کنیز فاطمہ سلطانی صدیقی ، نیو ایج اسلام
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن مقدس ہستیوں کا تذکرہ اپنے مقدس کلام میں نہایت ہی سنہرے انداز سے یعنی غم و خوف دونوں کی نفی کے ساتھ انہیں اپنا دوست بتاتے ہوئے لوگوں کو متنبہ کیا کہ اے لوگوں سنو! اللہ کا دوست اور محبوب کون ہے فرمایا: ‘‘الا ان اولیا ءاللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون ’’۔۔۔ یعنی اللہ کے ولیوں کو کسی چیز کا خوف اور غم نہیں ہوتا۔۔۔ کیوں کہ وہ جب جو چاہتے ہیں باذن اللہ سب ان کے لیے حاضر ہوتا ہے اس لیے نہ انہیں ان چیزوں کے حصول کا غم ہے اور نہ ہی ان کے فنا کا خوف اسی وجہ سے یہ دنیا ومافیھا سے بالکل بےنیاز اور فنا فی اللہ ہو کر اپنی زندگی گزارتے ہیں ۔
انہیں ستودہ بالا ہستیوں میں سے ایک وہ ہستی بھی ہے جس نے پورے ہندوستان پر احسان عظیم فرما کر سارے ہندوستانیوں کو اخلاقی اور روحانی تمام مرض سے شفابخشا اور ان کو ان کا کھویا ہوا مقام عطا کیا اوراس قدر نوازا کی دنیا آپ کو غریب نواز کے نام سےپکارنے لگی اور آپ کی یہ فیاضی اور دریا دلی صرف اسی وقت کے ہندوستانیوں پر نہیں بالکہ آج اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ہمیش کے لیے آپ بندہ نواز بن کر ہم منگتوں کے دستگیر ،سلطان النہد بن گئے اورایسی سلطنت کی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔وہ ہمارے روح کے سلطان اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ آج کرسی خواہ کسی کو مل جائے حکومت تو خواجہ ہی ہے! (کرسی پرچاہے کوئی بھی بیٹھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ تو ہمارا خواجہ ہے)
حضرت خواجہ غریب نواز کا سن پیدائش
قدیم تذکرہ نگاروں نے تاریخ پیدائش کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی کا قول ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا سن وفات ۶۳۳ھ تسلیم کیا ہے۔ (اخبار الاخیار ،فارسی ،ص:۲۲)مولانا جمالی نے لکھاہے ۔۔۔’’خواجہ غریب نواز کی عمر شریف ۹۷سال ہوئی ، (سیرالعارفین ،فارسی،ص:۱۶)اس بنیاد پر حساب لگانے سے آپ کا سن پیدائش ۵۳۶ھ قرار پاتا ہے ۔ ‘‘
خواجہ خواجگان کی جائے ولادت
بقول مولانا معنی ہرات کے قریب ایک بہت بڑا علاقہ سیستان کے نام سے مشہور ہے اس علاقے کے باشندے اپنی زبان میں اسےسیتان کہتے ہیں اور اہل عرب سجستان اور یہ سجستانی کو مخفف کرکے سجزی بولتے ہیں ۔پروفیسر خلیق احمد نظامی مرحوم نے تاریخ مشائخ چشت میں رسالہ احوال پیران چشت کے حوالے سے (جس کا قدیم قلمی نسخہ ان کے پاس تھا ) لکھا ہے کہ خواجہ صاحب کا وطن سجستان تھا اور اسی وجہ سے خواجہ غریب نواز کو سجزی کہا جاتا ہے ، جو کاتب کی غلطی سے سنجری ہوگیا۔
سلطان الہنداور طلب علم کے لیے سفر
خواجہ غریب نواز نے عمل پر علم کو ترجیح دیتے ہوئے طلب علم کے لئے سفر کا ارادہ کیا اور اپنے گھر سے پیدل نکل کھڑے ہوئے۔ اس دور میں سمر قند اور بخارا علوم و فنون کے مرکز تھے ۔ آپ نے وہاں رہ کر ظاہری علوم کی تحصیل کی ۔ زیادہ قرین قیاس یہ امر ہے کہ پہلے آپ نے سمرقند میں قیام کیا ۔ بہر حال سب تذکرہ نگار متفق ہیں کہ سمرقند و بخارا میں آپ نے علوم ظاہری کی تکمیل کی ۔ سب سے پہلے قرآن پاک حفظ کیا ۔ (سیر العارفین ، فارسی ، ص: ۵،اردوترجمہ سیر الاقطاب ، ص: ۱۳۷)
سمرقند میں آپ نے صرف،نحو ، اصول فقہ ، حدیث ، اصول حدیث ، تفسیر اور دوسرے علوم عقلی کی تحصیل کی ۔(ہمارے خواجہ ،ص:ا)
مولانا معنی اجمیری نے لکھا ہے ‘‘ زمانہ طالب علمی میں آپ نے سمرقند و بخارا میں کئی استادوں سے استفادہ کیا ہے لیکن تذکرہ لکھنے والوں نے آپ کے استادوں کی فہرست میں صرف ایک مولانا حسام الدین کا نام لکھاہے۔ (ہمارے خواجہ ، ص: ۶)
صاحب احسن السیر ، صاحب تاریخ فرشتہ جلد دوم اور صاحب خزینۃ الاصفیا جلد دوم نے مولانا حسام الدین بخاری کے علاوہ مولانا مشرف الدین صاحب شرع الاسلام کو بھی آپ کا استاد بتایا ہے ۔
مدینہ طیبہ میں خواجہ غیرب نواز کا درس حدیث
مولانا معنی اجمیر ی نے لکھا ہے ۔ ’’مولانا سید ہاشم فتحپوری مجھ سے فرماتے تھے کہ انھون نے کتب خانہ آصفیہ میں پانچویں یا چھٹی صدی ہجری کے ایک محدث کا لکھا ہو ا محدیثین کا تذکرہ دیکھا ہے ۔ اس کتاب میں ہمارے خواجہ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے تین سال تک مدینہ طیبہ میں رہ کر حدیث کا درس دیا ہے ۔ قیاس کہتا ہے کہ علم کی تکمیل کے بعد آپ نے یہ حلقئہ درس آراستہ فرمایا ہوگا‘‘ ۔ (ہمارے خواجہ ، ص: ۷ )
بہر حال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خواجہ ہند اپنے زمانے کے زبردست عالم تھے ۔
خواجہ غریب نواز اور تلاش مرشد
سنت الٰہیہ جاری ہے کہ کوئی شخص خواہ مادر زاد ولی ہو یا نہ ہوا سے کسی مرشد طریقت کا دامن پکڑنا ضروری ہے ۔ حضرت غوث پاک نے بھی مادر زاد ولی ہونے کے باو جود مرشد کا دامن پکڑا، بنابریں آپ بھی تلاش مرشد میں نکل پڑے ۔ قصبہ ہرون علاقہ نیشا پور میں رہنے والے حضرت خواجہ عثمان ہرونی چشتیہ سلسلے کے بہت بڑے بزرگ تھے اور آپ کی عظمت ولایت کا شہرہ لوگوں کی زبانوں پر تھا ۔ آپ ان کی خدمت عالی میں ۵۶۲ھ میں (غوث پاک کے وصال کے ایک سال بعد ) حاضر ہوئے اور آپ سے مرید ہوگئے ۔ مرید ہونے کے بعد خواجہ غریب نواز بیس سال تک خدمت مرشد میں مصروف رہے، یہاں تک کہ سفر میں پیر و مرشد کا بستر سر پر اٹھا کر مستقلا ان کے ساتھ رہے۔ (اردو ترجمہ سیر الاقطاب ، ص: ۱۳۸، اردو ترجمہ سیر الاولیا، ص: ۴۳،مطبوعہ : دہلی ، ۲۰۰۷ ئ ) کتاب سیر الاولیا حضرت نظام الدین اولیا کے قریب العہد کی تصنیف ہے ۔
مقصد حیات مکمل ہونے کی خوشخبری
