New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 09:36 AM

Urdu Section ( 24 Feb 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Great communalists and Us- Part-2 (عظیم المرتبت فرقہ پرست اور ہم(قسط۔2

  

خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام

24 فروری، 2015

یہ ایک ایسا موڑ ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے مسلمان عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ اِن کے ملاوں نے بھرپور کوشش کے بعد ایسی ایک فضاء قائم کردی ہے جس میں سوائے مذہبی و مسلکی نفرت و حقارت کے کچھ باقی نہیں بچا۔المیہ یہ ہے کہ اطراف کی سیاسی و انتظامی اشرافیہ یہ جاننے سے قاصر ہے کہ اِن ملاوں نے معاشروں میں جو زہر گھولا ہے اس کا مداوا کیا ہے؟ صدیوں پرانی تاریخ اور روایات کے بارے میں زہر گھولنے کے اس عمل کو روک دینا شاید اب کارگر نہیں رہا اور اگر روک بھی دیا جائے تو یہ اس قدر پھیل چکا ہے کہ اس کے اثرات صدیوں تک اپنا کام کرتے رہیں گے۔پاکستان بھارت کے معروف مذہبی مدارس، اشاعت گھروں اور ملاوں کی پھیلائی ہوئی نفرت کا اندازہ لگانے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں،صرف اِن کی مطبوعات اور اِن کے گاہے بگاہے جاری کیے جانے والے ارشادات کا سرسری سا جائزہ بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ یہ سب کچھ ایک عام پڑھے لکھے معاشرے کے لیے کتنا مہلک ہے۔حیرانی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہمارے دانش ور حضرات اور حکومتیں یہ تلاش کرنا چاہتی ہیں کہ کہاں پر ایسا مواد پایا جاتا ہے جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ کسی دوسرے مذہب یا مسلک کے ماننے والے کو قتل کردینا چاہیے۔اس قسم کی براہ راست ہدایات عام دستیاب تقریری و تحریری مواد میں نہیں بلکہ کسی مخصوص ورادات کے لیے جانے والے قاتلوں سے تو مل سکتی ہیں۔ ہمارے ملاں اس قدر بھی دیوانے نہیں کہ وہ اپنی تحریروں اور تقاریر میں اس طرح کے براہ راست احکامات جاری کرتے پھریں۔جب ہمارے محترم ملاں اپنی کتب میں لکھتے ہیں کہ فلاں مسلک کا ماننے والا کائنات کا بدترین کافر ہے تو پھر باقی کیا رہتا ہے جس کی آج بھی اس لیے تلاش کی جاتی ہے کہ کہاں پر قتل کی براہ راست ہدایت ہے؟اگر ایک عام مسلمان کو جو مخلوط معاشرے کا باشندہ ہے دن میں پانچ بار اور خصوصی طور پر ہفتے میں ایک مقدس خطبے کے دوران یہ باور کرایا جائے کہ فلاں مسلک حقیقی اسلام کے لیے کتنا مہلک ہے اور پوری تاریخ میں اس مسلک کے ماننے والوں نے اسلام اور اسلامی شخصیات کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے، تو اس کا مطلب یہ نشاندہی ہے کہ اس مخصوص مسلک کے ماننے والے حقیقی اسلام اور اس کی سربلندی و بقاء کے لیے کس قدر مضر رساں ہیں۔ایک زبردست عالم دین اور شدید فرقہ پرست جو اپنے نام کے ساتھ سابق جج اور محقق بھی لکھتے ہیں اور برطانیہ میں تشریف رکھتے ہیں، وہ اپنی ایک عظیم تصنیف ’’عبقات‘‘ جس کو وہ اسلامک اکیڈیمی مانچسٹر کا ایک علمی تحفہ قرار دیتے ہیں۔ اس عظیم’’تحفے‘‘ میں ڈاکٹر علامہ خالد محمود رقمطراز ہیں کہ شیعہ پر کسی طور اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ برصغیر کے تمام غداران وطن شیعہ تھے اور مثالیں پیش کرتے ہوئے مذکورہ علامہ دعوی کرتے ہیں کہ میر جعفر اور میر صادق دونوں غلیظ شیعہ تھے اور اُنہوں نے اپنے تاریخی بغض اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کے دو عظیم سپہ سالاروں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کو شکست سے دوچار کیا۔علامہ خالد محمود اپنے بغض شیعہ کے اس قدر شکار ہیں کہ وہ ٹیپو سلطان اور اس کے والد حیدر علی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھتے۔یہ ایک بہت ہی نخیف و نزار مثال ہے شیعہ کے بارے میں پائے جانے والے تاریخی بغض کی۔اگر اس طرح کی نفرت انگیز مثالوں کو اکٹھا کرنے کا کام کیا جائے تو کئی لاکھ صفحات درکار ہوں گے۔

اگر محض ایسی مثالیں تلاش کی جائیں جن میں دوسرے مسالک کے لوگوں کے بارے میں حتی المقدور نفرت اُجاگر کی گئی ہے تو بھی لاکھوں کی تعداد میں صفحات درکار ہوں گے۔عظیم المرتبت حضرت شاہ ولی اللہ،اِن کے اُتنے ہی عظیم فرزند اور پھر تا حد نگاہ پھیلے ہوئے جیتے جاگتے سلسلہ نفرت میں کون ہے جس نے اپنا حصہ نہیں ڈالا؟ اس حمام میں سب ہی پوری قوت اور شدت کے ساتھ ننگے ہیں۔ ننگے ضرور ہیں لیکن مہلک اس سے بھی زیادہ ہیں۔اِنہوں نے مذہبی و مسلکی نفرت کی ایک ایسی اساطیرگھڑی ہے جس کے اثرات کو ختم کرنا شاید کسی کے بھی بس میں نہیں۔یہ سلسلہ نفرت اب پاکستان و بھارت کی تمام دینی درس گاہوں کا طرہ امتیاز ہے اور اب ہم اس کے انڈے بچے طالبان، جیش محمد، لشکر جھنگوی،سپاہ صحابہ اور اِن جیسی لاتعداد ہلاکت خیز مسلح تنظیموں کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔اِن کا کسی بھی میدان میں مقابلہ کرنے والا اب کوئی موجود نہیں۔وضاحتوں کے مارے ہوئے نیم خوابیدہ دانش ور اور معذرت خواہ قسم کے مسلمان ضرور موجود ہیں جو محض اظہار لاتعلقی کرسکتے ہیں یا ہلکی سی سرزنش کے علاوہ اِن کے پاس کچھ نہیں۔یہ معذرت خواہانہ انداز اور اظہار لاتعلقی کیا مسئلے کا حل ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

بنیادی طور پر معذرت خواہ قسم کے مسلمان اور محض چند مسلم علماء جو اپنے بعض ذاتی خیالات کے باعث علماء کے اکثریتی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں، انتہائی نخیف آواز میں یہ کہتے سنے جاسکتے ہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور نہ ہی کسی مختلف مکتبہ فکر کے انسان کو قتل کیا جاسکتا ہے یا حقارت کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔برصغیر میں ایسی دو مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جن میں سر فہرست بھارت کے معروف عالم دین مولانا وحید الدین خان اور پاکستان سے اپنی جان بچا کر بھاگے ہوئے علامہ جاوید غامدی۔دونوں کو اپنے ہی طبقہ علماء کی طرف سے شدید ترین نفرت اورحقارت کا سامنا ہے اور دونوں کے خیالات کے رد اور اِن پر لعن طعن کے لیے پاکستان بھارت میں فتاوی سے لبریز کتب شائع ہوچکی ہیں، جن میں دونوں کو بھٹکے ہوئے، اغیار کے ایجنٹ،قرآن و حدیث کے دشمن،اللہ و رسول کے گستاخ اور یہاں تک کہ منکر حدیث تک کے القابات سے نوازا جاچکا ہے۔اب دونوں مذکورہ حضرات کے مخاطب پاکستان بھارت کے دینی طبقات نہیں کیوں وہاں اِن کی بات سنے جانے کی گنجائش ختم کردی گئی ہے۔دونوں صاحبان رائے کے ممکنہ حلقہ اثر کو اکثریتی علماء نے انتہائی چابکدستی کے ساتھ ختم کردیا ہے کیوں کہ اِنہیں سے خدشہ لاحق ہے کہ اس طرح متبادل رائے میدان میں پہنچ جائے گی اور اِن کی صدیوں پرانی گرفت کو ختم کردے گی۔ لہذا اب مذکورہ بالا دو نوں حضرات کے مخاطب زیادہ تر وہی معذرت خواہ قسم کے مسلمان ہیں جنہیں خود اپنا ایمان سلامت ثابت کرنے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اکثریتی مسلمانوں کی محفلوں میں باآواز بلند دونوں حضرات سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کنویں کی آواز کنویں میں ہی جارہی ہے اس کا کوئی بیرونی سامع نہیں۔یہ تو ہمارے باقی ماندہ علماء اور اُن کی رائے سننے والوں کی حالت کا ایک مختصر بیان تھا۔ہم یہ مانتے ہیں کہ مولانا وحید الدین خان اور علامہ جاوید احمد غامدی ہمارے لیے غنیمت ہیں اور ہم اُن کے ہم اعتقاد ہیں اور اُن کے تصورات سے قطعی متفق ہیں ،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کیا اُن لاکھوں کروڑوں کی تعداد کے حامل علماء سے مکالمہ ممکن ہے جو براہ راست عمومی اذہان پر اثر انداز ہوتے ہیں اور معاشروں کو اپنی پوری قوت کے ساتھ گرفت میں لے چکے ہیں؟ (جاری ہے)

URL: https://newageislam.com/urdu-section/great-communalists-part-2/d/101662

 

Loading..

Loading..