کنیز عائشہ امجدی ، نیو ایج اسلام
دور حاضر میں *مذہب اسلام* کو دہشت گردی سے اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی غیر مسلم کے سامنے اسلام کا لفظ ہی بولتا ہے تو اس کے ذہن میں فوراً دہشت گردی کا خیال گھومنے لگتا ہے گویا کہ دہشت گردی معاذاللہ اسلام ہی کا دوسرا نام ہے...جبکہ تشدد اور اسلام میں آگ اور پانی جیسا بیر ہے، جہاں تشدد ہو وہاں اسلام کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ہے، اسی طرح جہاں اسلام ہو وہاں تشدد کی ہلکی سی پرچھائیں بھی نہیں پڑ سکتی ہے.. اسلام امن و سلامتی کا سرچشمہ اور انسانوں کے مابین محبت و خیرخواہی کو فروغ دینے والا مذہب ہے..
اور کیوں نہ ہو جبکہ اسلام کا لفظ ہی جس کا اصل مادہ ''س، ل، م'' ہے. جس کا لغوی معنی بچنے، محفوظ رہنے، مصالحت و امن و سلامتی پانے اور فراہم کرنے کے ہیں، حدیث نبوی میں اس لغوی معنی کے لحاظ سے ارشاد ہے:
*المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده*.....
جس ترجمہ''بہتر مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامت رہیں''ہے
اسی مادہ کے باب افعال سے لفظ اسلام بنا ہے،لہذا ثابت ہو گیا کہ اسلام کا لفظ ہی ہمیں بتاتا ہے کہ یہ مذہب امن و شانتی، اخوت و بھائی چارگی کا مذہب ہے لیکن پھر بھی میں اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ اس مذہب یعنی مذہب اسلام کا بنانے والا، اس کی تعلیم انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے انسانوں تک پہنچانے والا یعنی سارے عالم کا پیدا کرنے والا جسے مسلمان اپنا رب اور اللہ کہ کر پکارتے ہیں وہ اپنے بندوں پر کس قدر مہربان ہے چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس رب کی رحمت کا اندازہ اس واقعے سے لگائے اور پھر ہمارے غیر مسلم بھائی بہن ذرا سوچیں کہ کیا وہ لوگ جو اس مذہب کے ماننے والے ہیں جس کا رب امن و رحمت کا ایسا حکم دیتا ہے وہ کسی انسان کا خون بہا سکتے ہیں؟؟وہ واقعہ یہ ہے
روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اللہ کے رسول و نبی ہیں ان کا یہ معمول تھا کہ وہ بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مہمان ان کے دسترخوان پر نہیں ہوتا کھانا نہیں کھاتے لیکن ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ آپ کے پاس کئی دنوں سے مہمان نہیں آ رہے تھے اور تلاش کرنے پر بھی کوئی نہیں مل رہا تھا، جب کئی دن گزر گئے تو آپ کو ایک بزرگ(بوڑھے) مسافر نظر آئے انہوں نے اس مسافر کو اپنا مہمان بنا لیا اور اپنے گھر لے کر آئے کھانا کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا گیا پھر آپ اپنے مہمان کو لے کر دسترخوان پر بیٹھے آپ نے فرمایا: اللہ کے نام سے کھانا شروع کیجیے! اس نے کہا کہ میں تو اپنے بت ہی کے نام سے کھانا کھاؤں گو کھلانا ہے تو کھلا دے. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اللہ کے نام سے کھلاؤں گا اس نے جوابا کہا کہ میں بت ہی کا نام لے کر کھاؤں گا کھلانا ہے تو کھلا ورنہ میں چلا اور یہ کہ کر وہ گھر سے باہر نکل گیا اتنے میں اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے یہ وحی بھیجا کہ اے ابراہیم! تو نے میرے ایک بندے کو ناراض کر دیا. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حیرت بھرے انداز میں عرض کیا اے اللہ!وہ تیرا بندہ ہے؟ وہ تو تیرا نام تک لینے کو تیار نہیں..اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ میں اسے 80 سال سے کھلا رہا ہوں اور تم 1 دن نہیں کھلا سکے..
اتنا سننا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے اور ایک پہاڑی کے پاس اسے دیکھا آپ نے آواز لگائی کہ آئیں کھانا کھا لیں، وہ بزرگ بولے میں اپنے بت ہی نام پر کھاؤں گا آپ نے ارشاد فرمایا ٹھیک ہے انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ ابھی تک تو آپ اللہ کے نام پر ہی کھلا رہے تھے اتنی جلدی تبدیلی کیسے آ گئ؟ آپ نے فرمایا: اسی رب کا حکم ہے تبھی میں کھلا رہا ہوں.. اتنا سننا تھا کہ وہ تڑپ اٹھے اور کہا کہ آپ کھانا بعد میں کھلانا پہلے اس رب کا کلمہ پڑھاؤ جس کی رحمت اتنی وسیع تر ہے..
سبحان اللہ سبحان اللہ
یہ ہے مذہب اسلام جس کی جھلکی میں نے آپ کے سامنے پیش کیا اب آئیے میں مبلغ اسلام، داعئ اسلام، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے منور گوشوں میں سے ایک گوشہ آپ کے سامنے پیش کروں کہ انہوں نے دہشت گردی کو کس طرح کوسوں دور پھینکتے ہوئے مسلمان تو مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ کیسا امن و سلامتی بھرا رویا اختیار کیا آپ زندگی کے ہر ہر لمحہ میں محبت و مؤدت، اخوت و بھائی چارگی کا درس دیتے رہے اور خود عملی نمونہ پیش فرماتے رہے ایک دفعہ کا واقعہ ہے
ایک یہودی شاعر جو آپ سے بے انتہا بغض و عداوت رکھتا تھا آپ کی شان میں گستاخانہ اشعار لکھا کرتا تھا اور لوگوں کو مذہب اسلام سے دور کرنے کی کوشش کرتا تھا. اسی یہودی کا جنازہ آپ کے سامنے سے گزرا آپ اس کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ اس کے لیے کھڑے ہوئے جو آپ کی گستاخی کرتا تھا،آپ نے ارشاد فرمایا: کیا ہوا کیا؟ وہ انسان نہیں تھا؟
آپ نے انسانیت کا اس قدر لحاظ رکھا کہ اگر کوئی ہمیں سب و شتم کرے گرچہ وہ کافر ہی کوئی نہ ہو لیکن ہمارا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم اس کو انسانیت کا حق ضرور دیں، یہ ہے مذہب اسلام کا محبت بھرا درس غیر مسلموں کے ساتھ،تو کیا یہ قوم کسی غیر مسلم کو ناحق قتل کر سکتی ہے؟
اسی طرح آپ کی حیات مبارکہ کا لمحہ لمحہ گزرا یہاں تک فتح مکہ کے موقع پر جو آپ نے اپنی امت کو امن و سلامتی کا جو درس دیا اس کی مثال کسی مذہب میں نا تھی نہ ہے نہ ہوگی کہ وہ کفار اور وہ دشمن جنہوں نے آپ کو اپنے ملک میں طرح طرح کی اذیتیں دی اور صرف اذیت ہی نہیں بلکہ ہمیشہ موت کی گھاٹ اتارنے کی کوشش کرتے رہیں اور یہاں تک مجبور کر دیا کہ آپ کو اپنے وطن عزیز مکہ کو چھوڑنا پڑا لیکن پھر بھی جب کچھ سالوں کے بعد آپ کی فتح ہوئی اور فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سب کو معاف کر دیا اور سب امن و امان و سلامتی کے ساتھ اپنے ملک اپنے گھر میں رہنے دیا.. یہ ہے مذہب اسلام اور اس پاکیزہ درس.
اسی طرح صحابہ کرام امن و امان کا درس دیتے رہے ان کے بعد تابعین عظام پھر تبع تابعین کرام اور پھر ہر دور میں علماے اسلام اؤلیاے کرام اور صوفیاے عظام الفت و محبت کا درس دیتے رہے اور آج تک مذہب اسلام میں الفت و محبت کا درس دیا جا رہا ہے..
اس تحریر سے واضح طور پر یہ ثابت ہو گیا کہ آج جو اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے یہ سراسر زیادتی ہے.. اور اگر کوئی ایسا شخص دہشت گردی کرے جو ٹوپی اور کرتا پہنا ہو تو اسے دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں کیونکہ مسلمان صرف ٹوپی اور داڑھی رکھ لینے کا نام نہیں ہے بلکہ جس کے اندر لوگوں کے خون کی حفاظت کرنے کا جذبہ ہوگا ناحق خون بہنے کو روکنے والا ہوگا وہ مسلمان ہوگا کیونکہ مذہب اسلام اسی کو درس دیتا ہے.. میں آخر میں صاف صاف لفظوں میں یہ کہتی ہوں کہ جہاں دہشت گردی ہے وہاں اسلام کا نام و نشان بھی نہیں ہے..
آخر میں اب میں اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنا چاہوں گی کہ ہر مسلم اپنے اسلام کو اچھے سے سمجھے؛تاکہ ہر اٹھتے ہوئے فتنے کا جواب ڈٹ کر دے سکے اور غیر مسلموں کے سامنے اپنے اسلام کی حقیقت کو پیش کر سکیں..
اس مضمون کو خود بھی پڑھیں اور سمجھیں اور اگر کسی غیر مسلم کو سمجھانا ہو تو اس کا ترجمہ انگریزی میں کر کے ان تک اسلام کے محبت بھرے پیغام کو ضرور پہنچائیں ..
اور نام نہاد امن پسند ظالموں دہشت گردی کے نام پر اسلام کے اور بالخصوص مدرسوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بم و بارود سے نست و نابود مت کرو، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہ توڑو!
*جب چاہا ہم کو جوڑاہے بارود و بم ہتھیاروں سے*
*جوڑاہے مسلم کو تم نے دہشت گروں کے تاروں سے*
*دکھلایا تم نے ہم کو صدا بس ستم کے پردوں پہ*
*ہے بیر تو ظالم کو فقط دیں کے پیروکاروں سے*
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/islam-terrorism-/d/115578