اگر چہ بیس سال کی خدمت کے بعد غریب نواز کی باطنی تعلیم مکمل ہوگئی اور خلافت ملی ، لیکن یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بیعت ہونے کے فورا بعد ہی پیرو مرشد کی زبان مبارک سے یہ مژدہ جاں فزا سنا کہ ‘‘معین الدین تمہار ا کا م پورا ہوگیا ۔ ’’ (سیر الاقطاب ، اردو ترجمہ ، ص: ۱۳۸)
بالآخر آپ کو خواجہ عثمان ہرونی نے خرقئہ خلافت سے سر فراز کیا ۔(سیرالعارفین ،فارسی ، ص: ۵)
اس کے علاوہ جو تبرکات سلسلے کے بزرگوں سے پیر و مرشد کو ملے تھے سب کے سب غریب نواز کو عطا کردئے ۔
(ہمارے خواجہ ص : ۹ ، سیر الاقطاب ، اردو ترجمہ ، ص:۱۳۸)
خواجہ غریب نواز کے مختلف شہروں میں مقاصد سفر
پروفیسر خلیق احمد نظامی مرحوم نے ہندو ستان آنے سے قبل خواجہ غریب نواز کے سفروں کے وجوہات اس طرح بیان کئے ہیں ۔
بخارا و سمرقند کا سفر تو تحصیل علم کے لئے گئے ۔ پھر نیشا پور کے قصبہ ہرون میں آکر اپنے پیر طریقت سے بیس سال استفادہ کیا ا ور ان کا بستر مبارک سر پر رکھ کر چلتے رہے ۔ پھر تنہا سفر کئے اورا ان اکابر ، مشائخ و علماسے ملاقاتیں کیں جو اس دور کے مذہبی فکر و عمل پر گہرا اثر رکھتے تھے ۔ (بحوالہ سیر الاولیا، ص: ۴۵)
پھر اس دور کے مسلم ثقافت کے اکثر مراکز (مثلا بغداد ، نیشاپور ، تبریز ، اوش ،اصفہان ،سبزوار ،مہنہ ، خرقان ، استر آباد ، بلخ ،اور غزنین ) کا سفر کیا تاکہ مسلمانوں کی مذہبی زندگی کے اہم رجحانا ت کا گہرائی سے مطالعہ کریں ۔ آپ کے اخلاقی اور روحانی اوصاف و اقدار نے بہت سے مشائخ کو آپ کی طرف متوجہ کیا اور آپ نے سبزوار اور بلخ میں اپنے خلفامقرر کئے ۔ شیخ اوحد الدین کرمانی اور شیخ شہاب الدین سہروردی کی طرح اور بہت سے مشائخ آپ کی صحبت روحانی سے مستفید ہوئے ۔ ان تمام علاقوں کا دورہ کیا جو ابھی قراختائی اور غزقبیلوں کے حملوں کے زخم خوردہ تھے اور ابھی شفایاب نہیں ہوئے تھے اور جو ابھی منگولوں کی لائی ہوئی تباہی و بربادی سے دو چار ہونے والے تھے ۔
بغداد میں آتش پرستوں کو دعوت اسلام
صاحب سیر الاقطاب کا بیان ہے کہ بغداد میں سات آتش پرسست تھے ، جو اپنی ریاضت کی وجہ سے خاص طور پر مشہور تھے ۔ چھ چھ ماہ میں ایک لقمہ کھاتے تھے ۔ اس بنا پر بہت زیادہ لوگ ان کے معتقد تھے ۔ ایک دن یہ ساتوں حضرات خواجہ صاحب کی ملاقات کے لئے آئے ۔ حضرت خواجہ کی جیسے ہی ان پر نظر پڑی وہ سب ہیبت سے کانپنے لگے اور چہرے کا رنگ پیلا پڑگیا۔ وہ بے اختیار قدموں پر گر پڑے ۔ حضر ت خواجہ نے ان سے فرمایا کہ اے بے دینو!اللہ سے تمہیں شرم نہیں آتی کہ اس کو چھوڑ کر دوسری شے کو پوجتے ہو۔ ان لوگوں نے کہا اے خواجہ ! ہم لوگ ڈر کر آگ کو پوجتے ہیں کہ شاید کل یہ ہم کو نہ جلائے ۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ احمقو! جب تک خداکی پرستش نہ کروگے ، آگ سے چھٹکا را نہیں پاسکتے ۔ ان لوگوں نے کہا کہ حضرت آپ تو اللہ کو پوجتے ہواگر یہ آگ آپ کو نہ جلائے تو پھر ہم لوگ آپ کے آسمان والے خداپر ایمان لے آئیں ۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ اللہ کا حکم ہوگا تو یہ آگ معین الدین کے جوتے بھی نہیں جلاسکتی ۔ آگ وہاں پر موجود تھی ۔ آپنے اسی وقت اپنے جوتے اس میں ڈال دئے اور فرمایا کہ اے آگ معین الدین کے جوتے کی حفاظت کرنا ۔ اسی وقت آگ ٹھنڈی ہوگئی اور غیب سے آواز آئی جس کو حاضرین نے بھی سنا کہ آگ کی کیا مجال جو میرے دوست کے جوتے کو جلادے ۔ ان آتش پرستوں کی جماعت حضرت کی بزرگی اور عظمت سے متاثر ہو کر اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوئی اور ان لوگوں نے حضرت کی ملازمت اختیار کر لی اور پھر کچھ ہی مدت میں اولیائے کاملین میں سے ہوگئے ۔ (سیر الاقطاب اردوترجمہ ، ص : ۱۳۹تا ۱۴۰)
حقیقت یہ ہےکہ حضرت خواجہ مدینہ طیبہ سے ہندوستان کے سفر کے لئے خاتم الانبیاکے سفیر بن کر چلے تو ان کے نقوش قدم سے تبلیغ اسلام کی راہیں روشن ہو گئیں اور ظلمت کفر دور ہونے لگی ۔
ہندوستان میں خواجہ غریب نواز سے قبل مسلمانوں کی آبادیاں
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے ۔ ’’عام طور سے یہ خیا ل کیا جاتا ہے کہ ہندوستا ن میں مسلمانوں کی آبادی محمد غوری کے حملوں کے بعد شروع ہوئی ۔ یہ خیال غلط ہی نہیں گمراہ کن بھی ہے ۔ محمد غوری کے حملے سے قبل (یعنی ہندور اجاوں کے عہد حکومت میں ) ہندوستان میں متعدد جگہ مسلمانوں کی نو آبادیات تھیں جہاں ان کے مدرسے، خانقاہیں اور دینی ادارے قائم تھے ۔ جو لوگ دینی اداروں کی تشکیل و تعمیر کی حوصلہ شکن مشکلات کا تھوڑاسا بھی تجربہ رکھتے ہیں وہی ان مصائب کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں جن سے ان بزرگوں کو دوچار ہونا پڑا۔ اجمیر کے علاوہ جہاں خواجہ معین الدین نے پرتھوی راج کے زمانے میں اپنی خانقاہ بنائی تھی ، بدایوں ، قنوج ،ناگور اور بہار کے بعض شہروں میں مسلمانوں کی خاصی آبادی تھی ۔ بنارس (ہندو) یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر آریس ترپاٹھی نے قنوج کے متعلق حال ہی میں ایک کتاب شائع کی ہے جس میں بتایا ہے کہ قنوج میں مسلمانوں کی حکومت کے قائم ہونے سے قبل مسلمان موجود تھے ۔ بہار کے متعلق بھی جدید تحقیقات یہی ہیں کہ محمد بن بختیار خلجی کی فتح (۱۱۹۹ئ) سے قبل وہاں صوفیا اور بزرگان دین پہنچ چکے تھے ‘‘۔ (تاریخ مشائخ چشت ، ص : ۱۴۴)
مذکورہ بالاعبارت میں نظامی صاحب نے خانقاہ بنانےکی بات منسوب کی ہے جبکہ بابا فرید گنج شکر کے بقول خواجگان چشت میں خانقاہ بنانے کا رواج نہ تھا۔غریب نواز نے اجمیر میں مستقل قیام کیا تھا۔ خواجہ غریب نواز ترکوں کی فتح سے پہلے ہندوستا ن میں آچکے تھے اور سلسلئہ چشتیہ کا قیام عمل میں آگیاتھا۔
جب خواجہ غریب نواز ہندوستان تشریف لائے تو شہر کے قریب اس جنگل میں پہنچ گئے جہاں اس وقت اجمیر آباد ہے۔ اس جنگل کے ایک بڑے درخت کے سایہ میں آپ نے اپنے چالیس ساتھیوں کے ساتھ آرام فرمایا ، اورآپ کے حکم پر اونٹ کے بیٹھ کر نہ اٹھنے والا مشہور و معروف واقعہ اسی جگہ پیش آیا۔ اس شہر کی جس پہاڑی پر خواجہ غریب نواز نے قیام کیا وہاں ایک غار بھی تھا جو ابھی تک موجود ہے اور خواجہ صاحب کا چلہ کہلاتا ہے۔ اسی غار میں یا اسی باہر سے باہر زمین کے فرش پر آسمانی شامیانے کے نیچے خواجہ صاحب نے اپنے تمام ہمراہیوں کے ساتھ مستقل طور پر رہنا اختیار کر لیا اور اللہ رب العزت کی عبادت میں ہر وقت مصروف رہنے لگے۔(دیکھئے :ہمارے خواجہ،ص ۲۰)
چونکہ وہاں کے لوگوں کے لئے خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کا یہ طریقہ نیا تھا ، اس لئے انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار مخالفت کی صورت میں کیا ۔ بعض لوگوں نے خواجہ صاحب پر حملہ بھی کیا ، لیکن اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے آپ محفوظ رہے ۔ اجمیر کے مخالفوں نے غریب نواز کا نیا طریقہ عبادت دیکھ کر جو غم و غصہ کا اظہار کیا وہ ان کی اپنے مذہب سے عدم واقفیت کا نتیجہ تھا ۔ خواجہ غریب نواز کا یہ عمل ہمارے لئے نمونہ ہے کہ آپ نے اپنے مخالف کے ہر حملہ اور اذیت کے باوجود صبر و تحمل کے دامن کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔ لوگ آپ کے علم و عمل اور کرامت و بزرگی زہد و تقوی کو دیکھ کر خود اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہونے لگے ۔خواجہ غریب نے دعوت کا بہترین نمونہ پیش کیا، انہوں نے کبھی کسی کو زبردستی اسلام کی دعوت نہیں دی ۔ وہ زبردستی مسلمان بنا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ قرآن کریم نے در ج ذیل آیات میں جبرو اکراہ سے مسلمان بنانے کی سختی سے روکا ہے۔
قرآن کریم کی آیات:
۱۔ لا اکراہ فی الدین۔۔۔۔یعنی دین میں کوئی جبر نہیں (سورہ البقرہ، آیت :۲۵۶)
۲۔ لکم دینکم ولی دین۔۔۔۔۔تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین ۔ (سورۃ کافرون : پارہ :۳۰)
پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ و السلام جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود سے جو معاہدہ کیا اس میں بھی یہی الفاظ تھے۔۔۔۔
لنادیننا و لکم دینکم یعنی ہمارے لئے ہمارا دین ہے اور تمہارے لئے تمہارا دین ۔
(۳)ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن یعنی (اے حبیب ) بلایئے لوگوں کو اپنے رب کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور اگر وہ بحث و نزاع کریں تو بھی ان کے ساتھ بہتر طریقہ اختیار کر ۔ (سورۃ نخل ، آیت : ۱۲۵، پارہ : ۱۴)
ایک آیت میں تو قرآن حکیم نے غیر مسلموں کے خدائوں کو بھی برا کہنے سے منع کیا ۔ ‘‘و لا تسبوا الذین یدعون من دون اللہ فیسب اللہ عدوا بغیر علم (سورہ الانعام آیت ۱۰۸پارہ ۷)
یعنی وہ لوگ خدا کے علاوہ جنہیں پکارتے ہیں تم ان کو یعنی ان کے خدائوں کو برانہ کہو، ورنہ وہ اللہ کو اپنی بے علمی کے باعث برا کہنے لگیں گے ۔
غریب نواز یقینا حقیقی داعی اسلام بن کر آئے لیکن ان کا طریق تبلیغ ایسانہ تھا کہ کسی کی دل آزاری ہو یا کسی کو کسی قسم کی ذہنی تکلیف پہنچے ۔ آپ بلا امتیاز مذہب و ملت بے سہاروں کو سہارا دے رہے تھے ، کمزورو ں ، غریبوں اور سماج کے پسماندہ طبقوں کو فلاح و بہبود کا راستہ دکھلا رہے تھے۔ آپ کے اخلاق حمیدہ ، اوصاف حسنہ اور فیوض باطنیہ سے متاثر ہو کر لوگ خود بہ خود جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے تھے ۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جو ذات گرامی سر زمین ہند کو انسانیت کی اعلیٰ قدروں سے روشناس کر ا رہی تھی اور ہندوستان کے باسیوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یعنی تصور توحید الٰہی کی یاد دلا کر ان میں مساوات انسانی ، اخوت اور امداد باہمی کا پیغام عام کر رہی تھی اس سے پجاریوں کا آمادہ پیکار ہونا ایک قابل مذمت عمل تھا۔ اہل ہنود کی مذہبی کتاب مہابھارت میں ایسے لوگوں کے مذہب کی مذمت کی گئی ہے جو دوسرے مذہب کی تبلیغ کو روکتے ہیں ، مہا بھارت کا شلوگ یہ ہے :
धर्म यो बाधते धर्मो न स धर्म: कुधर्म तत-|
अवीरोधात तु यो धर्म: स धर्म: सत्यविक्रम – वन १३१.११
یعنی وہ مذہب جو دوسرے مذہب کی تبلیغ کوروکتا ہے وہ اچھا مذہب نہیں ہے بلکہ برامذہب ہے ، جو مذہب دوسرے مذہب کی تبلیغ میں رکاوٹ نہیں ڈالتا وہی سچا مذہب ہے ۔
سلطان الہند کا آخری وقت اور سفر آخرت کی تیاری
۶۳۲ھ کے شروع ہوتے ہی خواجہ بزرگ کو علم ہوگیا کہ یہ آخری سال حیات ظاہری کا ہے اور عنقریب دینا سے رخصت ہوکر عقبیٰ کی طرف سفر کرنا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے غلاموں کو ضروری ہدایتیں اور وصیتیں کرنا شروع کردیں ۔ جن لوگوں کو خلافت نہیں عطا کی تھی ان کو اس دولت سے سرفراز کیا اور سلسلئہ چشتیہ کے بزرگوں سے جو تبرکات آپ کو ملے تھے وہ اپنے جانشین بابا قطب الدین بختیار کا کی کو عنایت کئے اور خدا کے پاس پہنچنے کے شوق میں آپ کی محویت روز بروز بڑھتی گی ۔ (ہمارے خواجہ ، ص: ۸۳)
حضور خواجہ غریب نواز کا وصال مبارک
رجب کی پانچویں تاریخ۶۳۲ھ عشا کی نماز کے بعد جب خواجہ غریب نواز معمول کے مطابق حجرے کا دروازہ بند کرکے خدا کی یاد میں مشغول ہوئے اور حجرے کے قریب رہنے والے خدام (جن کی اوالاد امجاد آج حقوق خدمت انجام دے رہی ہے ) رات بھر آپ کے درد اور ذکر کی آواز سنتے رہے ۔ صبح ہونے سے پہلےیہ آواز بند ہوگئی ۔ سورج نکلنے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو خدام نے دستکیں دیں ۔ پھر آخر مجبورا دروازہ توڑکر اند داخل ہوئے اور دیکھا کہ آپ خدا کے پاس پہنچ گئے ہیں ۔ (سیر الاقطاب ،اردو ترجمہ ، ص: ۵۵ا،ہمارے خواجہ ، ص: ۳۹)
صاحب سیر الاولیا کا بیان ہے کہ جس رات خواجہ معین الدین حسن سنجری نے وفات پائی تھی چند بزرگوں نے حضور ﷺکو خواب میں دیکھا کہ حضور فرمارہے ہیں خدا کا دوست معین الدین آرہاہے۔ ہم اس کے استقبال کے لئے آئے ہیں ۔ جب آپ وفات پاگئے تو آپ کی پیشانی مبارک پر یہ تحریر نمودار ہوئی ھٰذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ یعنی خدا کے دوست نے اس کی محبت میں وفات پائی ۔ (سیر الاولیا،فارسی ، ص: ف۴۸)اناللہ و انا الیہ راجعون
ایسی ابقری شخصیت جن کی مقدس زندگی کا ہر ہر لمحہ یاد خدا میں صرف ہوا ہو بھلا ان کی تعریف و توصیف ہم ناچیزوں سے کہاں ادا ہوسکتی ہے مختصر میں ان کے اس گوشئہ حیات سے ہی ہمیں جو کچھ ملا وہی ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہے اللہ تبار ک وتعالیٰ تمام امت مسلمہ کو اپنے محبین کے ترز حیات پر زندگی گزارنے کی عقل سلیم عطافرمائے اوربروز حشر ہمارا بھی شمار ان کے سچے پکے علاموں میں کرے ۔آمین بجاہ سید المرسلین ۔
مصادر و مراجع
1. سیر الاقطاب (فارسی)شیخ اللہ دیا چشتی،نولکشور ۱۸۸۱
2. سیر الاقطاب اردو ترجمہ از :محمد معین الدین دردائی،ناشر فرید بک ڈپو دہلی
3. سیر الاولیا فارسی: از سید محمد مبارک علوی کرمانی المعروف بہ امیر خورد ، اردو ترجمہ ڈاکٹر عبد اللطیف ، مطبوعہ دہلی ۱۹۹۰
4. سیر العارفین فارسی :حامد بن فضل اللہ جمالی دہلوی
5. سیر العارفین اردو ترجمہ از: محمد ایوب قادری
6. سیر اعلام النبلا ، علامہ ذھبی ج ۳
7. سیرت خواجہ غریب نواز : از عبد الرحیم قادری ، مکتبہ رحیمیہ
8. عوارف المعارف عربی : شیخ شہاب الدین سہروردی ، دار الکتب العربیہ، بیروت ۱۹۶۶
9. عوارف المعارف اردو ترجمہ: شمس بریلوی
10. اخبار الاخیار ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی
11. تاریخ مشائخ چشت ، ندوۃ المصنفین ، اردو بازار دہلی
12. ہمارے خواجہ : مولانا عبد الباری معنی اجمیری علیہ الرحمۃ ، دسویں اشاعت ، ۱۹۹۸
13. تاریخ خواجہ خواجگان : پروفیسر حافظ سید محمد ضیا الدین شمسی طہرانی
محترمہ کنیز فاطمہ سلطانی صدیقی دہلوی عالمہ و فاضلہ اور بہترین مضمون نگار ہیں۔فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے عربک (آنرس )کی طالبہ ہیں۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-sacred-life-khawaja-ghareeb/d/110671
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism