New Age Islam
Fri May 16 2025, 06:47 PM

Urdu Section ( 27 March 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Kako Sharif’s Sufi Legacy in Bihar: Hazrat Bibi Kamal, a Sultan’s Faith, and a Healing Well بہار میں کاکو شریف کی صوفی روایت: حضرت بی بی کمال، ایک سلطان کا مرکز عقیدت، اور ایک شفا بخش کنواں

 سید امجد حسین، نیو ایج اسلام

 14 مارچ 2025

 کاکو، بہار کی ایک عظیم صوفیہ حضرت بی بی کمال نے اپنی حکمت اور شفقت سے ان گنت زندگیوں کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ سلطان فیروز شاہ تغلق نے بھی ان کے مزار پر شفا کی غرض سےحاضری دی، جہاں ان کی عقیدت اور ان کی کرامت کی میراث آج بھی پروان چڑھ رہی ہے۔

 اہم نکات:

 1. کاکو، بہار کی 13ویں صدی کی ایک عظیم صوفیہ، جو اپنی روحانی حکمت اور شفا بخشی کے لیے مشہور ہیں۔

 2. دہلی کے سلطان نے ان کے مزار کے صحت کوئیں سے شفاء طلب کی۔

 3. یہاں موجود مقدس پتھر اور شفا بخش کنواں زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہیں۔

 4. ایک شاندار دو روزہ تقریب ان کی یاد میں منائی جاتی ہے۔

 5. ان کا مزار عقیدت، شفا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔

 ----------

کاکو شریف

--------

 بہار کے جہان آباد ضلع کے قلب میں واقع، کاکو گاؤں میں حضرت مخدومہ بی بی کمال کا مزار مذہبی جوش و خروش، تاریخی اہمیت و افادیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی گی کی علامت ہے۔ کئی نسلوں سے ان کا مزار سالکوں، اہل علم اور بادشاہوں سب کے لیے یکساں طور پر مرکز توجہ بنا ہوا ہے، لیکن ان میں سلطان فیروز شاہ تغلق کا بھی نام شامل ہے، جن کی بات ہی الگ ہے۔ اس صوفیہ کے لیے بادشاہ کا غیر معمولی احترام، ان کے مزار کی روحانی توانائی کے حوالے سے ان کا اپنا تجربہ، اور بادشاہ کا ان سے جو ایمانی لگاؤ تھا، وہ ہندوستانی تاریخ کے صفحات میں اب بھی موجود ہیں۔

 حضرت بی بی کمال: وقت کی قید سے آزاد صوفیہ

 1211 عیسوی میں کاشغر (موجودہ سنکیانگ، چین) میں پیدا ہوئیں، حضرت مخدومہ بی بی کمال، سیدہ بی بی ہادیہ سے حضرت سید شہاب الدین سہروردی پیر جگجوت اور حضرت بی بی نور بنت سید وجیہہ الدین عرف ملکہ جہاں کی ولادت ہوئی، اپنی بیٹی حضرت بی بی دولت یا دولتی بی بی کے ساتھ کجاون پٹنہ سے 1274 عیسوی میں کاکو کا سفر کیا۔ وہ بہار شریف کے مشہور صوفی بزرگ مخدوم جہاں حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی خالہ تھیں، اور ان کا اثر جنس، طبقے اور مذہب کی بندشوں سے ماورا تھا۔

اپنے عہد کے بیشتر صوفی بزرگوں کے برعکس، حضرت بی بی کمال صوفیانہ اور علاج و معالجے کے کاموں میں بہت زیادہ مشغول رہتی تھیں، جس کے سبب تمام مذہبی اور سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد ان سے متاثر تھے۔ ان کی گہری روحانی قوت، مذہبی قدامت پرستی کے خلاف ان کی مزاحمت، اور انسانیت کی خدمت سے ان کے لگاؤ کے لیے، سبھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ کاکو میں ان کی خانقاہ ایک ایسی پناہ گاہ بن گئی جہاں پریشان حالوں کو سکون ملتا، بیماروں کو شفا ملتی، اور سالکوں کو معرفت الہی ملتی۔

 1296 عیسوی میں ان کے وصال کے بعد بھی، ان کا مزار تمام طبقوں کے زائرین کے لیے مرکز توجہ بنا رہا، بشمول ہندوستان کے کچھ عظیم ترین حکمرانوں کے۔

 سلطان کا آنا: فیروز شاہ تغلق اور شفا یابی

 سلطان فیروز شاہ تغلق، جنہوں نے 1351 عیسوی سے 1388 عیسوی تک دہلی پر حکومت کی، فن تعمیر، آبپاشی کے کاموں، اور مذہبی عطیات کے کاموں میں جوش و جذبے کے لیے مشہور تھے۔ لیکن حضرت بی بی کمال کے مزار سے ان کا رشتہ ان کی تمام یادگاروں میں سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔

 تاریخی طور پر، فیروز شاہ تغلق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جذام میں مبتلا تھے، جو ان دنوں ایک لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا۔ حضرت بی بی کمال کے مزار کے جوار میں صحت کواں کی معجزانہ شفایابی تاثیر کا علم ہونے پر، فیروز شاہ تغلق کاکو آئے۔ یہ بات بڑی مشہور ہے کہ اس مقدس کنویں کا پانی لگانے کے بعد انہوں نے بڑی راحت محسوس کی، جس سے حضرت بی بی کمال کی روحانی طاقت پر ان کا یقین مزید گہرا ہوگیا۔

 ان کے لیے بادشاہ کا احترام اتنا گہرا تھا کہ بادشاہ نے باضابطہ طور پر انہیں مہان سادھوی قرار دیا، یہ اعزاز کسی بادشاہ کی طرف سے ایک سنیاسی کو دیا جانا، اب تک ایک نادر و نایاب بات تھی۔ تصوف کی تاریخ میں نہ صرف حضرت بی بی کمال کا قد بلند ہوا، بلکہ ان کے مزار کی اہمیت تصوف روحانیت کے مرکز کے طور پر بھی مستحکم ہو گئی۔

 کرامات اور تصوف کا مرکز

 حضرت بی بی کمال کا مزار، تاریخ اور افسانوں سے بھرا ہوا ہے اور آج تک بیماروں اور روحانی طور پر پریشان لوگوں کے لیے ایک زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ صحت کوان، جہاں فیروز شاہ تغلق علاج کے لیے گئے تھے، اب بھی مزار کی اہم ترین وراثت میں سے ایک ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے پانی میں شفا بخش خصوصیات ہیں، خاص طور پر جلد کی بیماریوں اور دیگر دائمی بیماریوں کے حوالے سے۔

 مزار کے اندر مذہبی اہمیت کے حامل دو خاص پتھر ہیں۔ قارہ، ایک سیاہ پتھر، جس کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ اس میں روحانی طاقت ہے جس سے ذہنی یا روحانی طور پر پریشان لوگوں کو شفا ملتی ہے۔ پتھروں کا ایک اور مجموعہ نین کٹوری ہے، جس کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ، اگر اسے آنکھوں پر رگڑ کر رکھا جائے تو اس سے آنکھوں کی بینائی بڑھ جاتی ہے۔ یہ افسانے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہیں، حضرت بی بی کمال کی روحانی طاقت و قوت کی گواہ ہیں۔

وہاں سے تھوڑے فاصلے پر واک نگر میں حضرت بی بی کمال کے شوہر حضرت شیخ شاہ سلیمان لنگر ثمین بن شاہ جلال منیری کی قبر ہے، جس سے اس علاقے کی تاریخی اور روحانی اہمیت مزید دوبالا ہو جاتی ہے۔

 ایک میراث کی یاد: سالانہ عرس اور صوفی فیسٹیول

 حضرت بی بی کمال کی یاد ہر سال 7 اور 8 ستمبر کو ان کے عرس (یوم وفات) پر منائی جاتی ہے۔ یہ ایک دو روزہ تقریب ہے جو ایک عظیم الشان روحانی اور ثقافتی پروگرام کی شکل میں منعقد کی جاتی ہے، جس میں پورے بہار، اتر پردیش، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور یہاں تک کہ نیپال سے عقیدت مندوں، علما اور فنکاروں کا ایک ہجوم ہوتا ہے۔

 افتتاحی دن کا آغاز روایتی رسم و رواج جیسے چادرپوشی، فاتحہ خوانی اور مقدس عرس کی رسومات سے ہوتا ہے، جو مزار کے متولی انجام دیتے ہیں۔ اس موقع پر ایک خاص ڈش گڑ کی کھیر بنائی جاتی ہے اور زائرین کو ڈھکنی میں پیش کی جاتی ہے، جس سے اس ولیہ کی ذات با برکات سے متصل عظمت اور برکات کی عکاسی ہوتی ہے۔

 دوسرے دن، جہان آباد کی ضلعی انتظامیہ اور بہار کے محکمہ سیاحت کی جانب سے ایک صوفی میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ثقافتی پیشکش، صوفی موسیقی اور شاعری کی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں۔ اس پلیٹ فارم کو فنکار اور اہل علم دونوں ہی پر امن، ہم آہنگی اور تصوف کے لازوال حکمت بھرے پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

 حضرت بی بی کمال کا مزار قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں مذہب کی طاقت اور مذہب اور حکومت کے درمیان گہرے تعلق کا ثبوت ہے۔ فیروز شاہ تغلق کا یہاں آنا اور اس ولیہ کی تعظیم و تکریم بجا لانا، اس بے پناہ اثر کو اجاگر کرتا ہے، جو تصوف کا اس وقت کے سب سے طاقتور حکمرانوں پر بھی تھا۔

 اب، حضرت بی بی کمال کا مزار ہزاروں لوگوں کے لیے نہ صرف ایک تاریخی اہمیت کا حامل ایک مقدس مقام ہے، بلکہ ایک ایسی جگہ کے طور پر بھی مشہور و مقبول ہے، جہاں مذہب اور شفا یابی کا ایک حسین امتزاج ہے، جہاں ماضی حال سے محو گفتگو ہے، اور جہاں مومنین، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کوئی اور، سکون حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس عظیم صوفیہ ولیہ کی میراث زندہ ہے، نہ صرف ان زائرین کی دعاؤں میں جو ان کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں، بلکہ کراماتی علاج کی داستانوں، شاہی سرپرستی، اور وقت کی قید سے آزاد ان کی حکمتوں میں بھی زندہ ہے۔

 حوالہ جات:

 1. الما لطیف شمسی (2022) "کاکو کی کہانی الما کی زوبانی" ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

 2.. https://www.livehindustan.com/bihar/jahanabad/story-jehanabad-bibi-kamal-the-first-woman-sufi-saint-in-the-country-has-also-been-chaired-by-sher-shah-2815414.amp.html

 3.. https://www.abplive.com/states/bihar/bibi-kamals-tomb-has-many-stories-inside-itself-is-famous-for-its-miracles-ann-1555282/amp

 4.. https://timesofindia.indiatimes.com/city/patna/kako-dargah-an-epitome-of-peace-harmony/articleshow/17272235.cms

 5.. https://www.livehindustan.com/bihar/story-why-firoj-shah-tuglaq-reached-at-dargah-of-bibi-kamal-1437900.amp.html

 -----

English Article: Kako Sharif’s Sufi Legacy in Bihar: Hazrat Bibi Kamal, a Sultan’s Faith, and a Healing Well

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/kako-sharif-sufi-hazrat-bibi-sultan-faith-healing/d/134987

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..