کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جو کچھ عطا فرمائیں، انہیں اس پر اور قضاء و قدر پر راضی رہنا چاہیے اور اپنی رضا کا زبان سے بھی اظہار کرنا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور عبادات میں اس کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہونا چاہیے۔ہر حال میں اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے اور شکر گزاری سے مقصود صرف اور صرف رضائے الہی ہونی چاہیے ۔
عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اللہ کے بندے اللہ کی عبادت تین وجہوں سے کرتے ہیں ۔پہلی وجہ عذاب کا خوف ہے ، دوسری وجہ ثواب کا شوق، اور تیسری وجہ محض رضائے الہی کا حصول ۔
تفسیر کبیر میں امام رازی نے بہت خوبصورت انداز میں ان تینوں وجہوں کو بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک جماعت سے گزر ہوا جو اللہ کا ذکر کر رہی تھی۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تمہیں اللہ کے ذکر پر کس نے برانگیختہ کیا ؟ انہوں نے کہا : اللہ کے عذاب کے خوف نے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : تمہاری نیت درست ہے، پھر ایک اور جماعت کے پاس سے گزر ہوا جو اللہ کا ذکر کر رہی تھی، ان سے پوچھا کہ تم کو اس ذکر پر کس نے ترغیب دی ؟ انہوں نے کہا : حصولِ ثواب نے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا : تمہاری نیت صحیح ہے۔ پھر ایک تیسری قوم کے پاس سے گزر ہوا جو اللہ کا ذکر کر رہی تھی۔ آپ (علیہ السلام) نے ان سے اس ذکر کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا : ہم عذاب کے خوف سے ذکر کر رہے ہیں نہ ثواب کے شوق میں ذکر کر رہے ہیں، ہم محض ذلت عبودیت کی وجہ سے اور عزت ربوبیت کی وجہ سے ذکر کر رہے ہیں اور اپنے دل کو اس کی معرفت سے مشرف کرنے کے لیے اور اپنی زبان کو اس کی صفاتِ قدسیہ کے الفاظ سے مکرم کرنے کے لیے اس کا ذکر کر رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : تم ہی حقیقت میں حق رسیدہ ہو۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٧٧، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) ۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ انسان عذاب کے خوف اور ثواب کے شوق سے بالکل عبادت نہ کرے اور صرف اظہار عبودیت اور حصول رضا کے لیے عبادت کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن اور حدیث میں جو دوزخ کے عذاب کی دشت اور ہولناکی بیان کی ہے وہ عبث نہیں ہے اور قرآن اور حدیث میں جنت کی نعمتوں کا جو بکثرت ذکر فرمایا ہے وہ بھی بےفائدہ نہیں ہے اور بشمول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب نبیوں نے دوزخ کے عذاب سے نجات اور جنت کے حصول کی دعائیں کی ہیں، اس لیے انسان کو خدا کے سامنے بےباک اور جری نہیں بننا چاہیے اور نہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سےمستغنی ہونا چاہیے اور جنت کی طلب کے لیے بھی عبادت کرنا چاہیے اور کبھی کبھی اس کے دل میں یہ کیفیت بھی ہونی چاہیے کہ ثواب اور عذاب سے قطع نظر کرکے وہ اللہ کی عبادت صرف اس لیے کرے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے اور بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کی خدمت میں لگا رہے خواہ اس کو مولیٰ کچھ دے یا نہ دے اور اس کا مطمح نظر صرف یہ ہونا چاہیے کہ اس کا مولیٰ اس سے راضی رہے، یہی صراط مستقیم ہے۔
اگر کوئی شخص صرف رضائے الہی کی خاطر اللہ کی عبادت کرے اس طرح کہ ا س کے خیال میں صرف اور صرف رضائے الہی کا حصول بس جائے اور مرتبہ سلوک کی اس منزل پر پہنچ جائے جہاں اسے رضائے الہی کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہ آتا ہو تو یہ ضرور بہتر ومستحسن ہے اور یہی عبادت کا اصل مقصود ہے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism