خواجہ ازہر عباس (فاضل درس نظامی)
مشرقی ممالک خصوصاً شام (Syria) کے حالات نے ، ان ممالک کی آبادی کو اس بات پر مجبور ہی کردیا ہے کہ و ہ اپنے اپنے ممالک کو چھوڑ کر کسی مغربی ملک میں پناہ لیں، ان ممالک کو چھوڑنے والوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے، جو اپنے حکمرانوں کی ہوسِ اقتدار کا خمیازہ بھگت رہےہیں۔ مغربی ممالک نے ان کو پناہ دی مغربی ممالک میں سے بھی جرمنی نے ان کی زیادہ تعداد کو اس لئے پناہ دی ہے کیونکہ ان کے اپنے مزدور (Labor) کی بہت کمی ہے۔ اس لئے وہاں کی حکومت کو بھی اس کی ضرورت ہے، لیکن جرمنی کی اپوزیشن پارٹیز مسلمانوں کے سخت خلاف ہیں، ان کے ہاں اب سیاسی پارٹیوں میں اہم ترین مسئلہ ہی مسلمانوں کی آبادکاری ہے ان کی اپوزیشن کے لیڈر Beatrix von storch کو ایک بڑا ہی معنی خیز بیان ڈیلی ٹائمز کی 18 اپریل، 2016 کی اشاعت میں طبع ہوا ہے، ان بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لیڈر کی نگاہ بڑی دور رس اور باریک بین ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران، اور آج بھی ہمارے علماء کرام پر نکتہ نہیں سمجھ سکے تھے جو اس لیڈر واضح طور پر سمجھ لیا ہے، اس نے کہا (compatable with Garman Constitution Islam is not) اسلام جرمن کے دستور سے مطابقت نہیں رکھتا ، ہمارے علماء کرام جس اسلام کی داعی ہیں وہ مذہب کی صورت میں روبعمل ہے، اس میں صرف پرستش ہوتی ہے اور اس اسلام (مذہب) کو ماننے والے مسلمان بھارت، امریکہ اور یورپ میں جگہ جگہ رہائش پذیر ہیں، اس مذہب میں تقاضہ صرف پرستش کا ہوتاہے، مذہب کا کسی ملکی قانون یا دستور سےکوئی علاقہ نہیں یالین دین نہیں، لیکن اس لیڈر نےاپنے بیان کے آگے فوری طور پر وضاحت کردی ہے، جب اس نے فرمایا (Constitution Islam is in itself a political ideology that is not compatible with Garman) ترجمہ: اسلام تو خود ایک سیاسی نظام ہے جو جرمن دستور سے مطابقت نہیں رکھتا، اصل یہ ہے کہ مسٹر Beatrix یہ کہہ رہےہیں کہ اسلام ایک دین (System)ہے، یہ مذہب (Religon) نہیں ۔ افسوس یہ ہے کہ انگریز یاجرمن زبانوں میں دین کےلئے کوئی لفظ نہیں ہے، ان کے ہاں کیونکہ دین کا تصورنہیں اس لئے اس کامفہوم ادا کرنے کےلئے کوئی لفظ نہیں ، ان کے ہاں صرف Religon کا لفظ موجود ہے، اسی پارٹی کے ایک دوسرے لیڈر نے، دین کے تصور کو اس سے بھی زیادہ واضح کردیا، انہوں نے فرمایا
Islam is not a religion like Catholic or Protestant Christianity, but intelelectually always associated with the take over the State
ترجمہ : ‘‘ اسلام کیتھولک یا پروٹسٹنٹ طریقے کاکوئی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ریاست قائم کرتا ہے’’
