سہیل انجم
19 اکتوبر،2022
سپریم کورٹ کے فاضل جج
جسٹس سدھانشو دھولیا یقینا ان تمام لوگوں کی مبارکباد کے مستحق ہیں جو تعلیمی
اداروں میں کسی بھی قسم کے امتیاز کے خلاف ہیں، جو بلاتفریق مذہب و ملت حصول تعلیم
کے سبھی کے حق کے طرفدار ہیں اور جو اسکولوں او رکالجوں میں ڈریس کورڈ کے نام پر
مذہبی و ثقافتی تنوع کو مٹانے کی کوششوں کے بالمقابل چٹان کے مانند کھڑے ہیں۔ جسٹس
دھولیا نے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کی حجاب پوشی پر پابندی لگانے کے کرناٹک
حکومت کے حکم او راسے برقرار رکھنے والے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر
باحجاب طالبات کے حصول تعلیم کے حق کو پختہ کیا ہے۔ انہوں نے ان کے حقوق کو جائز
ٹھہرا کر ایک ایسی لکیر کھینچ دی ہے جس کو عبور کرنا بڑی بینچ کے فاضل ججوں کے لئے
آسان نہیں ہوگا۔گزشتہ سال دسمبر کے اواخر میں اٹھنے والے اس تنازعے میں پہلی بار
آئینی عہد ے پر فائز کسی شخص نے باحجاب طالبات کے دلائل کو سنجیدگی سے سنا اور ان
کی تعلیم کو اولیت دی۔ ورنہ اب تک جتنے بھی بااختیار لوگ تھے خواہ وہ شریک اقتدار
ہوں یا شریک عدلیہ حجاب کی مخالفت ہی کرتے رہے ہیں۔کرناٹک ہائی کورٹ نے غیر ضروری
طور پر یہ دیکھنے او رجانچنے کی کوشش کی کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے یا نہیں۔
حالانکہ یہ مذہبی کے بجائے آئینی معاملہ ہے۔ ادھر ایک خاص نظریے کے حامل سیاست
دانوں، وکلا او ردانشوروں نے حجاب کو ویلن بناکر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فرد
گزاشت نہیں کیا۔ انہوں نے با حجاب طالبات کو دقیانوسی خیالات کی حامل بتایا بلکہ
بعض سیاست دانوں نے تو اس معاملے کو دہشت گردی سے بھی جوڑ دیا۔ لیکن جسٹس سدھانشو
دھولیانے یہ کہہ کر کہ ان کے ذہن میں سب سے اوپر طالبات کی تعلیم کا مسئلہ تھا، اس
معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے او ر غیر متعصبانہ انداز میں فیصلہ کرنے کی دعوت دی
ہے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب پہننا مذہبی معاملہ نہیں بلکہ پسند کامعاملہ ہے۔ نہ اس
سے زیادہ نہ اس سے کم۔اس معاملے کو لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل بے شمار
کاکاوٹوں کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم لڑکیوں کو
تعلیم یافتہ بنانے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کہیں ان کو درپیش چیلنجوں میں
اور اضافہ تو نہیں کررہے ہیں۔
انہوں نے اپنے فیصلے میں
جو کچھ کہا ہے اس پر تفصیلی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلے میں
ثقافتی تنوع او رلڑکیوں کو تعلیم کے مواقع کے نقطہ نظر سے بحث کی۔ انہوں نے کہا
ہمارے اسکول بالخصوص پری یونیورسٹی کالجز ایسے بہترین ادارے ہیں جہاں بچوں کو ملک
کے بھر پور تنوع سے آگاہ کرنے اور ان کی رہنمائی و مشورے کی ضرورت ہے تاکہ وہ
مختلف زبان بولنے، مختلف کھانا کھانے اور مختلف زیب تن کرنے جیسے اموراور اقدار کو
اپنا سکیں او ران میں ان قدروں کے تعلق سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا
ہوسکے۔ وقت آگیا ہے کہ وہ اس رنگا رنگی پر چونکنے کے بجائے اس پر خوش ہوں۔ وقت
آگیا ہے کہ وہ اس بات کو محسوس کریں کہ رنگا رنگی ہمارے ملک کی طاقت ہے۔ انہوں نے
ہائی کورٹ کی اس بات سے عدم اتفاق کیا کہ عرضی گزار یعنی مسلم طالبات کلاس رومز کے
اندر اپنے بنیادی حقوق پر اسرار نہیں کرسکتے کیونکہ بقول ان کے کلاس رومز
کو’الیفائڈ پبلک پیلس‘کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہائی کورٹ نے عدالت، وار رومز او
ردفاعی کیمپوں وغیرہ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان مقامات پر بقدر ضرورت
انفرادی آزادی کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اس پر جسٹس دھولیا نے کہا کہ اسکول ایک
عوامی جگہ ہے۔جیل یا فوجی کیمپوں سے اس کاموازنہ کرنا غلط ہے۔ ہاں ہائی کورٹ نے جو
کچھ کہا ہے وہ اگر نظم و ضبط کے حوالے سے ہے تو اسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نظم
و ضبط کا قیام آزادی او روقار کی قیمت پر نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے بہت واضح انداز
میں کہا کہ کسی پری یونیورسٹی کالج کی طلبہ سے یہ کہنا کہ وہ اسکول کے گیٹ پر اپنا
حجاب اتاردے اس کی پرائیوسی یعنی اس کی نجی آزادی او روقار پر حملہ ہے۔ یہ قدم
ہندوستان کے دستور کی دفعات 19 / ایک اور 21 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی
ہے۔ ایک طالبہ کے وقار اور پرائیویسی کا حق اسکول کے گیٹ پر بھی ہے او رکلاس روم
میں بھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حجاب پر پابندی کی وجہ سے بہت سے اسٹوڈنٹس
بورڈ کے امتحان میں نہیں بیٹھ سکے۔ جب کہ بہت سی طالبات نے اسکولوں سے ٹرانسفر
سرٹی فیکیٹ (ٹی سی) حاصل کیا تاکہ دوسرے اداروں اور شاید مدارس میں تعلیم حاصل
کرسکیں۔ حالانکہ مدارس میں ان کو وہ معیاری تعلیم نہیں مل سکتی جو اسکولوں میں
ملتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسکولوں کے انتظامیہ اور ریاستی حکومت کو اس
سوال کا جواب دینا ہے کہ ان کے نزدیک تعلیم کی اہمیت ہے یا ڈریس کوڈ یعنی یونیفارم
کے نفاذ کی۔انہوں نے ایک بہت پیاری بات کہی کہ جب ایک بچی صبح کے وقت اپنی پشت پر
اپنا بیگ لٹکائے اسکول جاتی ہے تو وہ سب سے خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ اسکول جانے والی
بچی ہماری امید اور ہماری مستقبل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک لڑکی کو
اپنے بھائی کے مقابلے میں تعلیم کا حصول کہیں دشوار ہے۔ہندوستان کے دیہات/قصبات
میں لڑکی کے بیگ اٹھاکر اسکول جانے سے قبل برتن او رکپڑے دھونے میں اپنی ماں کی
مدد کرنا عام بات ہے۔لہٰذا اس کیس کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک لڑکی
کو اسکول جانے کے لئے کتنے چیلنجوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے
کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے اسلام میں حجاب کی لازمیت دیکھنے سے عدم اتفاق کرتے
ہوئے کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو ہوسکتا ہے او رنہیں بھی ہوسکتا لیکن ا س سے
بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ضمیر و عقیدہ او راظہار کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی طالبہ کلاس
روم کے اندر بھی حجاب پہننا چاہتی ہے تو اسے نہیں روکا جاسکتا۔اگر اس کے قدامت
پسند خاندان نے حجاب پہننے کی شرط ہی پر اسے اسکول جانے کی اجازت دی ہے تو حجاب اس
کے لئے اسکول جانے کا ٹکٹ ہے۔ یہاں جسٹس ہمینت گپتا کا ایک جملہ بھی نقل کرنے کی
ضرورت ہے انہو ں نے اپنے فیصلے میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے
کہا کہ اس کا مقصد اسکول میں یکسانیت اور سیکولرزم کو فروغ دینا ہے۔ حالانکہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جائے،
کسی مذہب کوبرا بھلا نہ کہا جائے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ کا اپنا کوئی
مذہب نہیں ہے۔ تمام مذاہب ا س کے اپنے ہیں۔لہٰذا سیکولرزم کا فروغ تو دیگر مذہب کی
اقدار او رشناخت کے احترام سے ہوگا نہ کہ ان کی مخالفت سے۔
قانون دانوں کے بہت بڑے
حلقے نے جسٹس دھولیا کے فیصلے کاخیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر تو
ہوسکتی ہے،لیکن انصاف ہوکر رہتا ہے۔ ان کے مطابق جسٹس دھولیا نے اظہار اور پسند کی
آزادی کا،جو کہ بالآخر ایک شہری کا بنیادی حق ہے، تحفظ کیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی
میں ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ حجاب پر عاید پابندی اٹھالے او رباحجاب طالبات کو
تعلیم حاصل کرنے سے نہ روکے۔ بہر حال سپریم کورٹ کے اس اختلافی فیصلے سے امید کی
کرن نمودار ہوئی ہے او راب یہ توقع کی جانی چاہئے کہ جب بڑی بینچ اس معاملے پر
سماعت کرے گی تو وہ طالبات کے دلائل پر غور کرے گی جس کے نتیجے میں اس معاملے کا
وہ پہلو جو اب تک دب رہا تھا واضح ہوکر سامنے آئے گا۔ اب ہونا یہ چاہئے کہ اس
تنازع کے پیدا ہونے سے قبل جو صورت حال تھی اس کو قائم رکھا جائے یعنی حجاب پر
پابندی نہ لگائی جائے۔ جب تک لارجر بینچ اس معاملے پر اپنا فیصلہ نہ سنادے حجاب پر
پابندی درست نہیں۔ ہاں اگر بڑی بینچ کرناٹک حکومت او رہائی کورٹ کے فیصلے کو
برقرار رکھتی ہے تو پھر اس صورت میں پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ لیکن اس وقت بھی جسٹس
دھولیا کے نکات کو ذہن میں رکھناہوگا کہ حکومت تعلیم کو اولیت دیتی ہے یا ڈریس
کورڈ کو۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سیاسی مصلحتوں کی اسیر بنی رہتی ہے یا آئینی ضوابط
کا احترام کرتی ہے۔
19 اکتوبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism