خلیل احمد خلش
میں خوش ہوں میرے آنسوؤں پر نہ
میں تو دیوانہ ، دیوانہ، دیوانہ
دیکھیں آپ نے کانگریس کی ادائیں ؟ الیکشن سے پہلے وہ مسلمان کو کس طرح لبھارہی تھی اور اب وہ کس طرح مسلمان سے آنکھیں چرارہی ہے۔ مسلمان تو اس کا پرانا عاشق ہے ،وہ اس سے ناراض ضرو ر تھا مگردشمن ہر گز نہیں اس باراس نے پھر کچھ ایسی ادائیں دکھائیں پھر کچھ ایسا چکر چلایا کہ پھر وہ اس کے چکر میں آگیا اور پھر دھوکا کھا گیا اور ایسا کہ بڑے بڑے بدھی جیوی بڑے بڑے دانشور چکر کھا گئے اورکہنے لگے ’’یہ کیا ہوا‘‘ کیسے ہوا کیوں ہوا مسلمان تو کہہ رہا تھا کہ ’’تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی‘‘ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ‘‘ اور جب کانگریس کی جادوگری پرچہ می گوئیاں شروع ہوئیں،کانگریس اور مسلمان کے تعلقات کا چرچہ ہواء دودہائیوں سے مسلمان کی دوریوں ،مجبوریوں اور تنائیوں پر قیاس آرائیاں ہونے لگیں اور پھر اچانک مسلمان پر ترس کھانے اور قریب آجانے کی باتیں ہوئیں اور پھر ایک ’’ملن کی تقریب‘‘ منعقد ہوئی اور پھر اس تقریب میں ایک فلک شکاف نعرہ کہیں سے گونجا ‘‘۔ جے مسلمان ہوگیا کام‘‘ توہماری زبان پر بھی بے اختیار ایک فلمی نغمہ مچلنے لگا ’’سوسال پہلے مجھے تم سے پیار تھا آج بھی ہے ’’کل بھی رہے گا‘‘ لیکن جب ملن اور ’’پیار بانٹنے ‘‘کا آخری مرحلہ آیا یعنی یکم جون کو پیار کے رنیول یعنی تجدید کا موقع ایک اور فائنل جشن میں آیا جس کا مسلمان بے چینی سے انتظارکررہا تھا تو اس کا منظر ٹی وی پر دیکھ کر اوراس کے قصے اخباروں میں پڑھ کر اور کانگریس کا ’’ہاتھ‘‘مسلمان کے ہاتھ میں دیکھ کر جو خوشی سے ہمارادل بلیوں اچھلنے لگا تھا،وہ دل اسی کے فائنل جشن یعنی حکم جون کو بیٹھنے لگا اور بیٹھے بیٹھے ہمارسرچکر انے لگا اور ہمیں ایک فلمی نغمہ بھی پھر یادآنے لگا جب الیکشن کی ہما ہمیوں اور گہما گہمیوں کے دوران کانگریس کے ’’منیجروں ‘‘ کی مسلمان کے تعلق سے سرگرمیوں کو دیکھ کر یاد آنے لگا تھا یعنی سرجو ترا چکرائے یادل ڈوبا جائے ، آجا پیارے پاس ہمارے کاہے گھبرائے ۔ کاہے گھبرائے ۔
اور اب نئے منظروں کو دیکھ کر کانگریس کے ساتھ کئی نوجوان خوبرو چہروں کو دیکھ کر ، کانگریس کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیکھ کر ہمارا دل بھی بہت گھبرارہا ہے اور اس وقت ہمیں چچا غالب کا یہ شعر بھی شدت سے یاد آرہا ہے۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
اور اس کے ساتھ ہی یہ فلمی نغمہ بھی ہم نے جفا سیکھی ان کو وفانہ آئی ۔ پتھر سے دل لگایا اور دل پہ چوٹ کھائی.......اب ہم کانگریس کی برسوں کی بے وفائی وبے اعتنائی بے رحمی اور دی ہوئی چوٹوں اور زخموں کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ یہ سب کچھ آپ اپنے ملک اور بیرون ملک کے کہانی کاروں سے پڑھ اور سن چکے ہیں۔ پھر عشق کی یہ المناک داستان سنانے کے لیے ، درد کا قصہ بتانے کے لیے ناہمارے پاس مناسب الفاظ ہیں اور نہ ر ونے کے لئے آنسوں اس لیے کہ اب تو ہم ’’اپنے آنسوؤں کو رورہے ہیں ناجانے کہا کھوگئے ہیں....پھر یہ بیمار کا قلم ہے علالت بھی مانع ہے اور اگر کچھ زیادہ اس معاملہ پر خامہ فرسائی کی کوشش کریں گے تو ڈر یہ بھی ہے کہ کہیں آپ کی طبیعت بھی خراب نہ ہوجائے اور........
جی! ہم نے محسوس کیا کہ اس ’’نئے ملن‘‘ کے بعد کانگریس نے ندامت بھری نیچی نگاہ سے مسلمان کی سچی پکی محبت کا ایک بار پھر اعتراف کیا ہے اور اشارہ دیا ہے اے مسلمان ، اے مہربان میں تجھ پر جی جان سے قربان تو اب خفانہ ہونا اب بالکل نہ گھبرانا میں اب کلی طور پر صحت یاب ہوگئی ہوں تجھ سے ملاقاتوں کے لیے ، جی بھر کے باتوں کے لیے تیار ہوگئی ہوں۔ میں بستر مرگ پر تھی ، موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا تھی، مرتے مرتے بچی ہوں اور اس صحت یابی کی وجہ تیری دعائیں اور ’’دوائیں ‘‘ہی تھیں۔ گرو اب بھی پھنسی ہوئی میری کشتی ،حیاتکو تونے ہی سہارا دیا، تیرے ہی حوصلوں کے پتواروں سے مجھے سہارے ملے، کافی تک درد اور جستجو کے بعد کنارے ملے ......ہاں میں مجبور تھی ،غموں سے چور تھی اس لیے تجھ سے دور تھی بس سمجھ لے کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا ۔ ہاں بھول جاجو کچھ ہوا جس کی وجہ سے ہوا سب بھول جا ’’نامہ بری‘‘ کا سلسلہ تو جاری رہے گا ہی پرانے نامہ پر پیام برجعلساز تھے دغاباز تھے بلکہ سراغ رساں تھے، پرانوں کی چھٹی کراکے میں نے اپنے ’’دربار خاص‘‘ میں پانچ نئے نامہ بروں کا تقرر کرایا ہے۔ یہ بہت مخلص اور سمجھ دار ہیں، پیام بری میں بہت ہوشیارہیں۔اب کوئی گڑ بڑ گھٹالا نہیں ہوگا،جھوٹوں کا منہ کالا ہوگا اورتمہاری اینٹری آسان ہوجائے گی، اب تمہارے ،رقبیوں کی خیر نہیں ۔ اب سچا سچر کی سچی اور اچھی باتوں کا کھلاسہ ’’(خلاصہ) ہوگا اور جنہوں نے تمہارے ہمارے راستے میں کانٹے بچھائے ، ہمارے دل دکھائے ان کا منہ کالا ہوگا۔ اب امیدوں کی ایک نئی سحر نمودار ہوگی، امنگوں کا خورشید طلوع ہوگا جو تمہیں ستائے جانے کی تلافی کرے گا، امید وں کی نئی روشنی دے گا۔ اب ہمارا ہردن عید اور ہر رات شب برأت ہوگی بس جو کچھ ہوا اسے بھول جا،بھول جا، اب خوشی سے پھول جا ،نئی صبح کا انتظار کر کیوں کہ انتظار میں ہی لذت ہے ۔ پھر تو تومسلمان ہے جانتا ہے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے تجھے میری مجبوریوں کا کیا پتہ اس لیے اسے اے میرے محبوب ! مجھ سے وہ پہلی سی محبت نہ مانگ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ ہاں ایک بات سن لے غور سے سن لے میری مجبوریوں کو جان لے اور اس حقیقت کو مان لے کہ میرے پریوار میں ایک اور چچا ہیں، بہت ہی مخلص اورمشفق بزرگ ہیں کہ بڑے بھولے اور بھلے آدمی ہیں۔ بڑی من موہک باتیں کرتے ہیں اسی لیے بچے بوڑھے اور جوان سبھی ان پر مرتے ہیں وہ ہمارے تمہارے معاملات سلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہماری سچی اور پاکیزہ محبت کی قدر کرتے ہیں ،انہوں نے ہمیں تمہیں ملانے کے لیے بگڑی بات بنانے کے لیے بہت جتن کئے اور وہ اب اس معاملہ میں بہت سنجیدہ ہیں اورتمہیں راحت کی سانس دلانے کے لیے چچا ’’سچر‘‘ کے مشوروں پر عمل کرنے کے لئے کچھ اور سمجھ دار لوگوں سے مشورہ کیا ہے اور اس کے لیے ایک پنچایت بھی بٹھادی ہے اور اب بہت جلد تمہارے درد کا ورمان ہوجائے گا سارے معاملات تھک جائیں گے۔
جب ہم نے معتبر ذرائع سے یہ سنا تو ہمیں کانگریس کی بے بسی اور لاچار گی پر بھی بڑاترسآیا اور بے ساختہ ہماری زبان پر یہ شعر آیا۔
ہائے رے انسان کی مجبوریاں
پاس رہ کر بھی ہیں کتنی دوریاں
لیکن جب ایک اور معتبر ذریعہ سے یہ رپورٹ آئی کہ مسلمان کی بے چینی دور کرنے کے لیے جو پہلا ایکشن پلان سودن کے ایجنڈے کے نام پر بنایا گیا ہے اس میں مسلمان کے کسی مسئلے کسی بھی الجھن کا ذکر تک نہ آیا اور نہ ہی چچا ’’سچر‘‘ کی تجاویز گفتگو کا موضوع بنی یہ سن کر ہمارے طبیعت پھر گھبرا ئی اور ہماری زبان پر ایک بار پھر یہ بات آئی ۔ قسمیں وعدے پیار وفا سب باتیں ہیں باتوں کا کیا کوئی نہیں ہے یہاں کسی کا ناطے ہیں ناتوں کا کیا۔
اب ان سب باتوں کو لے کر ہمارے دل میں بھی ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔خدشات ،تفکرات اور وسوسوں کے پہلو ان اہم متصادم ہیں اور اس وقت جب ہم اس کاغذپراپنے دل کا درداتار رہے ہیں تو ہمارے کانوں میں ایک نغمے کے یہ بول بھی گونج رہے ہیں ہم نے جب گلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا....جی ہاں! ہمارا کنفیوژن برقرار ہے دل ان حالات میں بے حد بیقرار ہے اور اس وقت کئی فلمی نغمے ٹکرارہے ہیں اور بے بسی میں ہم انہی سے دل کو بہلارہے ہیں جیسے کبھی یہ کہ کسی کے دل میں رہنا تھا تو میرے دل میں کیوں آئے ...بسائی تھی کوئی محفل تواس محفل میں کیوں آئے ....یا یہ خواب ہویا تم کو کوئی حقیقت کون ہوتم بتلاؤ ۔اور کبھی یاہ کہیں دیپ جلے کہیں دل .....اور کبھی گھبراہٹ میں بوکھلاہٹ میں یہ کہ تجھے زندگی کے اجالے مبارک اندھیرے ہمیں راس آہی گئے ہیں۔
اور ’’اندھیر ‘‘ اور ’’اندھیروں‘‘ کا جب خیال آتا ہے تو ہمارا تصور ہمیں ایک بار پھر ماضی کی طرف لے جاتا ہے اور یہ نغمہ ہماری سماعت سے ٹکراتا ہے ۔ بڑی مشکل سے دل کی بیقراری کو قرار آیا:کہ جس ظالم نے تڑپا یا اسی پر مجھ کو پیار آیا.....اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پیار دیوانہ ہوتا ہے ،مستانہ ہوتا ہے: ہر خوشی سے ہر غم سے بیگانہ ہوگا ہے۔ اور جو پیار میں دیوانہ ہوتا ہے بے خودی میں یہی بڑ بڑاتا ہے۔ ہم بے خودی میں تم کو پکار ے چلے گئے.....یا کبھی آس وپاس کی کشمکش میں یہ کہ تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے۔اور بھی یہ کہ ہم تم سے محبت کر کے صنم روتے بھی ہنستے بھی بھی رہے اور یہ بھی کہ آوارہ ہوں کردش میں آسمان کا تاروہوں اور کبھی یہ ہم تم سے جدا ہوکے مرجائیں گے روروکے۔
آہ !مسلمان بے چارہ غموں کا مارا کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے کیسی مضحکہ خیز حالت ہے اس کی ۔آخر اس دیوانگی کا کیا علاج؟اتنی جفاء اتنی سزا، اتنی بے وفائی کے باوجود ومایوس اب بھی نہیں ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے عشق والے تو خدا ئی بھی لٹادیتے ہیں اس لیے وہ ہر ظلم ، ہر جبرو ستم پر یہی گنگنا تا ہے۔ ہم پیار کا سودہ کرتے ہیں ایکبارچاہے مرجائیں ،چاہے مٹ جائیں ہم اس لیے کہ مسلمان کا پیار سچا اور پکا ہوتا ہے اور وہ جب بھی کانگریس سے مایوس ہوتا ہے تو یہ بھی نغمہ گنگنا نے لگتا ہے کہ یہ دنیا اسی کی زمانہ اسی کا محبت میں جو ہوگیا ہو کسی کا۔
بے شک مسلمان کے لیے مایوسی کفر ہے ۔ وہ مایوس نہیں ہے اس لیے کبھی کبھی وہ حالات کی سختیوں سے ناکام محبت کی بدبختیوں سے پریشان ہوجاتا ہے تو ہو دیوانہ وار پھر کانگریس کے آستانے پر پہنچ جاتا ہے اور آواز لگاتا ہے ۔ جینا یہاں مرنا یہاں ....اس کے سوا جانا کہاں....اور ساتھ ہی یہ بھی گاتا ہے کہ ۔گاتا رہے میرا دل تو ہی میری منزل
لہٰذا مسلمان آج بھی نفرتوں اور طوفانوں کے بیچ گھرکر بھی ہزاروں بار دھوکہ کھانے کے بعد اب بھی کانگریس سے پر امیدہے اوراب بھی بہاروں کے نغمے گاررہاہے جیسے کبھی تو ملے گی بہاروں کی منزل راہی ....اور ساتھ ہی یہ بھی تم ہمیں بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے۔
تودیکھا آپ نے مسلمان کا پیار ؟ اسے ہی تو کہتے ہیں عشق محبت اسی کا نام ہے کہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے اور چچا غالب بھی فرماگئے ہیں ۔ عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب: کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔
کہا جارہا ہے کہ وقت نے کروٹ بدلی ہے، حالات بدلے ہیں ، کانگریس بھی بدل گئی ہے اور مسلمان کو ،،نئی سحر‘‘ کے سپنے دکھائے جارہے ہیں اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اب کانگریس پر یوار کے لوگ اور نئے میسنجرز بھی یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ۔دھل چکی شام غم مسکرائے صنم اک نئی صبح دنیا میں آنے کو ہے .....اور یہ کہ نہ سرچھپاکے جیو نہ سرجھکاکے جیو : غموں کا دور بھی آئے تو مسکراکے جیو۔
کاش ایسا ہی ہو ۔مسلمان نے کانگریس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا ،ہاتھ کے ساتھ کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں لیکن کانگریس نے ہی ہاتھ کھینچ لیا،خود ہی اس کا ہاتھ چھوڑ دیا، پیار بھرا دل توڑ دیا۔اب کچھ نظر گرم برسوں بعد ہوئی تھی تو حوصلہ بڑھا تھا لیکن اچانک کچھ رقیبوں نے پھر رخنہ ڈال دیا، پھر مایوسیوں کی آندھی چلی مگر باہمت حوصلہ مند مسلمان ٹس سے مس نہ ہوااوراب بھی وہ پیار کے نغمے گارہا ہے اور یہی گنگنا رہا ہے۔ میں خوش ہوں میرے آنسوؤں پہ نہ جانا میں تو دیوانہ ،دیوانہ.....اور یہ بھی کہ
زندگی بھر یہی اقرار کئے جائیں گے
ہم تمہارے ہیں تمہیں پیار کئے جائیں گے
بے شک ناامیدی کفر ہے ۔خدا اس محبت کا انجام بخیر کرے ۔کانگریس اور مسلمان دونوں کو رقیب اور رفیق شناسی کی توفیق عطا فرمائے اور”بچولیوں ‘’ کو نیک ہدایت دے کر محبت کا یہ گھر نہ اجڑے۔یہ گلشن آباد رہے ، گھر کا ہر مکیں شاد رہے ۔(آمین(
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/despair-un-islamic-/d/1527