یہاں بھی وہی دقت ہے کہ انگریزی میں دین کے لئے کوئی لفظ نہیں ، لیکن انہوں نے دین کی وضاحت اپنے الفاظ میں کردی۔ ہمیں حیرانی ہے کہ جرمنی کے ان دونوں لیڈروں نے یہ بیانات کیسے دیدئیے ، اور ان کو دین کا یہ تصور کس نے بتایا۔ ہمارے پاکستان کا سیکولر مزاج طبقہ اس نتیجہ پر نہ تو پہنچا ہے اور نہ ہی اس نتیجہ پر پہنچنا چاہتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے علماء یا ہمارے دانشور ،دونوں طبقات میں سے کوئی ایک فرد بھی اقامت دین اس کے مقاصد ، اور اس کے ثمرات سے واقف نہیں ہے، چند روز پیشترجماعت اسلام کےمرکز ‘‘منصورہ’’ لاہور میں علماء کرام کی ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں شریعت کے نفاذ کامطالبہ کیا گیا ۔ اس میٹنگ میں زیادہ تر علماء کرام تھے جو مساجد سے وابستہ او رمساجد میں نظامت دامات کے فرائض ادا کرتے ہیں۔ اس اجتماع سے صرف نظر ہمارے علماء کرام جو شریعت کے نفاذ کے قائل ہیں وہ سب مساجد سے ہی وابستہ ہیں اور نفاذ شریعت کامطالبہ کر رہےہیں۔
آپ ان کے اس مطالبے پر غور فرمائیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کےسامنے دین کا تصور نہیں ہے اور وہ مذہب کو ہی دین کی حیثیت سے جاری کرناچاہتے ہیں ۔ دین میں پرستش کا کوئی تصور نہیں ، دین میں صرف اطاعت ہوتی ہے، دین میں جب پرستش نہیں تو پرستش گاہوں کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے، ہمارے ہاں ایسی روایات بھی ہیں اور علماء کرام بھی کہتے ہیں کہ جو اس دنیا میں مسجد بنائے گا ، یا مسجد کی تعمیر میں کوئی رقم دے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں گھر عطا کرے گا۔ دین میں عدالتیں ، تحصیلیں ، تھانے یہ مساجد اللہ ہوتے ہیں، ان مراکز سے قوانین خداوندی جاری ہوتے ہیں، ہماری موجودہ مساجد کا دوسرا عیب یہ ہے کہ یہ فرقہ بندی پھیلاتی ہیں، مسجد اشرفیہ، مسجد امدادیہ، صابریہ، چشتیہ، بریلوی حضرات کی ہوتی ہیں، قرآن کی رو سے تو فرقہ بندی شرک ہے ( 32۔30) دین کی مساجد میں کوئی فرقہ بندی نہیں ہوتی۔ اسلامی عدالت عالیہ سے جاری کردہ قوانین ملک کی پوری آبادی کےلئے حکم کا درجہ رکھتا ہے، اور اس کی اطاعت ، عبادت خداوندی ہوتی ہے، اسلامی مملکت کا دستور قرآن ہوتاہے، اسلامی مملکت اللہ کے قانون جاری کرتی ہے، اس مملکت کا سربراہ رسول اللہ کا انشین ہوتا ہے، جو اسے جاری کرتا ہے، اس لئے اس حکم کی اطاعت سے اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت ہوجاتی ہے۔
جہاں تک شریعت کا تعلق ہے جو ہمارے علماء کرام جاری کرنا چاہتے ہیں، اس کی پوزیشن یہ ہے کہ اس شریعت یا فقہ کا امام ابوحنیفہ سےکوئی تعلق نہیں ہے، نہ امام موصوف کی کوئی کتاب فقہ کے موضوع پر موجود ہے، ہماری شریعت اسلامی شریعت کہی جاتی ہے ، لیکن یہ اسلامی شریعت نہیں ہے، یہ فقہی شریعت کہی جاسکتی ہے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے مدینہ میں اسلامی مملکت قائم فرمائی تھی، وہ مملکت دس لاکھ مربع میل وسیع و عریض تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا بڑی ریاست کو خود نہیں چلا سکتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی مدد کےلئے ، اسلامی مملکت کی حدود میں بہترین نظم و نسق قائم رکھنے کےلئے مقامی حکام مقرر فرمائے تھے، قرآن کریم نے ان مقامی حکام کو اولوالامر کے نام سے موسوم کیا ہے، اور قرآن نے ان کی اطاعت کو فرض قر ار دیا ہے ۔ (59۔