خالد شیخ
07جون، 2012
یہ ان دنو ں کی بات ہے جب
ہم برسر ملازمت تھے۔ حیدر آباد آفس کے ایک ساتھی ہم سے ملنے آئے اور بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ کے
علاج کی غرض سے ممبئی آئے ہیں جن کا چند دنوں آپریشن ہونے والا ہے اس لئے خون کی
ضرورت پڑے گی۔ ہم نے اُنہیں بتایا کہ آفس
میں خون کا عطیہ دینے والوں کی فہرست موجود
ہے اور سامنے ریڈکراس کا بلڈ بینک ہے جہاں
سے مطلوبہ گروپ اور مقدار میں خون مل جائے گا۔ انہوں نے ہامی بھرلی لیکن یہ شرط لگائی
کہ خون مسلمان کا ہونا چاہئے ۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ یہ ممکن نہیں ہوگا۔ خون دینے والوں میں ہر رنگ ومذہب کے لوگ ہوتے ہیں
اور خون کے استعمال میں رنگ ومذہب کی تمیز کا رواج دنیا بھر میں نہیں ہے۔ غالباً ہمارے ساتھی یہ چاہتے تھے کہ کچھ مسلم ملازمین
اسپتال جاکر خون کا عطیہ دیں۔ اگر ایسا ہوتا
تو اچھی بات تھی لیکن چھان بین پر پتہ چلا کہ بہت کم مسلمان اس کا رخیرمیں حصہ لیتے
ہیں ۔ بہر حال ہمارے ساتھی کی شرط نے ہمیں فکر مند کردیا ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں
جب دنیا ایک بڑے کنبے میں تبدیل ہوچکی ہے اِس طرح کی تفریق زیب دیتی ہے نہ ہی اسلام
اِس تنگ نظری کی اجازت دیتا ہے۔
‘نو گیارہ’ ( نائن الیون ) کے بعد اسلام مخالف پروپیگنڈے میں جو شدت
آئی ہے اور جس طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ، ہم اپنی نادانی سے اُنہیں صحیح
ثابت کرنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ ہماری بعض حرکتوں
کی وجہ سے دنیا کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ تکثیر ی معاشرے کیلئے اسلام غیر موزوں
مذہب ہے جو دوسروں کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اُن
سےالگ تھلگ رکھنا چاہتا ہے۔ یہ سچ نہیں بلکہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ آج قوموں او
رمذاہب کے درمیان جس تال میل کی ضرورت ہے، دشمنان اسلام ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو
اُس سے دور رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں اس صاف
گوئی کے لئے معاف کیا جائے لیکن اِس صورت حال کیلئے ہم بھی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں
۔ خود ہی سوچئے کیا ہمارا طرز زندگی کسی بھی
زاویئے سے اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نظر آتا ہے ۔ کتنی برائیاں اور خرابیاں ہم میں
پائی جاتی ہیں ۔ خود کو یہ کہہ کر دلاسہ دینا کہ برائیاں تو اوروں میں بھی پائی جاتی
ہیں، خود فریبی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو برائیاں اوروں میں ہیں اُن سے کہیں زیادہ ہم
میں موجود ہیں۔ ہماری بگڑی ہوئی زندگی اور معاشرت اُس کی کھلی کتاب کی مانند ہے جسے
ایک غیر مسلم ہمہ وقت ہر جگہ پڑھتا ہے ، دیکھتا ہے اور سُنتا ہے ۔ آج مسلمانوں کو
دیکھ کر کسی غیر مسلم کے دل میں اسلام کا داعیہ پیدا نہیں ہوتا ۔ ایک زمانہ تھا جب
‘ون وے ٹریفک’ کی طرح ‘غیر مسلم’ اسلام میں جوق درجوق داخل ہوتے تھے ۔ آج گنگا اُلٹی
بہہ رہی ہے خود وطن عزیز میں مسلمان تبدیلیٔ مذہب کا شکار ہورہے ہیں۔غیر مسلموں کا
ذکر چھوڑ ئیے ،کیا ہمارے اپنے درمیان ایسے لوگ موجود نہیں جو بعض اختلاف کی بنیاد پر
بھائی بندوں سے رشتہ توڑ لیتے ہیں؟ کسی بھی مذہب کو نقصان پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ
اُس کے ماننے والوں کاہوتا ہے ۔ اسلام اِس کلّیے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔اسلام ایک عالمگیر
مذہب اور دین رحمت ہے جس کا مشن نوع انسانی کی فلاح و بہبود ہے۔ اِس مشن کو اُس وقت کا
میابی مل سکتی ہے جب الگ تھلگ رہنے کے بجائے
ہم محبت ،شفقت ، رحمت اور شرافت کا پیکر بن کر اپنی افادیت کو عام کریں ۔ بد قسمتی
سے ایسا نہیں ہورہا ہے۔
اب آئیے نفس مضمون کی طرف۔ اِس کا سبب وہ فون کال بنا جو 2ہفتہ قبل ہمارے ایک
شناسا سے موصول ہوا تھا۔ اُن کی بیٹی آسٹریلیا
میں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہے۔ اُس کی ایک
رشتے دار کے دونوں گردے بیکار ہوچکے ہیں اور نوبت ڈائیلسس سے ٹرانسپلانٹ تک آ پہنچی
ہے۔ ہمارے شناسا یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا مریضہ کا کوئی رشتے دار جس کے دونوں گردے
سلامت ہوں، ایک گردہ عطیہ کرسکتا ہے۔ہم نے اُنہیں بتایا کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔
علما کا ایک بڑا طبقہ اس کا قائل ہے کہ جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے جس میں تصرّف کی
اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اُس طبقے کی دلیل
یہ بھی ہے کہ مذہب ہی نہیں قانون بھی آپ کو اپنے جسم کا مالک قرار نہیں دیتا ہے ورنہ
خود کشی اور جسم فروشی قانوناً جرم قرار نہ پاتی
ہم نے یہ تصریح بھی کی کہ علما کا جو طبقہ اعضا کی پیوند کاری کا حامی ہے اُن
میں ایک بڑا نام مصر کے مشہور عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کا ہے جو عالم اسلام میں
قدرومنزلت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور جن کی آرا کو احترام و اجتہا د کا درجہ حاصل
ہے۔انہوں نے اپنے ایک مضمون ‘‘اعضا کی پیوند
کاری ۔ شرعی نقطہ ٔنظر’’ (مطبوعہ ماہنامہ زندگی 9فروری 2007) میں خون اور گردے کے عطیے
کو شرعاً جائز او رقابل ستائش بتایا ہے ۔ وہ
کہتے ہیں کہ اسلام میں صدقہ صرف مال وزر تک محدود نہیں ،خیر کا ہر کام صدقہ ہے اِس
لئے کسی کی جان بچانے کی غرض سے خون یا کسی ایسے عضو کا عطیہ جس سے خود کو نقصان پہنچنے
کا اندیشہ نہ ہو اعلیٰ وافضل ترین صدقہ او رنیکی ہے اور ہر عاقل وبالغ اور مکلّف شخص
کیلئے جائز ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس طرح مال کا صدقہ غیر مسلمو ں کیلئے جائز ہے۔
اُس طرح خون اور عضو کا عطیہ بھی اُن کیلئے جائز ہے لیکن ان کی خرید وفروخت ممنوع ہے۔ انہوں نے یہ بھی صراحت کی کہ جسم کے ظاہری اعضا
مثلاً آنکھ، ہاتھ اور پیر کی خیرات جائز نہیں
جس سے عطیہ دہندہ کو یقینی طور پر نقصان پہنچے گا، اُس کی ذات کا فیضان رک جائے گا
اور شکل وصورت بگڑ جائے گی۔
آج کل بعد از موت اعضا کا
عطیہ دینے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے ، علامہ قرضاوی نے اُس پر بھی خامہ فرسائی کی ہے
اور اُسے اِس بنیاد پر جائز قرار دیا ہے کہ مرنے کے بعد اعضا کے عطیہ وخیرات سے دوسروں
کو خالص فائدہ پہنچتا ہے ۔اور صاحب خیر کو نقصان کا احتمال نہیں ہوتا کیونکہ کچھ دنوں
بعد جسم تحلیل ہوکر مٹی میں مل جاتا ہے ۔ انہوں نے یہ توجیہہ پیش کی ہے کہ اگر زندگی
میں جہاں نقصان کا احتمال موجود ہے اعضا کا عطیہ وخیرات جائز ہے تو مرنے کے بعد اعضا کی وصیت میں ممانعت نہیں
ہونی چاہئے ۔ توجیہہ کے پہلے حصے سے بہت سو ں کواتفاق ہوگا۔ اسلام میں انسانی جان کی
جو قدر وقیمت ہے، اُس کی رُو سے کسی کی جان بچانے کیلئے گردے کا عطیہ جائز او رمصباح
ہوگا لیکن توجیہہ کے دوسرے حصے پر اکثر لوگ معترض ہوں گے ۔ وجہ ظاہر ہے۔ اسلام میں انسانی جان کی طرح لاش کی حرمت کو مساوی
درجہ حاصل ہے۔ حتیٰ کہ جنگ کے موقع پر بھی
دشمنوں کی لاش کا مُثلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
جیتے جی خون اور گرُدے کے عطیے کی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن مرنے کے بعد اُس
جسم کے حصے بخرے کرنے کے تصوّر سے ہی وحشت ہوتی ہے۔ ایک شخص کا انتقال ہوتا ہے، اُس
کے گھر والے اور عزیز واقارب سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں ادھر آنکھیں ،دل جگر اور گردے
نکالنے والا اسٹاف آلات سے لیس لاش کی چیر پھاڑ کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ کیا انسانیت کا یہی تقاضا ہے؟
جس طرح لاش کے پاس اُس کا
اپنا کیا بچے گا ؟ یہ ایک نازک موضوع اور سنگین مسئلہ ہے جس پر معاشرے میں گفتگو بھی
ہونی چاہئے اور اکابرین کو اس سلسلے میں ملت کی رہنمائی بھی کرنی چاہئے۔
07جون 2012 بشکریہ : انقلاب
، نئی دہلی
URL
for English article: http://www.newageislam.com/muslims-and-islamophobia/by-khalid-shaikh,-tr.-new-age-islam/muslims-fomenting-islamophobia--the-issue-of-donation-of-blood-and-organs/d/7791
URL: