خالد ظہیر
07فروری 2014
مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان مکالمہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اب تک مسلمانوں نے نسبتاً ایک محدود سطح پر مکالمات کا انعقاد کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر جو مسلمان مکالمات کرتے ہیں وہ مذہبی معاملات میں غیر مسلموں کے ساتھ دوری کو کم کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ انہیں مسلمان بنانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے اندر دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے اوپر تفوق پسندی کا ایک گہرا احساس سرایت کیا ہوا ہے۔ لہٰذا خلاصہ یہ کہ وہ مکالمات کے ذریعہ دوریاں ختم کرنا پسند نہیں کرتے۔
بہت سارے روایتی علماءاور مذہبی رہنماؤں کو ایسا لگتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ گفتگو کرنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ان میں سے کچھ کا تو یہ ماننا ہے کہ یہ مسائل تبھی حل ہو سکتے ہیں کہ یا تو جہاد کے ذریعہ غیر مسلم ممالک کو زیر کیا جائے یا انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے۔ تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء ان سے قربت اور آپسی اخوت پیدا کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ مکالمہ کو فوقیت نہیں دیتے۔ مزید یہ کہ ہمارے چند ہی علماء ایسے ہیں جو غیر مسلموں کے ساتھ کوئی سماجی ربط رکھتے ہیں۔ ان چند افراد میں بمشکل ہی کوئی ایسا ہوگا جو ان کے مذاہب کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھتا ہو تا کہ وہ ان کے نظریات کو ہمدردی کے ساتھ جان سکے اور سمجھ سکے۔ افسوس کی بات ہے کہ احساس برتری جس کی وجہ سے لوگ دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں، سب سے بڑی وہ وجہ ہے کہ جس کی بنیاد پر مسلمان غیر مسلموں کے قریب آنے میں سرگرم عمل نہیں ہیں۔
اس سلسلے میں میں دوسروں کے تعلق سے عام مسلمانوں کی سوچ میں چند تبدیلیوں کا مشورہ پیش کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ قرآنی آیات اور احادیث کا ایک حقیقی اور غیر جانبدار مطالعہ کریں جن کی بنیاد پر ان کے دلوں میں غیر مسلموں کے تعلق سے ایک حقیقی احترام کا تصور پیدا ہو گا، ایسی قرآنی آیات اور احادیث ہیں جن سے دوسروں کے احترام کی تاکید پیدا ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ کسی خاص زمانے اور سیاق و سباق کے ساتھ مخصوص ایسی آیات اور احادیث کی توضیح پیش کرنے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے جس سے ہو سکتا ہے کہ یہ تأثر پیدا ہو کہ غیر مسلم احترام کے قابل نہیں ہیں۔ اور ان مدارس میں جہاں علماء کو تربیت دی جاتی ہے دیگر مذاہب کی بھی تعلیمات دی جانی چاہیے تاکہ غیر مسلموں کے تئیں ان کے اندار مزید مصلحت آمیز رویہ فروغ دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ایک اور ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ غیر مسلموں کے ساتھ آپسی روابط پیدا کیے جا سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ غیر مسلم علماء کو اپنے مدارس میں ان کے اپنے اپنے مذاہب کی تعلیم دینے کے لیے مدعو کریں۔
مکالمہ اور گفتگو کے نام پر کچھ مسلم جماعتیں دیگر مذاہب کی تردید کرنے اور ان کا مذاق بنانے کا راستہ تلاش کرتی ہیں اور ان کی مذہبی کتابوں اور مذہب میں غلطیاں نکالتی ہیں۔ کچھ لوگ دسرے مذاہب کو کمتر دکھانے اور ان کا مذاق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور مکالمہ منعقد کرنے کے مقاصد میں سے ان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کا یہ رویہ مکالمہ اور مباحثہ کی اصل معنویت کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟ کیا ایسی کسی گفتگو کو مکالمہ کا نام دیا جا سکتا ہے یا یہ صرف ایک بین المذاہب حجت ہے؟
میری رائے یہ ہے کہ مکالمہ کا مقصد دلائل کے ذریعہ اپنے نظریات کو ایک مثبت انداز میں پیش کرنا اور دوسروں نے جو تنقید کی ہے یا جو سوالات اٹھائے ہیں اس کے جواب میں اپنا نظریہ پیش کرنا ہونا چاہیے۔ اور کس کا مذہب برتر ہے کہ یا کمتر ہے یہ مسئلہ افراد پر چھوڑ دیا جانا چاہیے تا کہ وہ اس کا فیصلہ اس مکالمے کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے حقائق کی بنیاد پر کر سکیں۔ براہ راست دوسروں کے نظریات کو نشانہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ قرآن کی اس آیت کا تقاضہ بھی یہی ہے: ‘‘(اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ۔ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔’’
مجھے یہ لگتا ہے کہ ان سوالات کے متعلق توضیح پیش کرنا ایک فطری بات ہے جو کسی اور نے دوسرے مذاہب کے تعلق سے اٹھایا ہو۔ تاہم ان سولات کا جواب ایک مہذب اور علمی انداز میں دیا جانا ضروری ہے۔ اگر ایک علمی انداز میں اختلافات پر گفتگو نہیں کی گئی تو بلا شبہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ اس سے وہ اپنی اہانت محسوس کریں گے اور ایسا ہونا حق بجانب ہے۔ اگر کسی کے مذہب کی توہین آمیز تردید کی جائے تو اس بات کی امید بہت کم ہے کہ وہ اس کے نظریات سے قریب ہو سکے جو اس کے مذہب کی توہین آمیز تردید کر رہا ہے۔ اور ایسے مکالموں سے مسلمانوں اور دوسروں کے درمیان بہتر روابط استوار کرنے میں واقعی کوئی مدد نہیں ملے گی۔
اجتماعی طور پر مسلمان صرف بین المذاہب مکالمہ کے شعبہ میں ہی جمود و تعطل کا شکار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ خود اپنے درمیان بھی مختلف مکاتب فکر کے درمیان گفتگو کو فروغ دینے کے لیے بمشکل ہی کوئی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ قرآن خود مسلمانوں کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم رکھنے کی پرزور تاکید کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اگر چہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جسے مسلمان بکثرت پڑھتے ہیں لیکن پھر بھی اس کتاب کو اس حیثیت سے نہیں پڑھا گیا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے مکمل طور پر قطعی مذہبی اتھاریٹی دی گئی ہے۔ روایتی مسلمانوں کی عملی زندگی میں فرقہ واریت پر مبنی ان کتابوں اور احادیث کو قرآن سے بھی اہم مقام حاصل ہے جو کہ کسی ایک فرقہ کے نظریات کی تائید کرتی ہیں۔
ایسے حالات اس لیے پیدا ہو گئے کہ مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن کو براہ راست سمجھنا ایک مشکل ترین امر ہے اسی لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے انہیں اپنے علماء اور احادیث سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک مسلم علماء اور عقلمند عوام یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ تمام مذہبی معاملات میں قرآن ہی ان کے لیے ایک آخری پیمانہ ہے تو اس وقت تک مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ایک مناسب ربط پیدا کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔
آج کے موجودہ حالات میں جب کہ مسلموں اور دوسروں کے تعلق سے جاری تشدد کی وجہ سے جنہیں اکثر اسلام کے نام پر انجام دیا جاتا ہے مسلمانوں کی کافی رسوائی ہو چکی ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو مکالمہ اور مباحثہ میں مشغول ہونے کی سخت ضرورت کا احساس ہو چکا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے یہ ایک موزوں وقت ہے کہ وہ اپنے مذہبی افکار و نظریات میں اصلاح کا عمل شروع کریں۔
میں مسلم مفکرین میں ایک ساتھ تین قسم کے رجحانات کا مشاہدہ کر سکتا ہوں: مذہب سے ایک پریشان کن تحریک دور ہے؛ مذہبی انتہاء پسندوں کے لیے اسی طرح کا ایک پریشان کن رجحان؛ اور اس بات کا احساس کہ اسلام کو مناسب طریقہ سے سمجھا جانا ضروری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تیسرا رجحان متأثر کن ہوگا بشرطیکہ نقد و نظر کی ذہنیت کے حامل مسلم مفکرین ان چند علماء کی کوششوں کو اپنی پوری حمایت سے نوازیں جو مسلمانوں کو قرآن کی روشنی میں اسلام سمجھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
خالد ظہیر پاکستان کے ایک مشہور اسکالر ہیں جو کہ فی الحال برطانیہ میں قیام پذیر ہیں۔ وہ برطانیہ کی ایک غیر سیاسی رجسٹرڈ تنظیم سے Understanding Islam UK سے منسلک ہیں جس کا مقصد قرآن و حدیث جیسے دو مستند مصادر پر مبنی اسلام کے غیر فرقہ وارانہ، پر امن اور معتدل پیغام کو پھیلانا ہے۔ UIUK سے منسلک ہونے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب (پاکستان) میں فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین اور ایک پاکستانی تنظیم ایجوکیشن المورد کے ڈائریکٹر تھے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/interfaith-dialogue/muslims-dialogue-between-people-different/d/35633
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-dialogue-/d/35694