4) اور ان کی اطاعت کو رسول اور اللہ کی اطاعت کے مترادف قرار دیا ہے، اسلامی ریاست میں اگر مدینہ سے دور کسی شہر یا کسی قریہ میں دوآدمیوں یا گروہوں کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوتا تھا تو وہ اپنے اس تنازعہ کو سلجھانے کے لئے مدینے نہیں آتے تھے بلکہ وہ فریقین مقامی اولوالا مر سے رجوع کرتے تھے، تو وہ مقامی اولوالا مران فریقین کے درمیان معاملات کا فیصلہ کردیتا تھا ،یہ فریقین اس فیصلہ کو اس طرح تسلیم کرتے تھے کہ وہ اس کو تسلیم کرنے میں کوئی گرانی محسوس نہیں کرتے تھے (65۔4) اولوالا مر کی اطاعت کو فرض قرار دینے سے تین نتائج بر آمد ہوتے ہیں، پہلا نتیجہ تو یہ برآمد ہوا کہ اس مملکت نے ایک نظام کی صورت اختیار کرلی اور ایک نظام کی اطاعت کا تصور بر آ مد ہوگیا۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ اب انسان کی حکومت انسان پر حرام قرار دے دی گئی اور اطاعت صرف نظام کی رہ گئی، اس کا تیسرا نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اطاعت کا عقیدہ ختم ہوگیا ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی Official, Founctional اطاعت کا نظریہ سامنے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اطاعت باقی نہیں رہی، او رنہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاکوئی ذاتی قول حجت رہا (159۔3)۔
اصل مقصود اطاعت خداوندی ہے، اللہ کی اطاعت رسول کی معرفت (80۔4) اور رسول کی اطاعت اولوالا مر کی معرفت (59۔4) ان تین کڑیوں کا سلسلہ قائم ہوگیا، اس سلسلہ کو نہ توڑ ا جاسکتا ہے ، اور نہ ہی اس سلسلہ کے علاوہ اطاعت خداوندی کا کوئی دوسرا طریقہ باقی رہا۔ اس موجودہ دور میں جب کہ اس دنیا میں کسی نہ تو وہ نظام قائم ہے اور نہی اولوالامر موجود ہیں، تو اس وقت پوری انسانیت اطاعت خداوندی سےمحروم ہے، باقی رہی یہ شریعت تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اسلامی حکومت کے جاری کردہ قوانین شریعت ہوتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ مسلمانوں پر روزے فرض کئے جاتے ہیں ( 183۔2) البتہ یہ رخصت دی گئی ہے کہ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ (184۔2)ترجمہ: تم میں سے کوئی مسافر ہو یا بیمار ہو تو اس پر ان گنتی ہے اور دنوں سے ۔ حضور نے مسافر او رمریض کی وضاحت کرکے یہ حکم اولوالامر کو بھیج دیا او رپورے ملک میں اولوالامر نےاس حکم کی اطاعت کروائی، ارشاد عالی ہوا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چور اور ہاتھ کی وضاحت ( Define) کردیا اور یہ حکم مقامی اولوالامر کو بھی ارسال کردیا۔ قرآن کریم نے نکاح کے لئے مہر کو شرط قرار دیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کی رقم مقرر فرما دی، اسلامی مملکت مسائل حیات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ جزئیات مقرر کرتی چلی گئی ، ان قوانین کی اطاعت، عبادت خداوندی ہوتی تھی ۔ جو تنازعات مقامی اولوالامر طے کرتے جارہے تھے، وہ آج کل کی اصطلاح میں ( Common Law) تھے، او ران کی اطاعت ہی عبادت خداوندی تھی، اس طرح سے جزئیات مقرر کرنے کےعمل سےآپ خود موجودہ شریعت کی پوزیشن سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری یہ موجودہ شریعت ،جو ملوکیت کے دور کی وضع کردہ ہے، اور جس میت کو ہمارے علماء کرام کندحوں پر اٹھائے اٹھائے پھر رہے ہیں۔ یہ اسلامی مملکت کے جاری کردہ قوانین نہیں ہیں ۔ اسلامی شریعت کی تو یہ شرط ہے کہ وہ اسلامی مملکت جاری کرتی ہے، بنو عباس، جن کی حکومت تقریباً 600 سال تک رہی اور جن کےدور میں یہ شریعت بنی ہے، وہ غیر اسلامی حکومت تھی بنو عباس کے خلفا ء بادشاہ تھے، وہ نہایت درجہ کے آوارہ ، بد چلن ، بدکردار اور بد سیرت تھے، ان خلفاء کے حرم میں دو دو تین تین ہزار عورتیں ہوتی تھیں۔ یہ قوانین ان کی حکومتوں نے جاری نہیں کئے تھے ، یہ تو علماء فقہا ء کی ذاتی آراء ہیں ۔ شریعت کا ایک بڑا حصہ اولوالامر کے فیصلے ہوتے ہیں، اولوالامر صرف اسلامی مملکت کے حکام ہوتےہیں، غیر اسلامی مملکت کے حکام اولوالامر نہیں ہوتے، اولوالامر کی تعریف یہ ہے کہ اگر ان کااو رعوام کا کسی فیصلے میں اختلاف ہوتو اس حکم کو اسلامی مملکت کے مرکز کی طرف لوٹا دیتے ہیں ۔ بنو عباس کےدور میں تو نہ اسلامی مملکت تھی او رنہ اسلامی مملکت کا مرکز، اس لئے وہ مقامی حکام اولوالامر نہیں ہوسکتے تھے۔ پھر دوسری اولوالامر کے لئے یہ بھی ہے کہ ومِنكُمْ ( 59۔4) ہوں یعنی تمہارے ہم عصر، تمہارہے سامنے موجود ہوں، ایک ہزار سال پہلے کے مقامی حکام کے واضع کردہ قوانین اس دور میں ہم پر نافذ نہیں کئے جاسکتے ۔ قرآن کریم نے مِنكُمْ کی شرط اس لئے رکھی ہے کہ اسلامی نظام کے اصول تو غیر متبدل رہیں گے، لیکن اس کی جزئیات ہر دور کے اولوالامر اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق بناتے چلے جائیں گے، شریعت نہ تو جامد ہوتی ہے اور نہ یہ ایک دن میں بنائی جاسکتی ہے، شریعت زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی خود کو ظاہر (Emerge) کرتی چلی جاتی ہے۔
حالات کے متعلق شریعت بدلنے کے سلسلے میں عرض ہے کہ آج سے 38 سال پہلے 1978ء کا واقعہ ہے کہ بھارت میں ایک خاتون شاہ بانو نام کی رہتی تھی ، ان کے شوہر پر محمد احمد ، چیف انجینئر تھے اور بڑی پوزیشن کے حامی تھے اس وقت جب کہ شاہ بانو کی عمر 62 سال کی تھی، اور ان کے پانچ بچے بھی تھے، ان کے شوہر محمد احمد نے ان کو طلاق دے دی، موجودہ شریعت میں یہ ہے کہ شوہر اپنی مطلقہ بیوی کو عدت کے دوران نان نفقہ ادا کرتا ہے، نان نفقہ مرد کی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے، شریعت کےمطابق عدت کے بعد پھر یہ شوہر اپنی مطلقہ کوکچھ نہیں دیتا اور وہ مطلقہ خاتون دھکے کھاتی پھرتی ہے، لیکن قرآن کریم میں عدت کی کوئی شرط نہیں ہے ، یہ شرط فقہا ء نے اپنی طرف سےعائد کردی ہے، کیونکہ قرآن میں تو یہ ہے وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ (241۔2) ترجمہ : او رطلاق دی ہوئی عورتوں کے واسطے قاعدہ کے مطابق خرچ دینا ہے،آیت میں تو صرف تین الفاظ ہیں کہ مطلقہ عورتوں کو دستور کے مطابق خرچ دینا ہے۔ اس آیت میں کسی جگہ بھی عدت کےعرصہ کی شرط نہیں عائد کی گئی ہے۔ جب تک وہ عورت زندہ ہے، اور اس پر مطلقہ کےلفظ کا اطلاق ہوتا ہے اس وقت تک شوہر پر لازم ہے کہ وہ اس مطلقہ کو نان و نفقہ دیتا رہے۔ آیت بہت واضح ہے، کوئی لفظ پیچیدہ نہیں ہے ، جس دور میں یہ موجودہ شریعت بنی تھی اس دور میں عورتوں کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا، اور مسلمان امراء و روساء آوارہ و بدچلن تھے اور وہ دھڑا دھڑ شادیاں کرتے تھے ان کےلئے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی مطلقہ کو ساری عمر خرچ دیں ۔ ہمارے علماء اور فقہا ء خود بھی شادیوں کے دلدادہ ہیں، لیکن عورتوں کے حقوق کےہمیشہ مخالف رہے ہیں، اس لئے ان فقہا ء نے اپنی طرف سے یہ عدت کی مدت کی شرط لگادی۔ جب شاہ بانو نے یہ مقدمہ عدالت میں اٹھایا تو عدالت نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ کردیا کیونکہ آیت بہت واضح ہے ، آپ غور فرمائیں کہ ہندو عدالت اور ہندو وکیل ، لیکن وہ اس اصل حقیقت تک پہنچ گئے جس حقیقت تک ہمارے علماء ڈیڑھ ہزار سال تک نہیں پہنچے ، عدالت نے تو قرآن خالص کےمطابق فیصلہ دے دیا لیکن حیرت ہے کہ ہمارے علماء اب تک بھی اس کو نہیں مانتے اور عدت کی شرط کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔لیکن ہندوستان کےعلماء نے شاہ بانو پر دباؤ (Pressure) ڈالا کہ ہندو عدالت کے فیصلے سے شریعت کو بدلنا مداخلت فی الدین ہے، اور غالباً انہوں نے وہ پورا کیس ہی واپس لے لیا۔یہ سارا مقدمہ بڑی تفصیل کے ساتھ You Tube پر موجود ہے۔ ہم نے صرف چندنکاتPoints)) وہاں سے لئے ہیں آپ اگر اس کیس کی تفصیل دیکھنا چاہیں تو وہاں دیکھ لیں، ہم نے اس مقدمے کی مثال اس لئے پیش خدمت کی ہے کہ فقہ آہستہ آہستہ وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نشو و نما ( Develop) پاتا ہے۔ اس وقت کا تقاضہ ہے کہ مطلقہ کو اس کی پوری زندگی خرچ دیا جائے اگر وہ شادی کرے تو پھر اسے خرچ دینا ضروری نہیں رہتا ۔
قرآن کریم مسلمانوں کے وضع کردہ اور غیر مسلموں کے وضع کردہ قوانین میں فرق کرتاہے، اس وقت ہندوستان میں وضع کردہ قانون اور سعودی عرب میں وضع کردہ قانون کی ایک ہی حیثیت ہے کیونکہ دونوں جگہ غیر اسلامی حکومتیں ہیں ۔ سعودی عرب اس ملوکیت کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں اسلامی حکومت نہیں ہے۔ انسانوں کا وضع کردہ قانون ، خواہ وہ مسلمانوں نے وضع کیا ہو، یا غیر مسلم لوگوں نے وضع کیا ہو، قرآن کے نزدیک اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں ، قرآن کریم اس قانون کو پسند ہی نہیں کرتا البتہ قرآن کریم صرف اسلامی مملکت کی طے کردہ جزئیات کو قانون شمار کرتا ہے ، اسلامی مملکت کی تعریف یہ ہے کہ اس مملکت کی اطاعت عبادت خداوندی ہوتی ہے اور وہ مملکت اللہ کے ان وعدوں کو پورا کرتی ہے جو اللہ نے قرآن میں کئے ہیں، صرف وہی حکومت اسلامی ہوتی ہے ۔ اس میں نہ تو پرستش ہوتی ہے اور نہ الگ پرستش گاہیں رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (129۔2)رسول ایسی مملکت قائم کرتا ہے جس میں کتاب وحکمت کی تعلیم او راس پر عمل کرنے سے ہر شہری کی مضمر صلاحتیں نشو و نما پالیتی ہیں ۔ اگر تمام شہریوں کی مضمر صلاحتیں نشو و نما پاکر معاشرے میں اپنا بہترین کردار مہیا (Contribution) کر رہی ہیں تو وہ اسلامی مملکت ہے ورنہ وہ اسلامی مملکت نہیں ، اسلامی مملکت کی خوبیاں اور اس کے ثمرات الگ الگ موضوع ہے جس کے لئے ایک الگ مضمون درکار ہے۔
اگست ، 2016 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: