New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 02:57 AM

Urdu Section ( 5 Jan 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Anti-Slavery in Islam اسلام میں غلامی کی ممانعت

 

کے ایم زبیر

21 جولائی 2014

ایک غلام آزاد کرنے کو اسلام ایک عظیم کار خیر قرار دیا گیا ہے۔

چونکہ پورا یورپ بڑے فخر کے ساتھ دنیا سے غلامی کو ختم کرنے کا سہرا اپنے سر باندھتا ہے، اگر چہ انہوں نے صرف گزشتہ صدی کے وسط میں اس میدان عمل میں کوئی سرگرمی دکھائی ہے، اسی لیے اسلام میں غلامی کی نوعیت اور اہمیت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

مغربی طاقتوں نے ان بدقسمت لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا ہے۔ خود مغربی لوگوں نے جو کتابیں لکھی ہیں اس میں اس حقیقت کی شہادت موجود ہے۔

مختصر طور پر میں اسلام میں انسانی حقوق پر مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب سے اس موضوع پر ذیل میں ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں:

"اسلام نے مختلف طریقوں سے لوگوں کو غلام آزاد کرنے کی ترغیب دیکر عرب کے غلاموں کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے"۔

مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ انہیں اپنے گناہوں کے کفارہ میں اپنے غلاموں کو آزاد کرنا چاہئے۔ اپنی مرضی سے ایک غلام آزاد کرنے کو ایک کار عظیم قرار دیا گیا تھا، یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے  اس کے جسم کے اعضاء کو اس غلام کے جسم کے اعضاء کے عوض میں آتش دوزخ سے محفوظ کر دیا جائے گا۔

اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلفاء راشدین کے دور تک عرب کے تمام پرانے غلام آزاد کر دیے گئے تھے۔ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی تقریبا 63 غلاموں کو آزاد فرمایا تھا۔ سیدہ عائشہ نے 67، سیدنا عباس نے 70، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے 1 ہزار غلاموں کو آزاد کیا اور سیدنا عبد الرحمن نے 30 ہزار غلاموں کو خرید کر انہیں آزاد کر دیا تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ نے ایک بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا جن کی تفصیلات روایات اور اس دور کی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔

اس طرح عرب کے غلاموں کا مسئلہ تیس یا چالیس سال کے مختصر عرصے میں حل ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اسلامی معاشرے میں غلامی کی واحد شکل ان جنگی قیدیوں کی تھی جو میدان جنگ میں گرفتار کیے گئے تھے۔

ان جنگی قیدیوں کو مسلم حکومت اپنے قبضہ میں اس وقت تک رکھتی تھی جب تک کہ ان کی جانب سے قید کیے گئے مسلم سپاہیوں کے بدلے میں ان کی حکومتیں انہیں واپس لینے پر اتفاق نہیں کر لیتیں یا ان کی جانب سے تاوان کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کر دیتیں۔

اگر ان مغوی فوجیوں کو مسلم جنگی قیدیوں کے بدلے میں واپس نہیں لیا جاتا یا ان کے لوگ ان کی آزادی کے لئے ان کے تاوان کی رقم ادا نہیں کرتے تو پھر حکومت انہیں ان فوجی سپاہیوں کے درمیان تقسیم کر دیتی تھی جنہوں نے انہیں گرفتار کیا تھا۔ حراستی کیمپوں میں انہیں مویشیوں کی طرح رکھنے اور ان سے جبراً کام لینے اور اگر ان کی عورتوں بھی گرفتار کی گئی ہیں توعصمت فروشی کے لئے انہیں چھوڑ دینے کے بجائے ان کے تصرف کا یہ طریقہ زیادہ انسانیت پسند اور مناسب تھا۔

جنگی قیدیوں کا اس طرح ایک ظالمانہ اور پرتشدد انداز میں تصرف کی جگہ اسلام نے انہیں آبادی میں پھیلانے اور اس طرح انہیں انفرادی طور پر لوگوں کے ساتھ رابطے میں آنے کو ترجیح دی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام نے ان کے سرپرستوں کو ان کے ساتھ نیک برتاؤ کا حکم دیا۔

اس انسانیت نواز پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیر ملکی میدان جنگ میں قید کر کے مسلم ممالک میں لائے گئےاکثر قیدیوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی اولاد میں عظیم علماء، ائمہ، فقہاء، مفسرین، سیاستدان اور فوج کے جرنیل وغیرہ پیدا ہوئے۔

یہاں تک کہ وہ بعد میں مسلم ممالک کے حکمران بھی بنے۔

اس مسئلہ کا حل جو کہ موجودہ دور میں تجویز کیا گیا ہے یہ ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد متحارب ملکوں کے جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا جانا چاہئے۔

چونکہ مسلمان بالکل ابتداء سے ہی اس پر عمل کر رہے ہیں اور جب کبھی متحارب فریقوں نےدونوں جانب سے جنگی قیدیوں کے تبادلے کو قبول کیا ہے وہاں بغیر کسی تاخیر یا جھجھک کے اس پر عمل کیا گیا ہے۔

دور جدید کے حالات جنگ و حرب میں ہم یہ بھی پاتے ہیں کہ اگر کوئی حکومت مکمل طور پر شکست خوردہ ہو چکی ہے اور جنگی قیدیوں کے لیے کسی بھی طرح کے سودے بازی کرنے کی حالت میں نہیں ہے اور فاتح فریق آسانی کے ساتھ اپنے قیدیوں کو آزاد کروا لیتا ہے تو تجربا ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ شکست خوردہ فوج کے جنگی قیدیوں کو غلاموں سے بھی بدتر حالت میں رکھا جاتا ہے۔

کیا کوئی ہمیں یہ بتا سکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کی شکست خوردہ فوج کے ہزاروں جنگی قیدیوں کا انجام کیا ہوا جنہیں روس نے گرفتار کیا تھا؟

کسی نے بھی اب تک ان کا کوئی حساب نہیں دیا ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ ان میں سے کتنے ہزار اب بھی زندہ ہیں اور ان میں سے کتنے ہزار روسی حراست میں مشقتوں پریشانیوں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

ان سے کروائی گئی جبری محنت و مشقت اس سے کہیں زیادہ سخت ہے جو ایک انسان کسی غلام سے کوئی کام لیتا ہے۔

شاید مصر میں فرعون کے دور قدیم میں بھی مصر کے اہرام کی تعمیر میں غلاموں سے اتنی محنت و مشقت نہیں کروائی گئی ہوگی جتنی محنت و مشقت سائبیریا اور روس کے دیگر پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے روس میں جنگی قیدیوں سے کروائی جا رہی ہے۔

ماخذ:

http://www.khaleejtimes.com/kt-article-display-1.asp?xfile=data/opinion/2014/July/opinion_July27.xml&section=opinion

URL for English article: https://newageislam.com/islam-human-rights/anti-slavery-islam/d/98237

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/anti-slavery-islam-/d/100866

 

Loading..

Loading..