کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا ، بخش دینا، در گزر کرنا، بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی وبرائی پر انتقام کی قدرت وطاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا ہے ۔
قدرت وطاقت نہ ہونے کی وجہ سے اگر انسان انتقام نہ لے سکتا ہو تو یہ عفو (معاف کرنا) نہیں ہوگا بلکہ اسے بے بسی کا نام دیا جائے گا ۔عفو تو تب ہوگا جب کوئی شخص قدرت وطاقت رکھنے کے باوجود کسی کو معاف کر دے ۔غصہ پر قابو پانے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اور غیظ وغضب کے اظہار اور سزا دینے اور انتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر و سکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصہ ضبط کرنے اور جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔
عفو کے دو درجات ہیں: پہلا یہ کہ آدمی اپنے دشمن یا قصوروار کو معاف کر دے خواہ اس کی طبیعت اس پر آمادہ نہ ہو، اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ دل کی رضا وخوشی کے ساتھ معاف کرے اور اگر ممکن ہو تو اس کے ساتھ کچھ بھلائی واحسان بھی کرے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب میں نے جنت میں اونچے اونچے محلات دیکھے تو جبرائیل سے فرمایا یہ کن لوگوں کے لیے ہیں! انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے در گزر کرتے ہوئے انہیں معاف کر دیتے ہیں۔
انسان کا اپنے دشمن سے انتقام نہ لینا اور غصہ کو پی جانا واقعی بڑے ہمت کا کام ہے اور اس سے زیادہ کمال درجے کی بات تو یہ ہے کہ اسے دل سے معاف بھی کردے ۔
عفو ودر گزر کرنا اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے ۔اس اخلاق کو اپنانے والے پر اللہ تعالی دنیا وآخرت میں بہت سے انعامات سے نوازتا ہے۔
قرآن مقدس میں عفو در گزر کی تعلیم دیتے ہوئے رب العزت نے ارشاد فرمایا: (الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ) ترجمہ : وہ جو اللہ کے راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے، اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں’’ (سورہ آل عمران ۳، آیت ۱۳۳)
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ کے خادم کے ہاتھ سے آپ کے سر پر شوربا (سالن) گر گیا یہ آپ کو ناگوار گزرا تو خادم نے یہ آیت پڑھی : ترجمہ (وہ لوگ جو تنگی میں اور فراخی دونوں حالتوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، غصہ کو پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں (یہ نیک لوگ ہیں) اور اللہ نیک لوگوں کو محبوب رکھتا ہے ’’ (آل عمران ۱۳۳)
تو اس پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تجھے معاف کرتا ہوں ، آزاد کرتا ہوں اور تیرا نکاح اپنی فلاں لونڈی سے کرتا ہوں اور تم دونوں کا خرچ تا زندگی میرے ذمہ ہے ۔(تفسیر نور العرفان ص ۲۰۵ ج ۵)
قرآن مجید نے دوسری جگہ اس سے زیادہ وضاحت سے برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا اور یہ بتلایا کہ اس کے ذریعہ دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں ، ارشاد باری تعالی ہے : (ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ) ترجمہ : ‘‘برائی کی مدافعت بھلائی اور احسان کے ساتھ کرو جو جس کے ساتھ دشمن ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا ’’ (حم سجدہ ۴۱، ۳۴)
اس آیت مبارکہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مومن کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک ہو سکے برائی کے مقابلے بھلائی سے پیش آئے ، اگر اسے سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تو اس کے مقابلہ وہ طرز اختیار کرنا چاہیے جو اس سے بہتر ہو، مثلا غصہ کے جواب میں برد باری ، گالی کے جواب میں تہذیب وشائستگی ، سختی کے جواب میں نرمی ومہربانی سے پیش آئے ۔اس اخلاق سے دشمن ڈھیلا پڑ جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا وہ دوست کی طرح برتاو کرنے لگے گا ۔ارشاد باری تعالی ہے :
(عَسَى اللَّهُ أَن يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُم مِّنْهُم مَّوَدَّةً ۚ وَاللَّهُ قَدِيرٌ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ) ترجمہ: ‘‘قریب ہے کہ اللہ تم میں اور ان میں جو ان میں سے تمہارے دشمن ہیں دوستی کردے اور اللہ قادر ہے اور بخشنے والا مہربان ہے’’ (سورہ ممتحنہ ۷)
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(آیت) ” واذا ما غضبوا ھم یغفرون “۔ (الشوری : ٣٧) ترجمہ : اور جب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں :
(آیت) ” وجزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ “۔ (الشوری : ٣٩) ترجمہ : اور برائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ‘ پھر جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے۔
(آیت) ” ولمن صبر وغفران ذالک لمن عزم الامور “۔ (الشوری : ٤٣) ترجمہ : اور جس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا ) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےحیائی کی باتیں نہ طبعا کرتے تھے نہ تکلفا اور نہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ‘ اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگزر فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا ) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بشرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اور جب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے ‘ اور آپ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٥٩٦)
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو ‘ اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا ‘ ہاں اگر اللہ کی حدود پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٣٠٤ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ ١٤٠٥ ھ)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عقبہ بن عامر (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملا ‘ میں نے ابتداء آپ کا ہاتھ پکڑ لیا ‘ اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے فضیلت والے اعمال بتائیے ‘ آپ نے فرمایا : اے عقبہ ‘ جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو ‘ جو تم کو محروم کرے ‘ اس کو عطا کرو ‘ اور جو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو ‘ (مسند احمد ج ٤ ص ١٤٨‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)
حافظ ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ‘ اس میں یہ الفاظ ہیں جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ (تہذیب تاریخ دمشق ج ٣ ص ٦١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ‘ ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے ‘ وہ باندی لڑکھڑائی اور ان پر وہ شوربا گرگیا ‘ میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا ‘ تو باندی نے کہا اے میرے آقا ‘ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے (آیت) ” والکاظمین الغیظ “۔ میمون نے کہا میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا) اس نے کہا اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے (آیت) ” والعافین عن الناس “۔ میمون نے کہا میں نے تمہیں معاف کردیا ‘ باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی : (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ میمون نے کہا میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اور تم کو آزاد کردیتا ہوں۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ٤ ص ٢٠٧ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ھ)
نیز علامہ قرطبی نے امام مبارک کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ عزوجل کے سامنے ایک منادی ندا کرے گا جس نے اللہ کے پاس کوئی بھی نیکی بھیجی ہو وہ آگے بڑھے تو صرف وہ شخص آگے بڑھے گا جس نے کسی کی خطا معاف کی ہوگی۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism