دوسری قسط
کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام
حضرت سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ مقدسہ ،صالحہ، عابدہ ،زاہدہ ،تقیہ، نقیہ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا کو حاضری مسجد کریم مدینہ طیبہ سے بازرکھا۔ ان پاک بی بی کو مسجد کریم سے عشق تھا۔پہلے امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے نکا ح میں آئیں ۔قبل نکاح امیرالمومنین سے شرط کرالی کہ مجھے مسجد سے نہ روکیں ۔اس زمانہ خیر میں محض عورتوں کی ممانعت قطعی جز می نہ تھی جس کے سبب بیبیوں سے حاضری مسجد اور زیارت گاہ بعض مزارات بھی منقول ۔
عن ام عطیۃرضی اللہ تعالیٰ عنھا قالت ‘‘نھیناعن اتباع الجنائز ولم یعزم علینا’’ ترجمہ : حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے منع کیا گیالیکن اس میں شدت نہیں برتی گئی ۔
اس پرغنیۃمیں فرمایا:یہ اس وقت تھا جب حاضری مسجد انہیں جائز تھی۔اب حرام اور قطعی ممنوع ہے۔ غرض اس وجہ سے امیر المومنین نے ان کی شرط قبول فرمالی ۔پھر بھی چاہتے یہ تھے کہ یہ مسجد نہ جائے ۔یہ کہتیں آپ منع کردے میں نہ جاؤنگی۔امیر المومنین بہ شرط پابندی منع نہ کرتے ۔امیرالمومنین کے بعد حضر ت زبیر سے نکاح ہوا۔منع فرماتے وہ نہ مانتیں ۔ایک روز یہ تدبیر کی کہ عشاء سے بعد اندھیری رات میں ا ن کے جانے سے پہلے راہ میں کسی دروازہ میں چھپ گئے ۔ جب یہ آئیں اوراس دروازہ سے آگے بڑھی تھیں کہ انہوں نے نکل کر پیچھے سے ان کے سر مبارک پرہاتھ مارا اور چھپے رہے۔
حضرت عاتکہ نے فرمایا
انا للہ۔ فسد الناس
ہم اللہ کے لیے ہیں لوگوں میں فساد آگیا ہے ۔
یہ فرماکر گھر واپس آئیں اور پھر جنازہ ہی نکلا تو حضرت زبیر نے انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ عورت کیسی ہی صالحہ ہو اس کی طرف سے اندیشہ نہ سہی فاسق مردوں کی طرف سے اس پرخوف کا کیا علاج۔ (جمل النور۔۲۵ )
نیز ایک دوسرے مقام پر صاحب جمل النور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔
’’اول یہ کہ ہماری شریعت مطہرہ اعلیٰ درجہ حکمت و متانت و مراعات ود قائق مصلحت میں ہے ، اور جو حکم عرف و مصالح پر مبنی ہوتاہے انہیں چیزوں کے ساتھ دائر رہتاہے ، اور اعصار و امصار میں ان کے تبدل سے متبدل ہو جاتاہے ، اور وہ سب احکام ، احکام شرعی قرار پاتے ہیں ، مثلا زمان برکت نشان حضور سرور عالم ﷺ میں بوجہ کثرت خیر، ونایابی فتنہ و شدت،تقویٰ و قوت خوف خدا عورتوں پر ستر واجب تھا نہ حجاب ، اور زنان مسلمین پنج گانہ مساجد میں جماعتوں کے لئے حاضر ہوتیں بعد حضور کے جب زمانے کا رنگ قدرے متغیر ہوا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ‘‘ لو ان رسول اللہ رای من النساء ماراینا لمنعھن من المسجد کمامنعت بنو اسرائیل نساءھا’’ (یعنی رسول اللہ ﷺہمارے زمانے کی عورتوں کو ملاحظہ فرماتے انھیں مساجد جانے سے ممانعت کرتے جیسے بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کومنع کردیا تھا۔، رواہ احمد و بخاری و مسلم۔
جب زمانہ رسالت سے اور بعد ہوا ، ائمہ دین نے جوان عورتوں کو ممانعت فرمادی ، جب اور فسادپھیلا ،علما نے جوان و غیر جوان کسی کے لیے اجازت نہ رکھی ، در مختار میں ہے کہ ‘‘یکرہ حضورھن الجماعۃ’’ ، ان احادیث مبارکہ کو اگر دیکھا جائے تو موجودہ زمانہ کی عورتوں کا جو حال ہے ،اس کو دیکھ کر عام فہم انسان بھی یہی حکم لگا ئے گا، کیوں کہ اس خیر القرون کا ماحول آج کے ماحول سے ہزاروں گنا بہتر تھا، جس کی بہتری کی ایک جھلک اس حکایت سے عیاں ہے ۔
حکایت :
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کا لشکر فتح بیت المقدس کے لیے کوشاں و ساعی تھا کہ وہاں کے علما و احبار کی خواہش کے مطابق حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ خود بنفس نفیس مدینہ منورہ سے محاذ جنگ پر تشریف لائے ۔ بیت المقدس کے علما و احبار نے جو خود تو اگرچہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر نور الٰہی اور حقیقت کے آثار نمایاں دیکھ کر دل سے ان کے قائل ہوچکے تھے ۔ مگر اپنی قوم کو مسلمانوں کے بلند اخلاق کا قائل کرانے کے لیے یہ بات پیش کی کہ ہم بیت المقدس کا بڑا بازار نہایت آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں ۔ اس بازار سے اسلامی فوج ایک مرتبہ گزرجائے ۔ اس طرف سے داخل ہوکر اس طرف نکل جائے ۔ چنانچہ یہ بات طے ہوگئی اور ان لوگوں نے شہر کا بازار خوب آراستہ کیا ، اور اس میں ہر قسم کی اشیا مہیا کیں ،اور ہر ایک مکان پر ایک ایک خوبصورت حسینہ و جمیلہ عورت کو بٹھا دیا اور بازار کو مردوں سے بالکل خالی کردیا اور عورتوں کو حکم دیا کہ اسلامی فوج بازار میں داخل ہو تو وہ جس چیز کی خواہش کریں ، ان کو بلا قیمت بے تامل دے دیں او ر بے حجابانہ ملاطفت و نازو ادا سے پیش کریں اور ان کو اپنی طرف مائل کریں اور یہ سب انتظام مکمل ہوجانے کے بعد پھر مسلمانوں سے کہا گیا کہ اسلامی فوج کو اس بازار سے گزرنے کا حکم دیا جائے ۔
ادھر اسلامی فوج بازار سے گزرنے کے لیے تیار ہوئی توسپہ سالار نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔ الآیۃ ’’مومنوں سے فرمادیجیے کہ وہ اپنی نظر یں پست رکھیں ‘‘
اس ایک ہی آیت کے سنانے نے یہ اثر دکھایا کہ اسلامی فوج بازار میں نظریں نیچی کئے ہوئے داخل ہوئی اور کسی ایک سپاہی نے بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا کہ یہاں کیا ہے ؟اور کون ہے ؟ اور وہ خداکے خائف بند ے اسلامی شان کے ساتھ ایک طرف سے دوسری طرف نکل گئے ۔ اسلامی فوج کی اس عظیم بلندی کردار کا یہ اثر ہوا کہ دشمن نے متفق ہو کر بلا جدال وقتال بیت المقدس مسلمانوں کے حوالے کردیا۔(الفتوحات ، ص ۱۳۴)
قارئین !غور کریں کہ جس دور کی نوجوان نسلیں زہد و تقویٰ کے اس بلند مرتبے پر فائز تھیں ان دنوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے سے منع فرمادیا تواب بھلا ان کو مسجدوں میں جاکر نماز باجماعت پڑھنے کی اجازت کہاں سے ہو سکتی ہے جو کہ قبیلہ مزنیہ کی عورت کے مشابہ ہیں ۔
عورتوں کے لیے گھر کے گوشہ میں نماز پڑھنا بہتر ہے
۱۔ عن ام سلمۃ قال رسول اللہ ﷺ خیر مساجد النساء قعر بیوتھن (مجمع الزوائد ص ۳۳ج۲)
ام المومنین سیدہ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتو ں کے لیے اپنے گھروں کی گہرائی میں نماز پڑھنا ہی مسجد سے بہتر ہے۔
۲۔ عن ام سلمۃ قالت قال رسول اللہ ﷺ صلوٰۃ المراۃ فی بیتھا خیر من صلاتھا فی حجرتھا و صلوٰتھا فی حجرتھا خیر من صلوٰ تھا فی دارھا و صلوٰتھا فی دارھا خیر من صلوٰتھا خارجا ۔ (مجمع الزوائد ،ص ۳۴، ج۲)
حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ عورت کی نماز اپنے رہائشی کمرے میں بہتر ہے بیٹھک میں نماز پڑھنے سے اور بیٹھک میں نماز پڑھنا بہتر ہے حویلی میں نماز پڑھنے سے اور حویلی میں نماز پڑھنا بہتر ہے باہر نماز پڑھنے سے ۔
۳۔حضرت ام حمید انصاریہ صحابیہ کو بھی کتنا شوق تھا آپ ﷺ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کا کہ ایک مرتبہ آپ سردار دو جہاں ﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتی ہیں اور کتنے شوق اور محبت سے درخواست پیش کرتی ہیں کہ اے اللہ کے پیغمبر! میں آپ کے ہمراہ باجماعت نماز کو پسند کرتی ہوں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ( باجماعت) نماز کو پسند کرتی ہو ۔’’ لیکن تیری نماز تیرے رہائشی کمرہ میں بہترہے۔ بنسبت بیٹھک کے اور تیری نماز بیٹھک میں تیرے لئے بہتر ہے بنسبت حویلی کے اور تیری نماز اپنی حویلی میں بہتر ہے بنسبت اپنے قبیلہ کی مسجد کے ۔ اور اپنے قبیلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا تیرے لئے زیادہ بہتر ہے میر ی مسجد (مسجد نبوی ) میں نماز پڑھنے سے ‘‘تو اس پر انہوں نے حکم دیا کہ ان کے لئے ان کے رہائشی کمرے کے آخری کونے کے تاریک حصہ میں مسجد بنادی جائے(یعنی نماز کے لئے جگہ مخصوص کردی جائے ) لہٰذا ایسا ہی کیا گیا تو وہ اسی میں نماز ادا کرتی رہیں یہاں تک کہ اللہ عزو جل سے جا ملیں۔ (مسند احمد ص ۳۷۱ ج۶)
دیکھئے ان کے اس کردار وعمل نے، قیامت تک آنے والی عورتوں کے لیے نبی پاک ﷺ کے فرمان پر اپنی خواہش کو قر بان کرنے کا کیسا نمونہ قائم فر مایا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ عصر حاضرکی عورتوں کو نبی پاکﷺ کی فرمانبرداری کا یہی جذبہ عطا فرماے تاکہ اپنے گھر میں تنہا نماز پڑھنے کو مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بہترجانیں ۔
URL for Part-1:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism