائے گی اور صرف  نوکر غلام رہ جائیں گے ہمارے وارث ہونے کے لئے ۔

بنو حنفیہ باغ میں گھس گئے اور دروازے بند کرلئے ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن نے مُحکم کے ایسا تیر مارا کہ اس کی روح  پرواز کر گئی، اس کی جگہ اس کا چچا زاد بھائی مُعرض آکھڑا ہوا تھوڑی  دیر لڑکر وہ بھی قتل ہوا ، دوسراقول ہے کہ مُحکم  کا خاتمہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے  ہاتھوں ہوا۔

حارث بن فُضیل 1؎ (1 انصاری تابعی  تہذیب التہذیب 2/154) : مُحکم بن طفیل  نے جب دیکھا کہ ا س کے ہم قوم مسلمانوں کا خوب مار رہے ہیں تو اس نے  چنگھاڑ کر کہا : ابو سلیمان  ( خالد)  ادھر ابوسلیمان  ادھر،  یہ بنو حنیفہ  نہیں زہر یلی موت  ہیں، یہ میدان سے بھاگنا نہیں جانتے ! ‘‘ خالد رضی اللہ عنہ  عقب میں تھے ، کسی نے ان کو مُحکم کا یہ چیلنج پہنچایا  تو وہ یہ کہتے ہوئے  آگے لپکے : ‘‘ یہ ہوں میں ابو سلیما ن ’’۔ انہوں نے خود اتار  کر چہرہ کھول لیا اور اُدھر حملہ کیا جدھر مُحکم بنو حنیفہ  کی قیادت  کررہا تھا، وہ مُحکم پر ٹوٹ پڑے اور تلوار کاایسا وار کیا کہ اس کے ہاتھ پیر پھول گئے ، پھر یہ کہتے ہوئے دوبار ہ تلوار  ماری : ‘‘ لو میرا یہ  وار میں ہوں ابو سلیمان ’’۔ مُحکم  مُردہ  ہوکر زمین پر گر پڑا ، عبدالرحمن بن اَبی بکر نے تیر اس واقعہ سے پہلے مارا تھا ، بعض  راوی  کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن کا تیر اس واقعہ کے بعد لگا تھا، ایک قول یہ ہے کہ عبدالرحمٰن  کے تیر سے مُحکم  کو کوئی  گزند نہیں پہنچا۔

 مُحکم کےقتل کے بعد بنو حنیفہ اور زیادہ جوش سے لڑے،وہ کہتے : ‘‘ مُحکم  کے بعد  جینا بیکار ہے۔’’ کسی نے مُسیلمہ  : ‘‘ دین تو ہمارا کوئی ہے نہیں جس  کے لئے لڑیں، البتہ  ننگ و ناموس کے لئے تم کو ضرور لڑنا چاہئے ۔’’ یہ جواب سن کر لوگوں کو یقین ہوگیا کہ ان کی ساری قربانی رائیگاں گئی۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-11/d/98540

 

Loading..

Loading..