کنیز فاطمہ سلطانی صدیقی ، نیو ایج اسلام
اللہ تبارک وتعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے ہم کو عدم سے وجود بخشا اور ایسا وجود کہ تمام موجودات و مخلوقات میں سب سے معزز اوراشرف بنا دیا اور اس اشرفیت کی بقا اور ہماری رہمنائی کے لئے ہر دور ہر زمانے میں انبیائے کرام اور رسولان عظام کو مبعوث فرماتا رہا اور سب سے آخر میں اخلاق حسنہ کے پیکر یعنی آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرما کر ہمارے وجود کی بقا کو ہمارے ذمہ کروا دیا اور پیغمبر اسلام نے انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق فرماکر تمام امت کو خواہ وہ امت دعوت ہویااستجابت یہ سبق دیا کہ میں اخلاق حسنہ کی اتمام کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔لہٰذا اب تمہارے وجود کی بقا اخلاق حسنہ کی تکمیل میں ہی ہے ۔اس لئے کہ اخلاق ایسی شئی ہے کہ اگر ہم اس کے پیکر ہوجائیں تو دنیا میں ہمارا وجود پانے کے لئے ہمارا ہونا ہی ضروری نہیں بلکہ ہم دار الفنا میں ہوں یا بقا میں ہر جگہ ہمارا چرچا ہوگا اور اگر ہم نے اسی جوہر کی قدر نہ کی اور آپس میں اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے پیچھے پڑے رہے اور ان کی برائی بتانے اور سدھارنے کے بجائے ان کو نیچادکھانے اور اس کی اس حالت پرجشن منانے لگیں تو یقینا یہ ہمارے اخلاق کا فقدان ہوگا اور جہاں اخلاق کا عدم ہے وہیں ہمارے وجود کا عدم ہوگا ظاہر ہے جب ہم کسی سے بد اخلاقی کا مظاہرہ کریں گے تو وہ بھی ہم سے بدلے کا متالاشی ہوگا اور اسی سے معاشرہ اور ملک میں قتل و غارت ،مار دھاڑ اور دھوکہ دڑی عام ہوگا جو ہمارے عدم وجود کا سبب بنے گا ۔
اس لئے اب ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم معاشرے سے آئے دن کی درندگی کو ختم کرنے اپنے وجود کی بقا کے لئے اسلام اور بانئ اسلام کی تعلیمات پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔
اخلاق کی تعریف : کسی ارادہ کا ایسا غلبہ ، کسی رجحان یا میلان کی ایسی مقناطیسی کشش کہ وہ انسان کی پختہ عادت یعنی فطرت ثانیہ بن جائے اور اس میں حفظ و ثبات اور صبر و استقامت کے رنگ بھی پائے جائیں ، اخلاق کہلاتا ہے ۔
اس تعریف سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اخلاق پر ہمارا عمل ایسا ہو کہ وہ ہماری فطرت ثانیہ بن جائے نہ کہ وقت اور موقع پڑنے اور اپنے مفاد اور اعجاز کے پیچھے اخلاق اور انصاف کو بھول جائے ۔
جب ہم اس جوہر سے اس تعریف کے مطابق مزین ہونگے تب کہیں جا کر خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہردل عزیز شخصیت کا شرف حاصل کرسکیں گے اور ان تمام توصیف سے متصف ہو سکیں گے جو قرآن و احادیث میں مذکور ہے ۔
اخلاق حسنہ کی فضیلت و اہمیت : آقا علیہ السلام نے بہت سی جگہوں پر سنہرے انداز میں اس کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کبھی یہ فرمایا ‘‘انی بعثت لاتمم مکارم الخلاق ’’ترجمہ :میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے بھیجا گیا ۔(جامع الصغیر :۲۸۳۳)
کبھی اخلاق ہی کو تکمیل ایمان بتاتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ‘‘اکمل المومن ایمانا احسنھم خلقا ’’ترجمہ اہل ایمان میں سے سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ۔ (ابوداود :۴۶۸۲،ترمذی شریف ۱۱۶۲)
اور کہیں حسن اخلاق کے پیکر کو صائم و قائم کے درجہ تک پہونچا دیا اور ارشاد فرمایا ‘‘ان المومن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ الصائم و القائم ’’ترجمہ:بے شک مومن اپنے حسن خلق سے روزہ دار اور تہجد گزار کے درجہ کو پالیتا ہے ۔ (ابو داود :۴۷۹۸)
اور کسی جگہ اللہ کے محبین میں اس کو ہی سب سے محبوب بتایا جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں فرمایا ‘‘احب عباد اللہ الی اللہ احسنھم خلق ’’ ترجمہ اللہ کے بندوں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ وہ لوگ ہیں جو ان میں سب زیادہ بااخلاق ہوں ۔
مزید ارشاد فرمایا ‘‘مامن اثقل فی میزان المومن یوم القیامۃ من حسن الخلق و ان اللہ یبغض الفاحش البذی ’’ ترجمہ : قیامت کے دن مومن بندے کی میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی اور یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ بد زبان اور بے ہودہ گوئی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
آقا علیہ السلام نے ان چند احادیث کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیثیں بیان فرمائی جن سے اخلاق کو بجالانے اور ترک کرنے کے فوائد و نقصان معلوم ہوتے ہیں اور صرف حکم ہی نہیں فرمایا بلکہ آپ نے اس قدر اس پر عمل کر کے دکھایا کہ قرآن نے آپ کا تعارف ہی یہ کہہ کر کروایا کہ آپ تو وہ ہستی ہیں جن کو خالق نے ‘‘انک لعلیٰ خلق عظیم ’’کہا (القلم:۴)
اور کیوں نہ آپ ہی کا اخلاق خلق عظیم کہلاتا فرمایا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ضعیف والد کو آپ ﷺ کے پاس بیعت کی غرض سے لے کر آئیں تو اس پر رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابو بکر تم نے انہیں کیوں تکلیف پہونچایا میں خود ہی چلا آتا ۔
یہ تھا آپ کا اخلاق جو رشتہ اور ہستی نہیں دیکھاتا بلکہ یہ دیکھتا کہ سامنے والے کی بھلائی کس میں ہے ۔
لہٰذا اس جگہ احادیث میں ا خلاق حسنہ کی ان فضیلت اور اہمیت کودیکھنے کے بعد ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے ،ملک اور ساری آبادی میں حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں تاکہ اس عظیم نعمت کے عام ہونےسے آئے دن کی قتل و غارت گری ، لسانیت و قومیت کی گہما گہمی ، ظلم و ستم کی گرم ہوائیں دور ہوسکے اس لیے کہ یہ تمام چیزیں معاشرے کے وہ ناسور ہیں جو بد اخلاقی کے سبب ہی فروغ پارہے ہیں ۔ یہ سب چیزیں معاشرے کے امن و امان پر ایک طمانچہ ہیں جن کا نشان صدیوں تک نہیں مٹتا ۔ اس لیے اچھے اخلاق کا حصول دین و دنیا کی کامیابی کا سبب ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم تمامی کو راہ راست پر عمل پیرا ہوکر دارین کی کامیابی حاصل کرنے کا جذبہ عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین ۔
محترمہ کنیز فاطمہ سلطانی صدیقی دہلوی عالمہ و فاضلہ اور بہترین مضمون نگار ہیں۔فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے عربک (آنرس )کی طالبہ ہیں۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/significance-virtues-morality-/d/112451
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism