New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 03:11 PM

Urdu Section ( 24 Apr 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Faith, Fanaticism and Jihad مذہب، تعصب اور جہاد

 

قاضی ودود نواز، نیو ایج اسلام

22 اپریل 2014

ایمان کے ان بنیادی عناصر پر ایک گہری نظر ڈالنے سے ایک سچے مسلمان کے مقصد حیات کا پتہ چلتا ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی ان فرائض اور ذمہ داریوں کا آئینہ دار  ہے جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی متوازن اور اس اخلاقی نظام کے مطابق ہوتی ہے جو قرآن پاک نے متعین کیا ہے۔ اور توازن کےان حدود سے ذرا سا بھی تجاوز اسلام کی نظر میں ایک قابل سزا جرم ہے۔

ایک مسلمان کا ان عناصر کے ساتھ جذباتی لگاؤ ایمان کی جانب ایک نقطہ اغاز ہے۔ لیکن علم سے ایمان کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی پہلی آیت (سورت اقراء : آیت 1- 6) جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اس میں علم حاصل کرنے کے تعلق سے احکام و ہدایات ہیں۔ قرآن مجید میں شروع سے آخر تک اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

علامہ اقبال نے اپنی کتاب "اسلام میں مذہبی نظریات کا احیائے نو" میں کہا کہ اسلام میں عقلی اور منطقی بنیادوں کی تلاش و جستجو کی ابتداء خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ مستقل طور پر یہ دعا فرمایا کرتے تھے: "ائےخدا! مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم نافع عطا فرما!" ان تمام باتوں یہ امر بالکل واضح ہو گیا کہ ایمان کے گلیاروں میں علم کا کیا کردار ہے۔

خدا کی لامحدود صفات مظاہر فطرت کے تنوعات میں عیاں ہیں جو کہ ہماری پیچیدہ گتھی ہوئی زندگی کو بھی شامل ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں اور فطرت اور کائنات کے ساتھ اس کے باہمی ربط کے سامنے خوف کا احساس اور انسانی دماغ کی بے بسی جذبات اور خود احتسابی کو ابھارتا ہے جو کہ ایک مومن کے ایمان کے ضروری اجزاء ہیں۔

اللہ کے نائب کے طور ایک طرف طہارت قلب و باطن اور اس قادر مطلق کے ساتھ رشتہ عبودیت کو مضبوط کرنے کے لیے اور دوسری طرف اس دنیا میں انصاف کے عالمی توازن کے قیام کی خاطر عظیم قربانی کے لیے بنی نوع انسان کو جو فرائض تفویض کئے گئے ہیں ان کا مظاہرہ [ نماز، روزہ، حج اور زکوة] جیسے روحانی معمولات میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غیبی حقیقت پر غیر مشروط طریقے پر ایمان لانا ایک اہم معیار ہے اور ایمان کا نقطہ اغاز بھی لیکن 'ظاہر' اور ‘باطن’ کی روحانی وحدت کو سمجھنے کے لیے کہ جن کا ظہور اس معروضی دنیا کے تنوعات میں عیاں ہے ایک علمی بنیاد کی ضرورت ہے۔ جذبات اور علم اجتماعی طور پر ایک مومن کے ایمان کی بنیاد قائم کرتے ہیں۔ چونکہ عالمی توازن کا قانون نظریاتی شعبوں میں بھی قابل نفاذ ہے اسی لیے ایمان کے اجزاء میں کوئی بھی ایسا نسبتی عدم استحکام جہاں جذبات علم پر حاوی ہو ضرور اس کے نتیجے میں تعصب کا جنم ہو گا جو کہ آخر کار ایمان کی بنیاد کے لیے ضرر رساں ہو گا۔

ذرا بھی ابہام کے بغیر بالکل واضح انداز میں قرآن زندگی، جائیداد اور ایمان کی سلامتی کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے انسانی جد و جہد کو حوصلہ بخشتا ہے۔ قرآنی ہدایات کے مطابق قومی اور بین الاقوامی سطح پر اچھائی کے لیے غیر متزلزل حمایت اور برائیوں اور بری طاقتوں کے خلاف بے لچک جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ اس دنیاوی زندگی میں بری طاقتوں کو برے کاموں کو جاری رکھنے کی اجازت دینا اور اس پر احتجاج اور مزاحمت کی ایک آواز بھی بلند نہ کرنا میدان جہاد سے فرار ہونے کے مترادف اور نفاق کا ایک عمل ہے۔ اس دنیا کو انسانیت کے دشمنوں اور برے افواج کے حوالے کر کے جنت کی سہولیات کے لئے ‘گھنٹوں’ لعاب خیزی کرنا اسلام میں بالکل ہی غیر معقول عمل ہے۔

المختصر 'جہاد' کا قرآنی تصور صفائے قلب و باطن اور انسانیت کے لئے خدائی انصاف، امن اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دنیا میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے انسانی کوششوں سے عبارت ہے۔ 'جہاد' کا تصور تمام انسانیت کے لئے انصاف کے توازن کو یقینی بنانے کی خاطر اس معروضی دنیا کو تبدیل کرنے کے لئے مسلمانوں کے پاس ایک طاقتور نظریاتی ہتھیار ہے۔ جہاد قرآن کے انقلابی جوہر کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ انصاف کے توازن سے تجاوز کو روکنے کے لیے اسلام کا ایک عقلی رد عمل ہے۔

مادی اقدار کی بنیاد پر دنیا کی موجودہ سماجی و اقتصادی اور سیاسی نظام بنیادی طور پر جسمانی ضروریات کو پورا کرتا ہے لیکن بنی نوع انسان کی روحانی اور اخلاقی ضروریات کو بہت کم اہمیت دیتا ہے۔ مادی مفاد کی بنیاد پر قائم کردہ اقدار امن، اتحاد اور دنیا میں استحکام کا ایک عارضی وہم پیدا کر سکتے ہیں، لیکن طویل مدت میں اس بات کا یقین ہے کہ یہ انسانیت کی روحانی حیثیتوں کو بے وقعت کر دیگا اور اس کا منتہیٰ قوموں کے درمیان تشدد اور قتل و غارت گری، نااتفاقی، درار، دنیاوی مال و دولت کی ہوس اور آپسی رقابت کا جنم ہے۔

قرآن نے واضح طور پر تمام انسانیت کے لئے قوانین اور بنیادی اخلاقی نظام پیش کر دیا ہے تاکہ لوگ قانون انصاف کے عالمگیر توازن کے مطابق اپنی زندگی کو منظم کر سکیں۔ اسلام میں تشدد اور تعصب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مذہبی تعصب کی بنیاد علم کی کمی ہے اور یہ اسلام کے دشمنوں کی سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور ایمان کے جذباتی پہلوؤں کے توازن کو خراب کرنا ہے۔

تاہم ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جو کچھ بھی اس دنیا میں ہو رہا ہے وہ اللہ کی خودمختاری میں ہو رہا ہے اور یہ تمام حوادث زمانہ اپنے الہی مقصد کو پورا کرنے کی الہی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ زمین پر اس کے نمائندے کی حیثیت سے زمین پر اتحاد پیدا کر کے اور جان بوجھ کر جذبات سے بچتے ہوئے ہمیں اپنا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔

(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)

قاضی ودود نواز بنگلہ دیش میں ایک این جی او ڈیولپمنٹ کنسلٹینٹ ہیں

URL for English article:

https://newageislam.com/islamic-society/faith,-fanaticism-jihad/d/76679

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/faith,-fanaticism-jihad-/d/76714

 

Loading..

Loading..