خالد ظہیر
25 اپریل 2014
ایک ایسے وقت میں کہ جب مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے سنگین نتائج کی حامل ایک خبر نے ملک میں بے شمار لوگوں کے ایمان و یقین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔
چند دنوں قبل کم از کم چالیس اماموں کے ایک گروپ سمیت مذہبی علماء کی ایک بہت بڑی دھوکہ دہی کی خبر روزنامہ ڈان میں اور شائع ہوئی تھی جس کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر مختلف لوگوں کو جن میں کئی یتیم بچے اور بیوائیں بھی شامل تھیں، مضاربہ پر مبنی ایک مفروضہ اسلامی بینک کاری نظام میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے گمراہ کیا تھا۔ اس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ لوگوں میں یہ متضاد رجحان پیدا ہونے لگا ہے کہ وہی لوگ اکثر جھوٹ اور دھوکہ دہی اور فریب کاری میں ملوث ہوتے ہیں جوتقویٰ، پرہیزگاری اور مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔
وہ نام نہاد ایمان والے اس وجہ سے بے لگام اور بے فکر ہو کر دروغ گوئی اور دھوکہ دہی کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج زکوٰۃ وغیرہ جیسے مذہبی مناسک جو وہ ادا کرتے ہیں اس سے ان کے تمام گناہ ختم ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑی ان کی کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔
قرآن واضح طور پر ناطق ہے کہ خدا کا فیصلہ ارادے اور نیت کی بنیاد پر کئے جانے والے اعمال کی بنیاد پر مبنی ہوگا، کسی فرد کے ظاہری اعمال پر نہیں۔ لہٰذا خود کوئی جسمانی عمل نہیں بلکہ فعل کا مقصد اور عمل کا معیار ہی کسی نہ کسی طور پر فاعل کے لیے فیصلے پر اثر انداز ہو گا۔
اگر کوئی شخص مذہبی عمل یا نیک کام اس لئے کرتا ہے تا کہ اس سے اس کے اس گناہ کی تلافی ہو سکے جو اس نے کسی دوسرے انسان کو نقصان پہنچا کر کیا ہے یا پھر اس کا مقصد دکھاوا اور ریا کاری ہو تو خدا کی نظر میں ایسے عمل کی کوئی وقعت اور قدروقیمت نہیں ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ مذہبی علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اس امید میں بھی ہوتے ہیں کہ انہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شفاعت نصیب ہو گی جو کہ یقینا ان کے حق میں قبول بھی کر لی جائے گی۔ شفاعت کے اس تصور کی تردید سورة بقرہ میں تین مرتبہ کی گئی ہے۔ ‘‘اور اُس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (کسی ایسے شخص کی) کوئی سفارش قبول کی جائے گی (جسے اِذنِ اِلٰہی حاصل نہ ہوگا)۔ ۔ ۔ (2:48; 2:123; 2:254)’’
تاہم اس موقع پر صرف ایک استثناء ہو گا۔ قیامت کے دن کچھ خاص لوگوں کا ایک گروپ ہو گا جن کے دنیاوی اعمال اس قدر واضح نہیں ہوں گے کہ انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جا سکے اور اس صورت اللہ چند غیر معمولی افراد (انبیاء، اولیاء، شہداء اور صالحین) کو ان کے لئے سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ لیکن یہ رعایت ان لوگوں کےلیے نہیں ہوگی جو ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جنہیں خدا نے واضح طور پر حرام قرار دیا ہے مثلاً بیواؤں اور یتیموں کے حقوق کو غصب کرنا۔
یقینا یہ ہمارے لیے مطمئن ہونے کا موقع نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس امید پر دھوکہ دہی اور دغابازی کرنی چاہئے کہ کوئی ہمارے لئے آخرت میں سفارش کرے گا۔
مذہب کی نمائندگی کا دعوی کرنے والوں میں وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کے رجحان کی تیسری سب سے بڑی وجہ خود ان کا دعویٰ ہے۔
ان کا یہ ماننا ہے کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں لہٰذا وہ کسی بھی گناہ کا ارتکاب کر لیں وہ جہنم میں نہیں جائیں گے جبکہ ان دوسرے لوگوں کو جنہیں وہ کافر سمجھتے ہیں ضرور سزا ملے گی۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کا یہ طبقہ بھی انہیں افکار و نظریات کا شکار ہے جو بنی اسرائیل میں عام تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ وہ خدا کے چنے ہوئے لوگ ہیں لہٰذا ان پر کوئی عذاب نازل نہیں کیا جائے گا اور اگر ان پر کوئی عذاب آ بھی گیا تو وہ پائدار نہیں ہوگا بلکہ تھوڑے عرصے کے لئے ہو گا۔
انسان نحیف و ناتواں ہے اور کبھی کبھی شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ لیکن خدا جو نہایت مہربان اور رحمٰن و رحیم ہے صرف اسی صورت میں وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرے گا جب وہ اپنی غلطیوں اور گناہوں پر نادم ہو کر خدا کی بارگاہ میں استغفار کریں اور اس سے معافی طلب کریں۔ اسلام میں توبہ کا مطلب فوری طور اپنی غلطی کا احساس کرنا، معافی طلب کرنا اور اس بات کا عزم مصمم کرنا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا اور ایسی سے غلطی سے بچنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرے گا۔
بدقسمتی یہ ہےکہ جھوٹ کا جواز پیش کرنے کے لیے چند لوگ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ چند پیغمبروں نے بھی جھوٹ کا سہارا لیا تھا۔
اس سلسلے میں وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ جب انہوں نے تمام بتوں کو توڑ دیا تھا اور لوگوں سے اس بت سے پوچھنے کے لیے کہا جسے انہوں نے چھوڑ دیا تھا، اور حضرت یوسف کی زندگی سے وہ مثال پیش کرتے ہیں کہ جب ان کے ایک بھائی کے تھیلے سے اس مشتبہ شاہی برتن کے بجائے ایک عام برتن برآمد ہوا۔
یہ وہ کہانیاں ہیں جو لوگوں نے صرف اپنے جھوٹ کی تائید کے لیے قرآن کو صحیح معنوں میں سمجھے بغیر ہی پھیلا رکھے ہیں۔ ان دو نبیوں کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ پہلا معاملہ ضدی اور اڑیل لوگوں کو یہ احساس دلانے کا ایک مؤثر طریقہ تھا کہ ان کا نقطہ نظر کتنا بیوقوفانہ اور احمقانہ ہے جبکہ دوسرا معاملہ حضرت یوسف کا تھا کہ جنہیں اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنے کے لئے خدا کی بے مثال مدد حاصل تھی۔ ان دونوں معاملوں میں کچھ بھی غیر اخلاقی بات نہیں تھی۔
لوگ قرآن کا مطالعہ اگر کھلے ذہنوں کے ساتھ کریں، دوسروں کے افکار و نظریات پر کان دھریں اور ان کے تئیں رواداری اختیار کریں اور ہر اس بات پر دھیان نہ دیں جو دوسرے لوگ مذہب کے بارے میں کہتے ہیں تو ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر کہیں زیادہ بہتر صورت اختیار کر سکتا ہے۔
انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
خالد ظہیر ایک مذہبی اسکالر ہیں۔
ماخذ:
http://www.dawn.com/news/1102196/piety-and-cheating
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/piety-cheating/d/76753
URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/piety-cheating-/d/98014